Monday, 8 October 2012

"لعنت ہو مجھ پر اگر پاکستان آکر بھی مجھے لائین میں لگنا پڑئے"

وہ جانے کونسا دور تھا اور کونسا سن تھا لیکن میں نے کہیں پڑھا تھا کہ

دجلہ اور فراط کے کنارے جس وقت مسلمان باقاعدہ جمع ہو کر مناظرے کرنے میں مصروف تھے عین اسی وقت آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں۔ بس یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمان جن کا ہر شعبہ زندگانی میں طوطی بولا کرتا تھا وہ ہر شعبہ میں ہی ذلت شکار ہوتے جا رہےہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے نا جانے کتنے لوگ صاحب علم و ہنر ہو کر بری ہوئے۔



خیر اسی بات پر بحث کرتے ہوئے ایک قریبی رفیق نے ایک آپ بیتی واقعہ سنایا جو کچھ یوں تھا۔


مختصر چھٹیاں اپنے بچوں کے ساتھ گزار کر اور کینیڈا کے میٹھے سرد موسم کے مزے لیکر جب میں واپسی کے لیئے ائیرپورٹ پہنچا تو بہت خوش گوار موڈ میں تھا، جو فلائٹ ملی اس کو یو اے ای یعنی ابو ظہبی سے ہو کر جانا تھا۔

اس پر سونے پہ سہاگہ والا کام یہ ہوا کہ ساوتھ افریقہ سے ایک فلائٹ کا کنیکش بھی اسی فلائیٹ کے ساتھ تھا، یعنی وہاں سے آنے والے بھی ہمارے ہمسفر تھے۔ خیر بہت نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم سب قدم بہ قدم اور لمحہ بہ لمحہ جہاز تک پہنچے اور اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئے۔ سفر بہت تہذیب و شائستگی سے گزرا ، بہت مزہ آیا ، آخر کار پہلا پڑاو ابو ظہبی میں پڑا ، جہاں پر کچھ گھنٹوں کا آرام تھا ، آخرکو تھکاوٹ بھی تو کم کرنی تھی۔ یہاں پر بھی ہر چیز بہت نظم و ضبط اور شائیستگی سے انجام پائی۔

اس سارے سفر میں میرے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں جو کہ خالص پاکستانی تھیں اور ساوتھ افریقہ یا شاید اس سے بھی آگے کسی جگہ سے وطن واپس لوٹ رہی تھیں۔ خیر پہلے پڑاو کے اختتام پر دوبارہ اسلام آباد کے لیئے روانگی ہوئی ، تو ایک بار پھر ایسا نظم اور شائستگی کے دل خوش ہو گیا۔ ایسا سکون تھا جیسے انسان اپنے گھر میں گھوم رہا ہو اور کہیں آ رہا ہو یا جا رہا ہو۔

اب جناب اللہ اللہ کر کے سفر اختتام پذیر ہوا اور جہاز نے فضائے ارض مقدس کی خوشبودار چاہت بھری ہواوں میں ایک دو قلابے بھرے اور ٹائروں نے اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ کو چھوا۔

بس یہ وہ لمحات تھے جنہوں نے سارے سکون کا بیڑا غرق کر دیا، سارا نظم و ضبط دھرا کا دھرا رہ گیا، شائستگی یوں ہوا ہوئی کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ وہ لوگ جن کے انگریزی بولنے کے سٹائل سے میں آغاز سفرسے ہی بہت مرعوب تھا ان کے لہجے جانے کہاں سے کہاں چلے گئے۔
یوں لگا جیسے اچانک سفید لبادے پھاڑ کر اندر سے جنات باہر آ گئے ہوں۔ ابھی جہاز پوری طرح اترا بھی نا تھا کہ ٹک ٹک ٹک کی آوازوں نے پورے جہاز کے اندرونی منظر کو چکا چوند کر دیا، اور سب لوگ یوں کھڑے ہوئے جیسے عام طور پر ولیمے کی روٹی کھلنے کے اعلان کے ساتھ  مہمان تیاریاں پکڑتے ہیں ۔ سامان کو نا صرف دبوچا گیا بلکہ حسب توفیق اور حسب ضرورت دائیں بائیں اور آگے آنے والوں کے منہ پر، سر پر کمر میں یا پھر ٹانگوں پر یوں مارا گیا جیسے کہ جنگ کا طبل بجایا جا رہا ہو۔

اب اگلہ مرحلہ جو کے کچھ کشتی اور ہاتھا پائی  سے ملتا جلتا تھا وہ تھا جہاز سے اتر کر بسوں تک جانے کا ، جس میں سب نے اپنی اپنی کوششوں سے پورا حصہ لیا۔ بسوں سے اترتے ہی امیگریشن کا مرحلہ تھا جو کہ اس فلائیٹ سے پہلے آنے والی دو تین بدیشی فلائیٹوں کے باعث پہلے ہی زور زبردستی کا شکار تھا۔ ہر کاونٹر پر اتنی لمبی لائین تھی جتنا کاونٹر پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اطمینان, کیوں کہ ان کے برقی ہاتھ بغیر برق کے ہی رواں دواں تھے۔

یہ سب کچھ دیکھ کر ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا ، خود پر یقین تھا نا اس منظر پر یقین کہ اب سے کچھ گھنٹے پہلے کے لوگ اور ان کا نظم و نسق کہا گم ہو گیا۔ یوں لگا جیسے پاکستان میدان حشر ہے اور اس میں آتے ہی ہر انسان نفسا نفسی کا شکار ہو گیا ہو۔

حیرت کا پہاڑ اس وقت ریزہ ریزہ ہوا جب ان خاتون جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ۔ انہوں نے آکر قطار میں کھڑئے ہوئے لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش شروع کر دی، مجھے سے پہلے کھڑئے ہوئے صاحب نے بہت نرمی سے کہا، آنٹی آپ میرے نمبر پر آ کر لائن میں لگ جائیں میں پیچھے ہو جاتا ہوں۔

جس پر ان خاتون نے ناک سکیڑا ، بھنویں اوپر چڑھائیں اور تنک کر بولیں،

"لعنت ہو مجھ پر اگر پاکستان آکر بھی مجھے لائین میں لگنا پڑئے"


ان کے اس جملے کو سنتے ہی مجھے احساس ہوا کہ واقعی ہی، یہی وجہ ہے کہ آج ہم لوگ اتنے پیچھے ہیں، اتنے زیادہ کہ شاید ہم سے صرف ایک ، دو نسل پہلے پتھر کا دورہی ہوتا ہوگا۔ کیوں کہ تعلیم اور تمدن ہونے کے با وجود ہم تو بنیادی اخلاقیات سے بہت ہی دور ہیں۔

2 comments:

  1. ھاھاھاھا
    آنٹی بن کر جیو

    ReplyDelete
  2. bhut . . umda . .

    waqayi me aap sahi farma rahe ho . . .. . . ham log to jihalat ke aakhiri had paar karne ke qareeb hai

    Allah taa'la hamare haal per raham kare.

    ReplyDelete