Thursday 29 March 2012

دن رات کے آنے جانے میں

دن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں، کبھی منظر صاف نہیں ہوتے
کبھی سورج بات نہیں کرتا
کبھی تارے آنکھ بدلتے ہیں
کبھی منزل پیچھے رہتی ہے
کبھی رستے آگے چلتے ہیں
کبھی آسیں توڑ نہیں چڑھتیں
کبھی خدشے پورے ہوتے ہیں
کبھی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں
کبھی خواب ادھورے ہوتے ہیں


یہ تو سب صحیح ہے لیکن
اس آشوب کے منظر نامے میں
دن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کچھ سایہ کرتی آنکھوں کے ، پیماں تو دکھائی دیتے ہیں!
ہاتھوں سے اگرچہ دور سہی، امکاں تو دکھائی دیتے ہیں!
ہاں، ریت کے اس دریا سے ادھر
اک پیڑوں والی بستی کے
عنواں تو دکھائی دیتے ہیں!


منزل سے کوسوں دور سہی
پردرد سہی، رنجور سہی
زخموں سے مسافر چور سہی
پر کس سے کہیں اے جان وفا
کچھ ایسے گھاؤ بھی ہوتے ہیں جنہیں زخمی آپ نہیں دھوتے
بن روئے ہوئے آنسو کی طرح سینے میں چھپا کر رکھتے ہیں
اور ساری عمر نہیں روتے
نیندیں بھی مہیا ہوتی، سپنے بھی دور نہیں ہوتے
کیوں پھر بھی جاگتے رہتے ہیں! کیوں ساری رات نہیں سوتے!
اب کس سے کہیں اے جان وفا
یہ اہل وفا
کس آگ میں جلتے رہتے ہیں، کیوں بجھ کر راکھ نہیں ہوتے

~~امجد اسلام امجد~~

Tuesday 27 March 2012

ولید بن عبدالملک..:::::.. تاریخ کے دریچے میں<شکریہ وکیپیڈیا>

ولید بن عبدالملک (Al-Walid ibn Abd al-Malik) (715-668) بنو امیہ کا چھٹا نامور خلیفہ جو بڑا فیاض فاتح اور رفاہ عامہ کے کاموں میں بڑی دلچسپی لیتا تھا۔ اندلس، سندھ اور وسط ایشیا کے علاقے فتح کیے۔ حجاج بن یوسف، طارق بن زیاد، قتیبہ بن مسلم اور محمد بن قاسم اس کے نامور سپہ سالار تھے۔
 ابتدائی حالات اور تخت نشینی
عبدالملک نے اپنی زندگی ہی میں اپنے دونوں بیٹوں ولید اور سلیمان بن عبدالملک کو علی الترتیب اپنا جانشین نامزد کر دیا تھا۔ چنانچہ باپ کی وفات کے بعد 705ء میں ولید سربراہ سلطنت ہوا۔ عبدالملک علم و فنون کا دلدادہ تھا لیکن ولید کو علم و ادب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ جس قدر کوششیں تحصیل علم میں اس کے لیے کی گئیں وہ ناکام رہیں۔ لیکن اس کمی کے باوجود ایک حکمران کی حیثیت سے وہ اصول جہانبانی اور کشور کشائی میں اپنے پیشرو سے کم نہ تھا۔ اس کا دور امن و امان کا زمانہ تھا۔ اسے باپ سے عظیم سلطنت ورثہ میں ملی تھی۔ خوش قسمتی سے اپنے زمانے کے بہترین سپہ سالار اس کے ساتھ تھے۔ جن کی بدولت فتوحات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس سے عہد فاروقی کی یاد تازہ ہوگئی۔ ان فتوحات کی بدولت اس دور کو تاریخ اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔
  فتوحات
خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں سپین، ترکستان اور پاکستان کے وسیع علاقے فتح ہوۓ۔ خلیفہ ولید کے دور میں عرب اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت قائم کر چکے تھے جس کا دنیا میں کوئی حریف نہ تھا۔
  بلخ و طخارستان کی فتح
ترکستان (ماوراء النہر) کا علاقہ جو خراسان سے شمال مشرق کی جانب واقع تھا ، کے حکمران اکثر سرکشی اور بغاوت پر آمادہ رہتے تھے۔ قتیبہ بن مسلم بھی بہادر اور نامور جرنیل تھا اس نے ترکستان کے تمام علاقہ کی مکمل تسخیر کا جامع منصوبہ بنایا۔ 86ھ /705ء میں قتیبہ پہلی بار دریائے جیحوں کو عبور کرکے ماوراء النہر کے علاوہ میں داخل ہوا۔ ترکستان کے حکمران اس کی آمد سے گھبرا گئے اور یکے بعد دیگرے اطاعت قبول کرنے لگے ۔ بلخ اور طخارستان کے حکمرانوں کو مطیع کرنے کے بعد قتیبہ نے اپنے بھائی صالح کو وہاں کا نگران مقرر کرکے واپسی اختیار کی اور مرو میں قیام پذیر ہوا۔ صالح نے کاشان اور فرغانہ کی تسخیر مکمل کر لی ۔
  بیکند کی فتح
706ء قتیبہ نے بخارا کے ایک اہم شہر بیکند پر لشکر کشی کی ۔ شعدی اور بخاری قبائل نے مل کر مزاحمت کی مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور قلعہ بند ہوگئے مسلمانوں نے یلغار جاری رکھی۔ اہل بیکند نے گھبرا کر صلح کر لی۔ قتیبہ صلح کے بعد ابھی واپس پلٹا ہی تھا کہ اہل بیکند نے بدعہدی کے مرتکب ہو کر مسلمان حاکم اور اس کے عملہ کو قتل کر دیا۔ چنانچہ قتیبہ فوراً پلٹا اور بیکند کو فتح کرنے کے بعد مجرمین کو قرار واقعی سزا دی ۔
  فتح بخارا
بیکند کی تسخیر کے بعد دوسرے سال 89ھ /708ء میں قیتبہ دوبارہ ترکستان پر حملہ آور ہوا۔ خاقان چین کے بھتیجے نے قتیبہ کی آمد کی خبر پاکر 2 لاکھ ترک اور سغد قبائلیوں کے ہمراہ اس کی راہ روکنے کی کوشش کی ۔ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ مقابلتاً بے حد کم تھی لین ان کے حوصلہ اور عزم کے سامنے دشمن کی ایک نہ چلی اور اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پرا۔ قتیبہ نے پیش قدمی جاری رکھی اور خاص بخارا کا نقشہ منگوایا اور نئی ہدایات روانہ کیں۔ ان ہدایات کے مطابق قتیبہ نے 90ھ / 710ء میں دوبارہ بخارا پر حملہ کیا۔ فریقین کے درمیان خونریز جنگ ہوئی اہل سغد اور ترک بڑی بے جگری سے لڑے ۔ قریب تھا نا مسلمان فوج کے پاؤں اکھڑ جاتے کہ خیموں میں مقیم عورتیں باہر نکل آئیں اور مجاہدین کے گھوڑوں کو مار مار کر واپس میدان جنگ میں دھکیل دیا۔ مسلمان سپاہی دوبارہ میدان جنگ میں پلٹ کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور انھیں شکست دے کر بخارا پر قبضہ کر لیا۔ قیتبہ نے وہاں ایک مسجد کی تعمیر کی اور مسلمانوں کے لیے مکانات بنوائے جہاں بنو تمیم اور دیگر عرب قبائل آباد ہوئے۔
  تسخیر سمرقند
اہل سمرقند نے ترکستانی مہمات کے دوران مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ دوستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیگر ترکستانی ریاستوں کی مدد کی تھی۔ قتیبہ سمرقندیوں کو ان کی بدعہدی کا مزا چکھانا چاہتا تھا۔ اس لیے اب قیتبہ نے سمرقند کا محاصرہ کر لیا۔ اہل سمر قند نے اردگرد کے حکمرانوں کو مدد کے لیے پکارا ۔ اور خود قلعہ بند ہو گئے۔ قیتبہ کو ترک ریاستوں کے ارادہ کا علم ہوگیا تو اس نے اپنے بھائی صالح کو مامور کیا کہ وہ ترکستانی فوج کو راہ ہی میں روک دے۔ صالح نے ان پر اچانک حملہ کرکے ان کو تتر بتر کر دیا اور مال غنیمت لے کر سمرقند واپس لوٹ آیا۔ اس شکست نے سغدیوں کی کمر ہمت توڑ دی چنانچہ انھوں نے مجبور ہو کر صلح کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی ۔ سغدیوں نے 12 لاکھ درہم سالانہ خراج کی ادائیگی منظور کر لی۔ قتیبہ نے وہاں بھی مسجد کی تعمیر کی اہل سغد کا عقیدہ تھا کہ جو کوئی ان بتوں کو توڑے گا وہ تباہ و برباد ہوگا ۔ لٰہذا قتیبہ نے خدائے واحد کی برتری، توحید کے درس اور باطل عقائد کی بیخ کنی کے لیے تمام بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔ جب اہل اسلام کو کوئی گزند نہ پہنچا تو بہت سے سغدی متاثر ہو کر مسلمان ہوئے ۔ سمرقند کی تسخیر 93ھ /711ء میں مکمل ہوئی ۔
  خوارزم کی فتح
713ء میں خوارزم شاہ کے بھائی خرزاد نے ملکی نظم و نسق پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔ لٰہذا خوارزم شاہ کی درخواست پر قتیبہ نے خوارزم پر فوج کشی کی اور خرزاد کو شکست دے کر خوارزم شاہ کو تخت نشین کر دیا مگر خوارزم شاہ اپنی کمزوری کی بنا پر اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ چنانچہ قتیبہ نے خوارزم کو باقاعدہ سلطنت اسلامیہ میں شامل کرکے اپنے بھائی عبداللہ کو وہاں کا حاکم مقرر کر دیا۔
  شاش اور فرغانہ پر قبضہ
شاش اور فرغانہ کے حکمران سابقہ جنگوں میں اپنے ترکستانی ہمسایوں کے حلیف رہ چکے تھے لہذا قتیبہ نے 715ء میں شاش اور فرغانہ پر قبضہ کرکے اموی سلطنت کی حدیں چین تک پھیلا دیں علاوہ ازیں خجستان بھی لشکر اسلامی کے آگے نہ ٹھہر سکا اور اموی سلطنت کا جز بنا۔
  چین پر حملہ
715ء میں ترکستان کی باقاعدہ تسخیر کے بعد قیتبہ نے چین پر حملہ کا منصوبہ بنایا۔ کاشغر فتح کرنے کے بعد قیتبہ چینی حددود میں داخل ہو گیا۔ فریقین کے درمیاں صلح کی گفتگو کا آغاز ہوا مسلمان سفیر خاقان چین کے پاس گئے خاقان نے مسلمانوں کے وفد کو متاثر کرنے کی کوشش کی مگر وفد کی طرف سے خاقان کو بتا دیا گیا کہ قیتبہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے کا جب تک وہ چین سے خراج وصول نہ کر لے۔ خاقان چین کو مسلمانوں کے عزم و استقلال کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے لہذا جزیہ کی ادائیگی پر معاہدہ صلح ہوا۔ خاقان نے بیش قیمت تحائف بھی قیتبہ کے پاس روانہ کیے اس طرح لشکر اسلام فتح مندانہ واپس لوٹا۔
  ولید بن عبدالملک اور پاکستان
ولید بن عبدالملک کے دور میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کا کچھ حصہ بنو امیہ کی خلافت کا حصہ بن گیا اس طرح سے ولید بن عبدالملک قدیم پاکستان کا پہلا خلیفہ تھا اور یہ علاقہ اک ایسی ریاست کا حصہ بن گیا جس کی سرحدیں دریائے سندھ سے فرانس تک تھیں، جس کا دارالخلافہ دمشق تھا اور جس کی زبان عربی تھی۔ پاکستان کا تعلق ہمیشہ کے لیے مذہبی طور پر اسلام سے اور ثقافتی طور پر عرب سے جڑ گیا اس طرح سے پاکستان کی قریبا 4000 سالہ تاریخ میں یہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک ان چند گنے چنے لوگوں میں شامل ہے۔ جنھوں نے پاکستان پر ہر لحاظ سے گہرے اثرات ڈالے۔
بد قسمتی سے بنو امیہ کی روشن خیالی اور علم پروری میں سیاسی وجوہات کی بنا پر پاکستان کو حصہ کم مل سکا جتنا کہ دوسرے علاقوں کو خاص طور پر سپین کو ملا۔
یہ کریڈٹ اس شخص کو جاتا ہے کہ سندھ کے قید خانے سے ایک عورت مدد کو پکارتی ہے اور ولید کی انتظامیہ لبیک کہتی ہے اور فوری طور پر ایک دور افتادہ مشکل اور دشمن ملک میں اس عورت کی مدد اور رہائی کیلیۓ کمر بستہ ہو جاتی ہے۔ حالانکہ اموی ریاست اس وقت کئی اور محاذوں پر بھی برسر پیکار تھی۔
پاکستان میں ولید کے کردار کو کم کیا جاتا ہے اور محمد بن قاسم کے کردار کو زیادہ حالانکہ فیصلہ کرنے، سپہ سالار کا انتحاب، فوج اور وسائل کی فراہمی اور پھر مسلسل رہنمائی اور رابطہ یہ ولید اور اسکی انتظامیہ کا ہی کام تھا۔
  اندلس، یورپاور دنیا پر اثرات

















