Monday, 7 May 2012

"وادی ِسُون سکیسر" پاکستان

ایک طلسماتی وادی کی سیر

Thanks: ahwal.com (Edited)

پاکستان کے دارُلخلا فہ اسلامآباد سے290کلومیٹر اور سرگودہا سے 110کلومیٹر کے فاصلے پر سلسلہ ِکوہ نمک کے پہاڑوں میں گھرا قدیم تہذیب و تمدن کاحامل، مذہبی روایا ت کا امین ،قدرتی طورپر سرسبز اورخوبصورت علاقہ "وادی ِسُون سکیسر" ضلع خوشاب میں واقع ہے ۔ خوشاب سے شمال مغرب کی جانب پیل پدھراڑ سے لے کر سکیسر تک کم وبیش56کلومیڑلمبائی اور 14کلومیٹر چوڑائی پر پھیلے رقبے میں چھوٹی بڑیآبادیوں پیل، پدھراڑ، جابہ،د ھددہڑ، مکڑمی، ڈُھرنال، مردوال، اوچھالی، اوچھالہ، سرہال، شکرکوٹ، سبھروا ل ، ا نگہ ، اُگالی شریف ، سوڈھی ، کلیال ، بُھکی(مصطفٰےآباد)، کھوڑہ ،جھالر، کفری (نیا نام صادقآباد) کے علاوہ چھوٹی چھوٹی ڈھوک اورخوبصورت چاہڑیوں(چاہڑی پہاڑوں میں گھری ہموار زمین) پرمشتمل وادی کا صدرمقام نوشہرہ ہے۔
وادی سون کا بُلندترین،سرسبز،خوبصورت اورپورے وسطی پنجاب میںسردیوںکے موسم میں (SnowFalling) برف باری کا واحدمقام سکیسر سطح سمندر سے 5010 فٹ(1530میٹر) بلند ہے ۔ یہ سلسلہ کوہِ نمک میں قدرتی طور پر ایسی بلنداور واضح جگہ پر واقع ہے جہاں سے چکوال ، میانوالی ، خوشاب،سرگودہا اور ضلع جہلم سمیت پنجاب کا بیشتر حصّہ واچ کیاجا سکتا ہے۔ اس قدرتی خوبی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دفاعی نقطہء نظرکی اہمیت کے حامل دلکش مقام سکیسرکو 1950کی دہائی میں پاکستان ائیر فورس بیس میں تبدیل کردیا گیا۔اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن براڈکاسٹنگ کا سنٹربھی اس علاقے کے عوام تک نشریات پہنچانے کے لئے سکیسر میں قائم کیا گیاہے۔
سکیسر میں شدید سردی اور اکثراوقات برف باری بھی ہوتی لیکن باقی وادی کا موسم گرمیوں میں خوشگوارٹھنڈا، اور سردیوں میںنشیبی علاقوں کی نسبت زیادہ سردہوتا ہے۔اس علاقے کیآب وہوا پولٹری صنعت کے لئے بھی انتہائی موزوں ہے ۔اس کے علاوہ یہاں کا قدرتی شہد پورے پاکستان میں مشہورہے۔یہاں کے لوگ دراز قد، سفیدرنگ،خوب صورت شخصیت کے مالک، ملنسار، حوصلہ مند، جفاکش اور محنت میں عظمت پر یقین رکھتے ہیں۔وادی کے لوگوں کا پسندیدہ لباس بلندطرہٰ (شُملہ) والی سفید پگڑی ،سفیدقمیض اور سفید تہہ بندہے۔زبان پنجابی مگربولنے کے دوران شائستہ علاقائی لب ولہجہ، مٹھاس اور ایک خاص وضع وانداز کا غلبہ نظرآتا ہے۔ مثال ! مانہہ ملک تھیندا، اسڈیاں گڈیاں اسڈے روٹ۔
وادی سُون سکیسرکے لوگوںکی اولین ترجیح سپہ گری اور اس کے بعد یہاں کی زیادہ ترآبادی کا انحصارگلہ بانی اور زراعت پر ہے۔ اس خطے کے لوگ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح بڑی بڑی جاگیروں کے مالک نہیں بلکہ یہاں کی اکثریت چندایکڑ سے زیادہ زمین نہیں رکھتی۔ لیکن قدرت نے اس علاقے کو منفردآب و ہوا اور زرخیزمٹی عطا کی ہے۔ کہ جب ملک کے باقی حصوں میں سبزیوں کی قلت ہواُس وقت وادیِ سون سکیسر کے پھل اور خاص کر سبزیاںملک کے اکثریتی حصے کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ یہاں کی سبزیاں لذت اور غذائیت کے اعتبار سے بے مثال ہیں۔ 

