Saturday 26 July 2014

کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے ــــــــــــــــــــHelp Gaza, Help Palestine

اٹھو کے ظلمتوں کے
اندھیروں کو چیر ڈالو
کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے
 
اٹھو کے لہو لہو ہیں
جو ماں کا دامن
اسے سنبھالو
کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے
 
اٹھو کے تار تار ہیں
تمہاری بہنوں کی
عبائیں، انہیں بچالو
کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے
 
اٹھو کے ٹکڑوں میں
بٹ گئے ہیں ننھے پیکر
انہیں بچا لو،
کہ غزہ تمہارا جل رہا ہے۔
میرے فلسطین کے نام: از راشد ادریس رانا
 
 


 

Friday 25 July 2014

میں فلسطــــــــــین ہوں میں فلسطــــــــین ہوں

 
یہ میری قوم کے حکمراں بھی سنیں
میری اجڑی ہوئی داستاں بھی سنیں
جو مجھے ملک تک مانتے ہی نہیں
ساری دنیا کے وہ رہنما بھی سنیں
صرف لاشیں ہی لاشیں میری گود میں
کوئی پوچھے میں کیوں اتنا غمگین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

آئے تھے ایک دن میرے گھر آئے تھے
دشمنوں کو بھی تنہا نظر آئے تھے
اونٹ پر اپنا خادم بٹھائے ہوئے
میری اس سر زمیں پر عمر (رض) آئے تھے
جس کی پرواز ہے آسمانو تلک
زخمی زخمی میں وہ ایک شاھین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

میرے دامن میں ایمان پلتا رھا
ریت پر رب کا فرمان پلتا رہا
میرے بچے لڑے آخری سانس تک
اور سینوں میں قرآن پلتا رہا
ذرے ذرے میں اللہ اکبر لیے
خوش نصیبی ہے میں*صاحبِ دین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

نہ ہی روئیں گے اور نہ ہی مسکائیں گے
صرف نغمے شہادت کے ہی گائیں گے
اپنا بیت المقدس بچانے کو تو
میرے بچے ابابیل بن جائیں گے
جو ستم ڈھا رہے ابرہہ کی طرح
ان کی خاطر میں سامان توہین ہوں
میں فسلطین ہوں میں فلسطین ہوں

Thursday 17 July 2014

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اسلام کی روح ہے ___ ایک منتخب تحریر: لکھاری نامعلوم

میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘
اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔
میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں‘‘
میں نے پوچھا ’’تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو؟‘‘
وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں‘‘...

میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟‘‘
اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا ’’میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘
میں نے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘
اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘
یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا‘ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘
وہ بولا ’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے‘ یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی‘ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔ آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘
اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا‘ اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا‘ کندھے پر رکھا‘ سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا
لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں‘ میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میں اس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا‘
میں جان گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے‘ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔

Saturday 12 July 2014

اسے بارشوں نے چرا لیا

 
 
اسے بارشوں نے چرا لیا ، کے وہ بادلوں کا مکین تھا
کبھی مڑ کے یہ بھی تو دیکھتا کے وجود میرا زمین تھا
 
وہی ایک سچ تھا کے اس کے بعد ساری تہمتیں جھوٹ ہیں
میرے دل کو پورا یقین ہے وہ محبتوں کا آمین تھا
 
اسے شوق تھا کے کسی جزیرے پر اس کے نام کا پھول ہو
مجھے پیار کرنا سکھا گیا میرا دوست کتنا ذہین تھا
 
کبھی ساحلوں پر پھیرو گے تو تمہیں سیپیاں یہ بتائیں گی
  میری آنکھ میں جو سمٹ گیا وہ اشک سب سے حسین تھا

Thursday 10 July 2014

حضرت یونس علیہ السلام کامچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا۔ جدید واقعات و تحقیقات کی روشنی میں

حضرت یونس علیہ السلام کامچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا۔ جدید واقعات و تحقیقات کی روشنی میں

