Friday 28 March 2014

ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خوی کے
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہ پر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
تعفن سے پرنیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھن ٹھن
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہ گونجے ہوئے قہقہے راستوں پر
یہ چاروں طرف بھیڑ سی کھڑکیوں پر
یہ آواز سے کھنچتے ہوئے آنچلوں پر
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پائوں زینوں کی جانب
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہاں پیر بھی آ چکے ہیں جواں بھی
تنومند بیٹے بھی ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے مال بھی
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی!
پیمبرؐ کی امت زلیخا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
ذرا ملک کے راہبروں کو بلائو
یہ گلیاں، یہ کوچے، یہ منظر دکھائو
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کو لائو
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
ساحر لدھیانوی

شاہ زیب کی بہن اکیلی ہے.

سنا ہے،پڑوس سے جواں عزت کا جنازہ اٹھا ہے
سنا ہے،وہاں رادھا کی بیٹی کو کچلا گیا ہے
سنا ہے،وہاں بھگوان کو ماننے والے
انسان دکھائی دیتے ہیں
برہمن ہوں یا شودر
رادھا کی عزت کیلئے اکائی دکھائی دیتے ہیں
سنا ہے،وہ احتجاجاََ اپنے گھروں کو جاتے نہیں
اٹل ہیں اپنے ارادے میں
اپنے مقصد سے اکتاتے نہیں
کیا تم نے سنا ہے ؟

اک جنازہ ہمارے یہاں بھی اٹھا ہے
بنتِ حوا کی آبرو بچانے کیلئے
اک بھائی مر گیا ہے
چند اک ہزار خدا کو ماننے والے بھی
احتجاجاََ سڑکوں پر آتے نہیں
مسلمان بنے بیٹھے ہیں حجروں میں
شمشیر اٹھاتے نہیں،میدانِ جنگ کو جاتے نہیں
رادھا کی بیٹی کے تو محافط ہیں لاکھوں
یہاں بنتِ حوا اکیلی ہے

جلسوں کی زینت بننے والوں
!شاہ زیب کی بہن اکیلی ہے!

پاکستان کے بارے میں بنیادی معلومات (جدید)

پاکستان کے بارے میں
 اپنی معلومات کے خزانے میں اضافہ فرمائیں



قومی بہن
"زبیدہ آپا"
 
قومی گرل فرینڈ
"وینا ملک"
 
قومی پریشانی
"میرا کی شادی"
 
قومی کنوارہ
"شیخ رشید"
 
نیشنل دھشت
"بلیک واٹر"
 
نیشنل کھانا
"قسم کھانا"
 
hhhhhhhh

 
نیشنل بد معاش
"شان "
 
نیشنل ججز
"علی عظمت، حدیقہ کیانی، بشرٰی انصاری"
 
نیشنل کتا
"اب یہ بھی بتانا پڑئے گا، زرد ــــــــــــ آری"
 
نیشنل بک
"فیس بک"

نیشنل روبورٹ
"ممنون حسین"
نیشنل بنک
"سوئیس بنک"
 
نیشنل ہیجڑا
"ساحر لودھی"

نیشل خطیب
"الطاف حسین"
 
نیشنل فلم
"عامر لیاقت"
نیشنل بسکٹ
"گالا"
 
نیشنل برڈ
"اینگری برڈ"

نیشنل ڈیم
"کالا باغ ڈیم"
 

Thursday 6 March 2014

مــــــــاں دا لاڈلــــــــــــــــــــــــــــہ

دوپہر کا وقت اور تقریبا دو بجے کے بعد روزانہ ہی میں کھانا کھانے کمپنی کے مہیا کردہ میس میں جاتا ہوں۔ جہاں پر کھانا کھاتے وقت ہم لوگ روزانہ ناک بھنویں چڑھاتے ہیں کہ آج کھانا کیسا ہے، روزانہ ایک جیسا کھا کھا کر تنگ آ جاتے ہیں
 
بچھلے کئی دن سے یہ ہوتا ہے کہ ہماری کپمنی میں تعمیراتی کام کے لیئے کچھ لوگ کسی باہر کی کپمنی سے آئے ہوئے ہیں جن میں پاکستانی، انڈین، بنگلا دیشی سب شامل ہیں۔ جیسے ہی وقت تین بجے کا ہوتا ہے تو ان کے کچھ لوگ  کوئی لگ بھگ چار لوگ ہاتھوں میں لفافہ تھامے میس کی کھڑکی کے قریب تپتی دھوپ میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آج بھی ایسا ہی ہوا، لیکن میس میں کوئی نا تھا تومیں نے کھڑکی کھولی اور سامنے کھڑے بزرگ کو بتایا کہ اندر کوئی نہیں ہے اگر آپ آکر کھانا لینا چاہیں تو لے لیں۔ لیکن وہ تھوڑا سا جھجھکتے ہوئے بولے نہیں میں اندر نہیں آوں گا مجھے اندر آنے کی اجازت نہیں۔ خیر ہے وہ بندہ آ جائے گا تو خود ہی دے دے گا۔
 
ان کی جھجھک اور بے بسی نے مجھے ایک لمحہ میں دور پاکستان کے ایک گاوں میں لاکھڑا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک منظر تھا
 
 
 
ایک اچھے گھر کا کھلا سا صحن جس میں گھر کی مالکن اپنے نونہال اپنے لاڈلے اپنے پیارے کو گود میں لئے پیار سے بہلا رہی ہے ہاتھ میں ایک روایتی کٹورا پکڑا ہوا ہے جس میں سے سوندھی سوندھی دیسی گھی کی کٹی ہوئی چوری کی خوشبو آ رہی تھی۔
 
وہ بار بار اپنے لاڈلے کو پیارسے چوری کھلانے کی کوشش کرتی لیکن وہ ہر بار نخرے کرتا ، تھوڑی کھاتا اور پھر منہ بند کر لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں لاڈ سے سے پھر اسکے منہ میں تھوڑی سی چوری ڈال دیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
پھر وقت گزرتا گیا ماں باپ خوشحال دیہاتی تھے اور اپنے بچے کو پڑھانا چاہتے تھے، سو انہوں نے اس کو پہلے سکول میں داخل کرایا، جہاں وہ شان بان سے آتا جاتا، گو کہ سکول اتنا دور نا تھا لیکن پھر بھی ایک شاندار تانگہ اسکو چھوڑ کر آتا اور لے کر بھی آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سکول سے نکل کر اس کو بہت شوق ہوا کہ وہ کوئی مہارت والی پڑھائی پڑھے گا، وقت نے اس کو شہر کی جانب دھکیلا اور وہ وہاں پر آ کر ڈپلومہ کرنے لگا، اور اپنی زہانت کی بنا پر ایک اچھا ہونہار طالب علم ثابت ہوا۔ اسی دوران شہر کی ہوا اور دوستوں کے ساتھ گھومتے گھومتے اس کو جانے کیا سوجھی کہ اس نے یہ طے کر لیا کہ ڈپلومہ ملتے ہی وہ بیرونے ملک جائے گا اور وہاں کام کر کے انجینئر بن جائے گا۔ پھر بہت سارے پیسے اکھٹے کرئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی دھن میں اس نے پلٹ کر نا باپ کو دیکھا ناماں کی یاد ستائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر کے برگر نے ماں کے لاڈلے کو ماں کی چوری سے دور کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
والدین نے بہت سمجھایا کہ پڑھ لکھ کرادھر ہی کچھ کرلو لیکن اس کے دماغ پر ایک ہی دھن سوار تھی باہر جانا ہے اور پھر وہا ں کام کر کے ایک بہت بڑا آدمی بننا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے باپ نے اپنی زمین کا کچھ حصہ بیچ کر اس کے لیئے ویزہ کا بندوبست کیا ساتھ ہی ساتھ اس کو کچھ پیسے دیئے اور آنکھوں میں پیار ، محبت کے آنسو بھرئے اپنے لال کو بیرونے ملک بھیج دیا۔
 
گو کہ کپمنی اچھی تھی لیکن موسم بہت ظالم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جو کانٹریکٹ ہوا اس کے مطابق وہ دوسال سے پہلے چھٹی نہیں جا سکتا،اور اگر جائے گا تو بغیر تنخواہ کے اور ساتھ ہی ساتھ اپنا ٹکٹ لیکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنخواہ ملی تو پتا چلا کہ انجئنئیر بننے کے خواب دیکھنے والا ایک الیکٹریشن کے ویزہ پر تھا اور کام بھی وہی کرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
پہلے چند ماہ اچھے گزرئے اسکو لگا کہ وہ اپنا مقصد پورا کر لے گا لیکن پھر ایک دن گھر سے اطلاع آئی کہ اس کا باپ بہت بیمار پڑ گیا ہے صرف اس کو پریشانی سے بچانے کی خاطر انہوں نے نہیں بتایا تھا ، ابھی زندگی تو بچ گئی لیکن وہ زمین کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا، سو زمین کو ٹھیکہ پر دے دیا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے گھر کا گزارہ اچھا ہو رہا ہے اور باپ کے علاج کا خرچ بھی نکل رہا ہے۔ کچھ مدت بعد اس کی ماں کا پیغام ملا کہ بیٹا تیری بڑی بہن کی شادی کرنی ہے اگر تم کچھ روپے بھیج دو ورنہ زمین بیچنی پڑے گی اور پھر اس کے بعد کفالت کا کوئی زریعہ نا رہے گا۔
اس نے جو بچائے تھے گھر بھیج دئے کہ چلوپھر دیکھتے ہیں جمع ہو جائیں گے۔
کچھ وقت کے بعد اس کے چھوٹے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا، برادری نے موقع پر بہت مدد کی لیکن بعد میں سارے پیسے اس کو ادا کرنے پڑئے۔
 
یونہی کرتے کرتے زندگی کے کئی سال گزر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلی بار چھٹی گیا تو اس کو یاد آیا کہ انجئینر پورے پانچ سال زندگی کے پردیس کاٹ آیا ہے، والد کے انتقال کے بعد ماں نے اس کی شادی کے لیئے بہت زور دے کر اس کو بلایا تھا۔
 
شادی کے بعد کچھ عرصہ رہا، لیکن اب نا تو زمین اتنی تھی اور نا ہی اس کو کچھ کرنے کی سمجھ آ رہی تھی سو دوبارہ اسی  کمپنی میں واپس آگیا۔
 
اور پھر آج زندگی کے بیس سال گزر گئے تھے، آج وہ کپمنی کے کام کے سلسلے میں ایک اور کپمنی الیکٹریشن بن کر مزدوری کر رہا تھا اورکیوں کہ ان کی کپمنی دوپہر کا کھانا نہیں دیتی تھی تو وہ پیسے بچانے اور بھوک سے بچنے کی خاطر اس کپمنی کے میس کے باہر کھڑا انتظار کر رہا تھا کہ کب سب لوگ کھا کر جائیں اور پھر وہ اپنے اوراپنے ساتھیوں کی خاطر کھانا لفافوں میں بھر کر لے جائے۔
 
آخر کچھ تو بچت ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میری آنکھیں اس ماں کے لاڈلے کو پردیس میں دیکھ کر اشک بار تھیں۔
 
ماں دا لاڈلہ دور کہیں دور کسی گردوغبار میں گم ہو چکا تھا۔
 

Wednesday 5 March 2014

ماں نے 2بچوں کو قتل کردیا ـــــ اللہ جی یہ کیا ہو گیا ہے۔

لاہور کے علاقے جوہرٹاوٴن میں ماں نے مبینہ طور پر2بچوں کو قتل کردیا۔ پولیس کے مطابق ملزمہ نے8 ماہ کے بیٹے اور دوسال کی بیٹی کو گلا دباکر قتل کیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ جوہر ٹاؤن ای بلاک کی رہائشی ملزمہ بسمہ نے بیان دیا ہے کہ شوہر نشہ کرتاہے،غربت اورفاقہ کشی کے باعث بچوں کو قتل کیا۔ ملزمہ کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور لاشیں اسپتال منتقل کردی گئی ہیں۔
 
میاں صاحبان!!!!
حکومت وقت ، موجودہ دور کے ذمہ داران اور ہم سب بس اب تیار ہوجائیں، وقت زیادہ دور نہیں ہے۔ بہت جلد ان معصوم بچوں موت اور ان کی ماں کی بے بسی ایک عذاب بن کر آنے والی ہے۔ اور اس میں مجھ سمیت ہر وہ بندہ لپٹ جائے گاجو اس بے ضمیر ، بے حس، بے غیرت معاشرے کا حصہ ہے۔
ہم لوگ صرف دھرتی کا بوجھ ہیں، چلتی پھرتی لاشیں
اور کچھ بھی نہیں
 
اللہ رب العزت اور اس کے پاک پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
 
کے بعد "دنیا میں" ماں جیسا پیار کرنے والا رشتہ کوئی نہیں ہوتا۔
پھر کیا ہو گیا ہے پاکستان میں، ایسا کونسا گناہ کبیرہ ہے اس ملک میں ، ایسی کونسی منحوست ہے کہ جس نے اس ماں کو مجبور کردیا،اپنے بطن میں نو ماہ رکھنے اور دکھ تکلیف برداشت کرنےکے بعد ایسا کیا ہو گیا ہے کہ خود اپنے ہاتھوں اپنے معصوم بچوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا؟
 
ماں تو قربانی کا نام ہے، نچھاور ہونے کا نام
پھر ایسا کیا ہوگیا ہے، ماں کی ممتا سے بھی اللہ کی رحمت روٹھ گئی ہے
 
یہ غربت، یہ افلاس، یہ بھوک،یہ تنگدستی
اس کے ذمہ دار کون ہے
میرے خیال میں اس کے ذمہ داران ہم سب ہیں
 
ان بچوں کے قاتل، ان کی ماں کے قاتل اور
اس ماں کی ممتا کے قاتل ہم سب ہیں
 
اس سے زیادہ ہمت نہیں ہو رہی کچھ لکھنے کی!!! دعا کی ہمت نہیں ہو رہی، کیا دعا کروں، اپنے روٹھے ہوئے رب سے اب صرف موت مانگنے کا دل کرتا ہے۔
 
مـر ہی جائیں بے ضمیر تو اچھا ہے راشد
کونسا زندہ وجود ہم لوگ لیئے پھرتے ہیں