Monday 26 March 2012

افغان پولیس کے لئے بھیجے گئےخطرناک جرمن پستول پاکستان میں فروخت ہورہے ہیں

منصور مہدی
Thanks AHWAL A REPORT BY:

لاہور میں اغوا کی بڑھتے ہوئی واقعات خصوصاً 13اگست 2011کو ماڈل ٹاﺅن سے امریکی شہری وارن وینسٹین اور 26اگست 2011کو سابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کے چھوٹے بیٹا شہباز تاثیر کے اغوا کے بعد نہ صرف سیکیورٹی کے اداروں میں ہلچل پیدا ہوگئی بلکہ شہریوں میں تشویش کی لہر پھیل گئی ۔
نہ صرف لاہور بلکہ پنجاب بھر میں گذشتہ کچھ عرصے سے اغوااور اغوا برائے تاوان کی وارداتوںمیں از حد اضافہ ہو گیا ہے۔ پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے اگست تک صرف 8ماہ میں اغوا کے 10391واقعات اور اغوان برائے تاوان کے 149مقدمات درج ہو چکے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اغوا ، ڈکیتی اور سٹریٹ کرائم میں ملوث گرفتار ملزموں کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے ائی کہ وارداتوں میں زیادہ تر اسلحہ غیر قانونی استعمال ہوتا ہے جو مختلف اسلحہ ڈیلروں سے خریدا جاتا ہے۔ چنانچہ اس انکشاف کے بعد پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں150کے قریب اسلحہ ڈیلرز میں سے 45 دکانوں پر چھاپے مارے ۔ اس دوران پولیس نے 61 غیر قانونی رائفلیں ،385 پسٹل اور ہزاروںکی تعداد میں گولیاں برآمد کرکے چار دکانوں کو سیل جبکہ آٹھ افراد کو گرفتار کرلیا ۔ پولیس کا گرفتار شدہ افراد کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ڈیلرز غیر قانونی اسلحہ فروخت کرتے اورجرائم پیشہ افراد کی معاونت کرتے تھے۔
غیر قانونی ہتھیار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے جرائم کی اہم وجہ ان ہتھیاروں تک عام آدمی کی رسائی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں 87 کروڑ 50لاکھ کے قریب چھوٹے ہتھیار ہیں جن میں سے 26فیصد سرکاری اداروں اور 74 فیصد ہتھیار شہریوں اور مسلح گروہوں کے پاس ہیں۔ جبکہ پاکستان میں بھی چھوٹے ہتھیار لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے پاس ہیں جن میں زیادہ تر غیرقانونی ہیں۔’پاکستان میں 1998 کی مردم شماری کے دوران شہریوں کے پاس 2 کروڑ کے قریب ہتھیار پائے گئے۔ جس میں سے صرف 20 لاکھ ہتھیار لائسنس یافتہ تھے باقی ایک کروڑ80 لاکھ ہتھیار بغیر لائسنس کے تھے۔ اب 12سال گزرنے کے بعدان کی تعدادمیں یقیناً اضافہ ہوچکا ہے۔اس طرح ان غیر قانونی ہتھیاروں کی تعداد فوج،پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کے پاس موجوداسلحے سے بھی زیادہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلاو کے نتیجے میں نہ صرف خاندانی جھگڑوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان ہتھیاروں کی موجودگی میں قبائلی جھگڑے ایک جنگ کا روپ دھار لیتے ہیں۔ انہی ہتھیاروں کی دہشت گردوں کے پاس موجودگی نے ملک بھر میں کے سیکیورٹی کے اداروں کو دیوار سے لگا رکھا ہے اور ملک میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں غیر قانونی ہتھیاروں کی بھرمار کے حوالے سے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر قانونی ہتھیاروں کی ملک میں آمد کی ابتدا آزادی پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی تھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے وقت پاکستان بھارت کے مقابلے میں روایتی ہتھیاروں میں کمزور تھا۔ چنانچہ اس وقت یہاں پر ایسی پالیساں بنائی گئی کہ جس میں ملک کو سکیورٹی سٹیٹ بنا دیا جس میں ہتھیار اور جنگجو کلچر کو فروغ دیا گیا۔ ہمارے قبائلی علاقوں کی روایات نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ سب سے اہم وجہ افغانستان کی ہمسائیگی ہے ۔ کیونکہ پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ کی آمد کا سب بڑا ذریعہ افغانستان ہی ہے۔ ملک میں کلاشنکوف کلچر کی وجہ افغان لڑائی ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ درہ آدم خیل، بلوچستان اور پنچاب کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں بھی غیر قانونی طور پر ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ کشمیر کے جہاد اور ضیا الحق کے دور میں افغانستان کی لڑائی میں شمولیت کے نتیجے میں بھی پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ پھیلا۔
حساس سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار افغانستان کے صوبے کنار سے پاکستانی قبائلی علاقے باجوڑ اور مہند جبکہ صوبہ ننگرہار سے خیبر اور کرم کے راستے اورکزئی اور بعد ازاں خیبر پختونخواہ سے ہوتے ہوئے پنجاب کے شہروں میں پہنچتے ہیں۔ جبکہ افغان صوبے پکتیا سے شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے راستے بلوچستان اور بعد ازاں سندھ اور جنوبی پنجاب پہنچتے ہیں۔ سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اسلحہ اور گولہ بارودکے اسمگلروں نے پاکستان افغانستان کی 2640کلومیٹر طویل سرحد پر کئی راستے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ اسمگلر مقامی لوگوں کی مدد سے یہ کام کرتے ہیں جو یہاں کے راستوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ بعد میں یہ ہتھیار مختلف شہروں میں پھل اور سبزیاں لانے والے ٹرکوں اور ٹرالرز، ریتی ، بجری ، لکڑی اور کوئلہ کے ٹرکوں، آئل ٹینکرز اور دیگر سامان لانے والے ٹرکوں کے ذریعے پہنچائے جاتے ہیں۔ جبکہ شہروں کے اندر ان کی ترسیل میں ہسپتالوں کی ایمبولینس گاڑیاں اور پانی لانے والے ٹینکرز کے ساتھ ساتھ شہروں کے درمیان چلنے والی انٹر سٹی بسوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔
کراچی کے حوالے سے وزارت داخلہکا کہنا ہے کراچی کے علاقے منگھو پیر سے آگے بلوچستان کی سرحد پر شاہ نورانی کا علاقہ غیر قانونی اسلحہ اسمگلروں کا ایک محفوظ مرکز ہے۔ وہاں اسلحہ ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ گروہ تاوان کے لئے اغواکئے گئے افراد کو بھی رکھتے ہیں۔ اس علاقے سے اونٹوں پر لکڑیاں لاد کر لائی جاتی ہیں اور اِس آڑ میں اسلحہ کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔ اسمگلر اس راستے پر پولیس اور نیم فوجی رینجرز کی چیکنگ نہ ہونے کی وجہ سے اسے محفو ظ تصور کرتے ہیں۔
جبکہ بلوچستان کے شہر چمن، پیر علی زئی(افغان مہاجر کیمپ) قلعہ عبداللہ کچلاک، کوئٹہ، سریاب، بولان، سبی، جیکب آباد، شکارپور اور حیدرآباد کے راستے سے بھی کراچی میں اسلحہ لایا جاتا ہے۔ حیدر آباد سے ملک کے دوسرے شہروں میں بھی سپلائی کی جاتی ہے ۔ پھر کوئٹہ، بولان، سبی ، ڈیرہ بگٹی، کشمور، کندھ کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ ، دادو کے راستے اسلحہ حیدرآباد پہنچایا جاتا ہے۔ کوئٹہ، خضدار، ٹھل اور حب سے ہوتا ہوا کراچی پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ راستہ قلعہ سیف اللہ سے شروع ہو کر ڑوب، ڈیرہ اسماعیل خان، فورٹ منڈو، ڈیرہ غازی خان اسلحہ لایا جاتا ہے جہاں سے سندھ کے شہر سکھر، حیدرآباد سے کراچی تک جبکہ پنجاب کے شہروں میں پہنچایا جاتا ہے۔