عربوں کی سب سے بڑی سلطنت
ولید کے دور میں اندلس کی فتح تاریخ کا اہم واقع ہے۔ جس نے مستقبل کی ہسپانوی، یورپی اور دنیا کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیۓ بدل کر رکھ دیا۔ بنو امیہ کی علم دوست انصاف پسند اور روادار طبیعت نے ایسے ماحول کو جنم دیا جو ایک شاندار تہذیب کی تخلیق کا باعث بنا۔ سائنس، فلسفہ، ادب اور دوسرے فنون نے ایک نیا جنم اندلس میں لیا جس نے یورپ اور پھر پوری دنیا کو گہرے طور سے متاثر کیا۔
  ایشیائے کوچک کی فتوحات
قیصر روم کی حکومت اس زمانے کی دوسری عالمی طاقت تھی جو مسلم حکومت کے لیے مستقل چیلج تھی۔ جب کہ عبدالملک کو ایک زمانے میں روپیہ دے کر اس سے عارضی صلح کرنی پڑی تھی۔ ولید نے اس خطرے کے انسداد کے لیے ایک مستقل فوج اس سرحد پر رکھی جو رومی حکومت سے مختلف قلعے چھینتی رہی۔ اس جوف کے سالار اس کے بھائیمسلمہ بن عبدالملک اور اس کا بیٹا عباس بن ولید تھے۔ انہوں نے اسی سال حصن بونق ، حصین اخرام اور حصین بوسن فتح کئے۔ اگلے سال عباس اور رومیوں کے مسلسل دباؤ سے وہ پیچھے ہٹ کر طوانہ کے قلعہ میں محصور ہونے پر مجبور ہوگئے ۔ بالاخر عباس نے اس قلعہ کو فتح کرکے انہیں پیچھے ہٹ کر طوانہ کے قلعہ میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا۔ بالاخر عباس نے قلعہ فتح کرکے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔ مسلمہ نے عموریہ کا قلعہ بھی فتح کیا اور عباسآرمینیا میں گھس گیا ۔ ولید کے عہد حکومت کے خاتمے تک یہ فاتحین طرسوس اور انطاکیہ تک علاقے فتح کر چکے تھے۔
  ولید کا سنہری زمانہ
بقول سر ولیم میور ولید اول کا زمانہ تاریخ اسلام کا شاندار ترین دور ہے ۔ فتوحات ، وسعت سلطنت ۔ ملکی استحکام ، امن و امان ، خوشحالی اور تہذیبی و ثقافتی ترقی کے لحاظ سے یہ دور انتہائی بلند اور ممتاز مقام رکھتا ہے اس دور میں ہونے والی فتوحات کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ عہد فاروقی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اگر محض فتوحات ہی کی عظمت و معراج کی کسوٹی قرار دیا جائے تو بھی یہ بنوامیہ کا شاندار ترین دور کہلانے کا یقیناً مستحق ہے اس دور کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
  وسعت و سلطنت اور فتوحات
اس دور کی سب سے بڑی خصوصیت وہ عظیم الشان فتوحات ہیں جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ سندھ میں محمد بن قاسم، ترکستان اور چین میں قیتبہ بن مسلم ، سپین اور پرتگال میں موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد ، ایشیائے کوچک میں مسلمہ بن عبدالملک اپنی شجاعت ، بہادری اور سرفروشانہ یلغاروں کی بدولت دشمنان اسلام کو شکستوں پر شکستیں دے کر اسلامی عظمت کا علم بلند کر رہے تھے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر ولید دو چار برس ہی اور زندہ رہ جاتا تو چین اور ہندوستان بھی مملکت اسلامیہ کا جزو ہوتے ۔
  امن و امان کا قیام
بیرون ملک فتوحات کے علاوہ اندرون ملک امن و امان کا قیام اعلی نظم و نسق اور خوشحال عوام اس دور کی دوسری نمایاں خصوصیات ہیں۔ حجاج بن یوسف کی زیر سرکردگی خوارج کا مکمل استیصال کیا جا چکا تھا اور کسی بھی ملک دشمن تحریک کو سر اٹھانے کی جرات نہ تھی اگر ملک کے اندر مکمل امن امان نہ ہوتا تو اس دور کی دیگر تعمیری خصوصیات کبھی بھی اجاگر نہ ہوتیں۔
  علمی ترقی و سرپرستی
اگرچہ ولید خود تو علم حاصل نہ کر سکا۔ لیکن علوم کی سرپرستی بدستور پہلے خلفا کی طرح کی۔ قرآن و حدیث کی تعلیم اور ترقی کے لیے اس نے ذاتی توجہ اور دلچسپی سے کام لیا قرآن پاک سے اسے بڑی محبت تھی۔ اس کا شوق اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی حاجت روا اس کے در پر روپیہ مانگنے آتا تو وہ قرآن پڑھوا کر سنتا اور اگر قرآن پڑھنا آتا تو اس کی خوب مدد کرتا۔ عربی گرائمر میں بھی کافی سرگرمی سے کام کیا گیا۔ بصرہ کا شہر بالخصوص قواعد گرائمر کے سلسلے میں مشہور ہوا۔ نئے شعراء کی حوصلہ افزائی اور قدردانی کی جاتی تھی۔ علماء و فقہا کے وظائف مقررتھے۔
  مسجد نبوی کی تعمیر
مسجد نبوی کی تعمیر ولید کا سنہری کارنامہ ہے۔ ولید نے عمر بن عبدالعزیز کو مسجد نبوی کی تعمیر کاحکم دیا۔ چنانچہ اس کی نگرانی میں جب کہ وہ عامل مدینہ تھے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ فن تعمیرات کے نقطہ نظر سے یہ اس دور کا عظیم کارنامہ ہے عمر بن عبدالعزیز نے اردگرد کی زمین خرید کر اسے وسعت دی ۔ باہر کے ملکوں سے کاریگر بلوائے گئے۔ شاہ روم نے ایک لاکھ مشقال سونا اور پچی کاری کا کام کرنے والے کاریگر فراہم کیے۔ پوری مسجد پتھر سے بنوائی گئی اور اس کی دیواروں پر طلائی مینا کاری کی گئی اور ایک فوارہ بھی بنایا گیا مسجد کی بنیادیں صحابہ کرام کے بیٹوں سے ہاتھ لگوا کر اٹھائی گئیں۔ اس کی تعمیر 3 سال صرف ہوئے۔ اس کے صحن میں 20 ہزار آدمی اکھٹے بیٹھ سکتے تھے۔ اس مسجد کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور دور دور سے سیاح دیکھنے کے آئے۔ جب تعمیر کا کام پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو ولید 91ھ میں خود اسے دیکھنے کے لیے آیا اور اس نے اسے بہت پسند کیا۔
  جامع مسجد دمشق






امیہ مسجد دمشق
دمشق کی جامع مسجد حسن جمال کا ایک مرقع تھی۔ اس کی تعمیر پر بھی کاریگر ہندوستان ، ایران اور افریقہ سے لائے گئے ۔ 8 سال کے عرصہ میں اس کی تکمیل ہوئی اور 12 ہزار مزدوروں نے اس پر کام کیا۔ مختلف رنگوں کے پتھر کے استعمال کے علاوہ سونے اور چاندی کا بھی بہت زیادہ استعمال ہوا۔ 18 جہازوں پرسونا چاندی لاد کر جزیرہ قبرص سے دمشق لایا گیا۔ اس کی تزئین و آرائش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 56 لاکھ اشرفیاں اس پر لاگت ہوئی۔ بعض مورخین کے اقوال کے مطابق ملک شام کا سات برس کا خراج اس پر صرف ہوا۔ اس کی چھتوں اور دیواروں پرطلائی مینا کاری اور طرح طرح کے نقش و نگار سے کام لے کر اسے دلکش بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ چھت کے ساتھ چھ سو مرصع قندیلیں طلائی زنجیروں کے ساتھ لٹکائی گئیں۔ وسیع اتنی تھی کہ 20 ہزار آدمی بیک وقت اس میں بیٹھ سکتے تھے۔ اپنے حسن و جمال کی وجہ سے یہ مسجد زیارت گاہ خواص و عوام تھی۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے تھے۔ اک بار عمر بن عبدالعزیز نے اپنے زمانہ میں جب اس کے سونے چاندی اور دیگر اشیا کو اتروا کر بیت المال میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تو اتفاقاً قیصر روم اسے دیکھنے کے لیے آنکلا۔ دس ہمرایوں کے ساتھ مسجد کو بھی دیکھنے گیا اس پر اس کی ساخت اور تعمیراتی حسن کا اس قدر اثر ہوا کہ رنگ فق ہو گیا اور اپنے ہمرایوں سے یونانی زبان میں کہا کہ ہمارا تو خیال تھا کہ عربوں کی اقامت شام میں چند روزہ ہے لیکن یہاں تو انہوں نے اپنے استقلال کے سامان جمع کر رکھے ہیں۔ خلیفہ کو اپنے آدمیوں نے جو وہاں موجود تھے اس گفتگو کے مطالب سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ مسجد تو کفار کو غیظ دلاتی ہے لہذا اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ اس واقعہ ہی سے جامعہ مسجد دمشق کی لافانی حیثیت واضح ہو جاتی ہے۔
  دیگر تعمیراتی کام
علاوہ ازیں نبی کریم کے روضہ مبارک کے چاروں طرف دوہری مضبوط دیوار کھڑی کی گئی۔ مملکت کے دیگر حصوں میں نئی مساجد کی تعمیر کی گئی اور پرانی کی مرمت کا کام کیا گیا۔ ولید نے تعمیرات پر بہت فراخدلی سے روپیہ صرف کیا۔
  رفاہ عامہ
مسافروں کے آرام کے لیے سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کی گئی ۔ ان کے کناروں پر سنگ میل نصب کرائے ۔ سرائیں اور کنوئیں کھدوائے تاکہ آنے جانے میں پیش آنے والی دقتین کم ہوں۔ ملکی پیداوار بڑھانے کے لیے نہریں کھدوائی گئیں۔ مریضوں کے علاج کے لیے سرکاری ہسپتال تعمیر کیے گئے جہاں مریضوں کو مفت دوائیں دی جاتی تھیں۔ سرکاری طعام خانے کھولے گئے جہاں ناکارہ ، بیکار اور مسفار کھانا کھا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ نادار لوگوں کی امداد کے لیے وضائف مقرر کیے گئے۔ ملک سے گداگری کا خاتمہ کیا مختصر یہ کہ لوگوں کو ہر طرح کی رعائتیں اور آسائشیں فراہم کرنے کے پوری پوری کوشش کی گئی۔
  بحری بیڑہ کی تنظیم
ولید کے زمانہ میں فوجی نظام کو درست کرنے کے لیے خصوصی توجہ دی گئی ۔ اس ضمن میں بحری بیڑہ کی توسیع بھی ولید کا بہت بڑآ کارنانہ ہے بحری جنگوں میں کامیاب بحری فوج کی تنظیم کی بنا پر تھی۔ اس لیے نئے جہاز بنانے اور پرانے کی مرمت کے لیے ملک میں کارخانے تعمیر کئے گئے۔ سب سے بڑا کارخانہ ٹیونس میں تھا۔ بحیرہ روم کی جنگوں میں کامیابی کا بہت بڑا ہاتھ بحری بیڑہ کی مضبوطی تھا۔
  مجموعی جائزہ
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ کہنا درست ہے کہ ولید اول کا دور بنو امیہ کا شاندار ترین اور سنہری زمانہ تھا۔ فتوحات کے میدان میں کامیابیاں ہی کیا کم تھیں لیکن اس کے علاوہ علم و ادب تعمیرات اور رفاہ عامہ کے میدان میں ولید کے زمانہ میں شاندار کارہائے نمایاں انجام دئیے گئے۔ جہاں قیتبہ بن مسلم ۔ محمد بن قاسم ۔ موسٰی بن نصیر ، طارق بن زیاد اور مسلمہ بن عبدالملک کی کامرانیاں اس دور کو ایک خاص عظمت اور شان بخشتی ہیں۔ وہاں اس دور میں ہونے والی دیگر تعمیراتی خصوصیات بھی کم اہم نہیں۔ قصر الخلافت ہو یا شاہی محلات ۔ قصر الزہرا ہو یا قرطبہ ، عالیشان یونیورسٹیاں ہوں یا عمومی درسگاہیں اور اپنی خاص صنعت ، کاریگری اور فنی خوبیاں کے لحاظ سے نوادرات زمانہ میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ سب انمٹ نقوش اسلامی عہد کی ایسی یادگاریں ہیں جو ابنائے زمانہ کی دست درازیوں اور امتداد زمانہ کے باجود مٹائے نہ مٹ سکیں۔ اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور درخشندہ دور کی آئینہ دار ہیں۔

جینا محال کر لیا

راہ جنوں پہ چل پڑے جینا محال کر لیا
ہم نے تلاش حسن میں خود کو نڈھال کر لیا

کیسے وہ دن تھے پیار کے، خود پہ بڑا یقین تھا
پل میں جدائی ڈال لی، پل میں وصال کر لیا

جیتے رہے وصال میں مرتے رہے فراق میں
یہ بھی کمال کر لیا، وہ بھی کمال کر لیا

اپنی بھی کچھ خبر نہیں دل کی بھی کچھ خبر نہیں
ہم نے تمہارے ہجر میں کیسا یہ حال کر لیا

Monday 26 March 2012

علی پور کا ایلی ..:::::.. انکر ا اینڈی ماباؤں

علی پور کا ایلی
انکر ا اینڈی ماباؤں

پھر اسے مدرسے میں داخل کرا دیا گیا۔ مگر اس کا اسکول محلے کےباقی اسکولوں سے بہت دورتھا۔محلے کے قریبی اسکول والوں نے ایلی کو داخل کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ ایک تو وہ پڑھائی میں کمزور تھا۔ دوسرے اس مدرسے میں جگہ نہ تھی۔ لیکن داخل ہونے کے بعد اسے اطمینان سا ہو گیا۔ کیونکہ جلد ہی اسے معلوم ہو ا کہ اس اسکول میں بھی محلے کے چند ایک لڑکے تعلیم پارہے تھے۔ ان لڑکوں میں ارجمند سب سے زیادہ تیز تھا۔ ارجمند ڈاکٹر کا بیٹا تھا۔ وہ سب مل کر پانچ بھائی تھے، سب اونچے لمبے دبلے ۔ بچپن کا زیادہ تر زمانہ پانی پت میں بسر کر کے وہ پہلی مرتبہ علی پور آئے تھے۔ ان کے والد اب بھی پانی پت میں ڈاکٹر تھے۔ جہاں ڈسپنسری میں انہوں نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ بسر کیا تھا۔
ارجمند بے حد لمبا تھا، وہ ایلی کے ساتھ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کے قد و قامت اور برتاؤ سے ایسا معلوم ہوتا تھا۔ جیسے عرصہ دراز سے فارغ التحصیل ہو چکا ہو۔ پانی پت میں رہنے کی وجہ سے ارجمند سے معلوم ہوتا تھا۔ پانی پت میں رہنے کی وجہ سے ارجمند فر فراردو بولتا تھا۔ جہاں کوئی اجنبی آیا۔ اس نے چار ایک خوبصورت فقر ے چلا دیے۔"آئیے تشریف لائیے۔ فرمائیے ، خاکسار کیا خدمت کر سکتا ہے۔"اور ادھر وہ گیا ادھر اناپ شناپ بولنا شروع کر دیا۔ ویسے تو ارجمند کو سنکڑوں چیزیں یاد تھیں۔ اینکر اینڈی ماباؤں ۔ کیلے ریو، ریو پیتے ریور پریم سندیس، پریم ٹونا اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن ایلی کو اسکی انکر اینڈی ماباؤں بہت پسند تھی۔ " دیکھوایلی"ارجمند چلاتا "انکر اینڈی ماباؤں کیلئے ریوریو پیٹے ریوریو، کیا سمجھے "اور ایلی حیران ہو کر اس کی طرف دیکھتا۔
ہم سمجھاتے ہیں۔ ہم سمجھاتے ہیں، مطلب ہے لڑکی پھنسانا کیا مشکل ہے۔ کچھ مشکل نہیں۔ مصیبت یہ ہے۔ کہ یہاں محلے داری ہے، اگر ڈسپینسری ہو تو یوں پھنستی ہے یوں جیسے چٹکی بجتی ہے۔ اور پھر ڈسپینسری پانی پت میں ہو تو ۔۔۔ تو کیا با ت ہے۔ آئی پھنسی ۔ خیر کچھ پروا نہیں ۔ یہ دیکھو ، یہ ریشمیں رومال کا ہونا ہے حد ضروری ہے۔ اسے کہتے ہیں کیلے ریو ریو ۔ سمجھے کیا سمجھے ۔ صرف ہونا ہی نہیں طریقہ استعمال بھی جاننا چاہیے۔ "ہاں"اور وہ رومال ہلا کر کہا"لہٰذا ہم بتائیں گے۔ یہ دیکھو۔ اسے تھامنے کی مشق کرو۔ پہلے یوں نہیں بلکہ یوں ہاتھ میں مرے ہوئے چوہے کی طرح نہ پڑا رہے بلکہ ہر چند منٹ کے بعد جنبش میں آئے۔ اب منہ پونچھو ، گرد جھاڑو۔ ذرا احتیاط سے جنبش کی خوبصورتی ہی میں سارا جادو ہے۔
کیا سمجھے لیکن ٹھہرو یہ ریو ریو ہی کافی نہیں ۔ اس پر سینٹ یعنی خوشبو کا چھڑکنا لازمی ہے۔ یہ دیکھو شیشی چار آنے کی۔ یہ شیشی ، بیسیوں لڑکیوں کو پھنسانے کیلئے کافی ہے۔ ہاں تو اس رومال سے گالوں کو سہلاؤ ، بالوں کو جھاڑو، گردن پر لٹکا لو، ہاتھ میں رکھو، لڑکی دور کھڑی  ہو تو منہ پر جھٹکا دے کر یعنی سلام عرض کرتا ہوں ۔ اور یوں ہلایا تو مطلب ہے اب آؤ بھی نا جان من اور فی الحال چھاتی پرپھینک لیا تو مطلب ہے ظالم سینے سے لگ جا۔ اس کے استعمال کے کئی انداز ہیں، لیکن فی الحال یہی کافی ہے۔ اس کے بعد یہ دیکھو، اس نے جیب سے ایک بانسری نکالی اور نچلا ہونٹ لٹکا کر اس میں پھونکیں مارنے لگا۔
"یہ ہے پریم ٹونا۔ دیکھا۔ "اس نے  ایک چھوٹی سی کتاب جیب سے نکالی "اس میں سب کچھ لکھا ہے۔ محبت کے خطوط ، غزلیں ، گیت ، ہر موقع کیلئے ، مثلاً یہ دیکھو"اور ہنسی تو سمجھو پھنسی اور یہ سب کچھ کیا ہے انکر اینڈی ماباؤں۔"ایلی اس کی باتیں غور سے رہا تھا۔ اور بے حد کمتر محسوس کر رہا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کہ لڑکی پھنسانے کا کا مقصد کیا ہے۔ آخر بڑے انکر اینڈی ماباؤں کا کچھ تو مقصد ہو گا۔ لڑکیاں نہیں ،اسے تو مٹیار عورتیں اچھی لگتی تھیں۔ لڑکیاں خاصی لگتی تھیں۔ لیکن کوئی خاص اچھی نہ لگتی تھیں۔ اور اچھی لگتی بھی تو بھی انہیں پھنسانے کا مطلب ۔اچھی لگتیں تھیں۔ تو نہیں اچھی لگتی تھیں۔ لیکن وہ ریشمی رومال اور بانسری اور پریم ٹونا، پریم سندیس ، وہ سب کس لیے تھے؟ خانم کی بات تو اور تھی نا۔ وہ تو بہت ہی اچھی تھی۔
اور اس کا ہاتھ سے ایلی کو تھپکنا ، منہ سہلانا کتنا اچھا لگتا تھا۔ لیکن چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ۔ وہ توشرم  سے آنکھیں جھکا لیتی تھیں۔ دور سے دیکھ دیکھ کر مسکراتی تھیں۔ خواہ مخواہ ہنسے جاتی تھیں۔ بے کار مصرف ۔ اگر ارجمند کو لڑکیاں اچھی لگتی تھیں۔ تو ٹھیک تھا، لیکن وہ سب گور رکھ دھندا۔ انکر اینڈی ماباؤں کیا تھا؟ فضول ہو نہ ہو، ارجمند جانتا ہی کیا تھا ۔ نہ تو اس نے خانم کو دیکھا تھا۔ اور نہ کسی اور کو ، پانی پت کے ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ رہنے سے کیا ہوتا ہے۔

