Saturday 22 November 2014

حیدر آباد دکن کا شیر


حیدر آباد دکن کا شیر
میری معلومات شاید ان کے بارے میں زیادہ نا ہوں لیکن جب پہلی بار جناب محترم بیریسٹر اسد الدین اویسی کو انڈین پارلیمنٹ میں بولتے سنا تو میں جیسے کچھ لمحوں کے لیئے حیران اور کنگ و ششدر رہ گیا، کیا آواز کیا رعب کیا دبدبہ اور بات کرنے میں زرا برابر بھی جھجھک یا گھبراہٹ یا پریشانی نا تھی۔
اور بولنے کا انداز ایسا کہ جیسے کوئی شیر دھاڑ رہا ہو۔ واہ کیا بات ہے دل شاد ہو گیا
تو ان سے ملتے ہیں یہ ہمارے بہت ہی محترم جناب بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب جن کو میں حیدر آباد دکن کا شیر کہتا ہوں۔ یہ وہ آواز ہے جو مسلمانوں کے حقوق کے لیئے اکثر آپ کو صرف بلند ہوتی نہیں بلکہ دھاڑتی ہوئی سنائی دئے گی۔
کچھ ابتدائی تعارف یوں ہے
اسدالدین اویسی صاحب حیدرآباد، آندھراپردیش کے دارالحکومت میں ۱۹۶۹ میں پیدا ہوئے۔ اسد صاحب ہندوستان کی قومی سیا سی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر ہیں۔اسد صاحب کو نقیب ملت کا لقب دیا گیا ہے۔ نقیب ملت جناب اسدالدین اویسی حیدرآباد کے مسلسل 3 مرتبہ ممبر پارلمینٹ رہ چکے جناب سالارِ ملت جناب الحاج سلطان صلاح الدین اویسی کے فرزند ہیں اور جناب اکبرالدین اویسی کے بڑے بھائی ہیں۔
اور آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک اسد الدین اویسی جیسے دلیر ، باہمت اور شیر دل انسان کو اپنی حفظ وامان میں رکھے لمبی عمر عطاء فرمائے اور حق گوئی پر ہمیشہ قائم رکھے۔
آمین ثم آمین۔
از: راشد ادریس رانا ـ22 نومبر، 2014
فیس بک: میں بھی پاکستان ہوں

Monday 10 November 2014

اب شہر سے مجھ کو نفرت ہے


ایک کہانی ایک جوانی

ایک کہانی ایک جوانی
=======================
10-11-2014 از: راشد ادریس رانا
=======================

ٹانگ میں لگی گولی اور پانی کے طرح بہتے خون کے باوجود اسے ہوش تھا، ابھی تھوڑی دیر پہلے تک وہ نوجوان بلکہ ایک خوبرو نوجوان اپنی ٹانگوں پر ٹھیک ٹھاک تھا۔
لیکن چند لمحوں نے اس کی زندگی کو موت کے دھانے پہ لا کھڑا کیا تھا۔ میں نے جلدی سے اس سے بیان لینے کی کوشش کی تو حیرت ہوئی وہ مسکرا پڑا ، ایک عجیب کرب سے بھرپور  مسکراہٹ ، اس نے جذبات سے بھرپور آواز میں کہا یہ مت پوچھو کہ کیا کِیا کیسے کِیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ پوچھو کیوں کیا؟؟؟؟
میں حیرت انگیز انداز میں ہکا بکا اس کو دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ریسکیو کی گاڑی آ گئی اور اس کو طبی امداد دی جانے لگی۔ اس کے بعد وہی کاغذی کاروائی اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک ڈکیٹی کی واردات کی آنکھوں دیکھی کانوں سنی کہانی تھی۔
کچھ دن بعد اس نوجوان سے ہسپتال میں ملاقات ہوئی ایک ٹانگ پٹیوں سے لپٹی اور دوسری بیڑی سے جکڑی ہوئی ۔ مجھے جانے کیوں اس پر بہت ترس آیا۔

میں نے سلام دعا کے بعد اس کی خیریت پوچھی تو بہت سائشتہ لب و لہجہ میں مجھ سے بات کرنے لگا۔ پھر مجھے حیران کن خاموشی میں مبتلا دیکھ کر بولا اس سے پہلے کہ آپ پوچھیں میں آپ کو خود بتلا دیتا ہوں

میں ایک ایم ایس سی پاس نوجوان ہوں، چند ماہ پہلے تک میں ایک نارمل انسان تھا، میرے خواب تھے آرزوویں تھی خواب تھے ۔

ایک شام ہر روز کی طرح نوکری یا کام کی تلاش کے بعد تھکا ہارا اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھا، کہ اپنی گلی کا موڑ مڑتے ہی چند نقاب پوش لڑکوں نے پستول کے زور پر مجھے روک لیا۔ میں ویسے ہی کئی دنوں سے روزگار نا ملنے پر پریشان تھا اور اوپر سے یہ مصیبت آن پڑی تھی ، انہوں نے بہت شرافت سے مجھ سے سارا کچھ نکالنے کا کہا، میں نے اپنا موبائل بٹوا ان کے حوالے کر دیا۔

موبائل کو دکھ کر ایک لڑکے نے بہت غصے سے میری طرف دیکھا پھر میرا پرس کھولا جس میں صرف 35 روپے تھے وہ بھی ابا جی سے صبح پیسے لیئے تھے کرائے کے لیئے تو باقی بچ گئے تھے، خیر ان کومایوسی تو ہوئی لیکن شاید مایوسی سے زیادہ غصہ تھا، کیوں کہ انہوں نے ملکر مجھے خوب مارا اور اتنا مارا کہ بس شکر ہے گولی نہیں ماری اور جاتے جاتے کہہ گئے 

بے شرم اور بے غیرت ہو تم ، کس بات کے جوان ہو لعنت ہو تمہاری جوانی پر کہ تمہارے پاس صرف 35 روپے اور وہ بھی تمہارے باپ کے دیئے ہوئے۔ بے غیرت اگر کوئی کام نہیں تو ڈکیتیاں کرنے لگ جاو۔

کافی دن تک گھر پر پڑا رہا اور سوچتا رہا، پہلے ہی میں ماں باپ اور گھر کے ساتھ ساتھ ایک دھرتی کا بوجھ تھا اور اوپر سے ان کی کہی ہوئی  بات نے دماغ پر دل پر ایسا اثر کیا کہ جس دن میں ٹھیک ہوا اور اپنے قدموں پر چلنے پھرنے لگا
اسی دن میں نے یہ کام شروع کر دیا ہے۔

مجھے پتا تھا ایک نا ایک دن ایسا ہی انجام ہو گا، اور شاید اس دن مجھے یقین تھا کہ میرا آخری وقت ہے اسی لیئے میں نے تمہیں کہا تھا 
یہ مت پوچھو 
کہ کیا کِیا کیسے کِیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ پوچھو کیوں کیا؟؟؟

میں اس کی بات سن کرگم صم بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یہ ہماری نوجوان نسل ہے جس کو آج ہمارے سسٹم ، ہمارے لوگوں ، ہماری سرکار اور ہمارے اعمال نے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔

Saturday 8 November 2014

لاٹ صاحب............ منتخب تحریر

لاٹ صاحب.......................ظفر جی کے قلم سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے نام کیا تھا...لیکن "لاٹ صاحب" کہلاتے تھے- انگریز تھے...وہ بھی برطانوی نژاد- خوشاب اس وقت تحصیل تھی اور یہ اس کے لاٹ صاحب بن کر آئے.....علاقے بھر میں خوب دبدبا تھا....اور خوشامدی سدا انکی نگاہ التفات کے منتظر رہتے-
ایک سال وادی میں اتنا سوکھا پڑا کہ یہاں کی گہری جھیل بھی سوکھ گئ...اور اسکی گہرائ کے بارے میں مشہور سارے افسانے طشت از بام ہو گئے- جانور مرنے لگے اور لوگ بھی-
پتا نہیں کسی مولوی صاحب نے مشورہ دیا یا لاٹ صاحب کا اپنا فیصلہ تھا....... ایک دن آس پاس کی بستیوں میں اعلان کروایا دیا کہ آج بارش کے واسطے قران خوانی لاٹ صاحب کے بنگلے پر ہو گی- آس پاس گاؤں سے لوگ سیپارے اٹھائے دوڑے چلے آئے .... بنگلے کے باہر تمبو قناطیں لگادی گئیں....چناچہ...شربت کی سبیلوں......اور دیگ ہائے بریانی کی کھڑکھڑاہٹ میں......لوگ لہک لہک کر تلاوت کرنے لگے.....لاٹ صاحب بار بار باہر نکلتے......پریشانی میں آسمان کی طرف دیکھتے....اور ....still no chance کہتے اندر چلے جاتے....شام تک لوگ کھا پی کر چلے گئے...لیکن بارش کے آثار تک نمودار نہ ہوئے- اگلے دو دن تک یہی حال رہا.......لوگ پہلے سے زیادہ آنے لگے.....تلاوت کرتے....بریانی اڑاتے...اور گھر کی راہ لیتے-
تیسرے یا چوتھے دن جب لوگ آئے تو تمبو قناط دیگیں غائب تھیں.....لوگ واپس مڑنے لگے تو بتایا گیا کہ قران خوانی ہوگی...لیکن دھوپ میں بیٹھ کر.....چنانچہ اکثر تو واپس لوٹ گئے اور محدودے چند چاروناچار بیٹھ گئے- لاٹ صاحب باہر تشریف لائے اور کہا کہ جب تک بارش نہیں ہو گی......نہ تو پانی دیا جائے گا....نہ کھانا....اور نہ ہی کوئ اٹھ کے جائے گا- جو واپس جانا چاہتا ہے ابھی چلا جائے...کوئ زبردستی نہیں ہے.....چناچہ کچھ اور لوگ کپڑے جھاڑتے اٹھ کے واپس چل دیے اور آٹھ دس آدمی میدان کارزار میں...جم کر بیٹھ گئے.....چناچہ تلاوت شروع ہوئ...آسمان پر بادل کا نام و نشان نہیں تھا....پیاس سے پپڑیاں جمنی شروع ہوئیں...لوگ نہ تو اس پیاس میں واپس جا سکتے تھے اور نہ ہی آج لاٹ صاحب سے کچھ امید .تھی.....ہمت و حوصلہ جواب دے رہا تھا...آج آسمان کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھنے کا فریضہ لاٹ صاحب کی بجائے یہی لوگ سرانجام دے رہے تھے....نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اٹھتیں اور پھر تلاوت و دعا میں مستغرق ہو جاتیں...دعاؤں کے لیے بار بار ہاتھ اٹھتے...انکھوں سے آنسو..رواں تھے......تب جا کر کہیں سے ایک ٹکڑا بادل کا نمودار ہوا.... باد نسیم چلی.....اور وہ مونسلادھار بارش ہوئ کہ چہار سو جل تھل ہو گیا...............!!!
لاٹ صاحب بھیگتے ہوئے بنگلہ سے نمودار ہوئے اور مسکراتے ہوئے گویا ہوئے....." ام جانتا تھا....گاڈ......کے لیے...بارش....کوئ......پرابلم نہیں....پرابلم.... ٹم...لوگ ..ہو جو گاڈ سے دو ڈراپ واٹر کے لیے بی دو منٹ "سیریس" ہو کر بات نئیں کر سکتا........!!!!
لاٹ صاحب قیام پاکستان کے بعد یہیں بس گئے اور واپس برطانیہ نہیں گئے یا شاید "میم صاحب" کی قبر چھوڑ کر جانا گوارا نہ ہوا- اور 56 میں فوت ہوئے- اُن کی قبر ادھر ہی سرکی موڑ کے پاس ہے-

