Friday 14 June 2019

رب کا شکر ادا کر بھائی

کاپی شدہ: فیس بک پیج "سچی کہانیاں"

ماچس کی ڈبیاں اس وقت ایک روپے کی چار آتی تھیں لیکن چولہا جلانے کے لیے دادی گتے کی چھپٹیوں کا استعمال کرتی تھیں۔ چھپٹی کہہ لیجیے کہ جیسے چائے کا ڈبا ہے ، اس کے باریک اور لمبے بہت سے ٹکڑے کاٹ لیں، آئس کریم سٹک کی طرح سے ، تو وہ ایک ٹکڑا ایک چھپٹی کہلاتا ہے۔ اب سین یہ ہوتا تھا کہ صبح جو پہلا چولہا جلتا وہ ماچس سے جلایا جاتا، اس کے بعد دوسرا اور تیسرا چولہا جلانے کے لیے وہی چھپٹی پہلے چولہے سے جلا کر باقی دونوں کو دکھا دیتیں اور یوں ماچس کی دو تیلیوں کی بچت ہو جاتی۔ وہ سب گتے کے باریک ٹکڑے یا چھپٹیاں چولہے کے برابر کسی بھی ڈبے میں رکھی ہوتی تھیں۔ دادی جب تک زندہ تھیں ان کا استعمال ہوتا رہا۔ جب تک نظر ٹھیک تھی تو فارغ وقت میں وہ سوئیٹر وغیرہ بن لیتی تھیں، نظر کمزور ہو گئی تو اسی طرح کے چھوٹے موٹے بہت سے کام انہوں نے خود اپنے ذمے لے لیے ۔ ماچس کی بچت آج کون سوچ سکتا ہے ؟ یعنی ایک تیلی جس کی وقعت آج بھی شاید دو پیسے ہو گی دادی اس کے استعمال میں کفایت کرتی تھیں، فضول خرچی نام کی چڑیا کبھی اڑتی ہی نہیں دیکھی۔

قلفی والا آتا، دور سے ہی گھنٹی بجنے کی آواز آنا شروع ہو جاتی، ابھی لکھتے لکھتے بھی منہ میں پانی آ گیا، کیا ہی قلفی ہوتی تھی! وہ گھنٹی جب بجتی اور بچے دادی سے پیسے مانگتے تو جتنے چاہیے ہوتے اتنے ہی وہ دیتیں لیکن کہتیں، چندا منہ ہی میٹھا کرنا ہے نا، تین روپے والی کھاؤ یا ایک روپے والی، پیٹ کبھی نہیں بھر سکو گے، ایک والی کھاؤ گے تو باقی دو روپوں سے شام میں کچھ کھا لینا۔ لیکن شام کون دیکھے ، اور شام میں کچھ بجوگ پڑ بھی گیا تو دادی کا بنک پھر دوبارہ کام آ جاتا تھا۔ یہ بات بھی اب سمجھ میں آتی ہے ۔ جو بھی کھا لیجیے ، جتنا بھی کھا لیجیے ، بھوک ہر حال میں دوبارہ لگنی ہی لگنی ہے ، تو کیوں نہ حساب سے کھایا جائے اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جائیں۔

ایک نعمت خانہ ہوتا تھا۔ نعمت خانہ اس زمانے کا فریج تھا۔ چار فٹ لمبائی، تین فٹ چوڑائی اور تین فٹ ہی گہرائی کی ایک الماری جس میں چاروں طرف لکڑی کے فریم کے اندر جالی لگی ہوتی تھی۔ یعنی بس ایک ہوادار سی الماری تھی جو باورچی خانے میں ایک کونا سنبھالے ہوتی تھی۔ دودھ ابالا، اسی میں رکھ دیا، سالن بنایا اس میں رکھ دیا، نچلے خانوں میں مصالحے وغیرہ بھی پڑے رہتے ، چائے کے لوازمات بھی وہیں دھرے ہیں، ماں کے لیے جو ڈرائے فروٹ نانا بھیجتے تھے وہ بھی وہیں سے چرا کر کتنی دفعہ کھایا، تو نعمت خانہ بڑی مزے کی چیز تھا۔ اسے ہرگز یہ دعویٰ نہیں تھا کہ میں پانچویں دن بھی آپ کو تازہ سالن کھلا سکتا ہوں، وہ سکھلاتا تھا کہ بھئی اتنا پکاؤ جتنا رات تک ختم ہو جائے ، کل کی فکر کل ہی کرنا!

ایک کام اور بھی دادی کا بڑا زبردست تھا۔ کبھی کوئی چیز ضائع نہیں کرتی تھیں۔ اپنے کپڑوں کی سلائی میں سے بچی کترنیں، دھاگوں کے چھوٹے بڑے گچھے ، مختلف رنگوں کے بٹن، سر میں لگانے والی سیاہ پن (بوبی پن)، سوئٹروں کی سلائی سے بچی اون، ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانے ، پانچ پیسے کا وہ چوکور سکہ، دس پیسے والے کنگری دار سکے یا چونی اٹھنی جو بھی بچتا وہ سب کا سب پاندان میں ان کے پاس سنبھلا رہتا تھا۔ ضرورت کے وقت نکل بھی آتا تھا۔ ایک فٹ کا پاندان گھر داری کی ضرورتیں بھی پوری کرتا تھا۔