افغان پولیس کے لئے بھیجے گئےخطرناک جرمن پستول پاکستان میں فروخت ہورہے ہیں

منصور مہدی
Thanks AHWAL A REPORT BY:

لاہور میں اغوا کی بڑھتے ہوئی واقعات خصوصاً 13اگست 2011کو ماڈل ٹاﺅن سے امریکی شہری وارن وینسٹین اور 26اگست 2011کو سابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کے چھوٹے بیٹا شہباز تاثیر کے اغوا کے بعد نہ صرف سیکیورٹی کے اداروں میں ہلچل پیدا ہوگئی بلکہ شہریوں میں تشویش کی لہر پھیل گئی ۔
نہ صرف لاہور بلکہ پنجاب بھر میں گذشتہ کچھ عرصے سے اغوااور اغوا برائے تاوان کی وارداتوںمیں از حد اضافہ ہو گیا ہے۔ پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے اگست تک صرف 8ماہ میں اغوا کے 10391واقعات اور اغوان برائے تاوان کے 149مقدمات درج ہو چکے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اغوا ، ڈکیتی اور سٹریٹ کرائم میں ملوث گرفتار ملزموں کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے ائی کہ وارداتوں میں زیادہ تر اسلحہ غیر قانونی استعمال ہوتا ہے جو مختلف اسلحہ ڈیلروں سے خریدا جاتا ہے۔ چنانچہ اس انکشاف کے بعد پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں150کے قریب اسلحہ ڈیلرز میں سے 45 دکانوں پر چھاپے مارے ۔ اس دوران پولیس نے 61 غیر قانونی رائفلیں ،385 پسٹل اور ہزاروںکی تعداد میں گولیاں برآمد کرکے چار دکانوں کو سیل جبکہ آٹھ افراد کو گرفتار کرلیا ۔ پولیس کا گرفتار شدہ افراد کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ڈیلرز غیر قانونی اسلحہ فروخت کرتے اورجرائم پیشہ افراد کی معاونت کرتے تھے۔
غیر قانونی ہتھیار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے جرائم کی اہم وجہ ان ہتھیاروں تک عام آدمی کی رسائی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں 87 کروڑ 50لاکھ کے قریب چھوٹے ہتھیار ہیں جن میں سے 26فیصد سرکاری اداروں اور 74 فیصد ہتھیار شہریوں اور مسلح گروہوں کے پاس ہیں۔ جبکہ پاکستان میں بھی چھوٹے ہتھیار لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے پاس ہیں جن میں زیادہ تر غیرقانونی ہیں۔’پاکستان میں 1998 کی مردم شماری کے دوران شہریوں کے پاس 2 کروڑ کے قریب ہتھیار پائے گئے۔ جس میں سے صرف 20 لاکھ ہتھیار لائسنس یافتہ تھے باقی ایک کروڑ80 لاکھ ہتھیار بغیر لائسنس کے تھے۔ اب 12سال گزرنے کے بعدان کی تعدادمیں یقیناً اضافہ ہوچکا ہے۔اس طرح ان غیر قانونی ہتھیاروں کی تعداد فوج،پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کے پاس موجوداسلحے سے بھی زیادہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلاو کے نتیجے میں نہ صرف خاندانی جھگڑوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان ہتھیاروں کی موجودگی میں قبائلی جھگڑے ایک جنگ کا روپ دھار لیتے ہیں۔ انہی ہتھیاروں کی دہشت گردوں کے پاس موجودگی نے ملک بھر میں کے سیکیورٹی کے اداروں کو دیوار سے لگا رکھا ہے اور ملک میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں غیر قانونی ہتھیاروں کی بھرمار کے حوالے سے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر قانونی ہتھیاروں کی ملک میں آمد کی ابتدا آزادی پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی تھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے وقت پاکستان بھارت کے مقابلے میں روایتی ہتھیاروں میں کمزور تھا۔ چنانچہ اس وقت یہاں پر ایسی پالیساں بنائی گئی کہ جس میں ملک کو سکیورٹی سٹیٹ بنا دیا جس میں ہتھیار اور جنگجو کلچر کو فروغ دیا گیا۔ ہمارے قبائلی علاقوں کی روایات نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ سب سے اہم وجہ افغانستان کی ہمسائیگی ہے ۔ کیونکہ پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ کی آمد کا سب بڑا ذریعہ افغانستان ہی ہے۔ ملک میں کلاشنکوف کلچر کی وجہ افغان لڑائی ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ درہ آدم خیل، بلوچستان اور پنچاب کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں بھی غیر قانونی طور پر ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ کشمیر کے جہاد اور ضیا الحق کے دور میں افغانستان کی لڑائی میں شمولیت کے نتیجے میں بھی پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ پھیلا۔
حساس سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار افغانستان کے صوبے کنار سے پاکستانی قبائلی علاقے باجوڑ اور مہند جبکہ صوبہ ننگرہار سے خیبر اور کرم کے راستے اورکزئی اور بعد ازاں خیبر پختونخواہ سے ہوتے ہوئے پنجاب کے شہروں میں پہنچتے ہیں۔ جبکہ افغان صوبے پکتیا سے شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے راستے بلوچستان اور بعد ازاں سندھ اور جنوبی پنجاب پہنچتے ہیں۔ سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اسلحہ اور گولہ بارودکے اسمگلروں نے پاکستان افغانستان کی 2640کلومیٹر طویل سرحد پر کئی راستے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ اسمگلر مقامی لوگوں کی مدد سے یہ کام کرتے ہیں جو یہاں کے راستوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ بعد میں یہ ہتھیار مختلف شہروں میں پھل اور سبزیاں لانے والے ٹرکوں اور ٹرالرز، ریتی ، بجری ، لکڑی اور کوئلہ کے ٹرکوں، آئل ٹینکرز اور دیگر سامان لانے والے ٹرکوں کے ذریعے پہنچائے جاتے ہیں۔ جبکہ شہروں کے اندر ان کی ترسیل میں ہسپتالوں کی ایمبولینس گاڑیاں اور پانی لانے والے ٹینکرز کے ساتھ ساتھ شہروں کے درمیان چلنے والی انٹر سٹی بسوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔
کراچی کے حوالے سے وزارت داخلہکا کہنا ہے کراچی کے علاقے منگھو پیر سے آگے بلوچستان کی سرحد پر شاہ نورانی کا علاقہ غیر قانونی اسلحہ اسمگلروں کا ایک محفوظ مرکز ہے۔ وہاں اسلحہ ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ گروہ تاوان کے لئے اغواکئے گئے افراد کو بھی رکھتے ہیں۔ اس علاقے سے اونٹوں پر لکڑیاں لاد کر لائی جاتی ہیں اور اِس آڑ میں اسلحہ کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔ اسمگلر اس راستے پر پولیس اور نیم فوجی رینجرز کی چیکنگ نہ ہونے کی وجہ سے اسے محفو ظ تصور کرتے ہیں۔
جبکہ بلوچستان کے شہر چمن، پیر علی زئی(افغان مہاجر کیمپ) قلعہ عبداللہ کچلاک، کوئٹہ، سریاب، بولان، سبی، جیکب آباد، شکارپور اور حیدرآباد کے راستے سے بھی کراچی میں اسلحہ لایا جاتا ہے۔ حیدر آباد سے ملک کے دوسرے شہروں میں بھی سپلائی کی جاتی ہے ۔ پھر کوئٹہ، بولان، سبی ، ڈیرہ بگٹی، کشمور، کندھ کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ ، دادو کے راستے اسلحہ حیدرآباد پہنچایا جاتا ہے۔ کوئٹہ، خضدار، ٹھل اور حب سے ہوتا ہوا کراچی پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ راستہ قلعہ سیف اللہ سے شروع ہو کر ڑوب، ڈیرہ اسماعیل خان، فورٹ منڈو، ڈیرہ غازی خان اسلحہ لایا جاتا ہے جہاں سے سندھ کے شہر سکھر، حیدرآباد سے کراچی تک جبکہ پنجاب کے شہروں میں پہنچایا جاتا ہے۔
اسلحہ اسمگلنگ کے حوالے سے وزارت داخلہ نے اپنی ایک رپورٹ میں سرکریک سمیت ان بحری راستوں کی نشاندہی بھی کی ہے، جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سرکریک اور شاہ بندر (پاکستانی علاقہ) کے درمیانی جگہ، جو لائٹ ہاﺅس کے نام سے مشہور ہے، اسلحہ اسمگلنگ اور سرحد پار سے آنے والے ہتھیاروں کی کھیپ کی پہلی منزل ہے۔ کراچی کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم کے قریب ابراہیم حیدری کے علاقے میں بنی کچی کھاڑیاں اور اطراف کے چھوٹے غیر آباد جزیروں پر یہ ہتھیار جمع کئے جاتے ہیں اور پھر کوسٹ گارڈز کی نظروں سے بچا کر مچھیروں کی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے شہر میں منتقل کئے جاتے ہیں جہاں سے ملک بھر میں پھیلا دیا جاتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے لنڈی لوتل اور باڑے اور اس سے ملحقہ دیگر قبائیلی علاقے سے غیر قانونی اسلحہ جی ٹی روڈ کے ذریعے بھی ملک کے دوسرے شہروں میں پہنچایا جاتا ہے لیکن کچھ عرصے سے اس روٹ پر سخت چیکنگ کی وجہ اسلحے کے اسمگلروں نے اس راستے کا استعمال کم کر دیا ہے اور نئے راستوں کااستعمال شروع کر دیا ہے۔ ہتھیاروں کی نوعیت کے حوالے سے سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ ان میں راکٹ لانچر، مارٹر گولے، سب مشین گن اور کلاشنکوف رائفلیں، آر پی جی 7 راکٹ، 107 ملی میٹر دہانے کی طیارہ شکن توپیں، باروسی سرنگیں، ٹینک شکن بارودی سرنگیں اور دیگر جان لیوا گولہ بارود شامل ہوتا ہے ۔
حال ہی میںسیکیورٹی اداروں کی طرف سے وزارت داخلہ کو بھیجی گئی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن والتھیر P1 پستول پاکستان کی اسلحے کی مارکیٹ میں فروخت ہو رہے ہیں۔بنیادی طور پر یہ پستول افغان پولیس کے لئے جرمن حکومت نے بھیجے تھے۔جو افغانستان کی اسلحہ مارکیٹ میںفروخت کر دیے گئے۔ ان ہتھیاروں کی غیرقانونی فروخت میں افغانستان کے سابق اور موجودہ فوجی ملوث ہیں۔ جہاں سے بعد ازاں یہ پاکستان پہنچے ۔ اسلحے کے تاجروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ پستول سینکڑوں کی تعداد امیںبرائے فروخت دستیباب ہیں۔ یہ پستول اپنی کارکردگی ، معیار اور مہلک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں انتہائی مقبول ہیں ۔8.5انچ لمبے اور 800گرام وزنی والتھیر ایک آٹو میٹک ہتھیار ہے جس کی ڈیڈلی رینج 50میٹر تک ہے جبکہ اس میں8گولیوں پر مشتمل میگزین استعمال کی جاتی ہے ۔ پستول سے گولی نکلنے کی رفتار 365میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے ۔ ”ہٹ اینڈ رن شوٹنگ“ کے 95 فیصد واقعات میںکلاشنکوف کے علاوہ یہی ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً ہر شہرمیں خودکار رائفلوں اور پستولوں سمیت چھوٹے غیرقانونی ہتھیار آسانی سے بازار میں دستیاب ہیں اورمختلف سیاسی ومذہبی گروہوں کے کارکنوں کے پاس ایسا غیرقانونی اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان غیر قانونی ہتھیاروں کے بڑے خریداروں میں جہاں متحارب سیاسی گروپ اور انتہا پسند تنظیمیں ہیں وہاں شہروں کے غنڈہ عناصر اور جرائم سے منسلک افراد کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔ جبکہ ان کی ترسیل اور کاروبار میں عام شہری غنڈے سے لیکر سرکاری اداروں کے ملازمین اور سیاستدان سبھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل ضلع مستونگ کے جنوبی علاقے دشت میں بھاری ہتھیاروں سے لدے تین ٹرک قبضے میں لیے گئے۔ یہ ہتھیار راکٹ لانچروں، مارٹر گولوں، سب مشین گن اور کلاشنکوف رائفلوں، آر پی جی 7 راکٹوں، 107 ملی میٹر دہانے کی طیارہ شکن توپوں، ٹینک شکن بارودی سرنگوں اور جان لیوا بارودی سرنگوں پر مشتمل تھے اور ایک اعلٰی سطحی عہدیدار کی ملکیت تھے جو بلوچستان کابینہ کے ایک رکن ہیں۔ اس مقدمے کی تفتیش ہوتی رہی اور آخر کار بلوچستان پولیس نے اس عہدیدار پر بھاری ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کی فرد جرم عائد کر دی اور کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے وزیر موصوف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے لیکن اس کے بعد کوئی کارروائی عمل میں نہ آ سکی۔بعد ازاں یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
اسی طرح اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کے خلاف لال مسجد آپریشن کے دوران برآمد ہونے والا اسلحہ تھانے کے مال خانے سے چوری ہونے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان ملزموں نے لال مسجد سے برآمد ہونے والا اسلحہ تھانے کے مال خانے سے چوری کر کے اسلحہ مارکیٹ میں فروخت کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں 70 سے زائد پولیس کے متعدد اہلکاروں کے خلاف اسلحہ کی سمگلنگ میں اسلحہ ڈیلروں کی معاونت کرنے کے الزام میں مقدمات درج ہیں۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تھانوں میں تعینات اکثر پولیس اہلکاروں کے اسلحہ ڈیلروں کے ساتھ قریبی تعلقات ہوتے ہیں اور جب پولیس کسی کارروائی کے دوران کوئی اسلحہ برآمد کرتی ہے جس میں غیر ملکی اسلحہ بھی شامل ہوتا ہے تو ڈیلر پولیس اہلکاروں سے رابطہ کرکے قانونی کارروائی سے پہلے ہی برآمد کیے گئے اسلحے کو کسی غیر معیاری اسلحے سے تبدیل کرلیتے ہیں۔
اسلحہ لائسنسوں کے اندھا دہند غیر قانونی اجراءمیں بھی سرکاری ملازمین ملوث ہیں۔ ابھی گذشتہ برس کے وسط میںایک امریکی کمپنی انٹر رسک کو 180 لائسنسز کے اجرا سمیت وزراءارکان صوبائی وقومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت کئی بااثر افراد کو ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنسز جاری کیے گئے ۔ ان اسلحہ لائسنسوں کے اجراء میں وزارت داخلہ کے گریڈ بیس کے ایک جوائنٹ سیکریٹری اور ڈ پٹی سیکریٹری نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔جبکہ تین سیکشن افسروں سمیت وزارت داخلہ کی اسلحہ برانچ کے کمپیوٹر نظام کا وینڈر بھی ملوث تھا۔
پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی)کی ایک حالیہ رپورٹ میں اسلحہ کی ا سمگلنگ کو موثر طریقے سے چیک نہ کرنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بلخصوص پولیس کی کارکردگی پر تشویش ظاہر کی ہے۔جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اسلحہ کی سمگلنگ میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے کارروایاں کر رہی ہے چاہے اس کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہی کیوں نہ ہو۔وزارت داخلہ کے مطابق ملک میں غیر قانونی اسلحہ کی اسمگلنگ میںایسے افراد ملوث پائے گئے ہیں جن کے قبائلی علاقوں میں اسلحہ اسمگلروں کے ساتھ تعلقات ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کے پاس بڑی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے پاس بھی بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی اسلحہ موجود ہے جو وہ ملک کے مختلف علاقوں میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ دفاع کے بارے میں قومی اسمبلی کی قائم کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس معاملے کو اٹھایا گیا تھا کہ شدت پسندوں کے پاس اتنا زیادہ اسلحہ کہاں سے آیا۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں اس بات کا مطالبہ تو کرتی ہیں کہ غیر قانونی اسلحہ کی روک تھام کی جائے لیکن ہتھیاروں کی نمائش میں یہی سیاسی رہنما اور ان کے کارکن نمایاں ہوتے ہیں۔ عملی طورپردیکھاجائے توہرجماعت کے کارکنوں کے پاس بڑی تعداد میں ہتھیار پائے جاتے ہیں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ حکومت غیرقانونی اسلحے کے خلاف ایک منظم مہم شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے قانون سازی بھی کرے جس میں غیرقانونی ہتھیاررکھنے والے ملزمان کوزیادہ سے زیادہ سزادی جائے کیونکہ اس جرم میں گرفتار ملزمان آسانی سے ضمانت پررہا ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں اضافہ پر بعض حلقوں کو بہت تشویش لاحق ہے۔ وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سالوں کے دوران اسلحے کے کاروبار میں 50 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔سلامتی امور کے تجزیہ کاروں کے مطابق صرف لائسنس رکھنے والے افراد اور فروخت کنندگان کو ہتھیار فروخت کرنے کا نظام رائج کئے بغیر حکومت کے لئے غیر قانونی اسلحے کے کاروبار کو روکنا مشکل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ درہ آدم خیل میں تیار ہونے والے اسلحے کے لئے قدغن اور توازن کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔یہاں سے خریدا گیا اسلحہ اکثر جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان نہ صرف اسلحے کی اسمگلنگ کی منزل بن چکا ہے بلکہ اب یہاں غیر قانونی ہتھیاروں کے انبار لگ چکے ہیں۔ بعض اسمگلر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھاری اسلحے کے ذخائر جمع کر رہے ہیں۔ عسکریت پسند طالبان کے دور کی طرح اب بھی افغانستان سے اسلحہ حاصل کر رہے ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں اسلحے کی بھرمار میں غیر ملکی طاقتیں بھی ملوث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیا میں مختلف طاقتوں کے مفادات ہیں اور بلوچستان کا جغرافیائی محل وقوع انتہائی اہم ہے اور وہ طاقتیں یہاں استحکام نہیں چاہتیں۔
ملک میںجاری دہشت گردی اور ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پرقابوپانے میںناکامی پرعرصہ درازسے انسانی حقوق کی تنظیمیں،سیاسی ودینی جماعتیں اور عام شہری حکومت سے شہر کو غیرقانونی اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے آپریشن کامطالبہ کررہے ہیں۔ جبکہ حکومت کی بھی یہی خواہش ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی خواہش ہے جو ابھی تک پوری نہیں ہوسکی۔ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کی جانب سے ایسی مہمیں شروع کی گئی۔ غیرقانونی اسلحہ کے خلاف پہلاآپریشن 80 کی دہائی میں کیا گیا۔اسلحہ کے خلاف دوسراآپریشن بے نظیربھٹوکی دوسری حکومت میں 90ءکی دہائی کے وسط میںکیا گیا۔پھر تیسری بار میاں نواز شریف کے دوسرے دورحکومت میں کوشش کی گئی ۔
پھر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت 2001میں حکومت کی جانب سے باقاعدہ طورپرقومی سطح پر”آرمز کنٹرول پروگرام“ شروع کیا گیا جس کا مقصدشہریوںسے غیرقانونی اسلحہ کی ضبطی کے ذریعے ایک مہم شروع کرنا تھا۔ اس حوالے سے جون 2001ءمیں حکومت کی جانب سے غیرقانونی اسلحہ رکھنے والے افرادکورضاکارانہ طورپراسلحہ جمع کراکرعام معافی کااعلان کرکے دوہفتے کی مہلت دی گئی مگریہ مہم بھی بری طرح ناکام ہوگئی۔
سول سوسائیٹی کے لوگوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ملک میں چھوٹے ہتھیاروں پر قابو پانے کے لیے حکومت سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر پالیسی وضع کرے اور پہلے قدم کے طور پر ان ہتھیاروں کی پیداوار کو ریگولرائز کرے یا سرے سے بند کردے۔ غیر سرکاری تنظیمیں جو ملک میں غیر قانونی ہتھیاروں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملک میں ایسے ہتھیاروں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے اور اس وقت ملک میں لوگوں کے پاس لگ بھگ ڈھائی کروڑ چھوٹے ہتھیار موجود ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس حوالے سے نئے اور سخت قوانین متعارف کرائے اور ان قوانین پر عمل کرے ،حکومت اسلحہ کے لیے لائسنس جاری نہ کرے، ممنوعہ اسلحہ پر پابندی ہونی چاہیے، اسلحہ کی نمائش، تقاریب اور شادیوں میں ہوائی فائرنگ پر پابندی عائد کی جانی چاہیے، کھلونا ہتھیاروں پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے تاکہ بچوں میں یہ رحجان نہ بڑھ پائے