Wednesday 29 October 2014

نام تیرا ریت پر: از، راشد ادریس رانا


ریت پر
چلی ہوا تو لکھ دیا
نام تیرا ریت پر
نقش یو ں عیاں ہوا
دل جو بے قراں ہوا
عشق یو ں جواں ہوا
پیار  لامکاں ہوا
انگ انگ نہال تھا
جسم یوں بے حال تھا
چھا گیا تھا ایک نشہ
جانے کیا کمال تھا
بے رخ جو ہوا ہوئی
دل میرا جلا دیا
نقش نقش مٹا دیا
تجھ کو مجھ سے چھین کر
جانے اس کو کیا ملا
اک ہوا کے جھونکے نے
نام تیر ا مٹا دیا
قصور آخر کس کا تھا
ہوا تو بے لگام تھی
چلی ہواتو لکھ دیا
چلی ہوا تو مٹا دیا
نام تیرا ریت پر
از: راشد ادریس رانا

29 اکتوبر 2014

Saturday 11 October 2014

گوشت کے بارے میں وہ جھوٹ جنہیں آپ سچ سمجھتے ہیں


گوشت کے بارے میں وہ جھوٹ جنہیں آپ سچ سمجھتے ہیں

برمنگھم (نیوز ڈیسک)گوشت کے استعمال اور افادیت کے حوالے سے قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لئے 8 مضحکہ خیز فرضی اور افسانوی باتیں پیش خدمت ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ یہ وہ مغالطے ہیں جو نسل درنسل لوگوں میں مشہور و معروف ہیں۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ گوشت مناسب طریقے سے ہضم نہیں ہوتا بلکہ آنتوں میں گلتا سڑتا رہتا ہے۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ جیسے ہی گوشت معدے میں پہنچتا ہے تو کچھ تیزابی رطوبتیں اور انزائم کا اخراج ہوتا ہے جو اسے ہضم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ پھر یہ محلول نما گوشت چھوٹی آنت میں جاتا ہے تو وہاں اس میں موجود پروٹین امائینوایسڈ مین تبدیلی ہوتی ہے اور فیٹ بھی فیٹی ایسڈ میں تحلیل ہوتی ہے۔ پھر یہاں ہی غذائی اجزاءچھوٹی آنتوں کی دیواروں سے چھن کر خون میں شامل ہوکر جسم کا حصہ بناتے ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ گوشت کہاں چھوٹی آنت میں گلنے سڑنے کے لئے پڑا رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ گوشت بڑی آنت پنچنے سے قبل ہی تحلیل ہوکر ہضم ہوچکا ہوتا ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ کچھ خاص قسم کی سبزیاں، پھل اور دانے وغیرہ مشکل سے ہضم ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ہضم کرنے کے لئے طاقتور انزائم دستیاب نہیں ہوتے۔

 گوشت کے خلاف سب سے مضبوط دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیر شدہ چربی پیدا کرتا ہے اور کولیسٹرول کو بڑھاتا ہے لیکن اب تک اس دلیل کے ثبوت میں کوئی حقیقت سامنے نہیں آئی۔ سچ یہ ہے کہ کولیسٹرول ہرسیل کی جھلی میں پایا جاتا ہے اور ہارمونز کے اخراج کی وجہ بنتا ہے۔ جگر بھی کولیسٹرول کا منبع ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 70 فیصد لوگوں کے جسم میں پایا جانے وال کولیسٹرول ان کی صحت کو متاثر نہیں کرتا۔ 30 فیصد لوگوں میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی موجودگی صحت کے لئے مضر ثابت ہوا ہے۔ اس نکتہ پر مختصر تبصرہ یہ ہے کہ یہ سچ ہے کہ گوشت کولیسٹرول بناتا ہے لیکن اس سے جسم پر اس کے منفی اثرات نہیں پڑتے اور نہ ہی دل کی بیماری کی وجہ بنتا ہے۔ احتیاطی تدبیر صرف یہ ہے کہ گوشت مناسب مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے۔

 اکثر لوگ ایمان کی حد تک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ گوشت سے دل کی بیماریاں بڑھتی ہیں اور 2 طرح کی ذیابیطس پیدا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ دل کی بیماریاں 20ویں صدی تک تو خطرناک نہ تھیں اور گزشتہ چند عشرے پہلے ذیابیطس بھی اس حد تک خوفناک نہ تھی جتنی کہ آج ہے۔ یہ دونوں بیماریاں تو آج کی بیماریاں ہیں لیکن گوشت تو لوگوں کی صدیوں سے مرغوب غذا ہے۔ کہتے ہیں کہ صدیوں قبل بھی یہ من پسند غذا تھی۔ اس لئے اتنی پرانی غذا کو نئی بیماری سے جوڑنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔ ایک تحقیق میں 1218350 لوگوں پر مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اتنی بڑی تعداد کے لوگوں میں کوئی ایسی شہادت نہیں ملی جو ثابت کرتی کہ گوشت کی وجہ سے دل کی بیماری یا ذیابیطس جیسی بیماریوں کو جھیلنا پڑا ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ گوشت کا استعمال اور پکانے کا طریقہ کیا ہے، یہ طریقے ہی خرابیوں کا باعث بنتے ہیں۔

 سرخ گوشت کینسر پھیلاتا ہے: یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ جس کی اصل روح کو سمجھنا ضروری ہے۔ ڈبہ بند گوشت سب برائیوں کی جڑ ہے جبکہ تازہ گوشت ایسی کسی بیماری کی وجہ نہیں بنتا، دراصل اس ضمن میں کی گئی دو تحقیقات میں یہ واضح ہوا ہے کہ ڈبہ بند گوشت بھی کینسر کی وجہ بنتا ہے۔ 35 تحقیقیں یہ بتاتی ہیں کہ پکانے کے مختلف طریقے گوشت کی افادیت کا سکیل طے کرتے ہیں کہ آیا غذائی اعتبار سے مفید ہے یا مضر صحت، جیسے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اگر ضرور سے زیادہ کیا پکایا جائے تو اس کے اجزاءہیٹروں ٹیک، ایمانیز اور پولی سائیکل ہائیڈروکاربوریٹس میں تبدیل ہوتا ہے، یہ مرکبات کینسر کی وجہ بنتے ہیں۔

 انسان سبزی خور ہے اس کی تخلیق گوشت خور کے طور پر نہیں کی گئی۔ یہ خیال بھی اوپر بیان کئے گئے مغالطوں کی طرح ہی ہے اور اس میں سچائی نہیں پائی جاتی۔ اس ضمن میں غور کریں کہ ہمارے نظام انہظام میں چھوٹی اور بڑی آنت کا کردار بہت اہم ہے جو گوشت کے ہاضمے کیلئے ان آنتوں میں خصوصی انزائم حصہ لیتے ہیں اور یہ انزائم کچھ سبزیوں اور پھلوں کے لئے فعال نہیں ہوتے۔ سچ یہ ہے کہ انسانی جسم میں قدرت نے وہ نظام بنایا ہے جو گوشت کو ہضم کرتا ہے۔

 کیا پروٹین ہڈیوں کیلئے مفید ثابت نہیں ہوتی؟ اس سوال کے جواب میں اکثریت یہ کہتی ہے کہ چونکہ گوشت پروٹین کا گھر ہوتا ہے اور گوشت خوروں کی ہڈیاں اسی لئے کمزور ہوتی ہیں۔ یہ بھی قطعی غلط خیال ہے۔ جدید تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ زیادہ پروٹین والی غذائیں اور صحت مند ہڈیوں کی ضامن ہوتی ہیں اور ہڈیوں میں پائی جانے والی سختی کو کم کرتی ہیں۔
عام دعویٰ ہے کہ گوشت صحت کے لئے غیر ضروری ہے، اس خیال کو ایک حد تک تو درست تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی گوشت کا کھانا صحت کے لئے لازم ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہم گوشت کھائے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔

 گوشت کے بارے میں یہ قیاس آرائی کی جاتی ہے کہ یہ موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی کچھ کچھ درست خیال ہے لیکن ایسا دعویٰ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ گوشت میں پائی جانے والی پروٹین وزن کو کم کرنے میں معاون پائی گئی ہے۔


Wednesday 24 September 2014

مہنگـی روٹـی سستی مـوت



مہنگـی روٹـی سستی مـوت
کیسے دوں میں تم کو ووٹ

ہر سال آجـــــــــــــــاتے ہو تم
خواب میرے ہی مجھ کو دینے
چہرے پہ مســـــــــــکان لیئے 
اور دلــــوں کــــے اندر کھوٹ

مہنگـــــــی روٹی سستی موت
کیســــے دوں میں تم کو ووٹ

ویسی ہی میری گلیاں بے رنگ
ویسے ہــــــی میرے شہر بازار
خوشیــاں جیسے روٹھ گئی ہوں
ہنسنـــــــا ہے جیسے ایک ادھار

مہنگـــــــی روٹی سستی موت
کیســــے دوں میں تم کو ووٹ

پھــــر بھــــی تم آ جــــــاتے ہو
جھوٹے  وعدے جھوٹی قسمیں
 پرانــے چـہروں پہ نئے چشمے
کرنے پھــر سے لوٹ کھسوٹ

مہنگـــــــی روٹی سستی موت
کیســــے دوں میں تم کو ووٹ

بــــــــاپ گیا اور بیٹــــــــا آیا
تم نے اس کـــو کھـــــیل بنایا
دیـــــس میرے میں خون بہایا
تــم نے اس کــو نسلوں کھایا

