Wednesday 31 October 2012

سبحان اللہ، سبحان اللہ






♦♦ اُسی ایک شخص کے پیار میں ♦♦

مجھے سارے رنج قبول ہیں
اُسی ایک شخص کے پیار میں
مری زیست کے کسی موڑ پر
 جو مجھے ملا تھا بہار میں
وہی اک امید ہے آخری
 اسی ایک شمع سے روشنی
کوئی اور اس کے سوا نہیں,
 میری خواہشوں کے دیار میں
وہ یہ جانتے تھے کہ آسمانوں
کے فیصلے ہیں کچھ اور ہی
سو ستارے دیکھ کے ہنس پڑے
مجھے تیری بانہوں کے ہار میں
یہ تو صرف سوچ کا فرق ہے
 یہ تو صرف بخت کی بات ہے
کوئی فاصلہ تو نہیں
تیری جیت میں میری ہار میں
ذرا دیکھ شہر کی رونقوں سے
پرے بھی کوئی جہان ہے
کسی شام کوئی دیا جلا
کسی دل جلے کے مزار میں
کسی چیز میں کوئی ذائقہ
کوئی لطف باقی نہیں رہا
نہ تیری طلب کے گداز میں
نہ میرے ہنر کے وقار میں

♥♥♥ میری آنکھوں کے سمندر میں ♥♥♥

میری آنکھوں کے سمندر میں جلن کیسی ہے
آج پھر دل کو تڑپنے کی لگن کیسی ہے


اب کسی چھت پے چراغوں کی قطاریں بھی نہیں
اب تیرے شہر کی گلیوں میں گھٹن کیسی ہے


برف کے روپ میں ڈھل جائینگے سارے رشتے
مجھ سے پوچھو کے محبت کی اگن کیسی ہے


میں تیرے وصل کی خواہش کو نا مرنے دونگا
موسم ہجر کی لہجے میں تھکن کیسی ہے


راہگزاروں میں جو بنتی رہی کانٹوں کی ردا
اسکی مجبور سی آنکھوں میں کرن کیسی ہے


مجھے معصوم سی لڑکی پے ترس آتا ہے
اسے دیکھو تو محبت میں مگن کیسی ہے

Friday 26 October 2012

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا: انتقال پر ملال محترمہ عنیقہ ناز

جناب محترم خرم شہزاد خرم کی چند سطروں نے جیسے ایک پہاڑ میرے سر پر رکھ دیا ہو. آج یہاں یو اے ای میں عید ہے اور کافی دنوں سے میں مصروفیت کی وجہ سے بلاگ کو زیادہ ٹائم نہیں دے پایا. لیکن اس تحریر نے کہ محترمہ عنیقہ ناز اس دار فانی سے کوچ فرما گیئں ہیں. آنکھوں میں نمی اور دل پر منوں بوجھ ڈال دیا. اور بس ایک ہی بات ذہن میں بار بار آتی جا رہی ہے کہ یہ کیا ہوگیا.
اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطاء فرمائے.إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
 

Saturday 20 October 2012

صانکی یدم Sanki Yedim Camii



صانکی یدم (مسجد یہ چیز تو میں نے کھائی ہوئی ہے)
 
