Saturday 11 November 2017

اخلاقی سزائیں

کچھ عرصہ سے پاکستان میں خصوصی طور پہ کراچی میں ایک عدالت میں مجرموں کو کچھ سزائیں دی جا رہی ہیں جو جیل میں بند کرنے کی بجائے کچھ یوں ہیں:

ایک مجرم کو سزا ملی کہ وہ 2 سال تک ایک جگہ پلے کارڈ لے کر کھڑا ہو گا جس پہ ٹریفک قانون کی پاسداری کا لکھا ہوا ہو گا.

*اسکا جرم تھا کہ اس نے ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی.

اسی طرح تازہ ترین ایک بندے کو 3 سال تک با جماعت نماز پنجگانہ ادا کرنے کا کہا گیا جس کی رپورٹ امام مسجد سے لی جائے گی.

*اسکا جرم کرپشن اور دھوکہ دہی تھا*

ایسے ہی ملتی جلتی کچھ اور سزائیں بھی دی گئی ہیں. حال ہی میں وکلا نے اسکے خلاف آواز اٹھائی کہ یہ سزائیں غیر قانونی ہیں وغیرہ وغیرہ.

اب سوال یہ ہے کہ جو ہمارا نظام قانون اور سزائیں ہیں

₪ کیا ان سزاؤں کے بعد لوگ سدھر جاتے ہیں؟
₪ کیا ہونے والے نقصان کا ازالۂ ہو جاتا ہے؟
₪ کیا ان سزاؤں کے بعد لوگ اخلاقی طور پہ سدھر جاتے ہیں یا مزید بگڑ جاتے ہیں؟
₪ کیا ان سزاوں سے ہم سب کو معاشرے میں کوئی سبق یا عبرت ملتی ہے؟

جواب اگر واقعی ہی ایک تحقیقی سروے کیا جائے تو جواب ملے گا "نہیں".
ہمارا سزاوں کا نظام ایسا ہے کے جس میں عبرت اور سبق کم اور ترغیبِ جرم زیادہ ملتا ہے. ہمارے نظام میں زور اس بات پہ ہے کہ بندہ جرم کے بعد جیل میں آ کے جیل کی آبادی میں اضافہ نا کرئے بس، باقی باہر وہ مزید کیا کرئے اس سے قانونی لوگوں کا کچھ لینا دینا نہیں. جیل سے نکلنے والے 90 سے 97 فیصد لوگ پکے مجرم یا تربیت شدہ مجرم بن چکے ہوتے ہیں.

تو ایسی ابتر صورتحال میں میرے عزیز ہم وطنوں! کیا یہ *اخلاقی سزائیں* قدرے بہتر نہیں کہ جن میں کم از کم دیکھنے والوں کے لئے ایک عبرتناک سبق  ہے

بھائی یہ سزائیں بھی سزا ہی ہیں. جس کی ساتھ شرط ہے کہ اگر مجرم ان کی پابندی نہیں کرئے گا تو اس کو جیل بھی جانا ہی پڑے گا.
خداراَ اگر کچھ اچھا کام ہو رہا تو اسکے خلاف اپنی گہری عقل کا استعمال کم کر دیا کریں. یہ اخلاقی سزائیں ہیں جن کا نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہے.

از خود راشد ادریس رانا
قلم نا تواں
11 نومبر 2017