مہنگـــــــی روٹی سستی موت
کیســــے دوں میں تم کو ووٹ

چند خاندانوں نے چھانٹ لیا ہے
دیسے میــرے کــو بانٹ لیا ہے
کـــتنا اس کـــو کھـــــاو گـے تم
قبـــــروں میـــں لے جاو گے تم

مہنگـــــــی روٹی سستی موت
کیســــے دوں میں تم کو ووٹ

میــــرے دیــــس کو کھانے والو
خـــون وطـــــن کا پینــــــے والو
ہر ہر ســــانس زہر بنــــــــا دوں
راشـــــــــــد کا جو زور چلے تو
دل کــــــرتا ہے آگ لــــــگا دوں
محل تمہارے قبــــــــــــر بنادوں
محل تمہارے قبــــــــــــر بنادوں


مہنگـــــــی روٹی سستی موت
کیســــے دوں میں تم کو ووٹ

از: راشد ادریس رانا ــــ اجڑے ہوے محب وطن کی پکار


انقلاب ضروی ہے۔



مہنگی تھـــی روٹی بہت
بے رحم تھـی بھوک بھی
موت مانگ لــــی میں نے
اور جـــــــی کے کیا کروں



Sunday 7 September 2014

آدھا تیتر آدھا بٹیرـــــــــــــ الوداع اردو


آدھا تیتر آدھا بٹیر
سنو یہ فخر سے اک راز بھی ہم فــــــــــاش کرتے ہیں
کبھی ہم منہ بھی دھوتے تھے، مگر اب واش کرتے ہیں
تھا بچوں کے لیے بوسہ مگر اب کِس ہی کرتے ہیں
ستاتی تھیں کبھی یادیں مگر اب مِس ہی کرتے ہیں
چہل قدمی کبھی کرتے تھے اور اب واک کرتے ہیں
کبھی کرتے تھے ہم باتیں مگر اب ٹـــــاک کرتے ہیں
کبھی جو امی ابو تھے ، وہی اب مما پاپا ہیں
دعائیں جو کبھی دیتے تھے وہ بڈھے سیاپا ہیں
کبھی جو تھا غسل خانہ ، بنا وہ باتھ روم آخر
بڑھا جو اور اک درجہ ، بنا وہ واش روم آخر
کبھی ہم بھی تھے کرتے غسل، شاور اب تو لیتے ہیں
کبھی پھول چُنتے تھے، فـــــــــــلاور اب تو لیتے ہیں
کبھی تو درد ہوتا تھا، مگر اب پین ہوتا ہے
پڑھائی کی جگہ پر اب تو نالج گین ہوتا ہے
ڈنر اور لنچ ہوتا ہے، کبھی کھانا بھی کھاتے تھے
بریڈ پر ہے گزارا اب، کبــــھی کھابے اُڑاتے تھے
کبھی ناراض ہوتے تھے، مگر اب مائنڈ کرتے ہیں
جو مسئلہ کچھ اُلجھ جائے ، سلوشن فائنڈ کرتے ہیں
جگہ صدمے کی یارو اب تو ٹیشن ، شـــاک لیتے ہیں
کہ "بُوہا" شٹ جو کرتے ہیں تو اس کو لاک دیتے ہیں
ہوئے ’’آزاد"‘‘جب ہم تو ’’ترقی‘‘ کرگئے آخر
جو پینڈو ذہن والے تھے، وہ سارے مر گئے آخر

Thursday 21 August 2014

سپاہی مقبول حسین

 
 
17ستمبر 2005 ء کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی حکام نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا-اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے-ان کے ہاتھوں میں گٹھڑیوں کی شکل میں کچھ سامان تھا جو شاید ان کے کپڑے وغیرہ تھے-لیکن اس گروپ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ ایک ایسا پاکستانی بھی شامل تھا-جس کے ہاتھوں میں کوئی گٹھڑی نہ تھی-
جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا-اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے-خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی-اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی-پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا-سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے-لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا-کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا-اور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی- کردیا-اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا-کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا
”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر ، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا-کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا-کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی -اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے-اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا-65 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی-سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا-سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں-ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا- دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا- اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا- وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا- جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا-اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا-بہادر شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا گیا-ادھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی-اسے 4X4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا- جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا-دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا-سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا-جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا-وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں---ہاں میں پاگل ہوں--- اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے---ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے--- ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے--- سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے- آخر انہوں نے اس زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا-سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا-یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا- آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں-

https://www.facebook.com/photo.php?v=276230809238419
 

Saturday 2 August 2014

ریلوے سٹیشن ـــــ Railway Station

یہ میرا گاوں نہیں ، نا ہی میرے گاوں سے ریل کی پٹری گزرتی ہے نا ہی وہاں اسٹیشن ہے۔ پھر بھی مجھے ریل، ریل کی پٹری اور چھوٹے چھوٹے اسٹیشن بہت اچھے لگے ہیں۔
 
ایک ٹرین اس کی پٹڑی اور اس کا اسٹیشن کیسی قدامت بستی ہے ان میں، کیسا سُر تال ہے کیسا میل جول ہے ان کا۔
 
یہ ایک گاوں کا چھوٹا سا سٹیشن ہے، گاوں کی طرف سے آنیوالا کچا راستہ جو کھیتوں سے گھرا ہوا ہے اور جس کے ایک طرف میں ایک چھوٹی سی نہر ہے جس نہر پر ساتھ ساتھ ٹاہلی اور کیکر کے پیڑ ہیں، بیچ بیچ میں کہیں کہیں ایک آدھ پیپل کا پیڑ کسی ٹیوب ویل کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے جو اپنی قدیم وضع قطع سے بہت ہیں بزرگ دکھائی دیتا ہے، اس کے نیچے بان کی چارپائیوں پر بیٹھے بزرگ جو حقہ کے گڑ گڑ میں نا جانے بچھلی آدھ صدی کے کونسے قصے کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔
 
اس کچے راستے کے ساتھ ساتھ بہتی یہ چھوٹی سی نہر جو گرمی سردی گاوں کے باسیوں کو زندگی کا احساس دلائے رواں دواں ہے آگے جا کر سیدھی طرف مڑ جاتی ہے اور کچی سڑک کو خیر آباد کہہ دیتی ہے۔ پھر یہ پنجاب کی دھرتی میں ایسے گم ہو جاتی ہے جیسے ایک چھوٹا بچا ٹھنڈے پانی سے نہا کر کانپتا ہوا اپنی ماں کی آغوش میں چھپ جاتا ہو۔
 
اب یہ تنہا راستہ اپنی اداس تنہائی کے ساتھ ریلوئے اسٹیشن پر جا کر دو شاخہ ہو جاتا ہے جس کا ایک سرا تو ختم ہو جاتا ہے جہاں پر کچھ ٹھیلے، ایک دو پرانی خستہ حال دکانیں اور ایک چائے کا صدا بہار ہوٹل ہے۔ جبکہ دوسرا سِرا اسٹیشن کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا اکلوتےریلوئے پھاٹک کو پھاندتا ہوا ریلوئے ٹریک کی دوسری طرف کھیتوں کے سلسلوں کو چیرتا ہوا ایسے چلا جاتا ہے جیسے کسی سرحد کو عبور کر رہا ہو۔
ٹھیلے والے صبح سویرے اپنی اپنی بنائی ہوئی چیزیں لیکر آدھر آ جاتے ہیں پھیری بھی لگا لیتے ہیں اور باقی سارا دن ادھر ریلوے اسٹیشن کی رونق میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔  جس میں پتیسا، ریوڑیاں، دال موٹھ، کھٹے چپس اور بہت ساری چیزیں ملتی ہیں۔ پھر باری آتی ہے گنے کے جوس والے کی، جس کا کام کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں لہٰذا وہ گرمی کے موسم میں گنے کا جوس بیچتا ہے اور سردی کے موسم میں چھلیاں بھون بھون کر بیچتا ہے۔ اس سے زرا پرے کچی دکانوں میں پہلی دکان ایک عدد نائی یعنی حجام کی ہے جو گاوں کا واحد حجام بھی ہے اور شادی بیاہ پر دیگ پکانے کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ دوسری دکان حلوائی کی ہے جو کہ دھول مٹی اور مکھیوں کے جھمگٹوں کے ساتھ سال ہا سال سے اپنی مٹھایاں بنانے اور بیچنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس سے آگے گاوں کا واحد ، اکلوتا لاج دلارا چھپر ہوٹل ہے جس پر صبح تڑکے سے لیکر رات دیر تک چائے سمیت ہر قسم کا کھانا ملتا ہے۔
 
پھر ریلوئے اسٹیشن کی پرانی مگر خوبصورت لمبی سیڑھیاں ہیں جہاں سے اسٹیشن کی مرکزی عمارت میں داخل ہوا جاتا ہے۔ داخلی برآمدئے میں الٹی طرف ایک بنچ ہے اورسیدھی طرف قدیم ترین نلکا جس کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی پنجاب کی دھرتی کی مٹھاس اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
 
سیدھی طرف ٹکٹ والا کمرہ اور اس کی چھوٹی سی کھڑکی ہے۔ دوسری طرف اکلوتا ڈاک خانہ ہے جو پرانے فرنیچر کے ساتھ ساتھ پرانے ڈبوں نما طاقوں سے بھرا پڑا ہے جو کسی زمانے میں ڈاک کے باقاعدہ نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔
 
آگے بڑھیں تو ایک عدد پھاٹک نما دروازہ ہے جس پر کبھی کبھار مسافروں کے رش ہونے کی صورت میں ریلوئے کا ایک ملازم ٹکٹ چیک کر نے کی غرض سے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس سے گزر کر آگے دیکھیں تو سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کی طرف آپ کو پلیٹ فارم ملے گا، جو اپنی صفائی اور خوبصورتی میں کمال رکھتا ہے۔
 
زیادہ بڑا اسٹین نہیں لیکن پھر بھی اس پر چار بنچ لگائے گئے ہیں جو مسافروں کے انتظار گاہ بھی ہے ، دونوں اطراف میں جہاں سے پلیٹ فارم شروع ہوتاہے وہاں پر بھی خوبصورت لال گلاب کے جھاڑی نما پودے ہیں اور جہاں ختم ہوتا ہے وہاں پر بھی، سیدھے طرف لگے ہوئے جامن کے پیڑ بہت ہی خوبصورت ہیں اور اپنی بلندی کی وجہ سے اسٹیشن پر اکثر سایا کئے رہتے ہیں۔ اسٹیشن کی دوسری طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برگد کے دو بڑئے درخت ہیں جنھہوں نے اپنی قدیم عمر اور بزرگی سے اس اسٹیشن کو رونق بھی بخشی ہوئی ہے اور خوبصورتی بھی، ان سے پرئے لہلاتے کھیتوں کا نا ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے۔
 