بولتی تصاویر::::کیا اصل کیا نقل? فیصلہ کون کرئے

کیا اصل کیا نقل? فیصلہ کون کرئے

پاکستان کے ایک گوشۂِ سرسبز کا دل موہ لینے والا احوال

 
تحریر       سیّد ظفر

پاکستان کے ایک گوشۂِ سرسبز کا دل موہ لینے والا احوال
آوارہ پن کا مظاہرہ کرتی‘ گلابی رنگ کے جنگلی گلاب کی خوشبو‘ قریب قریب سرپر ٹکے گھیرائو کرتے با دلوں کی حد سے زیادہ گھن گرج‘ گھڑ سواری کے دوران نیچے کی کھائیوں کا سفر‘وادی لالہ زار کے ہوٹل میں تیارکردہ لذیذ دیسی انڈوں کا ناشتا‘ دیسی گھی میں بنی دیسی مرغ کڑاہی‘ ڈھلوانوں کے نواح میں پھیلے ’’بھوج پتر‘‘ کے جنگلات‘ ہوٹل کی کھڑکیوں میں سے باہر مصوری کے نمونے جیسے مناظر سے خوشگوار الجھائو‘ رنگا رنگ پھولوں کے قدموں تلے آتے رہنے والے ان گنت گچھے‘ مدہوشی بھری لطف آمیز دماغ کوتروتازہ کرتی یہاں کے پانچ رنگے جنگلی گلابوں کی خوشبو‘ پورے چاند کی خنک راتوں میں تمام اطراف ہوکاعالم‘ مقامی لوگوں کے کچے عارضی مکانات جن میں وہ اپنے مویشیوں کے ساتھ رہتے ہیں‘ سرسبز گلزاروں میں گھومنے کے بعد طاری ہوتا کیف‘ سر مستی کی انوکھی کیفیت اور ٹھٹھری ٹھٹھری کائنات میں عالم غنودگی‘ غم جہاں اور غم جان سے دور ٹھہرا ٹھہرا بے ساختگی بھرا سہانی گھڑیوں سے بھر پور عالم‘ سیاحوں کو زندگی بھر اس جنت نگری کی یاد دلاتے رہتے ہیں اور ہماری فطرت پسند آنکھیں اُس لمحے سے دوبارہ شناسائی چاہتی ہیں جب لالہ زار کی درخشاں خوبصورتی نگاہوں کے فطری حسن کی پیاس بجھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

کاغان کو حسین کیوں کہا جاتا ہے ؟اس بات کا احساس ہمیںبالا کوٹ سے ۱۰۴ کلو میٹر دوراور ناران سے ۱۸کلو میٹر دور لالہ زار کی زمردیںدھلی دھلائی چوٹی کی جادو بھری نگری اور برف زاروں میں آکر جلد ہو جاتا ہے۔ یہاں سے ملکۂ پربت ﴿جھیل سیف الملوک پر متمکن ۱۷۳۰۰ فٹ بلند چوٹی ﴾ عقبی جانب سے دکھائی دیتی ہے۔اس کے پیش منظر میں کہیںبلند کہیں کم بلند گھاس کے قطعات‘ ان میں مٹیالی لہراتی افق کے دھندلکوں میں ڈوبتی اوپر ہی اوپر رواں دواں پگڈنڈیاں اور یہاںپر چرتی آزاد بھیڑ بکریاں اور خچر قیامت خیز‘فسوں انگیز نظارہ پیش کرتے ہیں۔ لالہ زار میں پیدل سفر کرتے‘ اپنے سنگ یادوں کے میلے کی بارات لیے‘ ناقابل اعتبار بارش میں بھیگ کر سیاح پگڈنڈیوں کے بدلے بدلے مناظر سے روشناس ہوتے ہیں۔ایسے میں سرد‘ تند ہوا ئوں سے بچائو‘ ارد گردکے مناظر کو دیکھنے کی خواہش پر غالب آجاتا ہے اور گرم چادر اوڑھے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔

اسلام آباد سے پشاور روڈپر آتے ہوئے حسن ابدال پہنچ کر ہری پور جانے والے راستے پر مڑجائیں۔ یوں آپ شہر سبزہ گل ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے مانسہرہ ﴿۲۵کلومیٹر کا فاصلہ﴾پہنچ جائیں گے جہاں سے کاغان روڈ جبہ بائی پاس شاہراہ ریشم سے الگ ہو کر آپ کو تاریخی لیکن تباہ حال بالا کوٹ‘ گھنول‘ کیوائی‘ پارس‘ فرید آباد‘ مہانڈری‘ کھنیاں‘ کاغان سے گزارتی کاغا ن کی سیاحت کے مرکز ی بیس کیمپ ناران پہنچا دے گی۔ ہم پنڈی سے اپنی گاڑی نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی ڈی سی کی روزانہ صبح ۹بجے روانہ ہونے والی لگژری کوچ میں بھی ناران پہنچ سکتے ہیں۔ یہ سفر تقریباً ۱۰ گھنٹے میں طے ہوتا ہے اور اس کا کرایہ ۵۰۰ روپے فی کس ہے۔ اس کے علاوہ پنڈی سے مانسہر ہ اور وہاں سے بالاکوٹ اور پھر ناران تک کا سفر گاڑی بدل بدل کر بھی کیا جاسکتا ہے۔ ناران سے روانہ ہوتے ہی نالہ سیف الملوک پر بنے آہنی پل کو پار کرکے پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل کے قریب سے گزر کر ہم ناران کی وسیع وادی میں گزرتے ہوئے تحےّر میں ڈوب جاتے ہیں۔بٹہ کنڈی میں لالہ زار کی چڑھائی سے کچھ قبل سڑک کے دائیں طرف ایک کئی سو فٹ ’سوہنی‘ نامی آبشارکا نظارہ اپنے ہمراہ خوشبوبھری خوشگوار سردلمس سے بھری ہوائیں لیے ہوتا ہے۔ناران سے لالہ زار آتے ہوئے دتمتمہ‘ ڈاک بنگلہ‘ شٹر سونچ‘ سوچااور سوہنی کے سرسبز آلو اور موٹھ کے کھیتوں والے مقامات سے گزر ہوتا ہے۔

وادی لالہ زار تک ناران سے بٹہ کنڈی پہنچ کر کئی پیدل راستے بھی آتے ہیں جو مہم جو اور پیدل سفر کرنے کے شوقین افراد کیلئے بھرپور مواقع فراہم کرتے ہیں۔ان راستوں میں اولین بٹہ کنڈی سٹاپ سے عین اوپر کی طر ف ’’چھریال‘‘ کے راستے آرام گھر تک بالکل عمودی چڑھائی والا تھکاوٹ آمیز راستہ ہے۔ دوسرا راستہ بٹہ کنڈی سے ڈوگی اور لاواں سے ’شارٹ کٹ‘ ہے۔ تیسرا راستہ ہنس گلی‘ ڈنہ دوریاں اور تمبووالا ڈھیر سے ہوتاہوا وادی میں اترتا ہے۔ یہ راستے گھوڑے یا خچر پر بھی طے کیے جاسکتے ہیں۔ خچر والے تقریباً ۲۰۰ تا ۳۰۰ روپے فی کس لیتے ہیں۔ چیلاس کاغان شاہراہ پر واقع بٹہ کنڈی سے جیپ کا راستہ آدھ گھنٹے کا ہے۔ مسلسل چڑھائی‘ نیچے دریائے کنہار اور گہری کھائیوں کی بدولت سرد اور خنک موسم کے باوجود سیاحوں کے ماتھوں پر پسینے کے قطرے دیکھے جاسکتے ہیں۔بارش اور طغیانی کے بعد ڈرائیور حضرات بھی ان راستوں سے گھبراتے ہیں۔ اور اگر انہیں آنا پڑے تو کیچڑ بھرے راستوں پر چلتے ہوئے ان کے چہروں پر پریشانی بھری لکیریں دیکھنے میں عام ملتی ہیں۔ کئی بار تو مسافر حادثات سے بھی دوچار ہوچکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں تک پختہ سڑک فوری تعمیر کرائی جائے تاکہ سیاح بے خوف و خطر یہاں کے نظاروں سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا ئیں۔ جب سورج کی روپہلی کرنیں دور بلند چوٹیوں پر پڑتی ہیں تولالہ زار کا آنکھوں کو خیرہ کردینے والا حسن پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہوتا ہے۔ اصل دیدہ زیبی اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب سرسبز ڈھلوانوں پرطلوع ہوتے سورج کی کرنیں بادلوں میں جھانکتی ہوئی پٹیوں کی صورت میں مشرق سے نمودار ہوتی ہیں۔ سیاہ بادلوں میں سورج منہ چھپا ئے لالہ زار پر یہاں وہا ں سایہ فگن رہتا ہے اور ہمارے دل کی دھڑکن ہمارے اختیار سے باہر ہو جاتی ہے۔ کوئی قتل نہیں ہوا۔ غربت کے باوجود چوری چکاری کے واقعات بھی شازونادر ہیں۔ لو گ زیادہ تر ترکاری اور پنیر سے بنے کھانوں پرا کتفا کرتے ہیں۔ اہم مقامی کھانوں میں بت فا ﴿باتھو﴾ لانگڑ‘ بل پیخیچا‘ تروتڑا‘ سونچل ﴿شلغم ﴾ کیری‘ شیلی‘ کٹ کلاڑی‘ شیری‘ کڑھم شامل ہیں۔ میٹھے میں نشاستہ ﴿حلوا﴾ شیرہ ﴿مکئی کے آٹے اور لسی‘ دیسی گھی کا تیارشدہ آمیزہ﴾ کیری زیادہ مقبول ہیں۔مشروبات میں لسی ﴿بگوڑا ﴾ بہت پسند کی جاتی ہے۔ ٹراوٹ مچھلی اور بکرے کا گوشت خاص ڈشز کے طور پر تیا ر کیے جاتے ہیں۔

لالہ زار کے تقریبا ۸۵تا۱۰۰پتھراور لکڑی کے بنے ۴ تا ۵ کمروں پر مشتمل گھر وں میں موسم گرما میں ہی باشندے آباد ہوتے ہیں۔ یہ افراد اپنے مویشیوں کے ہمراہ سرسبز چراگاہوں اورآلو کی فصل کا شت کرنے کی غرض سے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ سرما کے اوائل میں ہی یہ افراد گڑھی حبیب اللہ کے سیری ٹائون میں جاکر آباد ہوجاتے ہیں اور واپسی پر یہاں سے نادر جڑی بوٹیاں بھی اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں جو قدردان سنیاسیوں کے دواخانوں کی رونق بڑھاتی نظر آتی ہے۔