اسلحہ اسمگلنگ کے حوالے سے وزارت داخلہ نے اپنی ایک رپورٹ میں سرکریک سمیت ان بحری راستوں کی نشاندہی بھی کی ہے، جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سرکریک اور شاہ بندر (پاکستانی علاقہ) کے درمیانی جگہ، جو لائٹ ہاﺅس کے نام سے مشہور ہے، اسلحہ اسمگلنگ اور سرحد پار سے آنے والے ہتھیاروں کی کھیپ کی پہلی منزل ہے۔ کراچی کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم کے قریب ابراہیم حیدری کے علاقے میں بنی کچی کھاڑیاں اور اطراف کے چھوٹے غیر آباد جزیروں پر یہ ہتھیار جمع کئے جاتے ہیں اور پھر کوسٹ گارڈز کی نظروں سے بچا کر مچھیروں کی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے شہر میں منتقل کئے جاتے ہیں جہاں سے ملک بھر میں پھیلا دیا جاتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے لنڈی لوتل اور باڑے اور اس سے ملحقہ دیگر قبائیلی علاقے سے غیر قانونی اسلحہ جی ٹی روڈ کے ذریعے بھی ملک کے دوسرے شہروں میں پہنچایا جاتا ہے لیکن کچھ عرصے سے اس روٹ پر سخت چیکنگ کی وجہ اسلحے کے اسمگلروں نے اس راستے کا استعمال کم کر دیا ہے اور نئے راستوں کااستعمال شروع کر دیا ہے۔ ہتھیاروں کی نوعیت کے حوالے سے سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ ان میں راکٹ لانچر، مارٹر گولے، سب مشین گن اور کلاشنکوف رائفلیں، آر پی جی 7 راکٹ، 107 ملی میٹر دہانے کی طیارہ شکن توپیں، باروسی سرنگیں، ٹینک شکن بارودی سرنگیں اور دیگر جان لیوا گولہ بارود شامل ہوتا ہے ۔
حال ہی میںسیکیورٹی اداروں کی طرف سے وزارت داخلہ کو بھیجی گئی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن والتھیر P1 پستول پاکستان کی اسلحے کی مارکیٹ میں فروخت ہو رہے ہیں۔بنیادی طور پر یہ پستول افغان پولیس کے لئے جرمن حکومت نے بھیجے تھے۔جو افغانستان کی اسلحہ مارکیٹ میںفروخت کر دیے گئے۔ ان ہتھیاروں کی غیرقانونی فروخت میں افغانستان کے سابق اور موجودہ فوجی ملوث ہیں۔ جہاں سے بعد ازاں یہ پاکستان پہنچے ۔ اسلحے کے تاجروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ پستول سینکڑوں کی تعداد امیںبرائے فروخت دستیباب ہیں۔ یہ پستول اپنی کارکردگی ، معیار اور مہلک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں انتہائی مقبول ہیں ۔8.5انچ لمبے اور 800گرام وزنی والتھیر ایک آٹو میٹک ہتھیار ہے جس کی ڈیڈلی رینج 50میٹر تک ہے جبکہ اس میں8گولیوں پر مشتمل میگزین استعمال کی جاتی ہے ۔ پستول سے گولی نکلنے کی رفتار 365میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے ۔ ”ہٹ اینڈ رن شوٹنگ“ کے 95 فیصد واقعات میںکلاشنکوف کے علاوہ یہی ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً ہر شہرمیں خودکار رائفلوں اور پستولوں سمیت چھوٹے غیرقانونی ہتھیار آسانی سے بازار میں دستیاب ہیں اورمختلف سیاسی ومذہبی گروہوں کے کارکنوں کے پاس ایسا غیرقانونی اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان غیر قانونی ہتھیاروں کے بڑے خریداروں میں جہاں متحارب سیاسی گروپ اور انتہا پسند تنظیمیں ہیں وہاں شہروں کے غنڈہ عناصر اور جرائم سے منسلک افراد کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔ جبکہ ان کی ترسیل اور کاروبار میں عام شہری غنڈے سے لیکر سرکاری اداروں کے ملازمین اور سیاستدان سبھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل ضلع مستونگ کے جنوبی علاقے دشت میں بھاری ہتھیاروں سے لدے تین ٹرک قبضے میں لیے گئے۔ یہ ہتھیار راکٹ لانچروں، مارٹر گولوں، سب مشین گن اور کلاشنکوف رائفلوں، آر پی جی 7 راکٹوں، 107 ملی میٹر دہانے کی طیارہ شکن توپوں، ٹینک شکن بارودی سرنگوں اور جان لیوا بارودی سرنگوں پر مشتمل تھے اور ایک اعلٰی سطحی عہدیدار کی ملکیت تھے جو بلوچستان کابینہ کے ایک رکن ہیں۔ اس مقدمے کی تفتیش ہوتی رہی اور آخر کار بلوچستان پولیس نے اس عہدیدار پر بھاری ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کی فرد جرم عائد کر دی اور کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے وزیر موصوف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے لیکن اس کے بعد کوئی کارروائی عمل میں نہ آ سکی۔بعد ازاں یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
