Saturday, 30 July 2011

رہنما::::شکریہ سعد کا بلاگ

پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک تاریک اور بے ستارہ رات کو ایک الو کسی شاخ پر گم سم بیٹھا تھا۔ اتنے میں دو خرگوش ادھر سے گزرے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ اس درخت کے پاس سے چپ چاپ گزر جائیں لیکن جونہی وہ آگے بڑھے الو پکارا:

“ذرا ٹھہرو۔۔۔۔” اس نے انہیں دیکھ لیا تھا۔

“کون؟” خرگوش مصنوعی حیرت سے چونکتے ہوئے بولے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنی گہری تاریکی میں بھی کوئی انہیں دیکھ رہا ہے۔

“خرگوش بھائیو۔۔۔ ذرا بات سنو۔۔۔” الو نے انہیں پھر کہا، لیکن خرگوش بڑی تیزی کے ساتھ بھاگ نکلے اور دوسرے پرندوں اور جانوروں کو خبر دی کہ الو سب سے مدبر اور دانا ہے کیونکہ وہ اندھیرے میں دیکھ سکتا ہے۔

لومڑی نے کہا کہ ذرا مجھے اس بات کی تصدیق کر لینے دو، چنانچہ وہ اگلی شب اس درخت کے پاس پہنچی اور الو سے مخاطب ہو کہ کہنے لگی: “بتاؤ میں نے اس وقت کتنے پنجے اٹھا رکھے ہیں؟”

الو نے فوراً کہا: “دو”

اور جواب درست تھا۔

“اچھا یہ بتاؤ یعنی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟” لومڑی نے دریافت کیا۔

“یعنی کا مطلب مثال دینا ہوتا ہے۔”

لومڑی بھاگم بھاگ واپس آئی۔ اس نے جانوروں اور پرندوں کو اکٹھا کیا اور گواہی دی کہ الو سب سے مدبر اور سب سے دانا ہے، کیونکہ وہ اندھیرے میں دیکھ سکتا ہے اور پیچیدہ سوالوں کے جواب دے سکتا ہے۔

“کیا وہ دن کی روشنی میں بھی دیکھ سکتا ہے؟” ایک بوڑھے بگلے نے پوچھا۔ یہی سوال ایک جنگلی بلے نے بھی کیا۔

سب جانور چیخ اٹھے کہ دونوں کا سوال احمقانہ ہے۔ پھر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ جنگلی بلے اور بوڑھے بگلے کو جنگل بدر کر دیا گیا اور متفقہ طور پر الو کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سب کا سربراہ اور رہنما بن جائے۔ وہی سب سے ذہین و دانا اور مدبر ہے اور اسی کو ان کی رہبری اور رہنمائی کا حق ہے۔

الو نے یہ عرضداشت فوراً قبول کر لی۔ جب وہ پرندوں اور جانوروں کے پاس پہنچا، دوپہر تپ رہی تھی، سورج کی تیز روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور الو کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا تھا جس سے اس کی چال اور شخصیت میں وہ وقار اور رعب داب پیدا ہو گیا جو بڑی شخصیتوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی گول گول آنکھیں کھول کھول کر اپنے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کرتا۔ جانور اور پرندے اس اندازِ نظر سے اور بھی متاثر ہوئے۔

“یہ ہمارا رہنما ہی نہیں، سب کا رہنما ہے۔ یہ تو دیوتا ہے۔۔۔۔ دیوتا۔۔۔۔ دیوتا۔۔۔۔” ایک موٹی مرغابی نے زور سے کہا۔ دوسرے پرندوں اور جانوروں نے بھی اس کی تقلید کی اور زور زور سے رہنما دیوتا۔۔۔۔ کے نعرے لگانے لگے۔

اب الو ۔۔۔ یعنی ان سب کا رہنما آگے آگے اور وہ سب بے سوچےاندھا دھند اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ روشنی کی وجہ سے اسے نظر تو کچھ نہ آتا تھا۔ چلتے چلتے وہ پتھروں اور درختوں کے تنوں سے ٹکرایا۔ باقی سب کا بھی یہی حال ہوا۔ اس طرح وہ ٹکراتے اور گرتے پڑتے جنگل سے باہر بڑی سڑک پر پہنچے۔ الو نے سڑک کے درمیان چلنا شروع کر دیا۔ باقی سب نے بھی اس کی تقلید کی۔

تھوڑی دیر بعد ایک عقاب نے جو ہجوم کے ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا، دیکھا کہ ایک ٹرک انتہائی تیز رفتار کے ساتھ ان کی جانب دوڑا چلا آرہا ہے۔ اس نے لومڑی کو بتایا جو الو کی سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔

“دیوتا۔۔۔ آگے خطرہ ہے۔” لومڑی نے بڑے ادب سے الو کی خدمت میں گزارش کی۔

“اچھا؟” الو نے تعجب سے کہا۔

“کیا آپ کسی خطرے سے خوف نہیں کھاتے؟” لومڑی نے عرض کی۔

“خطرہ! خطرہ! کیسا خطرہ؟” الو نے پوچھا۔

ٹرک بہت قریب آ پہنچا تھا، لیکن الو بے خبری میں اسی طرح بڑی شان سے اٹھلاتا جا رہا تھا۔ رہبرِ فراز کے پیروکار بھی قدم سے قدم ملائے چل رہے تھے۔ ایک عجب سماں تھا۔

“واہ واہ ۔۔۔۔ ہمارا رہنما ذہین اور مدبر و دانا ہی نہیں بڑا بہادر بھی ہے۔۔۔۔” لومڑی زور سے پکاری اور باقی جانور ایک ساتھ چیخ اٹھے: “ہمارا ذہین اور مدبر۔۔۔”

اچانک ٹرک اپنی پوری رفتار سے انہیں کچلتے ہوئے گزر گیا۔ عظیم دانا اور مدبر رہنما کے ساتھ اس کے احمق پیروکاروں کی لاشیں بھی دور دور تک بکھری پڑی تھیں۔

3 comments:

  1. تو کيا ہم اسی ٹرک کی انتظار ميں ہيں ؟

    ReplyDelete
  2. بہت عمدہ یہ تو آپ نے ہماری کہانی سنادی ایسے ہی الووں کو ہم نے حکمران بنایا ہوا ہے

    ReplyDelete