لالہ زار کے علاقے میں جابجا جانور چراتے سواتی‘ افغانی قبائل سے تعلق رکھنے والے حضرات باربردار خچروں کو اپنے ہمراہ لیے محو سفر نظر آتے ہیں۔ان کے خچروں کی کمروں سے چپکے ہوئے لاتعداد بچے‘ بھڑکتے رنگوں کی کشیدہ کاری کے اعلیٰ نمونوں کے حامل کپڑے زیب تن کیے‘ چاندی کے بھاری بھرکم زیورات پہنے خوبصورت خواتین میدانی اور ساحلی علاقے کے سیاحوں کو نئی تہذیب سے روشناس کراتے ہیں۔ وادی لالہ زار میں اقامتی سہولتوں میں اولین محکمہ جنگلات کا آرام گھر ہے جو ۱۹۵۶-۵۸ کے دوران سرکار ی افسر غلام فاروق کی زیر نگرانی تعمیر ہوا۔ اسے بھی زلزلے سے نقصان پہنچا لیکن کسی حد تک یہ قابل استعمال ہے۔ اس کی مرمت کا منصوبہ ہنوز طاق نسیاں کی زینت لگتا ہے۔اس کو لالہ زار کے دلفریب مناظر سے ذرا دور کچھ اس طرح تعمیر کیا گیا تھا کہ سیاحوں کا لالہ زار کے ٹیلے پر چڑھتے ہی اس کی خوبصورتی سے پالا پڑتا۔کہاجاتا ہے اس آرام گھر میں صدر ایوب بھی ٹھہرے‘ لیکن آجکل دو تین نئے ہوٹلوں کی تعمیر سے لالہ زار کے مناظر پر گویا مخمل پر ٹاٹ کے پیوند لگادئیے ہیں۔ اس آرام گھر کا چوکیدار "کاکا"سیاحوں کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا اور اپنی مدد آپ کے تحت آرام گھر کی مرمت کر رہا ہے۔

لالہ زار میں لنڈی مال‘ موہری‘ ڈھیر‘ ہانس ناڑ‘ کیلئے بہک‘ دڑویاں والی بہک‘ لچھیاں والی مالی‘ کھڑے والی مالی‘ ہچا‘ کھڑا مالی‘ جبروالی مالی‘ اپر والا ڈنہ‘ ہلدا جبہ‘ ڈونگی والی مالہ‘ نامی بلند چراگائیں اپنی سبز گھاس اور جانوروں کا پیٹ بھرنے کی صلاحیت کے باعث خاصی مشہور ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ لالہ زار میں گھنے جنگلات سے ڈھکی ڈھلوانیں اور میدان بھی بکثرت ہیں۔ زیادہ اہم علاقے مرہری‘ نالئی نالہ‘ سوہنی‘ خلای بن‘ سونچ‘ تمتمہ‘ شیلی والا بیلا‘ ڈبلو کاں‘ بانسہ‘ بڑوی‘ درنڈہ‘ بنگلیاں اور گٹاں مشہور میدان ہیں۔ لالہ زار کے قریبی دکھائی دینے والے پہاڑوں کے نام مقامی زبان میں رکھے گئے ہیں۔ ﴿مقامی ﴾ نانگا پربت‘ کوہ نور‘ جنوں والی پہاڑی‘ دیووالی پہاڑ﴿دیو مالائی خصوصیات کی وجہ سے یہ نام پڑا﴾ شانک والا پہاڑ‘ گلیشیر والی باڑ‘ دھند والی باڑ ﴿اس پہاڑ پر عموماً دھندلاموسم رہتا ہے﴾ کھل ہٹ والی پہاڑی‘ لیدہ والی‘ نسری‘ لنڈی والی‘ بٹ والی‘ دیوانے فراکی پہاڑی ﴿ایک محبت کی داستان کی بدولت یہ نام ﴾ چٹان والی اور نیلم زیادہ اہم اور وادی کی ہر جگہ سے نظر آنے والی نوکیلی پہاڑی چوٹیاں ہیں۔

وادی لالہ زار میں پتریس کٹھ‘ چورا‘ کوڑھ‘ گگل دھوپ‘ برجمونی‘ ڈنگ سونچل‘ گولڑی‘ بٹ میوہ‘ چاؤ‘ جوگی بادشاہ‘ چوٹیال‘ ہنیرہ‘ کن چھاری‘ دھرتی کنڈہ نامی جڑی بوٹیاں مختلف امراض کیلئے بہت مؤثر ہیں۔ تل‘ دیار‘ بہاڑ‘ کچھل سلئی‘ کیلو‘ پرج کے درخت لالہ زار کے پہاڑوں کی دیدہ زیبی بڑھانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

مقامی گلوکا ر لالہ زار میںسادگی سے تیار کرائے گئے موسیقی کے آلات ’’دشنکاہ‘‘ اور بانسری کی دھنوں پر گیت گاتے ہیں او ر دیگر حاضرین ذوق وشوق سے ان پر رقص کرتے ہیں۔ یہاں کے تمام نوجوان شعروشاعری اور گلوکاری میں حددرجہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اپنا زیادہ تر وقت داستانیں سنانے‘ واقعات پڑھنے‘ جدید شہر یوں کے طرز حیات کو زیر بحث لانے‘ ہنسی مذاق‘ اپنے معاشقوں کے قصے بیان کرنے‘ بانسری سننے سنانے‘ سیاحوں کیلئے ’اناڑی راہنما‘ کا کام کرنے یا کسی چھوٹے موٹے کاروبار ﴿مہنگے داموں اشیائے خورونوش کی فروخت ﴾ کرتے گزارتے ہیں۔ مقامی خواتین اپنے گھریلو استعمال کیلئے چھڑیاں‘ ٹوپی‘ مفلر‘ چادریں وغیرہ کڑھائی کرتی ہیں۔ وہ اپنے گھریلو استعمال کیلئے کڑھی ہوئی چادریں‘ بستری چادریں‘ میزپوش بناتی ہیں۔ انہیں جدید منڈی سے منسلک کرنے سے قبل مقامی خواتین کو بہتر دستکار بنانے کی بہت ضرورت ہے۔ سطح سمندر سے ۸تا۲۱ ہزار فٹ بلندی پر پایا جانے والا ’’بھوج پتر‘‘ ایک سست روی سے بڑھنے والا درخت نباتاتی وجنگلاتی علوم میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کے دلچسپ مطالعہ کا باعث ہے۔ ’دیوانے کے پہاڑ‘ کے قریب ایک گھوڑا نما بت بھی موجود ہے جس کے متعلق دیو مالائی کہا وتیں مشہور ہیں۔کئی دیگر معدنیات کے علاوہ لالہ زار کی پہاڑیوں میں سنگ مرمر اور یا قوت نکلنے کے روشن امکانات ہی لالہ زار میں مارخور کا شکار بڑے ذوق سے کیا جاتا ہے۔ یہ عموماً برف کے تودوں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ نواحی علاقے میں چکور‘ کالے اور سرخ ریچھ‘ شیر‘ چیتا‘ ہمالیاتی تیتر‘ جنگلی کبوتر‘ لنگاڑی‘ چیتا ﴿دھبوںوالا﴾‘ بھورا ریچھ‘ پلڑی ﴿مونث بن مانس﴾ ہربانو﴿بن مانس ﴾‘ بوجنا ﴿بندر ﴾ نول‘ کھن چوہا‘ رونس ﴿کستوری والا ہرن﴾ اور کِل بکری وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مقامی پرندوں میں زیادہ اہم کونک‘ بھڑرا‘ بن ککڑ‘ جنگلی کبوتر‘ فاختہ‘ ڈھبری‘ مرغابی‘ جگ باجھیا ﴿شاہین/عقاب﴾ کالا کوا‘ شنوڑی﴿چڑی﴾ جانوچڑی‘ لم دمہ‘ ﴿دم دار﴾پھتہ‘ پیلی چڑی‘ شارک‘ بلبل‘ ابابیل وغیرہ اہم ہیں۔ پیلے سینے والی چڑیا کی چہچہاہٹ ہو یا گلیشیر وں کے سرکنے کی آواز‘ خچروں کے ٹاپوں کی آواز ہو یا جیپوں کے بھونپو‘ لالہ زار اپنے سکوت کو برقرار رکھنے کی جنگ ہر دم جاری رکھتا ہے۔ سوہنی آبشار‘ ڈوگی‘ ڈک‘ کنڈورنا‘ چھمبری والا آبشارلالہ زار کی اہم اور نمایاں آبشاریں ہیں۔پچھی جھیل‘ سیرن جھیل‘ ہانس جھیل برساتی پانی سے بھری صاف پانی کی برفیلی جوہڑ نما جھیلیں بھی اپنے پانی میں برف پوش چوٹیوں کا عکس لیے سیاحوں کیلئے خوبصورتی کی مثالی تصویر بنے سیاحوں کی منتظر ہیں۔

اس وادی میں مرگ کے موقع پر وفات والے گھر میں ۳یوم تک کھانا نہیں پکتا بلکہ اسے ہمسایوں کی طرف سے کھانا فراہم کرکے اس کے غم میں برابر شرکت کی جاتی ہے۔ فوتگی پر پورے علاقے میں موسیقی سننا ممنوع قرار پاتا ہے۔ ہر ساتویں یوم ﴿ختم خیرات﴾ کیا جاتا ہے چالیسواں بھی عام ہے۔ کم عمری کی شادی اور یہاں اوسطاًفی خاتون ۱۰ تا ۱۲ بچے جننے کا راسخ رواج ہے۔ ایک دو معاملات توایسی خواتین کا بھی بتلایاگیا جنہوں نے ۸۱‘۸۱ بچے پید اکیے ہیں۔اس ضمن میں زچہ کی اچھی صحت کے تصور کا فقدان ہے۔ اس وادی میں زیادہ سے زیادہ حق مہر لکھوانے کا رواج ہے۔ لڑکے والے کافی زیورات لڑکی کی نذر کرتے ہیں۔ لڑکی کو ڈولی میںلے جانے کا رواج آج بھی موجود ہے۔ رخصتی کے ۳ یوم بعد تک بھی لڑکے لڑکی کو باہم دور رکھا جاتا ہے۔ لڑکا اپنے گھر میں اپنے والدین کے سامنے کئی سالوں تک اپنی بیوی کے قریب نہیں بیٹھ سکتا۔ لالہ زار کے سبزہ زار رومان کا مثالی موقع فراہم کرتے ہیں۔ہر نوجوان کے لبوں پر کسی نہ کسی محبوب کے وصال کے تذکرے وافر پائے جاتے ہیں۔یہاں کے مرد اگر چہ مردعورت کے آزادانہ میل جول کو نا پسند کرتے ہیں اور اس میل جول پر جوڑے کو دارفانی کی طرف روانہ کر دینے کے دعویدار بھی ہیں‘ لیکن رومانوی داستانوں کی کثرت کے مقابلے میںغیرت کے نام پر قتل کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ لالہ زار جیسے دل جکڑنے والے پر فضا مقام پر بجلی‘ ٹیلی فون‘ بنیادی مرکز صحت‘ اچھے سکول کا نہ ہونا حیرت کے ساتھ ساتھ باعث افسوس بھی ہے۔ وادی میںجنگلات کی چوری چھپے کٹائی‘ نکاسی آب کا عدم انتظام‘ زچہ بچہ کے علاج کی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل آبا د کا روں کے دل میں غم و غصہ اور احساس کہتری کا باعث بن رہے ہیں۔لالہ زار تک پختہ سڑک یہاں کی سیاحت کو بہت ترقی دلا سکتی ہے۔ اگرچہ یہاں صرف ایک پرائمری سکول ہے لیکن لالہ زار میں میڑک افراد کی تعداد تقریباً ۰۵۱ ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں مقامی سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو آج بھی بٹہ کنڈی میں پڑھنے کیلئے روزانہ ۷ کلومیٹر اترائی چڑھائی پر مشتمل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔

لالہ زار کے پہاڑوں پر سے اُترنے والے کئی نالے دریائے کنہارمیں مل جاتے ہیں۔ان میں ’زم زم‘ نالہ‘ کوہ نور‘ موری نالہ‘ چٹاکٹھا نالہ‘ چھریاںناڑ‘ قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر نالے پر مقامی ضروریا ت کو پور ا کرنے کیلئے بجلی پیدا کرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔

وادی لالہ زار کی چراگاہوں میں گھوڑے اور اُن کے مالک سیاحوں کو ہر دم گھڑسواری کے لیے دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ شام چار بجے کے بعد تمام سیاح واپس ناران لوٹ جاتے ہیں۔ یہ وقت ان گھوڑوں کے آزاد چرنے کا ہوتا ہے اور ان چراگاہوں پر انہی گھوڑوں کا راج اگلی صبح ۱۱۔۰۱ بجے تک جاری رہتا ہے۔ پٹھوگرم‘ کبڈی‘ ہنجو‘ بلور‘ چھی لونڈی جیسے کھیل بچوں کے مابین مقبول ہیں۔لالہ زار میں جگہ جگہ بچے اشکئی ﴿دائرہ میں پنجاب کے کھڑی وانجل نما﴾ برف پانی اور گلی ڈنڈا جیسے مقامی کھیلوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ اور والی بال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ۴۱/ اگست کو لالہ زار میں مقامی طور پر میلے کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے‘ جس میں خوشی کے طور پر گانا بجانا اور کئی کھیلوں کے مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں۔ان میں مقامی گلوکار حنیف اور لطیف ﴿رہائشی پشاور‘ ایبٹ آباد﴾اپنی خوبصورت آواز کے جادو جگاتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ مظفر آباد سائیں سہیلی سرکار(رح) کے مزار پر حاضری کیلئے عرس کے دنوں میں کئی ٹولیاں لالہ زار سے روانہ ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں کے بچے تجسس بھری نگاہوںسے سیاحوں کو دیکھتے ہیں اور ایک دم سے ’ہوٹنگ‘ کالمبا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔

وادی لالہ زار کے نواح میں بھیڑوں‘ بکریوں اور گایوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں معروف سبزہ زار میدانوں میں دھبوکوولا‘ ڈھاکا مکھیاں‘ موای سیرن‘ ڈک‘ ڈوگی‘ ڈنہ ﴿اپنے کھلیانوں کیلئے معروف﴾ اور تمبو والا ڈھیر زیادہ اہم ہیں۔لالہ زار سے ۶۰۰ فٹ بلند تمبووالا ڈھیر سے برف پوش چوٹیاں بالکل برابری کی سطح سے دکھائی دیتی ہیں۔ یہیں سے نیچے لالہ زار فارسٹ ریسٹ ہائوس و دیگر عمارتیں بھی واضح دکھائی دیتی ہیں۔ لالہ زار کی نباتاتی اجزا سے لبریز زمین‘ پانی جذب کرنے کی بے انتہا صلاحیت رکھتی ہے۔اسی وجہ سے یہاں آلو‘ مٹر‘ گوبھی‘ شلغم‘ گاجر وغیرہ کی کاشت میں کامیابی کا یہ عالم ہے کہ سیاحوں کیلئے کشش کا باعث ڈھلوانوں پر بھی نت نئے کھیت وجو د میں آرہے ہیں‘ جیسے تجارت پرستی کے رستے ہوئے زخم پر مقامی آبادی کی مفلسی کے پیوند‘ معاشی مجبوریوں کی ستائی آبادی ہر دستیاب زرعی خطہ ارض پر چھوٹے چھوٹے کھیت بنا کر اپنی آمدن کے ذرائع بڑھاتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے جنرل ترمذی نے اپنے ملکیتی ڈھلوانی علاقہ جو یہاں کی خوبصورتی برقرار رکھنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا‘ مقامی لوگوں کو چند لاکھ کے عوض ٹھیکے پر دے دیا تومقامی لوگوں نے ان گلاب کے پھولوں سے لدی ڈھلوانوں کاحلیہ بگاڑ دیا۔ ان ڈھلوانوں کی وٹ بندی کیلئے کئی قیمتی درخت بھی کاٹے جارہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ مٹی کے بڑے ڈھیلے اس مقصد کیلئے استعمال کیے جائیں۔