کاتب: بتاريخ:
 
حضرت  یونس ؑ  کو اللہ تعالیٰ نے نینویٰ (موجودہ عراق کا شہر موصل )کی بستی کی ہدایت کے لیے بھیجا۔نینویٰ میں آپؑ کئی سال تک ان کو تبلیغ کی دعوت دیتے رہے ۔مگر قوم ایمان نہ لائی تو آپ ؑ نے ان کو عذاب کے آنے کی خبر دی اور ترشیش (موجودہ تیونس )کی طرف جانے کے لئے نکلے۔حضرت یونس ؑ جب قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے تو قوم نے آپ ؑ کے پیچھے توبہ کرلی ۔ دوسری طرف آپ ؑ اپنے سفر کے دوران دریا کو عبورکرنے کے لیے اسرائیل کے علاقہ یافا میں کشتی میں سوار ہوئے ۔کچھ دور جاکر کشتی بھنور میں پھنس گئی ۔ اس وقت کے دستور اور رواج کے مطابق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جب کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگ کر جارہا ہو اور کشتی میں سوار ہوتو وہ کشتی اس وقت تک کنارے پر نہیں پہنچتی جب
 
تک اس غلام کو کشتی سے اتار نہ لیں ۔
اب کشتی کے بھنور میں پھنسنے پر ان لوگوں نے قرعہ ڈالا جو حضرت یونس ؑ کے نام نکلا۔تین دفعہ قرعہ آپ ؑ کے نام ہی نکلا تو آ پ ؑ نے فرمایا کہ میں ہی غلام ہوں جو اپنے آقا  کو چھوڑ کا جار ہا ہوں۔ آپ ؑ نے خود ہی دریا میں چھلانگ لگادی تاکہ دوسرے لوگ کنارے پر پہنچ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کے دل میں القا ء کیا اور حکم دیا کہ حضرت یونس ؑ کو بغیر نقصان پہنچائے ،نگل لے ۔ اس طرح آپؑ مچھلی کے پیٹ میں آگئے ۔یہ آپ ؑ پر ایک امتحان تھا۔
حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ میں جانے کی وجہ سے ” ذوالنون” اور ” صاحب الحوت” کہا گیا ہے کیونکہ نون اور حوت دونوں کا معنی مچھلی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ  ۔۔ ﴿ الانبیاء ۔87
(اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے)
دوسری طرف مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونے کے بعد حضرت یونس ؑ نے یہ سمجھا کہ وہ مرچکے ہیں مگر پاؤں پھیلایا تو اپنے آپ کو زندہ پایا ۔بارگاہ الہی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا او ر توبہ استغفار کی ،کیونکہ وہ وحی الہی کا انتظار اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لئے بغیر اپنی قوم سے ناراض ہوکر نینویٰ سے نکل آئے تھے ۔ پھر مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس ؑ نے اپنی خطا کی یوں معافی مانگی۔
فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿ الانبیاء ۔87
(آخر کو اُس نے تاریکیوں میں پکارا “نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا )
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کی پرسوز آواز کو سنا اور دعا قبول کی تو مچھلی کو حکم ہوا کہ حضرت یونس ؑ کو جو تیرے پاس ہماری امانت ہے ،اُگل دے۔چناچہ مچھلی نے دریا کے کنارے حضرت یونس ؑ کو 40 روز بعد اُگل دیا۔وہ ایسی ویران جگہ تھی جہاں نہ کوئی درخت تھا نہ سبزہ ،بلکہ بالکل چٹیل میدان تھا ،جب کہ حضرت یونس ؑ بے حد کمزور و نحیف ہوچکے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت یونس ؑ نومولود بچے کی طرح ناتواں کمزور تھے ۔آپ  ؑکا جسم بہت نرم ونازک ہوگیا تھا اورجسم پر کوئی بال نہ تھا۔چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت یونس ؑ کے قریب کدو کی بیل اُگا دی تاکہ اس کے پتے آپ ؑ پر سایہ کئے رہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کےبموجب  ایک جنگلی بکری صبح وشام آپ ؑ کو دودھ پلا کر واپس چلی جاتی ،یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل ہی تھا ورنہ آپ ؑ ضعیف اور کمزور تر ہوتے چلے جاتے۔(بحوالہ تفسیر روح المعانی ،ابن کثیر)۔ قرآن مجید مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد حضرت یونس ؑ کی حالت کو اس طرح بیان کرتا ہے:
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ﴿145﴾ وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ ﴿146
آخرکار ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیااور اُس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا۔  (الصافات)
آج کئی سو سال بعد جدید سائنس نے اتنی بڑی مچھلی کے موجود ہونے کی تصدیق کر دی ہے اور کئی تحقیقاتی ادروں نے اتنی بڑی مچھلیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ ذیل میں ہم وہیل یا عنبر مچھلی پر چند تحقیقاتی اداروں  کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔
وہیل  مچھلی کے متعلقہ جدید معلومات
ذیل میں  ہم اس آبی جانور کی قامت وجسامت ،اوصاف و خصائل اور مخصوص عادات میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں  تاکہ اس معجزے کے وقوع کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ سب اوصاف وخصائص کسی اور قسم کی وہیل یا مچھلی مثلاً شارک وغیرہ میں بیک وقت نہیں پائے جاتے ۔ اس لیے ان میں سے کسی  ایک کا تعلق بھی اس معجزے سے نہیں ہوسکتا ۔
وہیل دراصل دیوپیکر عظیم الجثہ مچھلیوں کے ایک وسیع خاندان کا نام ہے ۔ جس میں بڑی وہیل ،بوتل کی ناک والی وہیل ،قاتل وہیل ،نیلی وہیل ،ڈولفن، پائلٹ وہیل اور ناروہیل شامل ہیں۔ وہیل عام مچھلیوں سے مختلف ہے ۔ ان کے برعکس یہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔جی ہاں !یہ پستان رکھنے والا جانور ہے ۔ یہ انسانوں کی طرح پھیپھڑوں سے سانس لیتی ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا خون گرم ہوتا ہے۔
وہیل کے منہ کے قریب دو نتھنے ہوتے ہیں جو تیرے وقت عموماًسطح سمندر سے اوپر ہوتے ہیں  ۔چناچہ اسے سانس لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ یہ خاصی دیر تک گہرے پانی میں رہ سکتی ہے۔انسان صرف ایک منٹ تک سانس روکے ہوئے پانی میں رہ سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ تجربہ کار غوطہ خوروں کو بھی جو سمندر کی گہرائی سے سیپ اور موتی نکالتے ہیں  ،ڈھائی منٹ کے بعد سطح پر آنا پڑتا ہے ۔ اس کے برعکس پور کوئیل وہیل ،جس کی پشت پر پَر ہوتے ہیں ،چالیس منٹ اور سپر م وہیل ایک گھنٹے  سے زائد بغیر سانس لیے گہرے پانی میں رہ سکتی ہے ۔ ایک سپرم وہیل سطح سمندر سے 1134 میٹر نیچے گہرے پانی میں پائی گئی ۔ بالین وہیل کسی وجہ سے خو فزدہ ہ ہو تو چار پانچ سو میٹر گہرائی تک غوطہ لگا سکتی ہے ۔
وہیل کی جسامت چارتا سو فٹ اور وزن ایک سو پونڈ تا ڈیڑہ سو ٹن ہوتا ہے ۔ ایک مرتبہ 98 فٹ لمبی وہیل کو تولا گیا تو اس کا وزن ہاتھی کے وزن کے برابر  نکلا۔ اس کی دم ہوائی جہاز کی طرح ہوتی ہے  جس کا ایک سرا اوپر کی سمت اُٹھا ہوتا ہے۔ اس کی جلد شفاف اور چکنی اور منہ کے قریب مونچھوں کی طرح  لمبے لمبےبال ہوتے ہیں۔وہیل کے دانت یکساں اور ایک ہی قطار میں ہوتے ہیں ۔اکثر اسے شکار کو پکڑنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ اس کے لئے تیرے وقت بس اپنا بڑھا سا منہ کھلا رکھنا ہی کافی ہوتا ہے کیونکہ بے شمار مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور اپنے آپ اس کاچارہ بننے کے لیے چلے آتے ہیں ۔ اگر دنیا میں وزنی اور بڑی زبان کا مقابلہ کیا جائے  تو نیلی وہیل سرفہرست رہے گی کیونکہ اس کی زبان کا وزن 6 پونڈ کے لگ بھگ ہوتا ہے اور اس میں بے پناہ قوت ہوتی ہے ۔وہیل گینڈےکی طرح بلا کی پیٹو ہوتی ہے اور مسلسل کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہے ۔
وہیل کا منہ ہی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں بیس ،پچیس آدمی ایک ساتھ بڑی آسانی سے کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ مال گاڑی کا ایک ڈبہ وہیل کے منہ میں باآسانی رکھا جا سکتا ہے ۔ کلکتہ کے عجائب گھر میں وہیل کے گال کے دو کھوپڑے ہیں جو 25-30 ہا تھ لمبے ہیں ۔ وہیل کا جسم جتنا لمبا ہوتا ہے اس کا ایک تہائی منہ ہوتا ہے ۔
جسامت کے لحاظ سے وہیل کی ایک قسم جسے نیلی وہیل یا “بلو وہیل ” کہتے ہیں سب وہیلوں سے بڑی ہوتی ہے اس کی  لمبائی 100-125 فٹ تک ہوتی ہے اور وزن 150 ٹن تک ہوتا ہے ۔ عنبر کی اوسط لمبائی 70- 60 فٹ تک ہوتی ہے  اور اس کا وزن 90 ٹن تک دیکھنے میں آیا ہے ۔ نیلی وہیل کے مقابلے میں عنبر کی لمبائی اور وزن کم ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر بیل اور ڈاکٹر بینٹ نے ایک عنبر کی لمبائی 84 فٹ لکھی ہے ۔ ڈاکٹر بیل کے مطابق 36فٹ اور زمین پر لٹانے  کے بعد اس کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 12 سے 14 فٹ ہوتی ہے ۔ عنبر وہیل کے مشہور شکاری بلن نے اپنی مشہور کتاب (Cruise of the Cacgalot)میں لکھا ہے کہ ایک عبنر کی لمبائی جو اس کے مشاہدے میں آئی 70 فٹ تھی ۔ یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ پیدائش کے وقت عنبر کے بچے کی لمبائی تقریباً 13،14 فٹ اور وزن ایک ٹن سے کچھ زائد ہوتا ہے ۔ دو سال میں اس  کی لمبائی 24 فٹ اور وزن 4 ٹن تک ہو جاتا ہے ۔
اس کاحلق بہت فراخ اور وسیع ہوتا ہے  ،جس سے یہ ایک لحیم و شحیم انسان کو با آسانی نگل سکتی ہے  اور بعد میں خاص حالات میں اسے اگل کر باہر پھینک سکتی ہے ۔ اس کے خلق کے نیچے کئی جھریاں (Folds)بھی ہوتی ہیں اور جب اسے معمول سے زیادہ بڑی چیز نگلنا پڑ جائے تو ا س کا حلق جھریوں کے کھل جانے سے وسیع تر ہوسکتا ہے ۔ اور وہ ایک عام انسان کی جسامت سے بڑی اشیاء کو بھی باآسانی نگل سکتی ہے ۔
قرآن کی تین سورتوں میں حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے نگل لینے کا واقعہ آیا ہے ۔  بعض ماڈرن  حضرات  اس واقعہ کی اصلیت کو شک کی نظر دیکھتے ہیں کہ آخر اتنے دن تک آپ ؑ بغیر کھائے پئے چاروں طرف سے بند ایک اند ھیر ی کوٹھری میں زندہ کیسے رہے ؟بات یہ ہے کہ معجزات ہمیشہ محیر العقول ہوتے ہیں ،جن کو دیکھنے اور سننے والے حیران وششدر رہ جاتے ہیں ،ان کو معجزہ کہا ہی اسی لیے جاتا ہے۔ لیکن بحرحال یہ ایک حقیقت ہے اور زیر نظر واقعات ہم اسی حقیقت کے تناظر میں پیش کررہے ہی ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
دور نبوی ﷺ میں دیوقامت مچھلی کا وجود
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں :
حضور نبی کریم ﷺ نے ہم تین سو سواروں کو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کی قیادت میں کسی مہم  پر روانہ فرمایا۔ہم ساحلی علاقے کی سمت نکل گئے اور ہمارا  راشن ختم ہوگیا ۔غذائی کمی اتنی ہوگئی کہ ہم نے کانٹے دار جھاڑیاں بھی کھائیں ۔کیا دیکھتے ہیں کہ سمندر نے ایک بہت بڑی مچھلی ساحل پر پھینک دی  ہے ۔ہم نے اس مچھلی کو آدھ مہینہ کھایا ۔پھر ابو عبیدہ ؓ نے ایک دن اس مچھلی کی پسلی لی اور اس کو کھڑا کیا ، ایک اونٹ پر سوار آدمی آرام سے اس پسلی کے نیچے سے گذر گیا ۔مدینہ واپس آکر ہم نے اس مچھلی کا کچھ گوشت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں روانہ کیا اور انہوں نے اسے قبول فرمایا۔
اس مچھلی کو عنبر کا نام دیا گیا ۔اب کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ دواؤں میں استعمال ہونے والا عنبر یا عبنر اشہب اسی مچھلی کا فضلہ ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے عنبر کا سراغ نبی ﷺ نے عطا فرمایا ۔ تین سو فاقہ ذدہ سواروں نے اس مچھلی کو صبح وشام 15 دن تک کھایا ۔جب مدینہ آئے تو ان کے تھیلوں میں ابھی بھی اس کا گوشت کا موجود تھا ۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اس میں سے نوش فرمایا کیونکہ سمندر کا شکار حلا ل ہے ۔ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مچھلی وہیل تھی۔
مچھلی کے پیٹ میں جانے کے جدید واقعات
جناب انتظام اللہ شہابی کی کتاب ’’جغرافیہ قرآن‘‘ (مطبوعہ انجمن ترقی ٔاردو، پاکستان) میں حضرت یونس علیہ السلام بن متی کو حضرت یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بن یامین کا سبط (نواسہ) لکھا ہے۔ اسی کتاب میں ’’مسلم راج پوت گزٹ‘‘ 1928ء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈاکٹر امروز جان ولسن، فیلو، کوئنز کالج آکسفورڈ(Dr. Imroz John Wilson, Fellow, Queen’s College Oxford)نے حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے بارے میں ایک مقالہ تھیولوجیکل ریویو میں تحریر کیا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں سانس لینے کے لئے کافی آکسیجن ہوتی ہے۔ اس کے پیٹ کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے جو انسان کے لئے بخار کا درجہ ہے1890ء میں ایک جہاز فاک لینڈ (Falkland) کے قریب وہیل مچھلی کا شکار کر رہا تھا کہ اس کا ایک شکاری جیمس سمندر میں گر پڑا اور وہیل مچھلی نے اسے نگل لیا۔ بڑی کوشش سے دو روز بعد یہ مچھلی پکڑلی گئی۔ اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ نکلا، البتہ اس کا جسم مچھلی کی اندرونی تپش کی وجہ سے سفید ہوگیا تھا۔ چودہ دن کے علاج کے بعد بالآخر وہ صحت یاب ہوگیا۔
1958ء ’’ستارۂ مشرق‘‘ نامی جہاز فاک لینڈ میں وہیل مچھلیوں کا شکار کررہا تھا اس کا ’’بار کلے‘‘ نامی ملاح سمندر میں گرا، جسے ایک مچھلی نے نگل لیا۔ اتفاق سے وہ مچھلی پکڑی گئی۔ پورا عملہ اسے کلہاڑیوں سے کاٹنے لگا۔ دوسرے دن بھی یہ کام جاری تھا کہ مردہ مچھلی کے پیٹ میں حرکت محسوس ہوئی۔ انہوں نے سمجھا کہ کوئی زندہ مچھلی نگلی ہوئی ہوگی۔ پیٹ چیرا تو اس میں سے ان کا ساتھی بارکلے نکلا جو تیل اور چربی میں لتھڑا ہوا تھا۔ بے ہوش بارکلے دو ہفتوں کے علاج سے ہوش میں آیا اور پھر صحت مند ہوگیا۔ اس نے اپنی بپتا سنائی ’’جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں ایک شدید سرسراہٹ محسوس کی جو ایک وہیل مچھلی کی دم سے پیدا ہورہی تھی۔ میں بے اختیار اس کی طرف کھنچا جارہا تھا۔ اچانک مجھے ایک تہ بہ تہ تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب میں نے اپنے آپ کو ایک نرم مگر تنگ راستے سے گزرتا ہوا محسوس کیا، یہاں حد درجہ پھسلن تھی۔
کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ میں ایک وسیع تر جگہ میں ہوں۔ اردگرد نرم، گداز اور چکنی دیواریں کھڑی تھیں، جنہیں ہاتھ سے چھوا۔ اب حقیقت کھلی کہ میں وہیل کے پیٹ میں ہوں۔میں نے خوف کی جگہ اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کی۔ موت کو لبیک کہنے کو تیار ہونے لگا۔یہاں روشنی بالکل نہ تھی البتہ سانس لے سکتا تھا۔ سانس لینے پر ہر بار ایک عجیب سی حرارت میرے اندر دوڑ جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگا۔ میری بیماری ماحول کی خاموشی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ اب جو میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو جہاز کے کپتان کے کمرے میں پایا۔ بارکلے کو ہسپتال میں داخل کردیا گیا جہاں وہ مکمل صحت یاب ہوگیا۔
یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو علم اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ کئی نامہ نگاروں نے انٹرویو لیا۔ ایک مشہور سائنسی جرنل کے ایڈیٹر مسٹر ایم ڈی پاول نے تحقیقِ احوال کے بعد واقعہ کی تصدیق کی اور لکھا ’’اس حقیقت کے منکشف ہوجانے پر میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، وہ حرف بہ حرف صحیح ہے اور اس میں شک کرنا ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانے کے برابر ہے۔(ماہنامہ ’’الحرم‘‘ میرٹھ (جنوری1959ء) ماخوذ از ’’دیواریں اور غاریں‘‘ از حافظ نذر احمد)
   1992 ء میں آسٹریلیا کا 49 سالہ ماہی گیر ٹورانسے کائس وہیل مچھلی کے پیٹ میں 8 گھنٹے رہنے کے بعد معجزانہ طور پر بچ گیا ۔وہ بحرہند میں ایک چھوٹے ٹرالر پر مچھلیا ں پکڑ رہا تھا کہ سمندر کی ایک بڑی لہر اس کے ٹرالر کو بہا لے گئی ۔ وہ کئی گھنٹوں تک بے رحم لہروں کے چنگل سے آزاد ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ،لیکن ساحل تک نہ پہنچ سکا ۔ دن کی روشنی تاریکی میں بدل گئی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اسے روشنی کی کرن دیکھنا کبھی نصیب نہیں ہوگی ۔ اسی اثنا ء میں اس نے خو د کو ایک بھنور میں گرفتار پایا ۔ اسے ایسا لگا جیسے دوتین شارک مچھلیاں اس کی طرف بڑھ رہی ہوں لیکن جلد ہی اسے معلوم ہوگیا کہ وہ ایک بہت بڑی وہیل مچھلی کی زد میں ہے جو منہ کھولے اس کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ وہیل نے جلد ہی اسے اپنے منہ میں دبا لیا لیکن یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ جبڑوں میں ہی چمٹا رہا ،مچھلی کے مضبو ط جبڑے اسے معدے میں پہنچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ برابر اس کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے تھا اور یہی وجہ تھی کہ اسے آکسیجن مل رہی تھی اور وہ ابھی تک زندہ تھا۔ مچھلی کے پیٹ میں 8 گھنٹے گزرے تھے کہ ٹور انسے نے خود کو آسٹریلیا میں آگسا کے ساحل پر پایا ۔ دراصل مچھلی نے اسے نگلنے میں ناکامی پر اُگل دیا اور اس طرح اسے دوبارہ زندگی مل گئی ۔(مقامات انبیاء  کا تصویری البم۔ از مولانا ارسلان بن اختر میمن۔ ص260-267)