 مساجد کے ناموں میں ایک نام (مسجد یہ چیز تو میں نے کھائی ہوئی ہے) بہت ہی حیرت سے سنا جائے گا۔ مسجد یہ چیز تو میں کھائی ہوئی ہے اصل میں ترکی لفظ Sanki Yedim Camii کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ مسجد ترکی کے مشہور شہر استنبول کے ایک محلے فاتح میں واقع ہے۔ اور اس کی وجہ تسمیہ کے پیچھے ایک بہت ہی سبق آموز قصہ ہے۔
مشہور عراقی مفکر اسلامی اور مؤلف اورخان محمد علی (1937-2010) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب (روائع من التاریخ العثمانی) میں اس مسجد کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
...
استنبول شہر کے ایک محلے فاتح میں ایک غریب مگر مخلص اور دردمند دل رکھنے والا شخص خیرالدین آفندی رہتا تھا۔ خیرالدین آفندی کا جب بھی بازار سے گزر ہوتا اور اسے کوئی کھانے کی چیز اچھی لگتی یا کبھی پھل، گوشت یا پھر کسی مٹھائی وغیرہ کے کھانے کا دل کرتا تو وہ اپنے آپ کو کہتا صانکی یدم، یعنی یہ چیز تو میری کھائی ہوئی ہے یا اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ فرض کیا یہ چیز میری کھائی ہوئی ہے، اور اس کے ساتھ ہی وہ اس چیز کو کھانے پر خرچ ہونے والے پیسوں کو علیحدہ کرتا اور گھر جا کر ایک صندوقچی میں ڈال دیتا۔
مہینوں اور سالوں تک یہ شخص اپنے آپ کو دنیا کی لذت سے محروم رکھ کر پیسے اکٹھے کرتا رہا اور یہ تھوڑے تھوڑے پیسے اس صندوقچی کو بھرتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ بیس سال کے بعد وہ دن آن ہی پہنچا جب خیرالدین آفندی کے پاس اتنے پیسے جمع ہو چکے تھے کہ وہ ان سے اپنے محلے میں ایک مسجد تعمیر کر سکتا تھا۔ محلے میں مسجد کی تعمیر ہونے پر جب اہل محلہ کو اس غریب مگر اپنے مقصد کیلئے اس قدر خلوص نیت کے ساتھ جدوجہد کرنے والے شخص کا قصہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس مسجد کا نام ہی صانکی یدم رکھ دیا۔
حاصل موضوع:
=========
ہم لوگوں کو اپنا ذہن اور اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس کسی رفاہی کام میں دینے کیلئے زیادہ پیسے ہوتے نہیں اور تھوڑے دیتے ہوئے ہم ندامت اور خجالت محسوس کرتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ہم کچھ بھی نہیں کر پاتے۔
گھروں میں نعمتوں کی بھرمار ہوتی ہے، سبزیاں اور پھل فریج میں رکھے رکھے باسی اور خراب ہو رہے ہوتے ہیں مگر وافر سامان خریدتے ہوئے ہمارے منہ سے کبھی بھی یہ فقرہ نہیں نکلتا کہ یہ چیزیں تو ہم نے کھائی ہوئی ہیں تاکہ بچ جانے والے وہ پیسے ہم کسی مستحق کو ہی دیدیں

Monday 8 October 2012

"لعنت ہو مجھ پر اگر پاکستان آکر بھی مجھے لائین میں لگنا پڑئے"

وہ جانے کونسا دور تھا اور کونسا سن تھا لیکن میں نے کہیں پڑھا تھا کہ

دجلہ اور فراط کے کنارے جس وقت مسلمان باقاعدہ جمع ہو کر مناظرے کرنے میں مصروف تھے عین اسی وقت آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں۔ بس یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمان جن کا ہر شعبہ زندگانی میں طوطی بولا کرتا تھا وہ ہر شعبہ میں ہی ذلت شکار ہوتے جا رہےہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے نا جانے کتنے لوگ صاحب علم و ہنر ہو کر بری ہوئے۔



خیر اسی بات پر بحث کرتے ہوئے ایک قریبی رفیق نے ایک آپ بیتی واقعہ سنایا جو کچھ یوں تھا۔


مختصر چھٹیاں اپنے بچوں کے ساتھ گزار کر اور کینیڈا کے میٹھے سرد موسم کے مزے لیکر جب میں واپسی کے لیئے ائیرپورٹ پہنچا تو بہت خوش گوار موڈ میں تھا، جو فلائٹ ملی اس کو یو اے ای یعنی ابو ظہبی سے ہو کر جانا تھا۔

اس پر سونے پہ سہاگہ والا کام یہ ہوا کہ ساوتھ افریقہ سے ایک فلائٹ کا کنیکش بھی اسی فلائیٹ کے ساتھ تھا، یعنی وہاں سے آنے والے بھی ہمارے ہمسفر تھے۔ خیر بہت نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم سب قدم بہ قدم اور لمحہ بہ لمحہ جہاز تک پہنچے اور اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئے۔ سفر بہت تہذیب و شائستگی سے گزرا ، بہت مزہ آیا ، آخر کار پہلا پڑاو ابو ظہبی میں پڑا ، جہاں پر کچھ گھنٹوں کا آرام تھا ، آخرکو تھکاوٹ بھی تو کم کرنی تھی۔ یہاں پر بھی ہر چیز بہت نظم و ضبط اور شائیستگی سے انجام پائی۔