گلابوں کے نئے مہکتے شگوفے بہار رُت کا پیش خیمہ بنتے ہوئے لالہ زار کے چمن کا گہنا بنے اپنی سرخی سے لطیف جذبوں کی راگنی الاپ رہے ہوتے ہیں۔ یہ پھول ہماری برسوں کی ہمنوا اُداسی کو تمنا بھرے جذبات سے لبریز کر دیتے ہیں۔ صبح کے وقت لالہ زار کے شبنم سے لدے مرغزار پھولوں کی قبا میں لپٹے‘ پیلے سینے والی چڑیوں کی چہکار کے سریلے شور سے تمام ڈھلوانوں کو چٹکتی کلیوں کی طرح جگا دیتی ہے۔ ایسے میں ہمارے دل میں پھول کھلنا‘ جلترنگ بجنا‘ آنکھوں میں ایک خواب ناک بستی کے خواب کو سمجھنا‘ لازم ہو جاتا ہے۔ رات کے آخری پہر میں دودھیا چاندنی میں چلنا‘ گلابوں کی خوشبو میں نہانا‘ اوس سے بھیگی آنکھوں کے حسین سپنوں میں کھو جانا‘ ادھوری نگری کو تصورات میں بسانا‘ بے نشان راہوں میںانوکھے سفر طے کرنا‘ صبح کا ذب میں دھند لکے پہاڑوں کا نظارہ کرنا انسانی دھڑکنیں بڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ ماورا بنفشی‘ اگن برساتی تمازت‘ نیلے آکاش تلے تمام کرنیں نور کی چادر پھیلائے ہماری راہوں کو سجاتی ہیں۔ یہ قوس قزح بھرا موسم‘ من میں مچلتی ہزاروں تمناوں کا ترجمان بن کررت کو انگڑایاں لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں کی ہر رات کا موسم ہمراہ بوندوں کی سر گم لے کر آتا ہے۔

جابجا چراگاہوں‘ پہاڑوں میں بنے دلکش مکانوں‘ مخمل نما سر سبز گھاس پر لہلہاتے سرخ‘ نیلے‘ پیلے دمکتے پھولوں‘ ابلتی ندیوں‘گنگناتے جھاگ اڑاتے چشموں‘ برف کی چاندنی میں ڈوبے چاندی کے نیلگوں آسمان میں دھنستے پہاڑوں‘ گھنے جنگلات‘ ہرگام موڑ کاٹتی پگڈنڈیوں‘ قطاروں میں لگے شاندار قد آورصنوبر اور ان کی اوڑھ سے جھانکتی پر اسرار اُداس تنہا‘ لیکن سر سبز پہاڑیاں سیاحوں کادل جیتنے والی‘ مشک بار مست کرنے والی ہوائیں لالہ زار کی سیاحت کو ایک یاد گارکا رتبہ دیتی ہیں۔

