Wednesday 27 April 2016

ایک تھا گاؤں "پاکستان"

ایک ہی دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاوں تھا، اس میں بڑئے خبیث قسم کے چودھری قابض تھے، لیکن انکی خباثت کا کوئی زور نہیں چلتا تھا، کیوں کہ لوگ خوشحال تھے زرا سے مسئلہ پہ وہ چوھدریوں کے خلاف اٹھ کھڑئے ہوتے تھے ، چوھدریوں نے سوچا کہ کچھ ایسی ترقیب کریں کہ لوگ بھی رہیں لیکن ان کا ضمیر مردہ ہو جائے اور انکی پھوں پھاں بھی ختم ہو جائے۔ لوگ زندہ رہیں لیکن انکے غلام بن کے اور کوئی آواز بھی نا نکالیں۔
سو انہوں نے گاوں کے مراثی سے مشورہ لیا اور موچی کو اپنا مخالف نمایندہ بنا لیا۔۔۔۔۔۔ موچی کیوں کہ انہی گاوں کے لوگوں میں سے تھا سو جیسے ہی اس نے چوھدریوں کئ خلاف شور شرابا شروع کیا لوگ بہت خوش ہوئے کہ دیکھو یار کیسا کھرا بندہ ہے۔ بس موچی نے گاوں کے چوک میں خبیث چوھدریوں کے خلاف دھرنا اور بھوک ہڑتال شروع کر دی، جب بھی کچھ ہلکا پھلکا ہوتا موچی شروع ہو جاتا، لوگ اکھٹے ہوتے واہ واہ کرتے، موچی چوھدریوں کو برا بھلا کہتا، ان کو ننگی گالیاں دیتا ، دھمکیاں دیتا اور لوگ واہ واہ کرتے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ، ہر شور شرابے کے بعد چوھدری موچی کے گھر ایک تھیلا گندم بھیجوا دیتے۔ لوگ موچی کی تقاریر اور ہنگامے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے اپنا وقت برباد کرتے اپنا نقصان کرتے اور شام کو اپنے اپنے گھر، بس اب یہ ہوا کہ چوھدریوں کے خلاف کوئی عملی طور پہ کچھ نا کرتا، بلکہ لوگ آہستہ آہستہ انکی خباثتوں اور حرامزدگیوں کے عادی ہو گئے، انکی ہر آنے والی نسل پہلے والی نسل سے زیادہ موچیوں کی حمایت می  رہتی لیکن خود کچھ بھی نا کرتے۔
یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ گاؤں بڑا ہوتا گیا پھیلتا گیا اور پھر ایک دن اسکا نام #پاکستان  پڑگیا۔

چوھدری بدنسل تھے سو انکے مزید کئی خاندان بنتے گئے اور وہ وزارتوں، عدالتوں ہر جگہ پھل پھول گئے پھیل گئے۔

موچی ترقی کرتے کرتے اس ملک کی اپوزیشن، لبرل اور مداری عالم بن گئے۔

بس اس گاؤں کے لوگ پڑھ لکھ گئے، ترقی کر گئے موچی کے ساتھ پہلے  بھی کھڑئے ہوتے تھے اب نسل در نسل ذلت و بے ضمیری میں مبتلا رہنے کے بعد اب بھی کھڑئے ہوتے ہیں لیکن  ووٹ بھی ڈالتے ہیں بڑئے شوق سے چوہدریوں سے اپنی عزتیں پامال کراتے ہیں ظلم کراتے ہیں لیکن پھر بھی نظریں انکی موچیوں کی طرف لگی رہتی ہیں۔۔۔۔ کیوں کہ وہ اب ترقی کرکے "عوام پاکستان"  کہلانا پسند کرتے ہیں۔