ریلوئے اسٹیشن کے ساتھ قابل زکر و قدر وہ چند چھوٹے چھوٹے خوبصورت کوارٹر تھے جو اس ریلوئے اسٹیشن اور ڈاک خانے کے ملازمین لئیے سرکار کی طرف سے دئیے گئے تھے۔ جن کے آگے چھوٹے چھوٹے باغیچہ نما لان تھے جن میں باڑیں بھی تھیں اور اہل مکین ان میں سبزیاں بھی اگاتے تھے، اسٹیشن ماسٹر نے اپنے کوارٹر کے اگے بہت صاف لان بنایا ہواتھا جس میں اکثر وہ بیٹھ کر چائے کے ساتھ ساتھ پچھلے ہفتے کے اخبارات کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
 
سامنے ہی کچھ فاصلے پر کھیت تھے جن میں لگے ٹیوب ویل جب چلتے تو دل کو لبھا دینے والے نغمے جنم لیتے تھے۔ انہی نغموں میں جب آنیوالی ٹرین کی چھک چھک کوں کوں شامل ہو جاتی تو ایک عجب سا راگ پیدا ہوتا جو چند منٹوں کے بعد ختم ہو کر پھر نغمہ بن جاتا۔
 
شاید یہ سارا خوبصورت منظر اپنے ان نظاروں اور نغموں کے ساتھ صدیوں سے صدیوں تک چلتا رہے۔
 
یہ ایک بہت ہی خوبصورت اور سہانا منظر ہے جو میرے دل میں ثبت ہو چکا ہے۔
 
ریلوئے سٹیشن ، ایک عہد ایک یادگار ایک داستان اور ایک تاریخ۔
 
از راشد ادریس رانا: 01آگست 2014۔
 





 

Saturday 26 July 2014

کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے ــــــــــــــــــــHelp Gaza, Help Palestine

اٹھو کے ظلمتوں کے
اندھیروں کو چیر ڈالو
کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے
 
اٹھو کے لہو لہو ہیں
جو ماں کا دامن
اسے سنبھالو
کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے
 
اٹھو کے تار تار ہیں
تمہاری بہنوں کی
عبائیں، انہیں بچالو
کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے
 
اٹھو کے ٹکڑوں میں
بٹ گئے ہیں ننھے پیکر
انہیں بچا لو،
کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے۔
میرے فلسطین کے نام: از راشد ادریس رانا
 
 


 

Friday 25 July 2014

میں فلسطــــــــــین ہوں میں فلسطــــــــین ہوں

 
یہ میری قوم کے حکمراں بھی سنیں
میری اجڑی ہوئی داستاں بھی سنیں
جو مجھے ملک تک مانتے ہی نہیں
ساری دنیا کے وہ رہنما بھی سنیں
صرف لاشیں ہی لاشیں میری گود میں
کوئی پوچھے میں کیوں اتنا غمگین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

آئے تھے ایک دن میرے گھر آئے تھے
دشمنوں کو بھی تنہا نظر آئے تھے
اونٹ پر اپنا خادم بٹھائے ہوئے
میری اس سر زمیں پر عمر (رض) آئے تھے
جس کی پرواز ہے آسمانو تلک
زخمی زخمی میں وہ ایک شاھین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

میرے دامن میں ایمان پلتا رھا
ریت پر رب کا فرمان پلتا رہا
میرے بچے لڑے آخری سانس تک
اور سینوں میں قرآن پلتا رہا
ذرے ذرے میں اللہ اکبر لیے
خوش نصیبی ہے میں*صاحبِ دین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

نہ ہی روئیں گے اور نہ ہی مسکائیں گے
صرف نغمے شہادت کے ہی گائیں گے
اپنا بیت المقدس بچانے کو تو
میرے بچے ابابیل بن جائیں گے
جو ستم ڈھا رہے ابرہہ کی طرح
ان کی خاطر میں سامان توہین ہوں
میں فسلطین ہوں میں فلسطین ہوں

Thursday 17 July 2014

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اسلام کی روح ہے ___ ایک منتخب تحریر: لکھاری نامعلوم

میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘
اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔
میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں‘‘
میں نے پوچھا ’’تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو؟‘‘
وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں‘‘...

میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟‘‘
اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا ’’میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘
میں نے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘
اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘
یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا‘ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘
وہ بولا ’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے‘ یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی‘ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔ آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘
اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا‘ اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا‘ کندھے پر رکھا‘ سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا
لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں‘ میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میں اس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا‘
میں جان گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے‘ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔

Saturday 12 July 2014

اسے بارشوں نے چرا لیا

 
 
اسے بارشوں نے چرا لیا ، کے وہ بادلوں کا مکین تھا
کبھی مڑ کے یہ بھی تو دیکھتا کے وجود میرا زمین تھا
 
وہی ایک سچ تھا کے اس کے بعد ساری تہمتیں جھوٹ ہیں
میرے دل کو پورا یقین ہے وہ محبتوں کا آمین تھا
 
اسے شوق تھا کے کسی جزیرے پر اس کے نام کا پھول ہو
مجھے پیار کرنا سکھا گیا میرا دوست کتنا ذہین تھا
 
کبھی ساحلوں پر پھیرو گے تو تمہیں سیپیاں یہ بتائیں گی
  میری آنکھ میں جو سمٹ گیا وہ اشک سب سے حسین تھا

Thursday 10 July 2014

حضرت یونس علیہ السلام کامچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا۔ جدید واقعات و تحقیقات کی روشنی میں

حضرت یونس علیہ السلام کامچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا۔ جدید واقعات و تحقیقات کی روشنی میں

کاتب: بتاريخ:
 
حضرت  یونس ؑ  کو اللہ تعالیٰ نے نینویٰ (موجودہ عراق کا شہر موصل )کی بستی کی ہدایت کے لیے بھیجا۔نینویٰ میں آپؑ کئی سال تک ان کو تبلیغ کی دعوت دیتے رہے ۔مگر قوم ایمان نہ لائی تو آپ ؑ نے ان کو عذاب کے آنے کی خبر دی اور ترشیش (موجودہ تیونس )کی طرف جانے کے لئے نکلے۔حضرت یونس ؑ جب قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے تو قوم نے آپ ؑ کے پیچھے توبہ کرلی ۔ دوسری طرف آپ ؑ اپنے سفر کے دوران دریا کو عبورکرنے کے لیے اسرائیل کے علاقہ یافا میں کشتی میں سوار ہوئے ۔کچھ دور جاکر کشتی بھنور میں پھنس گئی ۔ اس وقت کے دستور اور رواج کے مطابق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جب کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگ کر جارہا ہو اور کشتی میں سوار ہوتو وہ کشتی اس وقت تک کنارے پر نہیں پہنچتی جب
 