Sunday 25 March 2012

کپاس کا پھول ..:::دن رات بلاگ:::..منتخب تحریر

 احمد ندیم قاسمی کا بہترین افسانہ 
کپاس کا پھول
مصنف : احمد ندیم قاسمی

     مائی تاجو ہر رات ایک دو گھنٹے تو ضرور سو لیتی تھی لیکن اس رات غصے نے اسے اتنا سا بھی سونے کی مہلت نہ دی۔      پو پُھٹے جب وہ کھاٹ پر سے اتر کر پانی پینے کے لیے گھڑے کی طرف جانے لگی تو دوسرے ہی قدم پر اسے چکر آگیا اور وہ گِر پڑی۔ گِرتے ہوئے اس کا سر کھاٹ کے پائے سے ٹکرا گیا تھا اور وہ بیہوش ہوگئی تھی۔
یہ بڑا عجیب منظر تھا۔ رات کے اندھیرے میں صبح ہولے ہولے گُھل رہی تھی۔ چڑیاں ایک دوسرے کو رات کے خواب سنانے لگی تھیں۔ بعض پرندے پر ہلائے بغیر فضا میں یوں تیر رہے تھے جیسے مصنوعی ہیں اور کوک ختم ہوگئی تو گِر پڑیں گے۔ ہوا بہت نرم تھی اور اس میں ہلکی ہلکی لطیف سی خنکی تھی۔ مسجد میں وارث علی اذان دے رہا تھا۔ یہ وہی سُریلی اذان تھی جس کے بارے میں ایک سکھ سمگلر نے یہ کہ کر پورے گاؤں کو ہنسا دیا تھا کہ اگر میں نے وارث علی کی تین چار اذانیں اور سُن لیں تو واہگرو کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میرے مسلمان ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اذان کی آواز میں گھروں میں گھمر گھمر چلتی ہوئی متھانیاں روک لی گئی تھیں۔ چاروں طرف صرف اذان حکمران تھی اور اس ماحول میں مائی تاجو اپنی کھاٹ کے پاس ڈھیر پڑی تھی۔ اس کی کنپٹی کے پاس اس کے سفید بال اپنے ہی خون سے لال ہو رہے تھے۔
مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ مائی تاجو کو تو جیسے بےہوش ہونے کی عادت تھی۔ ہر آٹھویں دسویں روز وہ صبح کو کھاٹ سے اُٹھتے ہو بےہوش ہوجاتی تھی۔ ایک بار تو وہ صبح سے دوپہر تک بےہوش پڑی تھی اور چند چونٹیاں بھی اسے مُردہ سمجھ کر اس پر چڑھ آئیں تھیں اور اس کی جُھریوں میں بھٹکنے لگی تھیں۔ تب پڑوس سے چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں پنجوں کے بل کھڑی ہو کر دیوار پر سے جھانکی تھی اور پوچھا تھا “ مائی آج لسّی نہیں لو گی کیا؟“ پھر اس کی نظر بے ہوش مائی پر پڑی اور اس کی چیخ سن کر اس کا باپ اور بھائی دیوار پھاند کر آئے تھے اور مائی کے چہرے پر پانی کے چھٹے مار مار کر اور اس کے منہ میں شکر ڈال ڈال کر خاصی دیر کے بعد اسے ہوش میں لائے تھے۔
حکیم منوّر علی کی تشخیص یہ تھی کہ مائی خالی پیٹ سوتی ہے۔ اس دن سے راحتاں کا معمول ہوگیا تھا کہ وہ شام کو ایک روٹی پر دال ترکاری رکھ کر لاتی اور جب تک مائی کھانے سے فارغ نہ ہوجاتی وہیں بیٹھی مائی کی باتیں سُنتی رہتی۔ ایک دن مائی نے کہا تھا۔ “ میں تو ہر وقت تیار رہتی ہوں بیٹی کہ جانے کب اُوپر سے بُلاوا آجائے۔ جس دن میں صبح کو تمھارے گھر لسّی لینے نہ آئی تو سمجھ لینا میں چلی گئی۔ تب تم آنا اور اُدھر وہ چارپائی تلے صندوق رکھا ہے نا، اس میں میرا کفن نکال لینا۔ کبھی دِکھاؤں گی تمھیں۔ وارث علی سے کہہ کر مولوی عبدالمجید سے اس پر خاکِ پاک سے کلمہِ شہادت بھی لکھوا لیا ہے۔ ڈرتی ہوں کہ بار بار نکالوں گی تو کہیں خاکِ پاک جھڑ  نا جائے۔ بس یوں سمجھ لو کے یہ وہ لٹھا ہے جس سے بعض شہزادیاں بُرقعہ سلاتی ہوں گی۔ کپاس کے خاص پھولوں کی روئی سے تیار ہوتا ہے یہ کپڑا۔ ٹین کے پترے کی طرح کھڑ کھڑ بولتا ہے۔ چکّی پیس پیس کر کمایا ہے۔ میں لوگوں کو عمر بھر آٹا دیتی رہی ہوں اور ان سے کفن لیتی رہی ہوں۔ کیوں بیٹی یہ کوئی گھاٹے کا سودا تھا؟ نہیں تھا نا؟ میں ڈرتی تھی کے کہیں کھدّر کا کفن پہن کر جاؤں تو لوگ جنت میں بھی مجھ سے چکی نا پسوانے لگیں۔ پھر اپنے پوپلے منہ سے مسکرا کر اس نے پوچھا تھا۔ “ تمھیں دیکھاؤں؟“۔
 ۔“ نا مائی“۔ راحتاں نے ڈر کر کہا تھا۔“ خاکِ پاک جھڑ گئی تو؟“۔ پھر اس نے موضوع بدلنے کی کوشش کی “ ابھی تو تم بیس سال کی اور جیوگی۔ تمھارے ماتھے پر تو پانچ لکیریں ہیں پانچ پیسیاں ہو!“۔
 مائی کا ہاتھ فوراً اپنے ماتھے کی طرف اُٹھ گیا۔ “ ہائے پانچ کہاں ہیں۔ کُل چار ہیں پانچویں تو یہاں سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ توچھری کی نوک سے ذرا دونوں کو ملاوے تو شاید ذرا سا اور جی لوں۔ تیرے گھر کی لسّی تھوڑی سی اور پی لوں“۔ مائی کے پوپلے منہ پر ایک بار پھر گول سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
اس پر راحتاں نے زور سے ہنس کے آس پاس پھیلی ہوئی کفن اور کافور کی بُو سے پیچھا چُھڑانے کی کوشش کی مگر کفن اور جنازے سے مفر نہ تھا۔ یہی تو مائی کے محبوب موضوع تھے۔ ویسے راحتاں کو مائی تاجو سے اُنس ہی اس لیے تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے مرنے کی ہی باتیں کرتی تھی جیسے مرنا ہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہو اور جب مذاق میں ایک بار راحتاں نے مائی سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اسے یہی کفن پہنا کر اپنے باپ کی منت کرے گی کہ مائی کا بڑا ہی شاندار جنازہ نکالا جائے تو مائی اتنی خوش ہوئی تھی کہ جیسے اُسے نئی زندگی مل گئی ہے۔ راحتاں سوچتی تھی کہ یہ کیسی بدنصیب ہے جس کا پوری دُنیا میں کوئی بھی اپنا نہیں ہے اور جب مری تو کسی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہیں ٹپکے گا۔ بعض موتی کتنی آباد اور بعض کتنی ویران ہوتے ہیں۔ خود راحتاں کا ننھا بھائی کنویں میں گِر کر مر گیا تھا تو کیا شاندار ماتم ہوا تھا ! کئی دن تک بین ہوتے رہے تھے۔ اور گھر سے باہر چوپال پر دور دور سے فاتحۃ خوانی کے لیے آنے والوں کے ٹھٹ لگے رہے تھے اور پھر انہی دنوں کریمے نائی کا بچہ نمونئے سے مرا تو بس اتنا ہوا کہ اس روز کریمے کے گھر کا چولھا ٹھنڈا رہا۔ ااور تیسرے ہی روز وہ چوپال پر بیٹھا چودھری فتح دین کا خط بنا رہا تھا۔ موت میں ایسا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ مر کر تو سب برابر ہوجاتے ہیں۔ سب مٹی میں دفن ہوتے ہیں۔ امیروں کے دفن کے لیے مٹی ولایت سے تو نہیں منگائی جاتی سب کے لیے یہی پاکستان کی مٹی ہوتی ہے۔
 ۔ “ کیوں مائی “۔ ایک دن راحتاں نے پوچھا۔ “ کیا اس دُنیا میں سچ مچ تمھارا کوئی نہیں؟“۔
   ۔ “ واہ، کیوں نہیں ہے !“۔ مائی مسکرائی۔
 ۔ “ اچھا!“۔ راحتاں کو بڑی حیرت ہوئی۔
 ۔ “ ہاں ایک ہے “۔ مائی بولی۔
راحتاں کو بڑی خوشی ہوئی کے مائی نے اسے ایک ایسا راز بتا دیا ہے جس کا گاؤں کے بڑے بوڑھوں تک کو علم نہیں۔ “ کہاں رہتا ہے وہ؟“۔ اس نے بڑے شوق سے پوچھا۔
 ۔ “ وہ؟“۔ مائی مسکرائی جا رہی تھی۔ “ وہ یہاں بھی رہتا ہے وہاں بھی رہتا ہے۔ دُنیا میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ نہ رہتا ہو۔ وہ بارڈر کے اُدھر بھی رہتا ہے بارڈر کے ادھر بھی رہتا ہے۔ وہ تو“۔
راحتاں نے بیقرار ہو کر مائی کی بات کاٹی۔ “ ہائے ایسا کون ہے وہ؟“۔
اور مائی نے اُسی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔ “ خُدا ہے بیٹی، اور کون ہے!“۔
 راحتاں کو اس کے باپ کے ذریعے پتا چلا تھا کہ آج سے کوئی آدھی صدی ادھر کی بات ہے۔ گاؤں کا ایک خوبصورت پٹواری مائی تاجو کو یہاں لے آیا تھا۔ کہتے ہیں کے مائی تاجو اُن دنوں اتنی خوبصورت تھی کہ اگر وہ بادشاہوں کا زمانہ ہوتا تو مائی ملکہ ہوتی۔ اس کے حسن کا چرچا پھیلا تو اس گاؤں سے نکل کر پٹواری کے آبائی گاؤں تک جا پہنچا۔ جہاں سے اس کی پہلی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ یہاں آ دھمکی۔ پٹواری نے مائی تاجو کو دھوکہ دیا تھا کہ وہ کنوارہ ہے۔ تاجو نے اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف رو پیٹ کر اور نہر میں کود جانے کی دھمکی دے کر شادی کی تھی۔ اُوپر سے جب پہلی بیوی نے جب اپنا سینہ دو ہتڑوں سے پیٹنا شروع کیا اور پر دوہتڑ پر تاجو کو ایک گندی بساندی گالی تھما دی تو تاجو چکناچور ہو کر یہاں سے بھاگی اور اپنے گاؤں میں جا کر دم لیا۔ ماں نے تو اُسے لپٹا لیا مگر باپ آیا تو اسے بازو سے پکڑ کر باہر صحن میں لے گیا، اور بولا۔ “ چاہے پٹواری کی تین بیویاں اور ہوں، تمھیں اس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ تم نے اپنی پرضی کی شادی کی ہے ہمارے لیے یہی بےعزتی بہت ہے۔ اب یہاں بیٹھنا ہے تو طلاق لے کر آؤ ورنہ وہیں رہو چاہے نوکرانی بن کر رہو۔ ہمارے لیے تو تم اسی دن مر گئی تھیں جب تم نے پوری برادری کی عورتوں کے سامنے چھوکروں کی طرح اکڑ کر کہہ دیا تھا کہ شادی کروں گی تو پٹواری سے کروں گی ورنہ کنواری مروں گی۔ جاؤ ہم یہی سمجھیں گے کے ہمارے ہاں کوئی اولاد ہی نہیں تھی“۔      اس کی ماں روتی پیٹتی رہی مگر باپ نے ایک نہ مانی اور جب تاجو آدھی رات کو واپس اس گاؤں میں‌پہنچ کر اس پٹواری کے دروازے پر آئی تو اس میں تالا پڑا ہوا تھا۔ رات وہیں دروازے سے لگی بیٹھی رہی۔ صبح لوگوں نے دیکھا تو پنچایت نے فیصلہ کیا کہ تاجو پٹواری کی باقاعدہ منکوحہ ہے اس لیے اس کا پٹواری کے گھر پر حق ہے اور اس لیے تالا توڑ دو۔
 گاؤں والوں نے چند روز تک تو پٹواری کا انتظار کیا مگر اس کی جگہ ایک نیا پٹواری آنکلا۔ معلوم ہوا کہ اس نے کسی اور گاؤں میں تبادلہ کرا لیا ہے۔ گاؤں کے دو آدمی اسے ڈھونڈنے نکلے۔ اور جب وہ مل گیا تو پٹواری نے انھیں بتایا کہ اس نے ان کے گاؤں کا رخ کیا تو اس کی پہلی بیوی کے چھ بھائی اسے قتل کر دیں گے۔ “ میں نے یہ بات اپنی پہلی بیوی کو بھی نہیں بتائی کہ میں تمھارے گاؤں کے جس مکان میں رہتا تھا وہ میں نے خرید لیا تھا اور وہ میری ملکیت ہے، یہ مکان میں اپنی دوسری بیوی تاجو کے نام لکھے دیتا ہوں۔ میں اسے طلاق نہیں دوں گا۔ مجھے اس سے محبت ہے“۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگا تھا۔
  سو گاؤں والوں کی مہربانی سے پٹواری نے اسے طلاق کے بدلے مکان دے دیا۔ اور یہ بھی صبر شکر کر کے بیٹھ گئی کیونکہ اس کے پیٹ میں بچہ تھا۔ یہ بچہ جب پیدا ہوا تو اس کا نام اس نے حسن دین رکھا۔ محنت مزدوری کے کے سے پالتی پوستی رہی، مڈل تک پڑھایا بھی مگر اس کے بعد ہمت نہ رہی۔ تاجو کے حُسن کی وجہ سے اس پر ترس تو سب کو آتا تھا مگر پٹواری سے جُدا ہونے کے بعد وہ اپنی جوانی پر سانپ بن کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک بھلے آدمی نے حسن دین کو اعٰلی تعلیم دلانے کا لالچ دے کر تاجو سے عقد کرنے کا خواہش ظاہر کی تو تاجو نے اس کی سات پشتوں کو توم ڈالا اور حسن دین کلہاڑی لے کر اس خُدا ترس کے پیچھے پڑ گیا۔ اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ حسن دین برگِ آوارہ پھرتا رہا۔ پھر جب اس کے عشق کرنے کا زمانہ آیا تو فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اس کے بعد مائی تاجو کے چند برس اچھے گزرے۔ حسن دین حوالداری تک پہنچا۔ اس کے رشتے کی بھی بات ہوگئی مگر پھر دوسرے بڑی جنگ چھڑگئی، اور حسن دین اوہر بن غازی میں مارا گیا۔ تب مائی تاجو نے چکی پیسنی شروع کی۔ اور اس وقت تک پیستی رہی جب وہ ایک دن چکی کے پاٹ پر سر رکھے بےہوش پائی گئی۔ اس روز جب وہ ہوش میں آئی تھی تو حکیم کے ہاتھ کو چکی کی ہتھی سمجھ کر گھُما دیا تھا۔
 اگر اس کے پڑوس میں چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں نہ ہوتی تو وہ اپنی بار بار کی بےہوشیوں سے کسی بےہوشی کے دوران کوچ کر جاتی۔ وہ راحتاں سے کہا کرتی تھی کہ۔ “ بیٹی اگر میرا حسن دین ہوتا تو میں تجھے تیری شادی پر سونے کا ست لڑا ہار دیتی۔ اسے خدا نے اپنے پاس بُلا لیا سو اب میں ہر وقت تیرے لیے دُعا کرتی ہوں کے تو جُگ جُگ جئیے اور شادی کے بعد بھی اسی طرح سُکھہ رہے جیسے اپنے باپ کے گھر سُکھی ہے“۔
     ایک رات مائی تاجو کو اس بات کا غصہ تھا کہ جب اندھیری رات تک راحتاں اس کی روزانہ کی روٹی نہ لائی تو وہ خود ہی لاٹھی ٹیکتی فتح دین کے گھر چلی گئی۔ فتح دین کی بیوی سے راحتاں کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی کسی سہیلی کی شادی میں‌گئی ہے اور آدھی رات تک واپس آئے گی۔ پھر اس نے روٹی مانگی تو راستاں کی ماں نے بس اتنا کہا۔ “ دیتی ہوں۔ پہلے گھر والے تو کھا لیں“۔  راحتاں کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو فتح دین کے گھر والوں میں شامل سمجھتی تھی۔ اس لیے ضبط نہ کر سکی۔ بولی۔ “ تو بی بی، کیا میں بھکارن ہوں؟“۔
   سونے کی بالیوں سے بھرے ہوئے کانوں والی بی بی کو بھی مائی تاجو کسی مسکین عورت کے منہ سے یہ بات سن کر تکلیف ہوئی۔ اس نے کہا۔ “ نہیں مائی، بھکارن کو خیر نہیں ہو، مگر محتاج تو ہو نہ“۔
اور مائی کو کپکپی سی چھوٹ گئی۔ وہ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔ اب دوبارہ راحتاں کی ماں نے اسے پکارہ بھی مگر اس کے کانوں میں تو شاں شاں ہو رہی تھی۔ گھر آکر آنگن میں‌پڑی کھاٹ کر گِر پڑی اور اپنی موت کو یوں پکارتی رہی جیسے وہ دیوار سے ادھر بیٹھی ہوئی اس کی باتیں سن رہی ہو۔
آدھی رات کو جب چاند زرد پڑ گیا تھا۔ دیوار پر سے راحتاں نے اسے پکارا۔
 ۔ “ مائی جاگ رہی ہو؟“۔
۔ “ میں سوتی کب ہوں بیٹی“۔ اس نے کہا۔
 ۔ “ ادھر آکر روٹی لو دیوار پر سے“۔ راحتاں بولی۔
 ۔ “ نہیں بیٹی راحتاں۔ نہیں لوں گی“۔ اس کی آواز بھر آنے لگی۔ “ آدمی زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے نہ۔ تو میں کب تک زندہ رہوں گی۔ جبکہ میں جدھر جاتی ہوں میری قبر میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ میں کیوں تمھارا اناج ضائع کروں بیٹی“۔
  راحتاں دیوار کے پاس کچھ دیر خاموش کھڑی رہی۔ پھر پنجوں کے بل کھڑی ہوکر بڑی منت سے کہا۔ “ لے لو مائی، میرا خاطر سے لے لو“۔
 ۔ “ نہیں بیٹی“۔ مائی تاجو کھل کر رو رہی تھی۔ “ لے لیتی پر آج تمھاری ماں نے مجھے بتایا ہے کہ میں محتاج ہوں اور چکی پیس پیس کر جو میرے ہاتھوں پر جو گٹے پڑ گئے ہیں وہ مجھے کچھ اور بتاتے ہیں۔ سو بیٹی یہ روٹی میں نہیں لوں گی۔ اب کبھی نہیں لوں گی۔ تمھاری لائی ہوئی کل شام والی روٹی میری آخری روٹی تھی۔ یہ روٹی اپنے کتے کے آگے ڈال دو“۔
اس کے بعد اس نے سنا کہ راحتاں اور اس کی ماں کے درمیان کچھ تیز تیز باتیں ہوئیں۔ پھر راحتاں رونے لگی اور اس کی ماں اسے ڈانٹنے لگی۔ اس کے بعد فتح دین کی آواز آئی۔
 ۔ “ سونے دو گی یا میں چوپال پر جا کر پڑ رہوں؟“۔
پھر جب سب خاموش ہوگئے تو مائی تاجو اٹھ بیٹھی۔ اسے لگا کے راحتاں اپنے بستر پر پڑی آنسو بہا رہی ہے وہ دیوار تک گئی بھی مگر پھر فتح دین کے ڈر سے پلٹ آئی۔ گھڑے میں سے پانی پیا اور دیر تک ایلومینیم کا کٹورا اپنے چہرے پر پھیرتی رہی۔ آج وہ کتنی تپ رہی تھی اور یہ پیالہ کتنا ٹھنڈا تھا۔ اب گرمیاں ختم سمجھو۔ اسے اپنے لحاف کا خیال آیا۔ جس کی روٹی لکڑی کی طرح سخت ہوگئی تھی۔ اب کے اسے دھنکواؤں گی۔ پر اللہ کرے دھنکوانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اللہ کرے اب کے لحاف کی بجائے میں کفن اوڑھوں ۔۔۔۔ !!!      وہ گھڑے کے پاس سے اٹھ کر چارپائی تک آگئی۔ کچھ دیر تک پاؤں لٹکائے بیٹھی رہی۔ پھر اسے ایک لمبی سانس سنائی دی۔ یہ راحتاں کی سانس ہوگی۔ہائے خدا کرے وہ سدا سُکھی رہے۔ اسی پیاری بچی اس نک چڑھی کے ہاں کیسے پیدا ہوگئی! اسے تو میرے ہاں پیدا ہونا چاہئے تھا۔ اسے اپنا حسن دین یاد آگیا اور وہ رونے لگی۔ پھر آنسو پونچھ کر لیٹی تو آسمان سے ستارے جیسے نیچے لٹک آئے اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ہلنے لگے۔ فتح دین کا کتا غرا کر ایک بلی پر جھپٹا اور بلی دیوار پر سے پھاند کر اس کے سامنے سے گولی کی طرح نکل گئی۔کسی گھر میں مرغے نے بانگ دی اور پھر بانگوں کا مقابلہ شروع ہوگیا۔
 یکایک سب مرغے ایک دم یوں خاموش ہوگئے، جیسے ان کے گلی ایک ساتھ گھونٹ دئیے گئے ہیں۔ پورے گاؤں کے کتے بھونکنے لگے۔ پھر مشرق کی طرف سے ایسی آوازیں آئیں جیسے قریب قریب ہر رات آتی ہیں۔ بارڈر پر رینجرز سمگلروں کے تعاقب میں ہوں گے۔ پھر اس پر غنودگی سی چھانے لگی اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ پھر ایک دم کھول دیں۔ بڑی آئی وہاں سے مجھے محتاج کہنے والی! چکی پیستے پیستے ہاتھوں کی جلد ہڈی بن گئی ہے اور مجھے محتاج کہتی ہے! قیامت کے دن شور مچا دوں گی کی اسے پکڑو اس نے مجھ پر بہتان باندھا ہے۔ مگر وہاں کہیں یہ میری راحتاں بیچ میں نہ بول پڑے۔
