Monday, 28 May 2012

مشرقی پاکستان میں پاکستانیوں کا خون بہانے والے ایک بنگالی کے اعترافات



 A True Story by  تنویر قیصر شاہد

بحراوقیانوس کی طرف سے آنے والی تیز اور یخ بستہ ہوا میں تلوار ایسی کاٹ ہے۔ دسمبر کے وسطی دنوں ہیں ابھی برف باری تو شروع نہیں ہوئی لیکن نیو یارک کی منجمد کردینے والی یہ طوفانی ہوائیں اس کا سندیسہ ہیں کہ کرسمس تک برف ضرور گرے گی۔ نیو یارک میں برفباری نہ ہو تو کرسمس کا تہوار بدمزہ ہوجاتا ہے۔ مین ہٹن سے میں نے رات کے گیارہ بجے ڈی ٹرین پکڑی اور زیریں بروکلین کی طرف روانہ ہوگیا۔تقریبًا ۲۵منٹ بعد میں چرچ ایونیو پہنچ گیا۔ یہیں میری رہائش گاہ ہے۔ اس علاقے میں بہت سے بنگالی بھی رہتے ہیں۔ یک دم مجھے خیال آیا گھر میں دودھ نہیں ہے۔ میرے قدم سعید بھائی کے گروسری سٹور کی طرف یوں بڑھ گئے جیسے کسی نے طلسم کردیا ہو۔سعید بھائی بنگالی ہیں۔ عمر ہوگی کوئی ساٹھ برس کے قریب، پستہ قد، نحیف سے۔ سامنے کے تین دانت ٹوٹے ہوئے۔ گرم مفلر سے سر، گردن اور کان لپیٹے ہوئے۔ چہرے پر ایسی معصومانہ سی وحشت سی لیے ہوئے جیسے ابھی اُن پر حملہ ہوجائے گا۔ بولتے ہیں تو منہ سے مچھلی اور کڑی کی باس آتی ہے۔ کسی بنگالی مالک کا یہ سٹور ہے جہاں یہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں۔میرے بائیں ہاتھ پر بروکلین کے صاف اور سرد آسمان پر چاند دمک رہا ہے۔ لیکن نیو یارک کی خیرہ کن روشنیوں میں بھلا اُس کی جانب کون دیکھتا ہے۔ سامنے گروسری سٹور میں سعید بھائی سہمے بیٹھے ہیں۔ مجھے انھوں نے آتے دیکھا تو ایک لحظہ ان کے بجھے ہوئے چہرے پر روشنی عود کر آئی۔ میں نے دودھ کا گیلن اُٹھایا، قیمت ادا کی اور سعید بھائی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ بڑے دنوں سے ایک سوال نوکِ زباں پر آتاتھا لیکن اُن سے پوچھنے کی جسارت نہ کرسکا۔ سوچتا، یہ شریف آدمی کہیں ناراض نہ ہوجائے! آج پھر وہی سوال زبان پر ہے۔ دسمبر کا مہینا ہے اور ایک بوڑھے بنگالی سے یہ سوال پوچھا جانا ازبس ضروری ہے۔ دل کڑاکرکے میں نے پوچھ ہی لیا: ’’سعید بھائی! جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا اور بنگلہ دیش بن رہا تھا، آپ اُس وقت کہاں تھے؟‘‘سعید بھائی نے موٹے موٹے عدسوں کی عینک کے عقب سے مجھے گھورا اور جیکٹ کی جیبوں سے ہاتھ نکال کر بازوئوں کو پوری طاقت سے جھٹکا۔ گرم مفلر کے پیچھے چھپے اُن کے ٹوٹے دانت حیرت اور غصے میں کھلے، چند ثانیے ہی میں وہ بدلے ہوئے سعید بھائی بن گئے: ’’یہ جنگ ہم نے جاتی (ذاتی) طور پر لڑی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔‘‘ انھوں نے پوری قوت سے گلا صاف کیا جیسے مچھلی کے کانٹے سے نجات حاصل کررہے ہوں۔ ’’اجادی (آزادی) کی جنگ کے دنوں میں میں پچیس چھبیس سال کا نوجوان تھا۔ میں سلہٹ سے ڈھاکا آیا اور وہاں یونیورسٹی کے طلبا کے ایک گروہ میں شامل ہوکر کلکتہ چلا گیا جہاں ہمیں گوریلا ٹریننگ بھی ملتی تھی اور پیسے بھی۔ میں تین مرتبہ کلکتہ گیا اور آیا لیکن بھارت کی طرف سے مجھے گن دو مرتبہ دی گئی۔ (مغربی) پاکستان کے خلاف مجھے نفرت تو تھی ہی لیکن کلکتہ میں بھارتی فوجی ٹریننگ سے اس نفرت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا جہاں بھی کوئی (پاک فوج کا) فوجی نظر آتا، اسے مار ڈالنے کو جی چاہتا تھا۔‘‘دوگاہک دکان میں سگریٹ لینے آ گئے ۔ انھوں نے انہیںبھگتایا۔ کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے: ’’بھارت سے ہمیں ہر قسم کی امداد ملتی تھی۔ ہتھیاربھی، اسلحہ بھی اور حفاظت بھی۔ ہم سات دوستوں نے مل کر بہت سے پاکستان نواز بنگالی اور فوجی قتل کیے لیکن سقوطِ ڈھاکا سے ایک دن پہلے ہم نے جو خون بہایا، آج بھی مجھے اس پر افسوس ہوتا ہے ۔لیکن ہماری کھوپڑیوں میں نفرت کی جو آگ بھر دی گئی تھی، ہمیں کچھ اور دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پلٹن میدان میں جنرل نیاجی (نیازی) کا بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا منجر (منظر) ہم سب کا دل ٹھنڈا کرگیا۔‘‘ سعید بھائی اچانک خاموش ہوگئے اور کہنیاں کھڑکی کے سامنے ٹکا کر باہر سردی میں ٹھٹھرتی رات کو تکنے لگے۔ گہری خاموشی نے ہم دونوں کے درمیان تعلق کو ختم کرڈالا تھا۔ پھر وہ اچانک گھومے اور بھرائی آواز میں کہنے لگے: ’’اس خونریزی سے ہمیں کیا ملا؟ بھارت جیت گیا اور پاکستان و بنگلہ دیش ہار گئے۔‘‘میں نے سٹور کا دروازہ کھولا، جس نے چند لمحوں کے لیے باہر کی خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کیا، اور میں باہر نکل آیا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران جب بھی دسمبر کا وسط آتا ہے اور پاکستان کے دولخت ہونے کی باتیں ہونے لگتی ہیں، سعید بھائی شدت سے یاد آنے لگتے ہیں۔ کیا ہم اس سانحہ کو فراموش کردیں اور ظلم کو پسِ پشت ڈال دیں جوبھارت نے ہم پر ڈھایا؟آج ہمارے درمیان بہت سے ایسے دانشور پیدا ہوگئے ہیں جو، ہمیں یہ میٹھا درس دے رہے ہیں کہ اس سانحہ اور بھارتی مظالم کو بھلا کر بھارت سے جپھی ڈال لینی چاہیے کہ قافلے اسی طرح منزل کی جانب بڑھتے ہیں۔ ان عظیم دانشوروں کا کہنا ہے کہ بھارت سے معانقہ اور مصافحہ ہی ہماری بقا کی ضمانت ہے ورنہ ہم تنہا ہوکر بچھڑ جائیں گے۔ ان صاحبانِ دانش کا کہنا ہے کہ بھارت سے نفرت و عناد رکھنا ہمارے مسلح اداروں کا مسئلہ ہے، ہمارا نہیں۔ میں آپ کے سامنے سوال رکھتا ہوں
: ’’کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

No comments:

Post a Comment