تک اس غلام کو کشتی سے اتار نہ لیں ۔
اب کشتی کے بھنور میں پھنسنے پر ان لوگوں نے قرعہ ڈالا جو حضرت یونس ؑ کے نام نکلا۔تین دفعہ قرعہ آپ ؑ کے نام ہی نکلا تو آ پ ؑ نے فرمایا کہ میں ہی غلام ہوں جو اپنے آقا  کو چھوڑ کا جار ہا ہوں۔ آپ ؑ نے خود ہی دریا میں چھلانگ لگادی تاکہ دوسرے لوگ کنارے پر پہنچ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کے دل میں القا ء کیا اور حکم دیا کہ حضرت یونس ؑ کو بغیر نقصان پہنچائے ،نگل لے ۔ اس طرح آپؑ مچھلی کے پیٹ میں آگئے ۔یہ آپ ؑ پر ایک امتحان تھا۔
حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ میں جانے کی وجہ سے ” ذوالنون” اور ” صاحب الحوت” کہا گیا ہے کیونکہ نون اور حوت دونوں کا معنی مچھلی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ  ۔۔ ﴿ الانبیاء ۔87
(اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے)
دوسری طرف مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونے کے بعد حضرت یونس ؑ نے یہ سمجھا کہ وہ مرچکے ہیں مگر پاؤں پھیلایا تو اپنے آپ کو زندہ پایا ۔بارگاہ الہی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا او ر توبہ استغفار کی ،کیونکہ وہ وحی الہی کا انتظار اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لئے بغیر اپنی قوم سے ناراض ہوکر نینویٰ سے نکل آئے تھے ۔ پھر مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس ؑ نے اپنی خطا کی یوں معافی مانگی۔
فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿ الانبیاء ۔87
(آخر کو اُس نے تاریکیوں میں پکارا “نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا )
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کی پرسوز آواز کو سنا اور دعا قبول کی تو مچھلی کو حکم ہوا کہ حضرت یونس ؑ کو جو تیرے پاس ہماری امانت ہے ،اُگل دے۔چناچہ مچھلی نے دریا کے کنارے حضرت یونس ؑ کو 40 روز بعد اُگل دیا۔وہ ایسی ویران جگہ تھی جہاں نہ کوئی درخت تھا نہ سبزہ ،بلکہ بالکل چٹیل میدان تھا ،جب کہ حضرت یونس ؑ بے حد کمزور و نحیف ہوچکے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت یونس ؑ نومولود بچے کی طرح ناتواں کمزور تھے ۔آپ  ؑکا جسم بہت نرم ونازک ہوگیا تھا اورجسم پر کوئی بال نہ تھا۔چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت یونس ؑ کے قریب کدو کی بیل اُگا دی تاکہ اس کے پتے آپ ؑ پر سایہ کئے رہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کےبموجب  ایک جنگلی بکری صبح وشام آپ ؑ کو دودھ پلا کر واپس چلی جاتی ،یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل ہی تھا ورنہ آپ ؑ ضعیف اور کمزور تر ہوتے چلے جاتے۔(بحوالہ تفسیر روح المعانی ،ابن کثیر)۔ قرآن مجید مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد حضرت یونس ؑ کی حالت کو اس طرح بیان کرتا ہے:
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ﴿145﴾ وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ ﴿146
آخرکار ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیااور اُس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا۔  (الصافات)
آج کئی سو سال بعد جدید سائنس نے اتنی بڑی مچھلی کے موجود ہونے کی تصدیق کر دی ہے اور کئی تحقیقاتی ادروں نے اتنی بڑی مچھلیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ ذیل میں ہم وہیل یا عنبر مچھلی پر چند تحقیقاتی اداروں  کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔
وہیل  مچھلی کے متعلقہ جدید معلومات
ذیل میں  ہم اس آبی جانور کی قامت وجسامت ،اوصاف و خصائل اور مخصوص عادات میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں  تاکہ اس معجزے کے وقوع کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ سب اوصاف وخصائص کسی اور قسم کی وہیل یا مچھلی مثلاً شارک وغیرہ میں بیک وقت نہیں پائے جاتے ۔ اس لیے ان میں سے کسی  ایک کا تعلق بھی اس معجزے سے نہیں ہوسکتا ۔
وہیل دراصل دیوپیکر عظیم الجثہ مچھلیوں کے ایک وسیع خاندان کا نام ہے ۔ جس میں بڑی وہیل ،بوتل کی ناک والی وہیل ،قاتل وہیل ،نیلی وہیل ،ڈولفن، پائلٹ وہیل اور ناروہیل شامل ہیں۔ وہیل عام مچھلیوں سے مختلف ہے ۔ ان کے برعکس یہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔جی ہاں !یہ پستان رکھنے والا جانور ہے ۔ یہ انسانوں کی طرح پھیپھڑوں سے سانس لیتی ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا خون گرم ہوتا ہے۔
وہیل کے منہ کے قریب دو نتھنے ہوتے ہیں جو تیرے وقت عموماًسطح سمندر سے اوپر ہوتے ہیں  ۔چناچہ اسے سانس لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ یہ خاصی دیر تک گہرے پانی میں رہ سکتی ہے۔انسان صرف ایک منٹ تک سانس روکے ہوئے پانی میں رہ سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ تجربہ کار غوطہ خوروں کو بھی جو سمندر کی گہرائی سے سیپ اور موتی نکالتے ہیں  ،ڈھائی منٹ کے بعد سطح پر آنا پڑتا ہے ۔ اس کے برعکس پور کوئیل وہیل ،جس کی پشت پر پَر ہوتے ہیں ،چالیس منٹ اور سپر م وہیل ایک گھنٹے  سے زائد بغیر سانس لیے گہرے پانی میں رہ سکتی ہے ۔ ایک سپرم وہیل سطح سمندر سے 1134 میٹر نیچے گہرے پانی میں پائی گئی ۔ بالین وہیل کسی وجہ سے خو فزدہ ہ ہو تو چار پانچ سو میٹر گہرائی تک غوطہ لگا سکتی ہے ۔
وہیل کی جسامت چارتا سو فٹ اور وزن ایک سو پونڈ تا ڈیڑہ سو ٹن ہوتا ہے ۔ ایک مرتبہ 98 فٹ لمبی وہیل کو تولا گیا تو اس کا وزن ہاتھی کے وزن کے برابر  نکلا۔ اس کی دم ہوائی جہاز کی طرح ہوتی ہے  جس کا ایک سرا اوپر کی سمت اُٹھا ہوتا ہے۔ اس کی جلد شفاف اور چکنی اور منہ کے قریب مونچھوں کی طرح  لمبے لمبےبال ہوتے ہیں۔وہیل کے دانت یکساں اور ایک ہی قطار میں ہوتے ہیں ۔اکثر اسے شکار کو پکڑنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ اس کے لئے تیرے وقت بس اپنا بڑھا سا منہ کھلا رکھنا ہی کافی ہوتا ہے کیونکہ بے شمار مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور اپنے آپ اس کاچارہ بننے کے لیے چلے آتے ہیں ۔ اگر دنیا میں وزنی اور بڑی زبان کا مقابلہ کیا جائے  تو نیلی وہیل سرفہرست رہے گی کیونکہ اس کی زبان کا وزن 6 پونڈ کے لگ بھگ ہوتا ہے اور اس میں بے پناہ قوت ہوتی ہے ۔وہیل گینڈےکی طرح بلا کی پیٹو ہوتی ہے اور مسلسل کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہے ۔
وہیل کا منہ ہی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں بیس ،پچیس آدمی ایک ساتھ بڑی آسانی سے کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ مال گاڑی کا ایک ڈبہ وہیل کے منہ میں باآسانی رکھا جا سکتا ہے ۔ کلکتہ کے عجائب گھر میں وہیل کے گال کے دو کھوپڑے ہیں جو 25-30 ہا تھ لمبے ہیں ۔ وہیل کا جسم جتنا لمبا ہوتا ہے اس کا ایک تہائی منہ ہوتا ہے ۔
جسامت کے لحاظ سے وہیل کی ایک قسم جسے نیلی وہیل یا “بلو وہیل ” کہتے ہیں سب وہیلوں سے بڑی ہوتی ہے اس کی  لمبائی 100-125 فٹ تک ہوتی ہے اور وزن 150 ٹن تک ہوتا ہے ۔ عنبر کی اوسط لمبائی 70- 60 فٹ تک ہوتی ہے  اور اس کا وزن 90 ٹن تک دیکھنے میں آیا ہے ۔ نیلی وہیل کے مقابلے میں عنبر کی لمبائی اور وزن کم ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر بیل اور ڈاکٹر بینٹ نے ایک عنبر کی لمبائی 84 فٹ لکھی ہے ۔ ڈاکٹر بیل کے مطابق 36فٹ اور زمین پر لٹانے  کے بعد اس کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 12 سے 14 فٹ ہوتی ہے ۔ عنبر وہیل کے مشہور شکاری بلن نے اپنی مشہور کتاب (Cruise of the Cacgalot)میں لکھا ہے کہ ایک عبنر کی لمبائی جو اس کے مشاہدے میں آئی 70 فٹ تھی ۔ یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ پیدائش کے وقت عنبر کے بچے کی لمبائی تقریباً 13،14 فٹ اور وزن ایک ٹن سے کچھ زائد ہوتا ہے ۔ دو سال میں اس  کی لمبائی 24 فٹ اور وزن 4 ٹن تک ہو جاتا ہے ۔
اس کاحلق بہت فراخ اور وسیع ہوتا ہے  ،جس سے یہ ایک لحیم و شحیم انسان کو با آسانی نگل سکتی ہے  اور بعد میں خاص حالات میں اسے اگل کر باہر پھینک سکتی ہے ۔ اس کے خلق کے نیچے کئی جھریاں (Folds)بھی ہوتی ہیں اور جب اسے معمول سے زیادہ بڑی چیز نگلنا پڑ جائے تو ا س کا حلق جھریوں کے کھل جانے سے وسیع تر ہوسکتا ہے ۔ اور وہ ایک عام انسان کی جسامت سے بڑی اشیاء کو بھی باآسانی نگل سکتی ہے ۔
قرآن کی تین سورتوں میں حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے نگل لینے کا واقعہ آیا ہے ۔  بعض ماڈرن  حضرات  اس واقعہ کی اصلیت کو شک کی نظر دیکھتے ہیں کہ آخر اتنے دن تک آپ ؑ بغیر کھائے پئے چاروں طرف سے بند ایک اند ھیر ی کوٹھری میں زندہ کیسے رہے ؟بات یہ ہے کہ معجزات ہمیشہ محیر العقول ہوتے ہیں ،جن کو دیکھنے اور سننے والے حیران وششدر رہ جاتے ہیں ،ان کو معجزہ کہا ہی اسی لیے جاتا ہے۔ لیکن بحرحال یہ ایک حقیقت ہے اور زیر نظر واقعات ہم اسی حقیقت کے تناظر میں پیش کررہے ہی ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
دور نبوی ﷺ میں دیوقامت مچھلی کا وجود
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں :
حضور نبی کریم ﷺ نے ہم تین سو سواروں کو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کی قیادت میں کسی مہم  پر روانہ فرمایا۔ہم ساحلی علاقے کی سمت نکل گئے اور ہمارا  راشن ختم ہوگیا ۔غذائی کمی اتنی ہوگئی کہ ہم نے کانٹے دار جھاڑیاں بھی کھائیں ۔کیا دیکھتے ہیں کہ سمندر نے ایک بہت بڑی مچھلی ساحل پر پھینک دی  ہے ۔ہم نے اس مچھلی کو آدھ مہینہ کھایا ۔پھر ابو عبیدہ ؓ نے ایک دن اس مچھلی کی پسلی لی اور اس کو کھڑا کیا ، ایک اونٹ پر سوار آدمی آرام سے اس پسلی کے نیچے سے گذر گیا ۔مدینہ واپس آکر ہم نے اس مچھلی کا کچھ گوشت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں روانہ کیا اور انہوں نے اسے قبول فرمایا۔
اس مچھلی کو عنبر کا نام دیا گیا ۔اب کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ دواؤں میں استعمال ہونے والا عنبر یا عبنر اشہب اسی مچھلی کا فضلہ ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے عنبر کا سراغ نبی ﷺ نے عطا فرمایا ۔ تین سو فاقہ ذدہ سواروں نے اس مچھلی کو صبح وشام 15 دن تک کھایا ۔جب مدینہ آئے تو ان کے تھیلوں میں ابھی بھی اس کا گوشت کا موجود تھا ۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اس میں سے نوش فرمایا کیونکہ سمندر کا شکار حلا ل ہے ۔ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مچھلی وہیل تھی۔
مچھلی کے پیٹ میں جانے کے جدید واقعات
جناب انتظام اللہ شہابی کی کتاب ’’جغرافیہ قرآن‘‘ (مطبوعہ انجمن ترقی ٔاردو، پاکستان) میں حضرت یونس علیہ السلام بن متی کو حضرت یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بن یامین کا سبط (نواسہ) لکھا ہے۔ اسی کتاب میں ’’مسلم راج پوت گزٹ‘‘ 1928ء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈاکٹر امروز جان ولسن، فیلو، کوئنز کالج آکسفورڈ(Dr. Imroz John Wilson, Fellow, Queen’s College Oxford)نے حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے بارے میں ایک مقالہ تھیولوجیکل ریویو میں تحریر کیا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں سانس لینے کے لئے کافی آکسیجن ہوتی ہے۔ اس کے پیٹ کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے جو انسان کے لئے بخار کا درجہ ہے1890ء میں ایک جہاز فاک لینڈ (Falkland) کے قریب وہیل مچھلی کا شکار کر رہا تھا کہ اس کا ایک شکاری جیمس سمندر میں گر پڑا اور وہیل مچھلی نے اسے نگل لیا۔ بڑی کوشش سے دو روز بعد یہ مچھلی پکڑلی گئی۔ اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ نکلا، البتہ اس کا جسم مچھلی کی اندرونی تپش کی وجہ سے سفید ہوگیا تھا۔ چودہ دن کے علاج کے بعد بالآخر وہ صحت یاب ہوگیا۔
1958ء ’’ستارۂ مشرق‘‘ نامی جہاز فاک لینڈ میں وہیل مچھلیوں کا شکار کررہا تھا اس کا ’’بار کلے‘‘ نامی ملاح سمندر میں گرا، جسے ایک مچھلی نے نگل لیا۔ اتفاق سے وہ مچھلی پکڑی گئی۔ پورا عملہ اسے کلہاڑیوں سے کاٹنے لگا۔ دوسرے دن بھی یہ کام جاری تھا کہ مردہ مچھلی کے پیٹ میں حرکت محسوس ہوئی۔ انہوں نے سمجھا کہ کوئی زندہ مچھلی نگلی ہوئی ہوگی۔ پیٹ چیرا تو اس میں سے ان کا ساتھی بارکلے نکلا جو تیل اور چربی میں لتھڑا ہوا تھا۔ بے ہوش بارکلے دو ہفتوں کے علاج سے ہوش میں آیا اور پھر صحت مند ہوگیا۔ اس نے اپنی بپتا سنائی ’’جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں ایک شدید سرسراہٹ محسوس کی جو ایک وہیل مچھلی کی دم سے پیدا ہورہی تھی۔ میں بے اختیار اس کی طرف کھنچا جارہا تھا۔ اچانک مجھے ایک تہ بہ تہ تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب میں نے اپنے آپ کو ایک نرم مگر تنگ راستے سے گزرتا ہوا محسوس کیا، یہاں حد درجہ پھسلن تھی۔
کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ میں ایک وسیع تر جگہ میں ہوں۔ اردگرد نرم، گداز اور چکنی دیواریں کھڑی تھیں، جنہیں ہاتھ سے چھوا۔ اب حقیقت کھلی کہ میں وہیل کے پیٹ میں ہوں۔میں نے خوف کی جگہ اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کی۔ موت کو لبیک کہنے کو تیار ہونے لگا۔یہاں روشنی بالکل نہ تھی البتہ سانس لے سکتا تھا۔ سانس لینے پر ہر بار ایک عجیب سی حرارت میرے اندر دوڑ جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگا۔ میری بیماری ماحول کی خاموشی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ اب جو میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو جہاز کے کپتان کے کمرے میں پایا۔ بارکلے کو ہسپتال میں داخل کردیا گیا جہاں وہ مکمل صحت یاب ہوگیا۔
یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو علم اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ کئی نامہ نگاروں نے انٹرویو لیا۔ ایک مشہور سائنسی جرنل کے ایڈیٹر مسٹر ایم ڈی پاول نے تحقیقِ احوال کے بعد واقعہ کی تصدیق کی اور لکھا ’’اس حقیقت کے منکشف ہوجانے پر میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، وہ حرف بہ حرف صحیح ہے اور اس میں شک کرنا ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانے کے برابر ہے۔(ماہنامہ ’’الحرم‘‘ میرٹھ (جنوری1959ء) ماخوذ از ’’دیواریں اور غاریں‘‘ از حافظ نذر احمد)
   1992 ء میں آسٹریلیا کا 49 سالہ ماہی گیر ٹورانسے کائس وہیل مچھلی کے پیٹ میں 8 گھنٹے رہنے کے بعد معجزانہ طور پر بچ گیا ۔وہ بحرہند میں ایک چھوٹے ٹرالر پر مچھلیا ں پکڑ رہا تھا کہ سمندر کی ایک بڑی لہر اس کے ٹرالر کو بہا لے گئی ۔ وہ کئی گھنٹوں تک بے رحم لہروں کے چنگل سے آزاد ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ،لیکن ساحل تک نہ پہنچ سکا ۔ دن کی روشنی تاریکی میں بدل گئی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اسے روشنی کی کرن دیکھنا کبھی نصیب نہیں ہوگی ۔ اسی اثنا ء میں اس نے خو د کو ایک بھنور میں گرفتار پایا ۔ اسے ایسا لگا جیسے دوتین شارک مچھلیاں اس کی طرف بڑھ رہی ہوں لیکن جلد ہی اسے معلوم ہوگیا کہ وہ ایک بہت بڑی وہیل مچھلی کی زد میں ہے جو منہ کھولے اس کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ وہیل نے جلد ہی اسے اپنے منہ میں دبا لیا لیکن یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ جبڑوں میں ہی چمٹا رہا ،مچھلی کے مضبو ط جبڑے اسے معدے میں پہنچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ برابر اس کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے تھا اور یہی وجہ تھی کہ اسے آکسیجن مل رہی تھی اور وہ ابھی تک زندہ تھا۔ مچھلی کے پیٹ میں 8 گھنٹے گزرے تھے کہ ٹور انسے نے خود کو آسٹریلیا میں آگسا کے ساحل پر پایا ۔ دراصل مچھلی نے اسے نگلنے میں ناکامی پر اُگل دیا اور اس طرح اسے دوبارہ زندگی مل گئی ۔(مقامات انبیاء  کا تصویری البم۔ از مولانا ارسلان بن اختر میمن۔ ص260-267)