  اٹھ کر اس نے پانی پیا اور واپس جا کر چارپائی پر پڑگئی۔ پھر جب پو پھٹی تو اس کا حلق اس کے جوتے کے چمڑے کی طرح خشک ہو رہا تھا۔ وہ پھر پانی پینے کے لیے اٹھی لیکن دوسرے ہی قدم پر چکرا کر گِر پڑی۔ سر گھاٹ کے پائے سے ٹکرایا اور بے ہوش ہوگئی۔      جب مائی تاجو ہوش میں آئی تو اسے پہلا احساس یہ ہوا کہ نماز قضا ہوگئی ہے۔ پھر ایک دم وہ بڑبڑا کر اٹھی اور دیوار کی طرف بھاگی۔ ہر طرف گولیاں چل رہی تھیں اور عورتیں چیخ رہی تھیں اور بچے بلبلا رہے تھے اور دھوپ میں جیسے سوراخ ہوگئے ہوں جن میں سے دھواں داخل ہورہا تھا۔ دور سے گڑگڑاہٹ اور دھماکوں کی مسلسل آوازیں آرہی تھیں اور گلی میں سے لوگ بھاگتے ہوئے گزر رہے تھے۔
  “ راحتاں !۔۔۔ اے بیٹی راحتاں !!“۔ وہ پکاری۔
 راحتاں اندر کوٹھے سے نکلی۔ اس کا سنہرا رنگ مٹی ہورہا تھا اور اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اس کی آواز میں چیخیں اور آنسو اور کپکپی اور ناجانے کیا کچھ تھا۔ “ جلدی سے نکل آؤ مائی، گاؤں‌میں سے نکل جاؤ، لاہور کی طرف بھاگو۔ ہم بھی لاہور جا رہے ہیں۔ تم بھی لاہور چلو۔ ہندوستان کی فوج آگئی ہے“۔ یہ کہہ کر وہ پھر اندر بھاگ گئی۔
 ۔ “ ہندوستان کی فوج آگئی۔ یہاں ہمارے گاؤں میں کیوں آگئی؟ بارڈر تو تین میل ادھر ہے۔۔۔ !! “۔
  ۔ “ یہ فوج یہاں کیوں آئی ہے بیٹی؟“۔ مائی حیران ہو کر پکاری۔ “ کہیں غلطی سے تو نہیں آگئی! بھائی فتح دین کہاں ہیں؟ اسے بھیجونا وہ انہیں سمجھائے کے یہ پاکستان ہے“۔
   مگر راحتاں کا کوئی جواب نہ آیا۔ شور بڑھ رہا تھا۔ مشرق کی طرف کوئی گھر جلنے بھی لگا تھا۔ چند گولیاں اس کے کوٹھے کی دیوار کے اوپر والے حصے پر تڑاخ تڑاخ سے لگیں اور مٹی کی لپائی کے بڑے بڑے ٹکڑے زمین پر آرہے۔ چند گولیاں ہوا کو چیر دینے والی سیٹیاں بجاتی چھت پر سے گزر گئیں۔  فتح دین کے صحن کی ٹاہلی پر سے پاگلوں کی طرح اُڑتا ہوا ایک کوا اچانک ہوا میں لڑھکنیاں کھاتا ہوا آیا اور مائی تاجو کے گھڑے کے پاس پتھر کی طرح گر پڑا۔
 پھر زور کا ایک دھماکا ہوا اور مائی جو دیوار سے ہٹ آئی تھی، پھر دیوار کی طرف بڑھی۔ ایک دم چودھری فتح دین کے دروازے کو کسی نے کوٹ ڈالا۔ پھر کواڑ دھڑام سے گرے۔ اکٹھی بہت سی گولیاں چلیں اکٹھی سب سے چیخیں بلند ہوئیں۔ ماں نے ان میں سے راحتاں کی چیخ کو صاف پہچان لیا۔ “ راحتاں بیٹی!“۔ وہ چلائی لاٹھی ٹیکتی ہوئی لپکی اور اپنے دروازے کی کنڈی کھول کر باہر گلی میں آگئی۔      گلی میں شہاب دین، نور اللہ، محمد بشیر، حیدر خان اور جانے کس کس کی لاشیں پڑی تھیں۔ چودھری فتح دین کے گرے ہوئے دروازے کے پاس مولوی عبدالمجید مردہ پڑے تھے۔ ان کا آدھا چہرا اُڑ گیا تھا۔ مائی نے مولوی صاحب کو ان کی نورانی داڑھی سے پہچانا۔      چودھری فتح دین کے صحن میں خود فتح دین اور اس کے بیٹے مرے پڑے تھے۔ فتح دین کی بیوی کی بالیوں بھر کان غائب تھے۔ اندر کوٹھیوں میں اٹھا پٹخ مچی ہوئی تھی اور باہر راحتاں بہت سے فوجیوں میں گری اپنی عمر سے چودہ پندرہ سال چھوٹے بچوں کی طرح چیخ رہی تھی۔ پھر ایک سپاہی نے اس کے گریباں میں ہاتھ ڈال کر جھٹکا دیا تو کُرتا پھٹ گیا اور وہ ننگی ہوگئی۔ فوراَ ہی ہو گھٹھری سی بن کر بیٹھ گئی۔ مگر پھر ایک سپاہی نے اس کے کرتے کا باقی حصہ بھی نوچ لیا اور قہقہے لگاتا ہوا اس سے اپنے جوتے پونچھنے لگا۔ پھر مائی تاجو آئی، راحتاں پر گر پڑی، اسے آسماں کی طرح ڈھانپ لیا اور ایک عجیب سی آواز میں، جو اس کی اپنی نہ تھی بولی۔ “ اللہ تیرا پردہ رکھے بیٹی، اللہ تیری حیا قائم رکھے“۔
  ایک سپاہی کے مائی کا سفید چونڈا پکڑ کر اسے راحتاں پر سے کھینچنا چاہا تو خون سے اس کا ہاتھ بھیگ گیا اور مائی وہیں راحتاں کو ڈھانپے ہوئے بولی۔ “ یہ لڑکی تم میں سے کسی کی بہن بیٹی ہوتی تو کیا تم جب بھی اس کے ساتھ یہی کرتے؟ یہ لڑکی تو ۔۔۔۔“۔
  کسی نے یہ کہہ کر مائی تاجو کی پسلیوں میں زور دار ٹھوکر مار دی کہ۔ “ ہٹو یہاں سے، ہمیں دیر ہو رہی ہے اور ابھی دوپہر تک ہمیں لاہور بھی پہنچنا ہے“۔۔۔۔ اور مائی یوں ایک طرف لڑک گئی جیسے چھیتھروں سے بنی ہوئی گُڑیا تھی۔ پھر سب کے ہاتھ راحتاں کی طرف بڑھے۔ جو اب چیخ نہیں رہی تھی۔ اب وہ ننگی کھڑی تھی اور یوں کھڑی تھی جیسے کپڑے پہنے کھڑی ہو۔ اس کا رنگ مائی تاجو کے کفن کے لٹھے سا ہو رہا تھا اور اس کی آنکھیں اتنی پھیل گئی تھیں معلوم ہوتا تھا جیسے ان میں پتلیاں کبھی تھیں ہی نہیں۔
  مائی تاجو ہوش میں آئی تو اس نے دیکھا اس کے پاس وارث علی مؤذن کھڑا ہے پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ لاشوں کے چہرے ڈھبنے ہوئے تھے۔ “ راحتاں کہاں ہے؟“۔ وہ یون چیخ کر بولی جیسے اس کے جسم کی دھجیاں اُڑ گئی ہیں۔ وارث علی سر جھکائے ایک طرف جانے لگا۔ “ میرے راحتاں بیٹی کہاں ہے؟“۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور وارث علی کی طرف یون قدم اٹھایا جیسے اسے قتل کرنے چلی ہے۔ “ کہاں ہے وہ؟“۔
 وارث علی کے پاس وہ جیسے سُن ہوکر رہ گئی۔ وارث علی کا چہرہ لہولہان ہو رہا تھا، اور اس کے ایک بازو پر سے اس کا گوشت ایک طرف کٹ کر لٹک رہا تھا۔ وہ بولا تو مائی تاجو نے دیکھا کہ اس کے ہونٹ بھی کٹے ہوئے ہیں اور اس کے منہ میں بھی خون ہے۔    ۔ “ کسی کو کچھ پاتا نہیں مائی کے کون کہاں گیا۔ بس اب تو یہاں سے چلی جا۔ ہندوستانی فوج یہاں سے آگے نکل گئی ہے اور گاؤں کے گرد ان کے آدمی گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں۔ تم کماد کے کھیتوں میں چھپتی چھپاتی لاہور کی طرف پہنچ سکتی ہے تو چلی جا۔ وہاں مرے گی تو کوئی تیرا جنازہ تو پڑے گا۔ اب جا مجھے کام کرنے دے“۔
 ۔ “ دیکھ بیٹا“۔ مائی بولی۔ “ میں پانی لاتی ہوں تو ذرا کلی کر لے۔ تو موذن ہے اور منہ میں اتنا بہت سا خون لیے کھڑا ہے! خون تو حرام ہوتا ہے بیٹا“۔
۔ “ میں سب کر لوں گا“۔ وارث علی چلایا۔ مگر پھر ادھر ادھر دیکھ کر آہستہ سے بولا۔ “ خدا کے لیے مائی، اب چلی جا یہاں سے۔ میں نے اتنے بہت سے لوگ مرتے دیکھے ہیں کی اب تو مرے گی تو میں سمجھوں گا کہ پوری دُنیا مر گئی۔ چلی جا خدا کے لیے“۔    ۔ “ پہلے بتا میری راحتاں بیٹی کدھر گئی؟“۔ مائی نے ضد کی۔
  وارث علی نے پوچھا۔ “ تجھے یاد ہے نہ اسے ننگا کر دیا گیا تھا؟“۔
  ۔ “ ہاں“۔ مائی نے سر ہلایا۔ اور اس کے ایک خون آلود لٹ رسی کی طرح اس کے منہ کر لٹک آئی۔
 ۔ “ تو پھر تو یہ کیوں پوچھتی ہے کہ وہ کدھر گئی“۔
 اور مائی نے اپنے منہ پر ایک زور کا دوہتڑا مرا جیسے چودھری فتح دین کا دروازہ ٹوٹا ہے۔ وہ دھب سے بیٹھ کر اونچی آواز میں رونے لگی۔
 وارث علی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ “ کسی نے سن لیا تو آجائے گا“۔ وہ بولا۔ پھر اسے بڑی مشکل سے کھینچ کر اٹھایا۔ “ تو میری حالت دیکھ رہی ہے مائی صرف اپنے خدا کی قدرت اور اپنے ایمان کی وجہ سے زندہ ہوں ورنہ میرے اندر کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ میں گلیوں میں سے لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر ایک گھڑے میں جما کر رہا ہوں۔ ابھی مجھے فتح دین اور لال دین اور نورالدین اور ماسی جنت کی لاشیں وہاں پہنچانی ہیں، پھر میں ان پر مٹی ڈال کر ان کا جنازہ پڑھوں گا۔ اور مر جاؤنگا۔ مائی بے جنازہ نہ مر۔ لاہور چلی جا۔ ہندوستانی فوج ادھر سے گئی ہے تو ادھر سے کھیتوں میں چھپتی چھپاتی نکل جا۔ میرے پاس بہت تھوڑا وقت ہے۔ دیکھ تو میرے تو جوتے بھی خون سے بھر گئے ہیں“۔
 ٹوٹے ہوئے دروازے پر سے گزرتے ہوئے وہ رُک گئی۔ “ وارث بیٹے “۔ وہ بولی۔ “ لاہور تو چلا جا۔ جنازہ میں پڑھ دوں گی میں بچ گئی تو یونہی کسی کو روز ایک روٹی حرام کرنی پڑے گی۔ تو مر گیا تو تیرے ساتھ تیری اذان بھی مر جائے گی۔“
 ۔ “ نہیں مائی“۔ وارث علی جلدی سے بولا۔ “ اذان بھی کبھی مری ہے خدا کے لیے تو اب چلی جا“۔
 گلی میں قدم رکھتے ہوئے اس نے پلٹ کر پوچھا۔ “ تیرا کیا خیال ہے بیٹا، راحتاں کو انہوں نے مار تو نہیں ڈالا ہوگا؟“۔      وارث علی نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی اور چودھری فتح دین کی لاش پر جھک گیا۔
 مائی تاجو گلی میں سے گزر رہی تھی اس نے ایک ہاتھ میں لاٹھی تھام رکھی تھی۔ دوسرا ہاتھ پیٹھ پر تھا، اور وہ یوں جھک جھک کر چل رہی تھی جیسے بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی ڈھونڈنے نکلی ہے۔
   مائی تاجو گاؤں کی آخری گلی میں سے نکل کر  کھیت میں‌قدم رکھنے لگی تھی کہ جیسے پر طرف گولیاں چلنے لگیں اور وہ ایک کھالے میں لڑھک کر لیٹ گئی۔ ہائے کہیں وہ وارث علی کو نہ مار رہے ہوں ! مگر کیا ایک آدمی کو مارنے کے لیے اتنی بہت سی گولیوں کی ضرورت ہوتی ہے! کھالے میں سے اس نے کھیت کے کئی گنے گولیوں کی زد میں ٹوٹتے ہوئے دیکھے۔ اس نے یہاں تک دیکھا کی جہاں سے گنا ٹوٹتا ہے وہاں سے رس کی ایک دھار نکل کر جڑ کی طرف بہنے لگتی ہے۔۔۔ اور اسے راحتاں یاد آگئی اور وہ کھالے میں سے اٹھ کھڑی ہوئی، ایک گولا اس کے سر کے پاس سے گزر کر پیچھے ایک درخت کے تنے میں جا لگا، اور پورا درخت جیسے جھرجھری لے کر رہ گیا۔ وہ پھر کھالے میں لیٹ گئی اور اسے ایسا لگا کہ وہ مرگئی ہے اور قبر میں پڑی ہے۔ تب اسے اپنا کفن یاد آیا۔ اور وہ اتنی تیزی سے کھالے میں سے نکل کر گلی میں داخل ہوئی جیسے اس کے اندر ایک مشین چلنے لگی ہے۔ اسے پہلی بار یاد آیا کی وہ تو خالی ہاتھ لاہور جا رہی تھی۔ وہ تو اپنی کمائی گھر پر ہی بھول آئی تھی۔ اس کا کفن تو وہیں بکسے میں رکھا رہ گیا تھا۔ زندگی میں‌اتنی محبت بھی کیا کہ انسان اسے بچانے کے لیے بھاگے تو اپنا کفن ہی بھول جائے۔ اور یہ کفن اس نے اتنی مشقت سے تیار کیا تھا۔ اور اس پر کتنے چاؤ سے کلمہِ شہادت لکھوایا تھا خاکِ پاک سے اچھے کفن اور اچھے جنازے ہی کے لیے تو وہ اب تک زندہ تھی۔
   اب وہ اتنی تیزی سے چل رہی تھی کہ جوانی میں بھی یوں نہیں چلی ہوگی۔ اس کے قد کا خم بھی ایک دم ٹھیک ہوگیا تھا اور لاٹھی کو ٹیکنے کی بجائے اسے تلوار کی طرح اٹھا رکھا تھا۔راحتاں کے گھر کے سامنے سے بھی وہ آگے نکلی چلی گئی۔ مگر پھر جیسے اس کے قدم جکڑے گئے۔پلٹی۔ ٹوٹے ہوئےدروازے میں سے جھانکا۔ وارث علی سب لاشیں سمیٹ لے گیا تھا۔ صرف راحتاں کے کُرتے کی ایک دھجی ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پورے صحن میں یہاں سے وہاں ایک بےچین روح کی طرح بھٹکتی پھرتی تھی۔
 مائی تاجو کا جی چاہا کہ دوہتڑ مار کر اپنا سینے ادھیڑ دے۔ مگر ساتھ ہی اسے وارث علی یاد آیا۔ جس نے کہا تھا ۔۔۔ فوراً اسے اپنا کفن یاد آیا۔اس کے کوٹھے کا دروازہ کھلا تھا۔ گھڑے کے پاس کوا اسی طرح پڑا تھا۔ اس کا کھٹولا اسی طرح بچھا تھا۔ اندر اس کا بکس کھلا پڑا تھا مگر اس میں کفن موجود تھا، کیسی منہ کی کھائی ہوگی انہوں نے جب بکسا کھولا ہوگا اور اس میں سے صرف کفن نکلا ہوگا۔
مائی کفن کو سر کی چادر میں چھپا کر باہر آئی تو فتح دین کا کتا بھاگتا ہوا آیا۔ اور اس کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہنس نہیں سکتا ورنہ خوب خوب ہنستا۔
 ۔ “ چل ہٹ“۔ مائی نے اسے ڈانٹا۔ “ میرے نمازی کپڑے پلید نہ کر“۔      کتا اٹھ کھڑا ہوا۔
  مائی نے دوسری گلی میں پڑتے ہوئی پلٹ کر دیکھا تو کتا وہیں کھڑا تھا۔اور اسی طرح کھڑا تھا جیسے لکڑی کا بن کر رہ گیا۔ “پچ پچ“۔ مائی نے کتے کو اپنی طرف بلانا چاہا۔ مگر وہ پلٹا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا ایک دیوار کے سائے میں ایک دم یوں بیٹھ گیا جیسے گِر پڑا ہے۔ “ ہائے بیچارہ“۔ مائی کا احساسِ جرم پکارا۔
 مگر پھر فضا میں اوپر ایک دو دھماکے ہوئے کہ مائی تاجو کو زمین اپنے قدموں تلے ٹکڑے ٹکڑے ہوتی محسوس ہوئی۔ تیزی سے چلتی وہ پھر کھالے میں جاگِری۔ اب زمین ہِل رہی تھی۔ فضا میں جیسے بہت سارے شیر دھاڑے جا رہے تھے اور دھماکوں اور گولیوں اور گڑگڑاہٹوں کا شور قریب آتا جا رہا تھا۔ اب وہ کفن کو اپنے سینے سے چمٹائے کھالے میں رینگنے لگی۔ پرسوں پہلے وہ چراغوں کا میلہ دیکھنے کے لیے وہ گاؤں کی دوسری عورتوں کے ساتھ اسی کھالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی لاہور چھاؤنی میں‌جا نکلی تھی۔ اور وہاں کیسا غضب ہوا تھا۔ بےچاری شہابی ایک ٹانگے کے پہیہ تلے آکر وہیں شالامار کے دروازے پر ہی مر گئی تھی۔۔۔ تو کیا راحتاں مر گئی ہوگی۔ کیا راحتاں مرنے کے لائق تھی؟ لا بیٹی۔ میں تیرے ہاتھ کی روٹی واپس نہیں کروں گی۔ روٹھ مت مجھ سے راحتاں۔۔ اے راحتاں بیٹی!!!      اس نے سنا کی وہ اونچی اونچی بول رہی ہے۔۔۔ مگر اتنے شور میں اس کی آواز کون سنے گا۔۔۔ راحتاں۔۔۔اے میری اچھی، میری نیک، میری خوبصورت راحتاں!
 ہائے یہ کپاس بھی عجیب پودا ہے۔ اس کے پھول کا رنگ کیسا الگ ہوتا ہے دوسرے پھولوں سے۔۔۔ اے راحتاں بیٹی!      کھالے سے کپاس کے کھیت میں اور وہاں سے وہ گنے کے کھیت میں گھس گئی۔ دھماکے اتنے تیز ہو رہے تھے جیسے اس کے اندر ہورہے ہیں کہتے ہیں کے گولا لگے تو انسان گولے کی طرح پھٹ جاتا ہے۔ کون چُنتا پھرے کا میری ہڈیاں اور پھر میرا کفن جس پر خاکِ پاک سے کلمہِ شہادت لکھا ہے۔
  کتنا گھنا ہے گنے کا یہ کھیت! یہ چودھری فتح دین کا کھیت ہے۔ راحتاں اسی کھیت کے گنے چوس چوس کر کہتی تھی مائی مجھے بڑھاپے سے صرف اس لیے ڈر لگتا ہے کہ منہ پوپلا ہوجاتا ہے اور گنا نہیں چوسا جا سکتا۔      مائی تاجو مسکرائی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ راحتاں بیٹی ۔۔۔۔ اے میری راحتاں بیٹی ۔۔۔!
  ۔ “ مائی “۔ آواز جیسے پاتال سے آئی تھی۔      انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ چاہے زمین اور آسمان بج رہے ہوں مگر اس کے کان بجنے سے باز نہیں آتے۔    ۔ “ مائی “۔      ہائے یہ آواز تو جیسے میری پسلی سے آئی ہے۔
 وہ کفن کو سینے سے چمٹا کر دھک گئی۔ اس کی انگلیوں نے محسوس کیا کہ اس کا دل اس کے سینے سے نکل کر کفن میں آگیا ہے اور یوں دھڑک رہا ہے جیسے توپیں چل رہی ہیں۔
 ۔ “ مائی “۔ اس کے سر پر کوئی بولا۔
   پھر وہ دیکھتی رہ گئی۔ کفن اس کی گرفت سے نکل کر گِر گیا اور وہ دیکھتی چلی گئی۔
  ۔ “ مائی“۔ راحتاں کہہ رہی تھی۔ “ تم تو میری طرف بس دیکھتی ہی جا رہی ہو۔ دیکھتی نہیں ہو میں ننگی ہوں مجھے کچھ دو“۔
  مائی نے زور زور سے ہنستے ہوئے اور زور زور سے روتے ہوئی راحتاں کو یوں گود میں کھینچ لیا۔ جیسے ننھے سے حسن دین کو دودھ پلانے چلی ہے۔
 اب دھماکے جیسے کھیتوں کی چاروں منڈیروں پر ہورہے تھے۔ مگر مائی اس سے بےنیاز راحتاں کا ماتھا چومے جا رہی تھی۔ “ ہائے تو زندہ ہے میری بیٹی۔ جبھی میں کہوں کہ میں مرتی کیوں نہیں ہوں۔ ہائے اب تو کبھی نہ مروں۔ ہائے مجھے یہ اپنا کفن کیسا فالتو فالتو سا لگنے لگا ہے“۔
 ۔ “ کفن؟“۔ راحتاں تڑپ کر مائی کی گود سے نکلی۔ کفن اٹھا کر اسے جلدی سے کھولا، اور اپنے پورے جسم پر لپیٹ کر یوں مسکرائی جیسے وہ دیوار پر سے مائی کو روٹی تھمانے آئی ہے۔
 اور مائی نے دیکھا کہ راحتاں اس کے کفن میں بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔
  ۔ “ ہائے میری بیٹی، اللہ تیرا پردہ رکھے۔ اللہ تیری حیا قائم رکھے میری بیٹی“۔
  پھر راحتاں نے مائی کو بتایا کہ جب وہ اسے لے جارہے تھے تو اوپر سے پاکستان کے ہوائی جہاز آئے اور وہ لوگ ادھر اُدھر کھالوں اور گڑھوں میں جا دبکے ۔۔۔۔۔، “ اور میں بھاگ آئی۔ مجھے پتا تھا کہ میرے وطن کے جہاز مجھے پہچانتے ہیں، اور وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ تم میں گاؤں پار کر کے یہاں آگئی اور جب سے یہیں بیٹھی ہوں اور جب سے میں یہاں اکر بیٹھی ہوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میری مائی مجھے پکار رہی ہے ۔۔۔۔۔“۔
  ۔ “ راحتاں ۔۔۔ اے راحتاں بیٹی!“۔      کفن پر جگہ جگہ دھبے نمایاں ہونے لگے تھے۔ نوچی کھسوٹی ہوئی راحتاں کا جسم اپنا کرب کفن کو منتقل کر رہا تھا، اور خاکِ پاک نے اس خون کے لیے جگہ خالی کر دی تھی۔
   اور لاہور کے کہیں آس پاس مائی نے کہا۔ “ راحتاں بیٹی تو کتنی سچی ہے۔ تو نے میرا شاندار جنازہ نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔ تو نے یہ وعدہ سچ مچ پورا کیا۔ تو میرے کفن میں کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ میری اچھی۔ میری نیک، میری خوبصورت راحتاں“۔