Saturday 30 July 2011

کاغذ کی کشتی:::::::بچپن

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

محلے کی سب سے پرانی نشانی

وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جہریوں میں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی

کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا

وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گھڑیا کی شادی میں لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کہ سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی

کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا

گھروندے بنانا بنا کہ مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی

رہنما::::شکریہ سعد کا بلاگ

پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک تاریک اور بے ستارہ رات کو ایک الو کسی شاخ پر گم سم بیٹھا تھا۔ اتنے میں دو خرگوش ادھر سے گزرے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ اس درخت کے پاس سے چپ چاپ گزر جائیں لیکن جونہی وہ آگے بڑھے الو پکارا:

“ذرا ٹھہرو۔۔۔۔” اس نے انہیں دیکھ لیا تھا۔

“کون؟” خرگوش مصنوعی حیرت سے چونکتے ہوئے بولے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنی گہری تاریکی میں بھی کوئی انہیں دیکھ رہا ہے۔

“خرگوش بھائیو۔۔۔ ذرا بات سنو۔۔۔” الو نے انہیں پھر کہا، لیکن خرگوش بڑی تیزی کے ساتھ بھاگ نکلے اور دوسرے پرندوں اور جانوروں کو خبر دی کہ الو سب سے مدبر اور دانا ہے کیونکہ وہ اندھیرے میں دیکھ سکتا ہے۔

لومڑی نے کہا کہ ذرا مجھے اس بات کی تصدیق کر لینے دو، چنانچہ وہ اگلی شب اس درخت کے پاس پہنچی اور الو سے مخاطب ہو کہ کہنے لگی: “بتاؤ میں نے اس وقت کتنے پنجے اٹھا رکھے ہیں؟”

الو نے فوراً کہا: “دو”

اور جواب درست تھا۔

“اچھا یہ بتاؤ یعنی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟” لومڑی نے دریافت کیا۔

“یعنی کا مطلب مثال دینا ہوتا ہے۔”

لومڑی بھاگم بھاگ واپس آئی۔ اس نے جانوروں اور پرندوں کو اکٹھا کیا اور گواہی دی کہ الو سب سے مدبر اور سب سے دانا ہے، کیونکہ وہ اندھیرے میں دیکھ سکتا ہے اور پیچیدہ سوالوں کے جواب دے سکتا ہے۔

“کیا وہ دن کی روشنی میں بھی دیکھ سکتا ہے؟” ایک بوڑھے بگلے نے پوچھا۔ یہی سوال ایک جنگلی بلے نے بھی کیا۔

سب جانور چیخ اٹھے کہ دونوں کا سوال احمقانہ ہے۔ پھر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ جنگلی بلے اور بوڑھے بگلے کو جنگل بدر کر دیا گیا اور متفقہ طور پر الو کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سب کا سربراہ اور رہنما بن جائے۔ وہی سب سے ذہین و دانا اور مدبر ہے اور اسی کو ان کی رہبری اور رہنمائی کا حق ہے۔

الو نے یہ عرضداشت فوراً قبول کر لی۔ جب وہ پرندوں اور جانوروں کے پاس پہنچا، دوپہر تپ رہی تھی، سورج کی تیز روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور الو کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا تھا جس سے اس کی چال اور شخصیت میں وہ وقار اور رعب داب پیدا ہو گیا جو بڑی شخصیتوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی گول گول آنکھیں کھول کھول کر اپنے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کرتا۔ جانور اور پرندے اس اندازِ نظر سے اور بھی متاثر ہوئے۔

“یہ ہمارا رہنما ہی نہیں، سب کا رہنما ہے۔ یہ تو دیوتا ہے۔۔۔۔ دیوتا۔۔۔۔ دیوتا۔۔۔۔” ایک موٹی مرغابی نے زور سے کہا۔ دوسرے پرندوں اور جانوروں نے بھی اس کی تقلید کی اور زور زور سے رہنما دیوتا۔۔۔۔ کے نعرے لگانے لگے۔