Thursday 3 July 2014

زندگی بس اتنی ہے۔

 
 
آج یہاں پانچواں روزہ تھا۔ دوپہر کا وقت اور درجہ حرارت تقریباٰ 47 سے 50 کے درمیان ہوگا۔ ایسے میں جب کوئی مجھےیہ پوچھتا ہے کہ کیسا رہا روزہ تو میں مسکراتے ہوئے کہتا ہوں الحمد اللہ بہت اچھا رہا، لیکن مجھے پوچھنے کا کیا فائدہ میں تو اے سی میں آرام سے بیٹھ کر سارا وقت گزارتا ہوں۔ پوچھو ان بے چاروں سے جو اس خطہ عرب کی سلگھانے والے گرمی اور تپش سے بھرپور دوپہروں میں باہر کام کرتےہیں ، چند ہی گھنٹوں میں ہم جیسوں کو زبانیں لٹک جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کمال ہیں وہ لوگ اور کیسی رحمت ہے اللہ پاک کی جس نے ان کو ہمت عطاء کی اور وہ روزے رکھ کر پھر بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔
ایسے ہی دوپہر میں نماز ظہر کے لیئے میں نے جا کر وضو کیا اور جب اٹھ کر مسجد کے دروازے پر پہنچا تو کچھ لوگ پہلے سے باہر کھڑے تھے ، معلوم ہوا کہ مسجد میں جگہ نہیں ہے (کیوں کہ ہماری مسجد ایک کاروان میں بنائی ہوئی ہے) سو ہم انتظار کرنے لگے،
 
دوران انتظار میں سر جھکا کر زمیں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ ایک پانی کا قطرہ میرے ماتھے سے زمین پر ٹپکا، میری نظر پہلے ہی زمین پر تھی۔
جیسے ہی قطرہ فرش پر گرا فوری طور پر جذب ہو گیا، پھر ساتھ ہی ساتھ میری نظر کے سامنے وہ معدوم ہوتا چلا گیا اور صرف چند سیکنڈز میں ، وہاں پانی کے قطرے کا نام و نشان نا تھا۔
 
میرے دل میں خیال آیا کہ
 
ہماری زندگی بھی بس اتنی ہے
 
 
ہم ایک قطرے سے وجود میں آئے اور اس دنیا کے تپتے فرش پر گرئے، ابھی اپنا وجود اور اپنے مقصد کو سمجھئے بھی نا تھے کہ وقت کی تیز دھوپ نے اپنا اثر دیکھا دیا،
مٹی کا وجود مٹی ہو گیا، چاہنے والوں نے کچھ نشان قبر کی شکل میں بنانے کی کوشش کی، ایک نامکمل اور ناممکن خواہش کی کہ شاید ہمارا نام و نشان رہ جائے لیکن پھر وقت کے بے رحم جھونکوں نے سب کچھ پلٹ کر رکھ دیا، مٹی رہی نا راکھ رہی نا ہڈیاں اور نا ہی کوئی نشان۔
 
سو زندگی بس اتنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک قطرے کی مانند ماتھے سے گرا زمین میں جذب ہو گیا اور پھر بے نشان ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
از راشد ادریس رانا: زندگی
03-07-2014