Thursday 3 July 2014

زندگی بس اتنی ہے۔

 
 
آج یہاں پانچواں روزہ تھا۔ دوپہر کا وقت اور درجہ حرارت تقریباٰ 47 سے 50 کے درمیان ہوگا۔ ایسے میں جب کوئی مجھےیہ پوچھتا ہے کہ کیسا رہا روزہ تو میں مسکراتے ہوئے کہتا ہوں الحمد اللہ بہت اچھا رہا، لیکن مجھے پوچھنے کا کیا فائدہ میں تو اے سی میں آرام سے بیٹھ کر سارا وقت گزارتا ہوں۔ پوچھو ان بے چاروں سے جو اس خطہ عرب کی سلگھانے والے گرمی اور تپش سے بھرپور دوپہروں میں باہر کام کرتےہیں ، چند ہی گھنٹوں میں ہم جیسوں کو زبانیں لٹک جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کمال ہیں وہ لوگ اور کیسی رحمت ہے اللہ پاک کی جس نے ان کو ہمت عطاء کی اور وہ روزے رکھ کر پھر بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔
ایسے ہی دوپہر میں نماز ظہر کے لیئے میں نے جا کر وضو کیا اور جب اٹھ کر مسجد کے دروازے پر پہنچا تو کچھ لوگ پہلے سے باہر کھڑے تھے ، معلوم ہوا کہ مسجد میں جگہ نہیں ہے (کیوں کہ ہماری مسجد ایک کاروان میں بنائی ہوئی ہے) سو ہم انتظار کرنے لگے،
 
دوران انتظار میں سر جھکا کر زمیں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ ایک پانی کا قطرہ میرے ماتھے سے زمین پر ٹپکا، میری نظر پہلے ہی زمین پر تھی۔
جیسے ہی قطرہ فرش پر گرا فوری طور پر جذب ہو گیا، پھر ساتھ ہی ساتھ میری نظر کے سامنے وہ معدوم ہوتا چلا گیا اور صرف چند سیکنڈز میں ، وہاں پانی کے قطرے کا نام و نشان نا تھا۔
 
میرے دل میں خیال آیا کہ
 
ہماری زندگی بھی بس اتنی ہے
 
 
ہم ایک قطرے سے وجود میں آئے اور اس دنیا کے تپتے فرش پر گرئے، ابھی اپنا وجود اور اپنے مقصد کو سمجھئے بھی نا تھے کہ وقت کی تیز دھوپ نے اپنا اثر دیکھا دیا،
مٹی کا وجود مٹی ہو گیا، چاہنے والوں نے کچھ نشان قبر کی شکل میں بنانے کی کوشش کی، ایک نامکمل اور ناممکن خواہش کی کہ شاید ہمارا نام و نشان رہ جائے لیکن پھر وقت کے بے رحم جھونکوں نے سب کچھ پلٹ کر رکھ دیا، مٹی رہی نا راکھ رہی نا ہڈیاں اور نا ہی کوئی نشان۔
 
سو زندگی بس اتنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک قطرے کی مانند ماتھے سے گرا زمین میں جذب ہو گیا اور پھر بے نشان ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
از راشد ادریس رانا: زندگی
03-07-2014