اسی طرح اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کے خلاف لال مسجد آپریشن کے دوران برآمد ہونے والا اسلحہ تھانے کے مال خانے سے چوری ہونے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان ملزموں نے لال مسجد سے برآمد ہونے والا اسلحہ تھانے کے مال خانے سے چوری کر کے اسلحہ مارکیٹ میں فروخت کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں 70 سے زائد پولیس کے متعدد اہلکاروں کے خلاف اسلحہ کی سمگلنگ میں اسلحہ ڈیلروں کی معاونت کرنے کے الزام میں مقدمات درج ہیں۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تھانوں میں تعینات اکثر پولیس اہلکاروں کے اسلحہ ڈیلروں کے ساتھ قریبی تعلقات ہوتے ہیں اور جب پولیس کسی کارروائی کے دوران کوئی اسلحہ برآمد کرتی ہے جس میں غیر ملکی اسلحہ بھی شامل ہوتا ہے تو ڈیلر پولیس اہلکاروں سے رابطہ کرکے قانونی کارروائی سے پہلے ہی برآمد کیے گئے اسلحے کو کسی غیر معیاری اسلحے سے تبدیل کرلیتے ہیں۔
اسلحہ لائسنسوں کے اندھا دہند غیر قانونی اجراءمیں بھی سرکاری ملازمین ملوث ہیں۔ ابھی گذشتہ برس کے وسط میںایک امریکی کمپنی انٹر رسک کو 180 لائسنسز کے اجرا سمیت وزراءارکان صوبائی وقومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت کئی بااثر افراد کو ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنسز جاری کیے گئے ۔ ان اسلحہ لائسنسوں کے اجراء میں وزارت داخلہ کے گریڈ بیس کے ایک جوائنٹ سیکریٹری اور ڈ پٹی سیکریٹری نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔جبکہ تین سیکشن افسروں سمیت وزارت داخلہ کی اسلحہ برانچ کے کمپیوٹر نظام کا وینڈر بھی ملوث تھا۔
پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی)کی ایک حالیہ رپورٹ میں اسلحہ کی ا سمگلنگ کو موثر طریقے سے چیک نہ کرنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بلخصوص پولیس کی کارکردگی پر تشویش ظاہر کی ہے۔جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اسلحہ کی سمگلنگ میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے کارروایاں کر رہی ہے چاہے اس کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہی کیوں نہ ہو۔وزارت داخلہ کے مطابق ملک میں غیر قانونی اسلحہ کی اسمگلنگ میںایسے افراد ملوث پائے گئے ہیں جن کے قبائلی علاقوں میں اسلحہ اسمگلروں کے ساتھ تعلقات ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کے پاس بڑی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے پاس بھی بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی اسلحہ موجود ہے جو وہ ملک کے مختلف علاقوں میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ دفاع کے بارے میں قومی اسمبلی کی قائم کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس معاملے کو اٹھایا گیا تھا کہ شدت پسندوں کے پاس اتنا زیادہ اسلحہ کہاں سے آیا۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں اس بات کا مطالبہ تو کرتی ہیں کہ غیر قانونی اسلحہ کی روک تھام کی جائے لیکن ہتھیاروں کی نمائش میں یہی سیاسی رہنما اور ان کے کارکن نمایاں ہوتے ہیں۔ عملی طورپردیکھاجائے توہرجماعت کے کارکنوں کے پاس بڑی تعداد میں ہتھیار پائے جاتے ہیں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ حکومت غیرقانونی اسلحے کے خلاف ایک منظم مہم شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے قانون سازی بھی کرے جس میں غیرقانونی ہتھیاررکھنے والے ملزمان کوزیادہ سے زیادہ سزادی جائے کیونکہ اس جرم میں گرفتار ملزمان آسانی سے ضمانت پررہا ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں اضافہ پر بعض حلقوں کو بہت تشویش لاحق ہے۔ وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سالوں کے دوران اسلحے کے کاروبار میں 50 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔سلامتی امور کے تجزیہ کاروں کے مطابق صرف لائسنس رکھنے والے افراد اور فروخت کنندگان کو ہتھیار فروخت کرنے کا نظام رائج کئے بغیر حکومت کے لئے غیر قانونی اسلحے کے کاروبار کو روکنا مشکل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ درہ آدم خیل میں تیار ہونے والے اسلحے کے لئے قدغن اور توازن کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔یہاں سے خریدا گیا اسلحہ اکثر جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان نہ صرف اسلحے کی اسمگلنگ کی منزل بن چکا ہے بلکہ اب یہاں غیر قانونی ہتھیاروں کے انبار لگ چکے ہیں۔ بعض اسمگلر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھاری اسلحے کے ذخائر جمع کر رہے ہیں۔ عسکریت پسند طالبان کے دور کی طرح اب بھی افغانستان سے اسلحہ حاصل کر رہے ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں اسلحے کی بھرمار میں غیر ملکی طاقتیں بھی ملوث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیا میں مختلف طاقتوں کے مفادات ہیں اور بلوچستان کا جغرافیائی محل وقوع انتہائی اہم ہے اور وہ طاقتیں یہاں استحکام نہیں چاہتیں۔
ملک میںجاری دہشت گردی اور ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پرقابوپانے میںناکامی پرعرصہ درازسے انسانی حقوق کی تنظیمیں،سیاسی ودینی جماعتیں اور عام شہری حکومت سے شہر کو غیرقانونی اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے آپریشن کامطالبہ کررہے ہیں۔ جبکہ حکومت کی بھی یہی خواہش ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی خواہش ہے جو ابھی تک پوری نہیں ہوسکی۔ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کی جانب سے ایسی مہمیں شروع کی گئی۔ غیرقانونی اسلحہ کے خلاف پہلاآپریشن 80 کی دہائی میں کیا گیا۔اسلحہ کے خلاف دوسراآپریشن بے نظیربھٹوکی دوسری حکومت میں 90ءکی دہائی کے وسط میںکیا گیا۔پھر تیسری بار میاں نواز شریف کے دوسرے دورحکومت میں کوشش کی گئی ۔
پھر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت 2001میں حکومت کی جانب سے باقاعدہ طورپرقومی سطح پر”آرمز کنٹرول پروگرام“ شروع کیا گیا جس کا مقصدشہریوںسے غیرقانونی اسلحہ کی ضبطی کے ذریعے ایک مہم شروع کرنا تھا۔ اس حوالے سے جون 2001ءمیں حکومت کی جانب سے غیرقانونی اسلحہ رکھنے والے افرادکورضاکارانہ طورپراسلحہ جمع کراکرعام معافی کااعلان کرکے دوہفتے کی مہلت دی گئی مگریہ مہم بھی بری طرح ناکام ہوگئی۔
سول سوسائیٹی کے لوگوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ملک میں چھوٹے ہتھیاروں پر قابو پانے کے لیے حکومت سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر پالیسی وضع کرے اور پہلے قدم کے طور پر ان ہتھیاروں کی پیداوار کو ریگولرائز کرے یا سرے سے بند کردے۔ غیر سرکاری تنظیمیں جو ملک میں غیر قانونی ہتھیاروں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملک میں ایسے ہتھیاروں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے اور اس وقت ملک میں لوگوں کے پاس لگ بھگ ڈھائی کروڑ چھوٹے ہتھیار موجود ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس حوالے سے نئے اور سخت قوانین متعارف کرائے اور ان قوانین پر عمل کرے ،حکومت اسلحہ کے لیے لائسنس جاری نہ کرے، ممنوعہ اسلحہ پر پابندی ہونی چاہیے، اسلحہ کی نمائش، تقاریب اور شادیوں میں ہوائی فائرنگ پر پابندی عائد کی جانی چاہیے، کھلونا ہتھیاروں پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے تاکہ بچوں میں یہ رحجان نہ بڑھ پائے

1 comment: