Wednesday 21 October 2015

ایک خواب

خواب تو خواب ہوتے ہیں,  کسی کا ان پے نا زور ہوتا ہے نا اختیار.

صبح صادق کی روپہلی کرنوں کے ساتھ, مرغے کی بانگ اور چڑیوں کی رب العزت کے حضور میں مدح سرائ.
میں جاگوں تو یہ سب میرے منتظر ہوں, اپنے گھر کے لان میں بیٹھ کر چائے کا کپ تھامے میں اپنے بچوں کو سکول جاتے دیکھتا ہوں.
اسکے بعد اپنے والدین کے پاوں چوم کے میں اپنے روزگار کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہوں.

کام گو بہت بڑ ا نہیں لیکن میرا اپنا ہے, میرا ذاتی, جس کا سب کچھ میرا ہے,نفع بھی نقصان بھی. کسی کی ملازمت نہیں کسی کی باتیں نہیں. .

پھر دن بھر رزق حلال کو پنکھیوں کی طرح سمیٹ کے شام ڈھلنے سے پہلے اپنے گھر والوں کے پاس آ جاتا  ہوں ماں باپ کا ماتھا چوم کے ان کے پاس بیٹھ جاتا ہوں قریب ہی بچے کسی بات پہ شور مچا رہے ہیں میں سارے دن کی کتھا ان کو سنا دیتا ہوں ان کی با تیں سنتا ہوں.

ماں کے پاوں دباتے دباتے جانے کب اونگھ آ جاتی ہے.

اور میری آنکھ جب کھلتی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کے وہ تو خواب تھا, میں تو حقیقت میں وہیں ہوں سات سمندر پار

پر دیس , ,,,, ہاں پر دیس میں,  میرا بچہ حیرانگی سے مجھے دیکھ رہا ہے, کل صبح جب میں دفتر گیا تو وہ سو رہا تھا, اور جب دیر سے گھر لوٹا تو بھی وہ سو رہا تھا,
پورے چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد اس نے مجھے دیکھا تو عجب سی کشمکش  میں تھا کہ شاید مجھے جانتا ہے یا نہیں.

عجب کشمکش میں تو میں بھی ہوں,

جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
تم نے دیس کو چھوڑا تھا
یا دیس نے تم کو چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا

از راشد ادریس رانا
21اکتوبر 2015.