اس سارے سفر میں میرے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں جو کہ خالص پاکستانی تھیں اور ساوتھ افریقہ یا شاید اس سے بھی آگے کسی جگہ سے وطن واپس لوٹ رہی تھیں۔ خیر پہلے پڑاو کے اختتام پر دوبارہ اسلام آباد کے لیئے روانگی ہوئی ، تو ایک بار پھر ایسا نظم اور شائستگی کے دل خوش ہو گیا۔ ایسا سکون تھا جیسے انسان اپنے گھر میں گھوم رہا ہو اور کہیں آ رہا ہو یا جا رہا ہو۔

اب جناب اللہ اللہ کر کے سفر اختتام پذیر ہوا اور جہاز نے فضائے ارض مقدس کی خوشبودار چاہت بھری ہواوں میں ایک دو قلابے بھرے اور ٹائروں نے اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ کو چھوا۔

بس یہ وہ لمحات تھے جنہوں نے سارے سکون کا بیڑا غرق کر دیا، سارا نظم و ضبط دھرا کا دھرا رہ گیا، شائستگی یوں ہوا ہوئی کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ وہ لوگ جن کے انگریزی بولنے کے سٹائل سے میں آغاز سفرسے ہی بہت مرعوب تھا ان کے لہجے جانے کہاں سے کہاں چلے گئے۔
یوں لگا جیسے اچانک سفید لبادے پھاڑ کر اندر سے جنات باہر آ گئے ہوں۔ ابھی جہاز پوری طرح اترا بھی نا تھا کہ ٹک ٹک ٹک کی آوازوں نے پورے جہاز کے اندرونی منظر کو چکا چوند کر دیا، اور سب لوگ یوں کھڑے ہوئے جیسے عام طور پر ولیمے کی روٹی کھلنے کے اعلان کے ساتھ  مہمان تیاریاں پکڑتے ہیں ۔ سامان کو نا صرف دبوچا گیا بلکہ حسب توفیق اور حسب ضرورت دائیں بائیں اور آگے آنے والوں کے منہ پر، سر پر کمر میں یا پھر ٹانگوں پر یوں مارا گیا جیسے کہ جنگ کا طبل بجایا جا رہا ہو۔

اب اگلہ مرحلہ جو کے کچھ کشتی اور ہاتھا پائی  سے ملتا جلتا تھا وہ تھا جہاز سے اتر کر بسوں تک جانے کا ، جس میں سب نے اپنی اپنی کوششوں سے پورا حصہ لیا۔ بسوں سے اترتے ہی امیگریشن کا مرحلہ تھا جو کہ اس فلائیٹ سے پہلے آنے والی دو تین بدیشی فلائیٹوں کے باعث پہلے ہی زور زبردستی کا شکار تھا۔ ہر کاونٹر پر اتنی لمبی لائین تھی جتنا کاونٹر پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اطمینان, کیوں کہ ان کے برقی ہاتھ بغیر برق کے ہی رواں دواں تھے۔

یہ سب کچھ دیکھ کر ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا ، خود پر یقین تھا نا اس منظر پر یقین کہ اب سے کچھ گھنٹے پہلے کے لوگ اور ان کا نظم و نسق کہا گم ہو گیا۔ یوں لگا جیسے پاکستان میدان حشر ہے اور اس میں آتے ہی ہر انسان نفسا نفسی کا شکار ہو گیا ہو۔

حیرت کا پہاڑ اس وقت ریزہ ریزہ ہوا جب ان خاتون جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ۔ انہوں نے آکر قطار میں کھڑئے ہوئے لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش شروع کر دی، مجھے سے پہلے کھڑئے ہوئے صاحب نے بہت نرمی سے کہا، آنٹی آپ میرے نمبر پر آ کر لائن میں لگ جائیں میں پیچھے ہو جاتا ہوں۔

جس پر ان خاتون نے ناک سکیڑا ، بھنویں اوپر چڑھائیں اور تنک کر بولیں،

"لعنت ہو مجھ پر اگر پاکستان آکر بھی مجھے لائین میں لگنا پڑئے"


ان کے اس جملے کو سنتے ہی مجھے احساس ہوا کہ واقعی ہی، یہی وجہ ہے کہ آج ہم لوگ اتنے پیچھے ہیں، اتنے زیادہ کہ شاید ہم سے صرف ایک ، دو نسل پہلے پتھر کا دورہی ہوتا ہوگا۔ کیوں کہ تعلیم اور تمدن ہونے کے با وجود ہم تو بنیادی اخلاقیات سے بہت ہی دور ہیں۔