Sunday 29 June 2014

مصر کے آثار قدیمہ میں ابوالہول

مصر کے آثار قدیمہ میں ابوالہول (Sphinx) بہت مشہور اور قدیم ہے۔
ابوالہول عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’خوف کا باپ‘‘ ہیں۔ جیزہ (قاہرہ) کے عظیم الجثہ بت کا عربی نام، جس کا دھڑ شیر کا اور سر آدمی کا ہے۔ ابوالہول نام فاطمی دور میں رائج ہوا۔ اس سے قبل اس کا قبطی نام ’’بلہیت‘‘ مشہور تھا۔ عہد قدیم میں لفظ ’’ابوالہول‘‘ کا اطلاق اس مجسمے کے سر پر ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے میں اس کا پورا دھڑ ریت میں دبا ہوا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ بہ بت ایک طلسم ہے جو وادی نیل کی حفاظت کرتا ہے۔
قدیم مصری دیو مالا میں اس قسم کے مجسمے فراعنہ کی الوہیت کی علامت سمجھے جاتے تھے اور بعض مجسموں میں مینڈھے یا عقاب کا سر بھی بنایا جاتا تھا۔ جیزہ کا ابوالہول (سفنکس) ایک ہی چٹان سے تراش کر بنایا گیا تھا جو خفرع کے ہرم کے نزدیک ہے۔ ابوالہول کا تصور دراصل یونانیوں نے مصر کے علم الاصنام یا دیو مالا سے مستعار لیا۔ یونانیوں کے نزدیک ابوالہول ایک پردار مادہ ببر شیر تھا جس کا چہرہ نسوانی تھا۔ یونانیوں کا کہنا تھا کہ ابوالہول یونان کے شہر ییوٹیا کی ایک اونچی پہاڑی پر رہا کرتی تھی۔
جو لوگ بھی اس کے سامنے سے گزرتے وہ انہیں ایک معمہ حل کرنے کو دیتی۔ جو اس کا صحیح حل نہ بتا سکتا اس کو ہڑپ کر جاتی۔ بالآخر ایک تھبیس ہیرو اوڈی پس نے اس معمہ کا صحیح حل پیش کیا اور یوں اس کی موت کا سبب بنا۔ معمہ یہ تھا کہ وہ کون ہے جو صبح کو چار ٹانگوں پر چلتا ہے۔ دوپہر کو دو ٹانگوں پر اور شام کو تین ٹانگوں پر۔ جو بھی اس معمہ کا حل نہ بوجھ سکتا اسے عفریت ہلاک کر ڈالتا۔ آخر اوڈی پس نے یہ معمہ حل کر لیا۔ اس پر سفنکس نے چٹان سے گر کر خودکشی کر لی اور اوڈی تھیبس شہر کا بادشاہ بن گیا۔
ابوالہول کی لمبائی 189 فٹ اور اونچائی 65 فٹ کے قریب ہے۔ دور سے دیکھیں تو پہاڑ سا نظر آتا ہے۔ یہ مجسمہ تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ ایک بڑی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا۔ اس کی انسانی شکل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فرعون (Khafre) کی شبیہہ ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی شبیہہ (Khafre) کے بجائے اس کے بھائی (Rededef) سے ملتی جلتی ہے۔ یہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے 60 میل دور جیزہ (غزہ) کے ریگستان میں موجود چونے کے پتھر (Lime Stone) کی پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ جب یہ مجسمہ تیار ہوا ہوگا تو بہت ہی حسین نظر آتا ہوگا کیونکہ اس میں جا بجا رنگ استعمال کیے گئے۔
ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس کی شکل میں یہ رنگ نظر آتے ہیں۔ اس کے سر پر اب بھی فرعون کے روایتی رومال اور اس کے درمیان پیشانی پر ناگ کی شبیہہ صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ ناگ کی اس شبیہہ کو قدیم مصری (Wadjet) کہتے ہیں اور سر کے رومال کو اپنے دیوتا (Horus) کے پھیلے ہوئے دونوں پروں سے تشبیہہ دیتے تھے۔ اس مجسمہ کی ناک اور داڑھی بھی ٹوٹی نظر آتی ہے۔
ان دونوں چیزوں کے ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ 820ء میں خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے عبداللہ مامون نے اہرام اعظم کے اندرونی حصے کی مکمل معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے کچھ ماہرین تعمیرات کے ساتھ مصر میں قدم رکھا۔ کافی عرصے تک جان توڑ کوشش کے باوجود بھی جب مسلمانوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی تو غصے میں انہوں نے ابوالہول کے مجسمے کی ناک اور داڑھی کو توڑ ڈالا۔ یہ ٹوٹی ہوئی ناک قاہرہ کے عجائب گھر اور داڑھی برطانیہ کے مشہور زمانہ برٹش میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔
ابوالہول کے اگلے دونوں پنجوں کے درمیان سنگ خارا (Granite) کا ایک کتبہ موجود ہے جس کے مطابق فرعون (Tothmusis iv) جس نے 1420 قبل مسیح تک حکومت کی تھی۔ اس کی جوانی کا ایک واقعہ درج ہے کہ ابوالہول کے سامنے ریگستان میں شکار کھیلتے ہوئے ایک بار وہ تھکن سے چور ہوکر اس مجسمے کے سائے میں سو گیا۔ اس زمانے میں یہ مجسمہ ریگستان کی ریت میں کندھے تک دھنس چکا تھا اور اگر کچھ عرصہ اور اسی طرح رہتا تو شاید یہ مکمل طور پر ریت میں دھنس جاتا۔
قدیم مصریوں کے مطابق ابوالہول ان کے سورج دیوتا ’’راحوراختے‘‘ (Rahor-Akhte) کا دنیاوی ظہور تھا۔ یہ دیوتا سوئے ہوئے شہزادے کے خواب میں آیا اور اسے مخاطب کرکے یہ ہدایت دی کہ اگر شہزادہ اسے ریت کے اندر سے پوری طرح باہر نکال دے تو جلد ہی شہزادہ تاج و تخت کا مالک ہوجائے گا۔ نیند سے بیدار ہوتے ہی شہزادے نے ایسا ہی کیا اور واقعی کچھ عرصے کے بعد وہ مصر کا شہنشاہ بن گیا۔ اسی واقعہ کی یاد میں اس فرعون نے یہ کتبہ ابوالہول کے اگلے دونوں پنجوں میں نصب کرایا۔
ابوالہول کے مجسمہ کی عمر کے بارے میں آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ فرعون خوفو کا درد تقریباً 2600 ق م تھا۔اس سے بھی پہلے یعنی تقریباً 3100 ق م فرعون مینیس (Menes) کا زمانہ تھا۔ اس قدیم دور سے بھی پہلے موجود عراق (سمیری Sumer) کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیب انتہائی عروج پر پہنچی ہوئی قوم سمیرین (Sumeren) اپنی بہت ساری دستاویزات میں اہرام اور ابوالہول کی موجودگی کی شہادتیں چھوڑ گئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی شہادتیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابوالہول انسانی تعمیرات کا ایک انتہائی قدیم شاہکار ہے اور اس کی عمر کے بارے میں کوئی آخری رائے قائم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ کب، کس نے اور کیوں بنایا؟
سورج دیوتا کی حیثیت سے اس کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ امتداد زمانہ سے اس کی صورت کافی بگڑگئی ہے اور اس کا وہ ’’پروقار تبسم‘‘ جس کا ذکر قدیم سیاحوں نے کیا ہے ناپید ہو چکا ہے۔ اب یہ ایک ہیبت ناک منظر پیش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے عربوں نے اس کا نام ’’ابوالہول‘‘ (خوف کا باپ) رکھ دیا ہے۔ حکومت مصر نے یہاں سیاحوں کے لیے موسیقی اور روشنی کے شو کا انتظام کیا ہے۔ صحرا کی بے پناہ پہنائی میں ابوالہول کی پرہیبت آواز ماضی کے مزاروں میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔

Thursday 19 June 2014

ڈائــــــــــن: ہمارے موجودہ حالات سے ملتی جلتی منتخب تحریر

ڈائن
تحریر: پیغام آفاقی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
 
میں نے اس مریض پر ہر ممکن دوا استعمال کر چکا تھا لیکن کسی دوا نے کام نہیں کیا۔ البتہ دوائیں دیتے دیتے میں اپنی گفتگو اور ہمدردی کی وجہ سے اس عرصہ میں اس مریض کے دل کے قریب ضرور ہو گیا تھا۔ اور آخر میں اچانک یہی بات مریض پر اثر کر گئی۔
، وہ لوگ فوج کے تھے، پولیس کے تھے یا قوم پرستوں کا کا کوئی دستہ تھا ؟ میں نے اس سے پوچھا۔
مریض کی گفتگو سے مجھے اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ مریض خاموشی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
میں جانتا ہوں کی تم کو کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ میں نے تم کو ہر طرح کی دوا دے کر دیکھ لیا۔ لیکن تم ٹھیک نہیں ہو رہے ہو۔ میں پریشان ہو رہا ہوں۔ اب میرا اپنے آپ پر سے، اپنی صلاحیتوں پر سے بھروسہ اٹھ رہا ہے۔ اور اس کی وجہ تم ہو۔ تم مجھے بتاؤ کہ آخر ہوا کیا تھا۔ میں صرف تم کو ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ میں ڈاکٹر ہوں۔ اور صرف ڈاکٹر ہوں۔ میں انٹیلیجنس کا کوئی آدمی نہیں ہوں۔ میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔
اور پھر وہ ادھیڑ عمر کبڑے جیسا آدمی اچانک اتنی سلجھی ہوئی باتیں کرنے لگا کہ مجھے حیرت ہوئی۔
مریض اب اس منظر کو بیان کر رہا تھا جس کی پرچھائیں میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ اس نے اس علاقے کا نام بتایا۔
چلو آگے کی باتیں بتاؤ۔ جگہ تو کوئی بھی ہو سکتی ہے۔
میرا گھر وہیں ایک چوڑی سڑک سے منسلک گھنی آبادیوں کے بیچ تھا۔ اس دن میں ایک دوسرے شہر اپنی دکان کے لئے کچھ مال خریدنے گیا ہوا تھا۔ کچھ دنوں سے میں بیمار بھی تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے مری طبیعت بہت ملول سی ہو رہی تھی پھر بھی مجبوراً جانا پڑا تھا۔ دن دو پہر سے کچھ پہلے اچانک تین چار بکتر بند گاڑیاں اور ایک ٹرک آکر میرے گھر کے سامنے رکے۔ گاڑیوں کے رکنے کا منظر دیکھتے ہی چاروں طرف سنسنی پھیل گئی، ایک سناٹا سا چھاگیا اور فضا میں موت کی آواز سنائی دینے لگی کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ جب ایسی گاڑیاں آتی تھیں تو کیا ہوتا تھا۔ لوگ چھتوں اور کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھنے لگے۔
گاڑیوں سے کچھ لوگ اترے اور سیدھے میرے گھر کے دروازے پر پہنچے اور دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ میرے گھر کے کسی فرد نے دروازہ کھولا تو وہ لوگ گھر کے اندر گھس آئے۔
پھر ایک ایک کر کے سب کو گھر سے باہر نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بڑے بوڑھے سب کو باہر نکالا گیا۔ عورتیں دروازے تک آئیں تو ایک شخص نے جو گاڑی میں ہی بیٹھا تھا ان کو بھی بلاکر قطار میں کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ چند لمحوں بعد دو تین نوجوان گھر کے تین چار چھوٹی عمر کے بچوں کو لے کر باہر آئے جس میں میرا ڈیڑھ سال کا وہ بیٹا بھی تھاجس نے ابھی چند ہے روز پہلے اپنے قدموں ہر ہلتے ڈولتے چلنا سیکھا تھا۔انہوں نے بچوں کو لے کر آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے شخص کے حکم کے لئے اس کی طرف دیکھا۔
ہاں، ہاں، انہیں بھی لاؤ۔ اس شخص نے نظر پڑتے ہی حکم دیا۔
ایک اشارے پر گھر کی دیوار کے پاس سب کو کھڑا کر دیا گیا۔
اور دوسرے ہی لمحے گولیوں کی بوچھار سے سب کو ڈھیر کر دیا گیا۔
گاڑی میں آئے لوگ گاڑیوں میں بیٹھ کر چلے گئے۔
 
میں اسٹیشن سے اترا ہی تھا کہ اپنے محلے میں ہوئے اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بارے میں سنا۔ مجھے اپنے بھتیجے کی کارستانیوں کا خیال آیا اور دل میں خوف بھی پیدا ہو ا کہ ہو نہ ہو یہ میرے کنبے کے بارے میں نہ ہو۔ باہر نکلا تو تیز ہواؤں کے جھکڑ سے دھول سی اڑ رہی تھی۔ کو ئی رکشا دکھائی نہیں دیا تو پیدل ہی تیز تیز چل پڑا۔ راستے میں یہ دیکھ کر میں اور بدحواس ہوا کہ وہی گاڑیاں کھڑی تھیں اور وہ سب کچھ کھا پی رہے تھے۔ ان میں ایک نے مجھے پہچان لیا اور وہ مجھے پکڑ کر لے گئے۔ گاڑی میں آگے بیٹھے آدمی سے پوچھا گیا کہ مجھے گاڑی میں ڈال لیا جائے کیونکہ وہاں دور تک کافی لوگ تھے اور سب کے سامنے مجھے ختم کرنا شاید انہیں مناسب نہیں لگا۔ لیکن اس آدمی نے ہنستے ہوئے کچھ سوچ کر کہا۔
نہیں اسے چھوڑ دو۔ بچ گیا تا بچ گیا۔ یہ کہانیاں ڈھوئے گا۔
گھر پہنچ کر میں نے جو منظر دیکھا اس سے میرے ہوش اڑ گئے تھے اور میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ میرے گھر کے سامنے پڑی میرے گھر والوں کی لاشوں پر محلے والوں نے چادریں ڈال دی تھیں۔ میں دوڑا قریب پہنچا۔ ایک چھوٹی سی ہلکی چادر میری نونہال بیٹے کے اوپر بھی پڑی تھی۔ ہوا کے چلنے سے اس کے اوپر کی چادر ایسے ہلی کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ زندہ ہے۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس کی چادر ہٹائی تو جو دیکھا وہی میرے حافظے پر اب تک نقش ہے۔ اس کے جسم پر پیشانی، منھ، سینے اور ہاتھ پر گولیاں لگی تھیں۔ لوگوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں کئی دنوں تک بے ہوش رہا تھا۔ اب میرے گھر کے افراد میں صرف ایک شخص زندہ بچ گیا تھا اور وہ تھا میرا بھتیجہ جو دہشت گردوں کے گروہ میں شامل تھا۔ اور گھر نہیں آتا تھا۔
لیکن انہیں تمہارے گھر کے اور لوگوں کو نہیں مارنا چاہئے تھا۔ میں نے ہمدردی کے لہجے میں کہا۔
جی ہاں۔ لیکن میں پوری بات بتاتا ہوں۔
اس نے سنجیدگی سے بتانا شروع کیا۔ واقعہ یہ تھا کہ اس بار دہشت گردوں کے ایک گروہ نے پولیس کالونی میں گھس کر گولیاں چلائی تھیں۔پولیس کالونی کی اس فائرنگ میں جو لوگ مرے تھے ان کی تصویریں بہت دلدوز تھیں۔ محکمہ پولیس میں کام کرنے والوں کے اہل کنبہ کو اس طرح سے گولیوں سے بھون ڈالنا۔ انتہائی درندگی تھی۔ نہیں۔ میں غلط کہ گیا۔ انتہائی انسانیت تھی۔ نہیں میں غلط کہ گیا۔ معاف کرنا ڈاکٹر مجھے لفظ نہیں مل رہا ہے۔ لیکن میں لفظ کی تلاش میں ہوں اور میں ضرور ڈھونڈ لوں گا۔ میں تب آپ کو بتاؤں گا۔
جی ہاں۔ میرا بھتیجہ بھی ان میں شامل تھا۔
ہاں ڈاکٹر وہ لفظ مل گیا۔ انتہائی درجہ کی حب الوطنی تھی۔ نہیں، وہ جو پولیس والوں کے گھر کے افراد کو مارا تھا وہ حب الوطنی نہیں تھی۔ وہ جو میرے گھر والوں کو مارا تھا وہ حب الوطنی تھی۔ دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہونے کے بعد میرا بھتیجہ کبھی گھر نہیں آیا۔ گھر والے اس کی وجہ سے پہلے سے ہی خوفزدہ تھے اور ہم سب کو پہلے سے ہی اس کا اندیشہ تھا کیونکہ اب ہر طرف ایسا ہی سننے کو مل رہا تھا۔ پولس کئی بار ہمارے گھر پر چھاپہ مار چکی تھی۔پولس ایک بار مجھے بھی لے گئی تھی۔ لیکن تب وہ دہشت گردی کے شروع کے دن تھے اور لڑائی دہشت گردوں اور پولیس و فوج کے درمیان ہوتی تھی۔
اس کے بعد پولیس کی گاڑیوں اور ٹھکانوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ اور اس کے بعد پولس والوں کی سرکاری رہائش گاہوں پر حملے ہونے لگے۔
اور اس طرح ہوا گرم تر ہونے لگی۔
اب کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اتنی پیچیدہ لڑائیوں کا حل کیا ہوسکتا تھا۔ لوگ یہی سوچتے تھے کہ اگر وہ خود پولیس یا فوج میں ہوتے یا سرکار چلا رہے ہوتے تو کیا کرتے۔
یہ جنگ سنگین اور پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔ ہوا تیز ہوتے ہوتے بگولوں کی شکل لینے لگی۔ اور ان بگولوں کے رقص میں ایک دن قانون کا دوپٹہ ایک جھونکے سے اڑ کر گرد و غبار میں تہس نہس ہو گیا۔
ہوا اتنی تیز ہوئی کہ یہ پہچاننا مشکل ہو گیا کی سڑک یا گلی میں چلتا ہوا کون سا شخص دہشت گر دتنظیموں سے وابستہ ہے اور کون پولیس کا آدمی ہے۔ کہ جا بجا دہشت گرد پولیس کے یونیفارم میں اور پولس کے لوگ دہشت گردوں کے حلیوں میں گھوم رہے تھے۔
 
میرے خاندان کے ساتھ ہوئے اس سانحہ کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ پولیس کی انتقامی کاروائی تھی۔ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ دہشت گرد ہی تھے جنہوں نے پولیس کے خلاف عوام میں نفرت اور غصہ پیدا کرنے کے لئے یہ حرکت کی تھی۔
سچ پوچھئے تو کافی دنوں تک میں تذبذب میں تھا۔
میں اپنی اسی ذہنی حالت میں ایک دن بھٹکتا بھٹکتا اپنے اس گھر کو دیکھنے چلا گیا تھا جو اب کھنڈر سا ویران ہو گیا تھا۔ میں وہاں دالان میں لکڑی کے تخت پر اپنے گھٹنوں پر سر ٹیکے اپنے پیاروں کو یاد کر رہا تھا کہ میرے دو تین پڑوسی آئے اور انہوں نے مجھے تنبیہ کی کہ میں فورا وہاں سے غائب ہو جاؤں۔ انہوں نے بہت اداس لہجے میں مجھے بتایا کہ پولیس مجھے ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ
چونکہ میرے اندر انتقام کا زہر بھرا ہوا ہے اس لئے میں حقیقتاً ایک خطرناک دہشت گرد بن گیا ہوں۔
 
 
جب واقعہ تازہ تھا تب مجھے اتنی تکلیف نہیں تھی جتنی اب اس واقعے کے زہر بن جانے کی وجہ سے ہے۔ وہاں تو سب کچھ برابر ہو گیا لیکن یہاں سب کچھ باقی ہے۔وہ قہر کا دن میری زندگی کے لمحوں میں تحلیل ہو گیا۔
ڈاکٹر، مجھے چلتے، پھرتے، بیٹھتے ایسا لگتا ہے کہ میرے پاؤں کے نیچے زمین نہیں ہے۔
میں ڈر جاتا ہوں۔
میں نے کئی بار خواب میں دیکھا ہے کہ جیسے زمین اچانک قہقہہ لگا کر مجھے نگل جانا چاہتی ہے۔لیکن
میں ہوا میں پرواز کر کے بچ جاتا ہوں۔
کئی بار تو جب میں اڑتے اڑتے تھک گیا تو مجھے کسی پرندے نے بچالیا۔
ایک بار میں بادلوں پر جا بیٹھا۔
میں نے محسوس کیا کہ مریض پھر بے قابو ہو رہا تھا۔
ڈاکٹر مجھے بار بار لگتا ہے کہ میری زمین مجھے پکڑ کر نیچے کھینچ رہی ہے اور مجھے جان سے مار دے گی۔
مریض پھر ہوش میں آنے لگا تھا۔
اس پورے عرصے میں میں ٹھیک سے سو نہیں پایا ہوں۔ میں سوؤں کہاں ؟ زمین مجھے سوتے میں نگل لے گی۔ جھٹکے سے۔ اچانک۔ میں جانتا ہوں کہ وہ نگل لے گی۔ وہ میری جان کی بھوکی ہے۔ ڈاکٹر، تم کو پتہ ہے۔ ڈائنیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی جان لیتی ہیں۔
میں شاید پاگل نہیں ہوں بلکہ نیند نہیں آنے کی وجہ سے میری یہ حالت ہو گئی ہے۔ تم کیسے میرا علاج کر پاؤ گے۔
اس نے مجھ سے ایسے بات کی جیسے وہ پوری طرح ہوش میں ہو لیکن پھر فورا ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے اور وہ اس طرح بات کرنے لگا جیسے وہ ہوش و حواس میں نہیں ہو۔ وہ رک رک کر وقفوں کے بعد مجھ سے تخاطب کے انداز میں ہی کہتا رہا۔
ایک دن میں نے اڑتے ہوئے اچانک دیکھا کہ میری ماں کا منھ کھلا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میری طرف بڑھ رہے ہیں۔ میں نے ہمت کر کے سیدھے اس کے منھ کے اندر پرواز کی اور اس کی زبان سے بچتا ہوا اس کے حلق کے راستے اس کے پیٹ میں گھس گیا۔ وہاں دیکھا میرے گھر والوں کے علاوہ اور بھی ہزاروں نوجوانوں اور بچوں کی ہڈیاں سڑ رہی تھیں۔ میں پھڑ پھڑا کر باہر اتنی سرعت سے نکلا کہ اوپر بادلوں پر جا بیٹھا۔
نیچے سے میری ماں مجھے بلا رہی تھی۔ لیکن میں نیچے نہیں اترا۔ تب سے یہیں بیٹھا ہوں۔
پھر وہ اچانک کانپنے لگا جیسے موت کے قریب آنے پر کچھ مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
دیکھو۔
اب وہ گھڑیال جیسا منھ کھولے بادلوں تک پہنچ رہی ہے۔
مجھے یہاں سے بھی بھاگنا پڑے گا۔
ڈاکٹر۔ اب میں اڑوں گا۔
اور یہ کہنے کے بعدبستر پر بیٹھے بیٹھے اس کے دونوں بازو بالکل چڑیا کے ڈینوں کی طرح تیز تیز حرکت کرنے لگے جیسے وہ پرواز کر رہا ہو۔
یہ اس سے میری آخری گفتگو تھی۔
 
-------------------------------------------------------------------------
ایسا نہیں لگتا جیسے یہ کہانی ہر روز ہمارے اردگرد دہرائی جاتی ہے، اور ہم ایسے ہی مناظر روزانہ دیکھتے ہیں۔