اب الو ۔۔۔ یعنی ان سب کا رہنما آگے آگے اور وہ سب بے سوچےاندھا دھند اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ روشنی کی وجہ سے اسے نظر تو کچھ نہ آتا تھا۔ چلتے چلتے وہ پتھروں اور درختوں کے تنوں سے ٹکرایا۔ باقی سب کا بھی یہی حال ہوا۔ اس طرح وہ ٹکراتے اور گرتے پڑتے جنگل سے باہر بڑی سڑک پر پہنچے۔ الو نے سڑک کے درمیان چلنا شروع کر دیا۔ باقی سب نے بھی اس کی تقلید کی۔

تھوڑی دیر بعد ایک عقاب نے جو ہجوم کے ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا، دیکھا کہ ایک ٹرک انتہائی تیز رفتار کے ساتھ ان کی جانب دوڑا چلا آرہا ہے۔ اس نے لومڑی کو بتایا جو الو کی سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔

“دیوتا۔۔۔ آگے خطرہ ہے۔” لومڑی نے بڑے ادب سے الو کی خدمت میں گزارش کی۔

“اچھا؟” الو نے تعجب سے کہا۔

“کیا آپ کسی خطرے سے خوف نہیں کھاتے؟” لومڑی نے عرض کی۔

“خطرہ! خطرہ! کیسا خطرہ؟” الو نے پوچھا۔

ٹرک بہت قریب آ پہنچا تھا، لیکن الو بے خبری میں اسی طرح بڑی شان سے اٹھلاتا جا رہا تھا۔ رہبرِ فراز کے پیروکار بھی قدم سے قدم ملائے چل رہے تھے۔ ایک عجب سماں تھا۔

“واہ واہ ۔۔۔۔ ہمارا رہنما ذہین اور مدبر و دانا ہی نہیں بڑا بہادر بھی ہے۔۔۔۔” لومڑی زور سے پکاری اور باقی جانور ایک ساتھ چیخ اٹھے: “ہمارا ذہین اور مدبر۔۔۔”

اچانک ٹرک اپنی پوری رفتار سے انہیں کچلتے ہوئے گزر گیا۔ عظیم دانا اور مدبر رہنما کے ساتھ اس کے احمق پیروکاروں کی لاشیں بھی دور دور تک بکھری پڑی تھیں۔

:::سبق آموز کہانی:::شکریہ سعد کا بلاگ

ابھی صبح روشنی نہیں ہوئی تھی. ایک جنگل میں ایک بڑے سے درخت کے پاس چھوٹا سا خیمہ لگا تھا جس میں ایک بدو اپنے بچوں کے ساتھ سو رہا تھا۔ بدو نے کچھ مرغ پال رکھے تھے جو درخت کی اونچی شاخ پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔

وقت گزر رہا تھا اور صبح قریب آ رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سرسرانے لگی۔ ایک بوڑھے مرغ کی آنکھ کھلی۔ اس نے صبح کے آثار دیکھے تو خدا کا شکر ادا کیا اور پورے زور سے اذان دی۔

ایک بھوکی لومڑی نے اذان کی آواز سنی تو درخت کی طرف بھاگی، قریب آئی ۔ ادھر ادھر دیکھا کچھ نہ پایا۔ اوپر کی طرف نگاہ اٹھی۔ اونچی شاخ پر مرغ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ جی للچایا کہ اسی کو ناشتہ بنایا جائے، مگر مرغ تھا اونچی شاخ پر اور لومڑی زمین پر۔ مرغے تک پہنچے تو کس طرح؟ سوچنے لگی کہ مرغے کو کس طرح نیچے لائے۔ آخرکار ترکیب ذہن میں آ ہی گئی، وہ چِلّا کر بولی:

“بھائی مرغے! تمہاری پیاری آواز مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ صبح ہو گئی ہے، درخت سے نیچے اترو تاکہ مل کر نماز پڑھیں۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ باجماعت نماز کا بڑا درجہ ہے”۔

مرغا بھی تجربہ کار تھا، لومڑی کی مکاری سمجھ گیا۔ شاخ پر بیٹھے بیٹھے بولا:

“بی لومڑی! آپ کا آنا مبارک! مگر امام کے بغیر باجماعت نماز کیسے ہو گی؟”

لومڑی نے کہا: “مرغے میاں! تم بھی تو پڑھے لکھے ہو، آؤ تم ہی امام بن جاؤ۔ امام کا انتظار کرتے رہے تو نماز کا وقت گزر جائے گا۔ بس اب نیچے اترو اور نماز پڑھا دو”۔

مرغے نے جواب دیا: “بی لومڑی! آپ گھبرائیں نہیں، امام یہاں موجود ہے۔ ذرا اسے جگا لو۔ یہ دیکھو، سامنے درخت کی جڑ میں سو رہا ہے”۔

لومڑی نے جڑ کی طرف دیکھا تو ایک شخص سویا ہوا نظر آیا۔ اسے دیکھ کر واپس جنگل کو بھاگی۔

مرغے نے چِلا کر کہا: “کہاں جاتی ہو؟ امام کو جگا دو، مل کر نماز پڑھیں گے۔”

لومڑی نے بھاگتے ہوئے جواب دیا: “بھیا! میرا وضو ٹوٹ گیا ہے، ابھی وضو کر کے آتی ہوں۔”


Wednesday 27 July 2011

بیٹی حقہ پیتی ہے ۔۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ


بیٹی حقہ پیتی ہے ۔۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ

چند روز بیشتر ایک نہایت عزیز دوست بے حد پریشانی کی حالت میں میرے ہاں تشریف لائے رنگت اڑی ہوئی اور اس رنگت میں بھی ہوائیاں اڑتی ہوئیں تشریف لائے اور صوفے پر ڈھیر ہو گئے اس روز لاہور کا درجہ حرارت چھیالیس سے تجاوز کر چکا تھا اور لاہور کی سب چیلیں اپنے اپنے انڈے چھوڑ چکی تھیں بلکہ ان میں سے جو طاقت پرواز رہتی تھیں مری یا نتھیا گلی کوچ کر گئی تھیں میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو میرے دوست پر بھی گرمی کا اثر ہوگیا ہے چنانچہ میں نے فوری طور پر پہلے تو انہیں نمکین لسی کے دوچار گلاس پلائے اور پھر ان کامنہ میٹھا کرنے کی خاطر باداموں کے شربت کا ایک گلاس پیش کیا ان مشروبات کو غٹا غٹ چڑھا جانے کے باوجود ان کی ظاہری حالت میں کچھ فرق نہ پڑا تو میں نے پوچھا’’ اجی حضرت خیریت تو ہے ناں‘‘
وہ ہکلاتے ہوئے بولے‘‘ تارڑ صاحب ، خیریت کہاں ہونی ہے میں تو لٹ گیا، آپ جانتے ہیں کیا ہوا؟
میں نے کہا’’ آپ کو میں نے یہ جو نہایت مہنگے مشروبات پلائے ہیں خاص طور پر باداموں کا شربت جو میں نے خاص طور پر حیدر آباد سے منگوایا ہے تو صرف ا س لئے کہ آپ بتائیں کہ ہوا کیا ہے۔
مردہ سی آواز میں بولے’’ میری بیٹی حقہ پینے لگی ہے‘‘
