Thursday, 18 April 2013

اِک بستی بسنے والی ہے

اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔
اِک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظُلم نہ ہو ۔
اور جینا کوئی جُرم نہ ہو
وہاں پھُول خوشی کے کھِلتے ہوں ۔
اور موسم سارے مِلتے ہوں
بَس رَنگ اور نُور برستے ہوں ۔
اور سارے ہنستے بَستے ہوں
اُمید ہے ایسی بستی کی
جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو ۔
اور دہشت کا بازار نہ ہو
جینا بھی دشوار نہ ہو ۔
اور مرنا بھی آزار نہ ہو
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو ۔
اُس آنگن میں غم کی شام نہ ہو
جہاں مُ
نصف سے انصاف ملے ۔
دل سب کا سب سے صاف ملے
اِک آس ہے ایسی بستی ہو ۔
جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو ۔
یہ بستی کاش ہماری ہو
اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔
اک بستی بسنے والی ہے

3 comments:

  1. اچھی نظم ہے ۔ میں نے 6 مارچ 2013ء کو اپنے بلاگ پر نقل کی تھی ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا لکھنے والا کون ہے ؟
    http://www.theajmals.com/blog/2013/03/06

    ReplyDelete
  2. نہیں سر شاعر بابت تو نہیں معلوم کون ہے. آپ کو معلوم ہو تو بتلا دئیجئے. شکریہ

    ReplyDelete