اس وقت ایک انسان کے پاس جیب میں پانچ دس نوٹ ہوتے تھے اور اگر وہ سگریٹ پینے والا ہوتا تو ساتھ ایک ڈبی اور ماچس بھی ہوتی، زندگی یہیں تک تھی اور پھر بھی حسین تھی۔ آج آپ نے گھڑی بھی لازمی باندھنی ہے ، سالم بٹوہ جیب میں ہونا لازم ہے ، موبائل تو امت پر فرض ہو چکا ہے ، اس کی بیٹری کمزور ہے تو پاور بینک بھی ہاتھ میں رکھنا ہے ، سواری کی چابیاں بھی ساتھ ہیں، سگریٹ پیتے ہیں تو وہ، اس کا لائٹر، بندہ دو جیبوں میں کتنا کچھ رکھ سکتا ہے ؟ جیبوں میں ضرورت سے زیادہ سامان بھر لینا اور پھر اس کے پیچھے جیبیں خالی کرتے جانا دورِ جدید کی عطا ہے ۔

اے سی، فریج، ٹیلی فون، رنگین ٹی وی، وی سی آر، شاور، مسلم شاور، ٹائلوں والے باتھ روم، ماربل اور چپس والے فرش، ایلومینیم کی کھڑکیاں، ہر بندے کی اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی، یہ سب ابھی بیس پچیس برس پہلے تک نوے فی صد لوگوں کے لیے ایک خواب ہوتا تھا، کون مان سکتا ہے ؟ ماموں گیارہویں سال گرہ پر آئے تو لال رنگ کی ایک سائیکل لائے تھے ، اس سے آج تک نیچے نہیں اترا، خوشی بس یہ ہوتی تھی!

خواب پورے کرنے کے لیے قیمت چکانا پڑتی ہے ۔ بجلی کے بلوں پر چیخنے سے پہلے گھر کے اندر اے سی گن لیجیے ۔ گیس کے بل پر بلبلانے سے پہلے گیزر چیک کیجیے ، کتنے ماہ سے بند نہیں ہوا؟ پیٹرول کے بڑھتے ریٹ پر احتجاج کرنے سے پہلے یاد کیجیے کہ سائیکل سے اترتے ہوئے کندھے ٹانگیں اور کمر کیا احتجاج کرتے تھے ۔ ذرا وہ لال اینٹوں کے صحن اور سیمنٹ والے باتھ روم یاد کیجیے جن میں بالٹی سے ڈونگے بھر بھر کے نہانا ہوتا تھا اور اب شاور کے مزے دیکھ لیجیے کہ جس کے نیچے سے ہٹنے کا دل نہیں چاہتا۔ موبائل کمپنیوں کی دھاندلی کا رونا روتے ہوئے تصور کیجیے کہ ماں بہنوں کو فون سننے چھ گھر پار جانا پڑے تو کیسا لگتا ہو گا۔ انٹرنیٹ ری چارج کرواتے ہوئے سوچیے کہ یہ جو مفت میں گھنٹوں پردیسیوں سے بات ہوتی ہے ، یہ کیا دو منٹ کو بھی ممکن تھی؟ جو بہت زیادہ افورڈ کر سکتے تھے وہ مکمل ویڈیو کیسٹ ریکارڈ کروا کے گھر بھیجتے تھے ، پورا گھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر انہیں دیکھتا تھا اور ماں رو بھی نہیں سکتی تھی کہ باپ کا دل کمزور نہ پڑ جائے ، باپ تو ویسے ہی “مرد” بننے پر مجبور ہوتا تھا۔ ہما شما آڈیو کیسٹ پر آواز سن کر دوپٹے کے کونے بھگو لیتے تھے اور غریب غربوں کا آسرا وہی خط ہوتا تھا جو آج بھی نصف ملاقات سمجھا جاتا ہے لیکن ایس ایم ایس اور ای میل جسے دفن کر چکے ہیں۔

تو یہ قیمت چکاتے چکاتے راستہ وہاں لے جاتا ہے جہاں نئے خواب منتظر ہوتے ہیں۔ سستے موبائل والا مہنگا موبائل لے گا۔ سائیکل والا موٹر سائیکل لے گا، موٹر سائیکل والا چھوٹی گاڑی لے گا، چھوٹی گاڑی کے بعد بڑی کا خواب دیکھا جائے گا، بڑی سے اور بڑی اور پھر اور بڑی۔ یہی معاملہ کچے گھروں سے نکلنے والوں کو دو کنال کے بنگلے میں بھی چین نہیں لینے دیتا اور اسی طرح کا حال ٹیکنالوجی کے مارے ہوؤں کا ہوتا ہے ۔ لیپ ٹاپ، موبائل، ٹیبلٹ، ہر چار سے چھ ماہ بعد ان کے نئے ماڈل دستیاب ہوتے ہیں اور انہیں ساتھ رکھنا سٹیٹس کی نشانی، انسان کتنا اپ ٹو ڈیٹ رہ سکتا ہے ؟ یارو، ایک لاکھ کے موبائل پر چڑھ کے گھر سے بندہ صدر تک تو جا نہیں سکتا، فائدہ کیا ایسی اندھی ریس میں پڑنے کا، بھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان!

ابا کہتے ہیں عرب شہزادے بھی اے سی کی وہی ٹھنڈک لیتے ہیں جو آپ کے پاس ہے ، معدے ان کے بھی آپ جتنے ہیں، گھڑی پر وقت وہ بھی ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے آپ دیکھتے ہیں، سبزہ انہیں بھی ویسی ہی فرحت دیتا ہو گا جیسے آپ کسی باغ میں جا کر محسوس کرتے ہیں، آئی فون سے مہنگا کوئی فون ان کے پاس بھی نہیں ہو سکتا، گاڑیاں ان کی واقعی بہت آرام دہ ہوتی ہیں لیکن بنیادی ضرورت کی تمام چیزیں اگر آپ کے پاس ہیں تو آپ میں اور عرب شہزادوں میں کوئی فرق نہیں۔ بس چادر کا حساب رکھیے تو آپ خود ایک جیتے جاگتے شہزادے ہیں۔
رب کا شکر ادا کر بھائی