زندہ لاشیں نوچتے نوچتے:by Rashid Idrees Rana

تنگ آگیا ہوں سوچتے سوچتے
زندہ لاشیں نوچتے نوچتے


کسی کو روٹی نہیں ملتی

کسی کی عزت سرراہ بکتی

کسی کے زخم تازہ ہر دم ہیں

بنا جہیز ہے کسی کی بیٹی

کسی کی نیند ہر پل ہے روٹھی

کسی کی آس امید ہے ٹوٹی 


 ترسی نگاہ خوشی کے لیئے

کسی کی مسکراہٹ ہے روٹھی

کسی کو خون دے کر کیا ملا

کسی کو جان دے کر کیا ملا

کسی نے خاک ہوکر کیا پایا

کسی نے راکھ ہو کرکیا پایا

تنگ آگیا ہوں سوچتے سوچتے

زندہ لاشیں نوچتے نوچتے
کیا میں زندہ ہوں یا مر چکا راشد
یہ دکھ نسلوں کو سونپتے سونپتے
شاعر
راشد ادریس رانا
2012-10-08

انقلاب پسند : سعادت حسن منٹو

 

 انقلاب پسند : سعادت حسن منٹو

ایک منتخب تحریر


جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میرے خیالات منتشر ہونے کے بعد پھر جمع ہو رہے ہیں تو جہاں کہیں میری قوتِ گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے مخاطب ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں:۔
“مرمریں محلات کے مکینو، تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی دیکھتے ہو، مگر یقین جانو اسکے سائے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تم مجھے سلیم کے نام سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے۔۔۔۔۔۔میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے جسم پر طاری ہوتی ہے جب وہ غربت سے تنگ آکر پہلی دفعہ ایوانِ گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ ہم سب کانپیں۔”

خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں
 عوام کے اخلاق قوانین سے مسخ کئے جاتے ہیں۔
 لوگوں کے زخم جرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔ 
ٹیکسوں کے ذریعے دامنِ غربت کترا جاتا ہے۔
 تباہ شدہ ذہنیت جہالت کی تاریکی سیاہ بنا دیتی ہے۔ 
ہر طرف حالتِ نزع کے سانس کی لرزاں آوازیں، عریانی، گناہ اور فریب ہے۔
 مگر دعوٰی یہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کررہے ہیں۔۔۔۔۔
کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی جارہی ہے۔
ہمارے کانوں سے پگھلا ہوا سیسہ اتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے جا رہے ہیں، کہ ہم نہ دیکھ سکیں، نہ سن سکیں اور نہ محسوس کرسکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 انسان جنہیں بلندیوں پر پرواز کرنا تھا کیا اسکے بال و پر نوچ کر اسے زمین پر رینگنے کیلیے مجبور نہیں کیا جارہا؟۔۔۔۔۔۔
کیا امراء کی نظر فریب عمارتیں مزدورں کے گوشت پوست سے تیار نہیں کی جاتیں؟۔۔۔۔۔۔
کیا عوام کے مکتوبِ حیات پر جرائم کی مہر ثبت نہیں کی جاتی؟
 کیا مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں ہے؟
 کیا جمہور کی زندگی کشمکشِ پیہم، ان تھک محنت اور قوتِ برداشت کا مرکب نہیں ہے؟
 بتاؤ، بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں؟”

Monday 1 October 2012

ایک پیغام سب کے لیئے۔

یہ سلوک ہونا چاہئے ہمارا اس خبیث میڈیا سے جو ہر جگہ ذلت آمیز تحریر اور پروگرام پیش کرکے اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور آزادیئ صحافت کے نام پر اپنے ملک کی عزت کو نیلام کرتے ہیں۔ سب دوستوں سے گزارش ہے کہ حسب توفیق اس پیغام کو آگے نشر کریں اور لگے ہاتھوں جہاں کہیں ایسی خبر ہو وہاں ان کو آڑے ہاتھوں لیں۔ کم از کم ان کو تو دائرہ تمیز اور ملک کی عزت کا احساس ہو۔ شکریہ

See the Picture !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!