’’ ہائیں، مجھے بھی دھچکا سا لگا اپنی طاہرہ بیٹی حقہ پینے لگی ہے یعنی گھر میں ایک عدد حقہ لے آئی ہے اسے تازہ کرتی ہے، ہتھیلیوں میں کڑوا تمباکو مسل کر اسے حقے کی ٹوپی کی گردن میں جما کر اس پر کوئلے رکھتی ہے اور پھر یہ لمبے لمبے کش لگاتی نتھنوں میں سے دھواں نکالتی ہے طاہرہ بیٹی چونکہ میرے ابا جی نہایت ذوق وشوق سے حقہ پیا کرتے تھے اس لئے میں اسے تیار کرنے کے مختلف مراحل سے آگاہ تھا۔
’’ نہیں نہیں ابھی تک یہ نوبت تو نہیں آئی ، گھر سے باہر جاکر حقہ پیتی ہے۔’’ آپ کو یہ اندوہناک خبر کس نے دی؟
’’ اس کی ایک سہیلی نے کہنے لگی انکل آج ہم سب پرانی کلاس فیلوز جمع ہو کر ایک نئے ریستوران میں جارہی ہیں آپ پلیز طاہرہ کو بھی ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیجئے میں نے پوچھا بیٹے کھانا کھانے جارہے ہو؟ تو اس نے نہایت سنجیدگی سے کہا کہ وہ بھی کھائیں گے لیکن بنیادی طور پر ہم سب شیشہ پینے جارہی ہیں اب میرے فرسودہ خیال کے مطابق تو شیشہ دیکھا جاتا ہے پیا تو نہیں جاتا اور جب میرے پلے کچھ نہ پڑا تو ہنس کر کہنے لگی کہ انکل شیشہ،جسے آپ لوگ حقہ کہتے ہیں یہ دراصل حقے کا تازہ ترین ماڈل ہے شیشہ اور انکل آپ کے زمانے میں تو صرف کڑوا تمباکو پیا جاتا تھا لیکن اب بڑی ورائٹی ہے مختلف پھلوں اور پھولوں کی خوشبو اور ذائقے والے تمباکو ہوتے ہیں تارڑ یار یہ سن کر تو میری ٹانگوں میں جان نہ رہی اور میں نے پوچھا کہ بیٹے کیا اس حقے میں دھواں بھی ہوتا ہے تو وہ مسکرا کر کہنے لگی اور نہیں تو کیا انگل ہم خوب کش لگاتے ہیں اور ناکوں میں سے دھواں خارج کر کے بہت انجوائے کرتے ہیں اب تم ہی بتاؤ کہ میں کیا کروں؟
تم طاہرہ بیٹی کو سمجھاؤ کہ خبر دار تمباکو نوشی کینسر اور دل کی بیماریوں کا باعث ہے ’’ میں کوشش کر چکا ہوں لیکن وہ جواب میں ثقافتی حوالے دیتی ہے کہتی ہے کہ ایک تو شیشے میں تمباکو کی مقدار نہایت قلیل ہوتی ہے اور پھر یہ تو ہمارے کلچر کا ایک حصہ ہے آپ ہمیں خود ہی تو بتایا کرتے تھے کہ آپ کی پھوپھی جان کھانے کے فوراً بعد ’’ حقہ حقہ ‘‘ کا شور مچادیتی تھیں کہ بقول ان کے کھانے کے بعد ان کے پیٹ میں ایک گولا سا بن جاتا تھا اور جب تک وہ حقے کے دوچار کش نہیں لگاتی تھیں وہ گولا نیچے نہیں ہوتاتھا پیٹ میں اٹکا رہتا تھا شنید ہے کہ مرحومہ دادی جان بھی حقے کی بے حد شوقین تھیں تو اگر ہم لوگ ہفتے میں ایک آدھ بار کسی شیشہ ریستوران میں جاکر دو چار کش لگا آتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے

یعنی صرف بیٹی طاہرہ ہی نہیں اس کی سہیلیاں بھی حقہ پیتی ہیں‘‘’’ اچھا وہ والا شیشہ‘‘ میں بے اختیار مسکرانے لگا میرے ذہن میں جدہ کی وہ شام آگئی جب میرا بیٹا سلجوق میری فرمائش پر مجھے پرانے جدہ کے ایک قدیم محلے میں لے گیا جہاں فٹ پاتھ پر ایک ’’ شیشہ ریستوران‘‘ قائم تھا لوگ قہوے کی چسکیاں لگا رہے تھے اور میزوں کے درمیان میں آراستہ خوبصورت شیشے سے بنے ہوئے حقوں کے کش لگا رہے تھے ایک ویٹر صرف اس ڈیوٹی پر مامور تھا کہ وہ گاہکوں کے لئے بار بار چلمیں تازہ کر کے لاتاتھا اور میں نے افسوس کے ساتھ نوٹ کیا کہ برخوردار جس نے آج تک سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا تھا نہایت اطمینان سے یہ شیشہ حقہ پینے میں مشغول ہو گیا بعد میں میں نے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی خفیف سی کوشش کی تو مسکرا کر کہنے لگا ابا یہ تو بس شغل میلہ ہے تمباکو نوشی تو نہیں ہے چنانچہ میں نے جدہ کی اس شام کا قصہ اپنے دوست کو سنا کر اس کا غم غلط کرنے کی کوشش کی اسے یہ بھی بتایا کہ یہ شیشہ نوشی کا رواج ادھر عرب شریف کی جانب سے آیا ہے کیونکہ میری اطلاع کے مطابق سعودی عرب کی بیشتر خواتین شیشہ پینے کی شوقین ہیں چنانچہ یہ عین اسلامی ہے لیکن اس کی تسلی نہ ہوئی کہنے لگا کہ بچپن سے یہی پڑھتے آئے ہیں کہ ماں چولہے پر بیٹھی ہے اور باپ بیٹھا حقہ پی رہا ہے یہ تو کبھی نہیں پڑھا کہ باپ چولہے پر بیٹھا ہے اور ماں بیٹھی حقہ پی رہی ہے تب میں نے اسے ایک گرانقدر مشورے سے نوازا، تم سگریٹ توپیتے ہو تو کیا حرج ہے کہ کسی روز کسی شیشہ ریستوران میں جاکر دوکش شیشے کے بھی لگا لو دیکھو تو سہی کہ اس کا ذائقہ کیا ہے باقاعدہ حقہ ہے یا کچھ اور ہے میرا دوست یہ مشورہ پلے باندھ کر چلا گیا اور دو تین روز بعد موصوف دوبارہ نازل ہوئے تو نہایت شاداب اور پرمسرت کیفیت میں مسکراتے چلے آرہے ہیں دھپ سے سامنے والے صوفے پر بیٹھے اور کہنے لگے لو بھئی میرا مسئلہ تو حل ہوگیا تمہارے مشورے کے مطابق اس شام میں ایک شیشہ ریستوران میں گیا کیا دیکھتا ہوں کہ کیا مردوزن کیا چھوٹے بڑے سب کے سب نہایت اشتیاق سے شیشہ پی رہے ہیں دھویں اڑا رہے ہیں میں نے بھی دو چار کش لگائے تو یقین کرو لطف آگیا بے حد فرحت آمیز مشغلہ ہے میں نے سگریٹ چھوڑ دئیے ہیں اور اب صرف شیشہ پیتا ہوں اور جیتا ہوں بلکہ سوچ رہا ہوں کہ روز روز ریستوران میں جانے کی بجائے ایک ذاتی شیشہ خرید لوں گھر بیٹھ کر دونوں باپ بیٹی پیا کریں گے آخر کو یہ ایک اسلامی رواج ہے۔

Saturday 23 July 2011

:::دنیا کے خطرناک ترین روڈ::::

Grimsel Pass, Switzerland






The Way to Fairy Meadows, Pakistan






Atlas Mountains Road, Morocco






Guoliang Tunnel Road, China







Lena Highway, Russia







Los Caracoles Pass, Andes







Taroko Gorge Road, Taiwan (Chungheng)







North Yungas Road, Bolivia






Stelvio Pass Road, Italy






Trollstigen, Norway






Col de Turini, France






آزاد جموں و کشمیر

Azad Jammu and Kashmir (Urdu: آزاد جموں و کشمیر azaad jammu o- kashmir ; AJK) or Azad Kashmir for short (literally, “Free Kashmir”), is the southernmost political entity within the Pakistani-administered part of the former princely state of Jammu and Kashmir. It borders the present-day Indian-controlled state of Jammu and Kashmir to the east (separated from it by the Line of Control), the Khyber-Pakhtunkhwa of Pakistan to the west, the Federally Administered Northern Areas (FANA) to the north, and the Punjab Province of Pakistan to the south. With its capital at Muzaffarabad, Azad Kashmir covers an area of 13,297 square kilometres (5,134 sq mi) and has an estimated population of about four million.

History

map of the entire Kashmir region

After the Partition of India in 1947, the princely states were given the option of joining either India or Pakistan. However, Hari Singh, the maharaja of Jammu and Kashmir, wanted Jammu and Kashmir to remain independent. In order to buy some time, he signed a stand-still agreement, which sidestepped the agreement that each princely state would join either India or Pakistan.[2] Later there was a revolution by Muslims in the western part of the kingdom[3] and the raiders from North-West Frontier Province and the Tribal Areas feared that Hari Singh might join the Indian Union. In October 1947, supported by the Pakistani Army, they attacked Kashmir and tried to take over control of Kashmir. Initially Hari Singh tried to resist their progress but failed. Hari Singh then requested the Indian Union to help. India responded that it could not help unless Kashmir joined India. So on 26 October 1947, Kashmir accession papers were signed and Indian troops were airlifted to Srinagar. Fighting ensued between the Indian Army and Pakistani Army, with control stabilizing more or less around what is now the “Line of Control”.[4]

Later, India approached the United Nations to solve the dispute and resolutions were passed to hold a plebiscite with regard to Kashmir’s future. However, this plebiscite has not been held on either side, since the legal requirement for the holding of a plebiscite was the withdrawal of the Indian and Pakistani armies from the parts of Kashmir that were under their respective control—a withdrawal that never did take place.[5] In 1949, a cease-fire line separating the Indian- and Pakistani-controlled parts of Kashmir was formally put into effect.

Following the 1949 cease-fire agreement, the government of Pakistan divided the northern and western parts of Kashmir which it held into the following two separately-controlled political entities:

  1. Azad Jammu and Kashmir (AJK) – the narrow southern part, 250 miles (400 km) long, with a width varying from 10 to 40 miles (16 to 64 km).
  2. Gilgit-Baltistan formerly called Federally Administered Northern Areas (FANA) – is the much larger area to the north of AJK, 72,496 square kilometres (27,991 sq mi); it was directly administered by Pakistan as a de facto dependent territory, i.e., a non-self-governing territory. However it was officially granted full autonomy on August 29, 2009.[6]

An area of Kashmir that was once under Pakistani control is the Shaksgam tract—a small region along the northeastern border of the Northern Areas that was provisionally ceded by Pakistan to the People’s Republic of China in 1963 and which now forms part of China’s Uygur Autonomous Region of Xinjiang.

In 1972, the then-current border between Pakistani and Indian, which held areas of Kashmir, was designated as the “Line of Control”. The Line of Control has remained unchanged[7] since the 1972 Simla Agreement, which bound the two countries “to settle their differences by peaceful means through bilateral negotiations.” Some political experts claim that, in view of that pact, the only solution to the issue is mutual negotiation between the two countries without involving a third party, such as the United Nations.

A devastating earthquake hit Azad Kashmir in 2005.

Government

Districts of Azad Kashmir

Azad Jammu and Kashmir (AJK) is a self-governing state under Pakistani control but is not constitutionally part of Pakistan. It has its own elected president, prime minister, legislature, high court, and official flag. The government of Pakistan has not yet allowed the state to issue its own postage stamps, however, and Pakistani stamps are used in the state instead.

Azad Kashmir’s financial matters, i.e., budget and tax affairs, are dealt with by the Azad Jammu and Kashmir Council, rather than by Pakistan’s Central Board of Revenue. The Azad Jammu and Kashmir Council is a supreme body consisting of 11 members, six from the government of Azad Jammu and Kashmir and five from the government of Pakistan. Its chairman/chief executive is the president of Pakistan. Other members of the council are the president and the prime minister of Azad Kashmir and a few other AJK ministers.

The state is administratively divided into two divisions which, in turn, are divided into eight districts.

DivisionDistrictArea (km²)Population (1998)Headquarters
MirpurBhimber1,516301,633Bhimber

Kotli1,862563,094Kotli

Mirpur1,010333,482Mirpur
MuzaffarabadMuzaffarabad[9]2,496638,973Muzaffarabad

Hattian??Hattian Bala

Neelum[10]3,621106,778Athmuqam
PoonchPoonch855411,035Rawalakot[9]

Havaily600est150,000estFarwad Kohta[9]

Bagh768243,415Bagh

Sudhnati569334,091Pallandari
AJK total10 districts13,2972,972,501Muzaffarabad

A 2008 report by the United Nations High Commissioner for Refugees determined that Pakistan-administered Kashmir was ‘not free.

There are roughly 1.5 million refugees from Indian Administered Kashmir in Azad Kashmir and Pakistan.

Geography and climate



The northern part of Azad Jammu and Kashmir encompasses the lower area of the Himalayas, including Jamgarh Peak (15,531 feet [4,734 metres]).

Ethnic groups

Main article: Ethnic groups of Azad Kashmir

Azad Jammu and Kashmir is predominantly Muslim. The majority of the population is culturally, linguistically, and ethnically related to the people of northern Punjab. The article Ethnic groups of Azad Kashmir gives a breakdown of all the major tribes in the state. The vast majority of the people from Azad Jammu and Kashmir, despite that region being referred to as part of Kashmir, do not speak Kashmiri or any of its dialects.

A large majority of Kashmiris have relatives who live in England. Mirpur in particular retains strong links with the UK.[12]

Languages

Urdu is the official language of Azad Jammu and Kashmir.[13] However, due to the area’s diverse cultural blend, many languages are spoken by different populations, including Pahari-Potwari, Kashmiri, Gojri, Punjabi and Pashto.[14][15]

Economy and resources

In the mid-1950s various economic and social development processes were launched in Azad Kashmir. In the 1960s, with the construction of the Mangla Dam in Mirpur District, the Azad Jammu and Kashmir Government began to receive royalties from the Pakistani government for electricity the dam provided to the nation.During the mid-2000s a multi-billion dollar reconstruction began in the aftermath of the Kashmir Earthquake .

Agriculture is a part of Azad Kashmir’s economy; low-lying areas that have high populations grow crops like barley, millet, corn (maize), and wheat, and also raise cattle. In the more elevated areas that are less populated and are spread out, foresty, corn and livestock are the source of living.

There are some mineral and marble resources in Azad Kashmir close to Mirpur and Muzaffarabad; there are also some graphite deposits at Mohriwali. There are some reservoirs of low-grade coal, chalk, bauxite, and zircon. Local household industries produce carved wooden objects, textiles, and dhurrie carpets.[1] There is also an art and craft industry that produces such cultural goods as: namdas, shawls, pashmina, pherans, papier mache, basketry copper, rugs, wood carving, silk and woolen clothing, patto, carpet, namda gubba and silverware. Agricultural goods produced in the region include: mushrooms, honey, walnuts, apples, cherries, medicinal herbs and plants, resin, deodar, kail, chir, fir, maple and ash timber.[1][8][18]

In addition to agriculture, textiles, arts and crafts, remittances have played a major role in the economy of Azad Kashmir. One analyst estimated that the figure for Azad Kashmir was 25.1% in 2001; for household annual income, those people living in higher areas are more dependent on remittance than lower areas.[19]

In the latter part of 2006, billions of dollars for development were mooted by international aid agencies for the reconstruction and rehabilitation of earthquake-hit zones in Azad Kashmir, though much of that amount was subsequently lost in bureaucratic channels, leading to delay in help reaching the most needy, and hundreds of people continued to live in tents long after the earthquake. A land-use plan for the city of Muzaffarabad was prepared by the Japan International Cooperation Agency.

Remittance by British Pakistanis forms an important part of the Kashmiri economy.

Education

The literacy rate in Azad Kashmir was 62% in 2004, higher than in any other region in Pakistan.[20] However, only 2.2% were graduates, compared to the average of 2.9% for the whole of Pakistan.

Sunday 17 July 2011

::::::::دعا:::::::::



اے میرے پیارے اللہ، تو سب کا مالک ہے سب کا خالق ہے۔ ہم پر اپنا کرم فرما دے، ہم نے اپنے برے عمال سے تجھے خفا کر دیا ہے۔ اے اللہ ہمیں یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ اگر ہم اپنے آپ کو درست کر لیں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

اے میرے پروردیگار!!! ہم صرف ایک دوسرے کو الزام دیتے رہتے ہیں، خود کو کبھی ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

میرے پیارے اللہ جی!!!

ہمیں خوداحتسابی کی توفیق دے۔

کیوں کہ جب ہم خود ٹھیک ہو جائیں گے تو
نا تو کوئی ہمیں نقصان پہنچائے گا اور
نا ہی کوئی ہمیں مارے گا
نا کوئی کھیت بنجر ہوگا
نا کسی کے گھر کے آنگن میں موت رقص کرے گی
نا کوئی ماں اپنے بچے سے محروم ہوگی
نا کوئی بچہ اپنے والدین سے
نا کسی عورت کا سہاگ اجڑے گا
نا کسی بہن کو بھائی کے پیار سے محروم کیا جائے گا
نا رزق کی تنگی ہو گی
نا بھوک و افلاس رقص کرے گا

اے اللہ، میرے پاک پروردیگار

ہم اٹھارہ کروڑ لوگ ہیں، جن میں سے کم از کم پندرہ کروڑ لوگ عام لوگ ہیں اور ہم صرف بیٹھ کر باقی ماندہ تین کروڑ لوگوں کو کوستے رہتے ہیں اور برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔
ہم کتنے بیواقوف ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہم پندرہ کروڑ لوگ ٹھیک ہیں?

نہیں ہم ٹھیک نہیں ہیں، جبھی تو ہم برے لوگوں کے پیچھے لگ کر خود اپنا نقصان کر رہیں ہیں، کیوں کہ ہمارے اپنے اعمال ٹھیک نہیں ہم خود کرپٹ ہیں اس لیئے اپنے گناہ کو چھپانے کے لئے ہم نے سارا کچرا سارا کیچڑ اور گندگی ان تین کروڑ پر ڈال دی ہے۔

اے اللہ،

اگر ہم باعمل ہوں اور تیرے احکامات پر عمل پیرا ہوں تو یہ تین کروڑ کرپٹ لوگ ایسے بھاگیں کہ کبھی واپس آکر ہمیں نقصان پہنچانے کا نا سوچیں.
ہمیں معافی دے دے میرے پروردیگار، بس ہمیں توفیق عطا کر کے ہم خود کو ٹھیک کر لیں اور تجھے راضی کر لیں۔

آمین

Thursday 14 July 2011

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

بسم اللھ الرحمن الرحیم
اسلام علیکم -
اللہ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی - ان کے سامنے آل فرعون کو غرق کیا - سمندر میں سے حفاظت سے گزارا - لیکن ان کے اکثر لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کرتے رہے - انہوں نے بچھڑے کو معبود بنایا - جس کی اللہ نے انہیں سزا دی - انہوں نے ہفتے کے دن کی خلاف ورزی کی - جس کی اللہ نے انہیں سزا دی - آج بھی جن بنی اسرائیل نے اسلام سے کفر کیا ہے وہ دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں - مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں - ان پر ظلم کرتے ہیں - جس کی تازہ مثال فلسطین پر اسرائیل کا حملہ ہے - مگر قیامت کے دن اللہ ایمان والوں کو ہی عزت دے گا - فلسطین کے شہیدوں کے ایک ایک زخم کا ظالموں سے حساب لے گا - ہمارے جو مسلمان انگریزوں کی تعریفیں کرتے ہیں - کیا اب بھی ان کی آنکھیں نہی کھلیں ؟ ؟ کیا امریکہ اور برطانیہ کی مدد کے بغیر اسرائیل کی کوئی طاقت ہے ؟ ؟ ؟
بقول علامہ اقبال

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی علیہ السلام ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود ؟
وضع میں تم ہو نصاریٰ ، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو "

اقوال حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