 وادی سون میںآج کل ٹیوب ویل آبپاشی کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ لیکن اوور بلنگ اورشارٹ فال کی وجہ سے پورے ملک کی طرح یہاں کیآبادی بھی اس صورت حال سے انتہائی پریشان حال ہے۔ چندسال پہلے تک صرف چند محدود اہلِ استعداد لوگوں نے اپنی زمین میںآبپاشی کے لئے کنوئیںبنا رکھے تھے۔ لیکنآبادی کے بیشتر حصّہ کا انحصارکھیتی باڑی، بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالنے پر تھا۔ چونکہ زیادہ تر لوگوں کا گزربسر بارانِ رحمت سے سیراب ہونے کی صورت میں حاصل ہونے والی فصل پر تھا۔ اس لئے یہاں کے لوگ اللہ پر توکل اور اُس کی عطا پر شکرکرنے کے عادی اور انتہائی مشکل حالات میں بھی خوشی، اعتماد اور چہرے پر سکون رکھنے کے ہنُر سے واقف تھے۔ اسی طرح چرواہے علی الصبح اپنے اپنے ریورڈ لے کر وادی کے مختلف حصوں میں پھیل جاتے اور سارا دن گزارنے کے بعد مغرب سے کچھ وقت پہلے اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ جاتے تھے۔ یہ لوگ نقل وحمل اور مال برداری کے لئے اونٹ استعمال کرتے۔
اس وادی کے لوگ شادی بیاہ عموماََ فصلوں کی کٹائی اور بیجائی کے دوران فارغ وقت میں کرتے ہیں۔ شادی سے کئی روز پہلے ہی داراـ ( قبیلہ کی ا جتماعی بیٹھک) پر ڈھول کی تاپ پر ہیمڑی گانے( دوہڑے ،ماہیے علاقائی گیت قوالی طرزپر جس میں دوگروپ مل کرگاتے ہیں) کی محفلیں سجناشروع ہوجاتیں۔شادی کے دن بارات کے لئے اونٹوں پرکچاوے رکھے جاتے جنہیںخوب اچھی طرح سجایا جاتا۔ جب یہ قافلہ ڈھول کی تاپ پرغیرہموار راستوں سے ہوکردُلہا کے گائوں سے دُلہن کے گائوں کی جانب رواں دواں ہوتا تو یہ منظر دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔

خوشاب سے نوشہرہ کی طرف جاتی سڑک پر جیسے جیسے وادی سون سکیسر کے قریب پہنچتے ہیںتو اس وادی کی کشش انسان کو اپنی طرف کھینچتی چلی جاتی ہے۔ پہاڑکے بلندمقام پر بابا گولڑہ کی مسجدکے سفید مینار کئی کلومیڑ دورسے ہی نظرآنا شروع ہوجاتے ہیں اور بل کھاتی سڑک سے بلندی کی جانب سفر کے دوران نیچے میدانی علاقے کی مختلفآبادیاں ہڈالی،کنڈ، خالقآباد، بھرکن، پنڈی ، وہیر، شاہ محمد صدیق کامزار،جوہرآباد،خوشاب ، سندرال اور دریائے جہلم تک کا نظارہ کیا جاسکتاہے۔
بلندی کی جانب کا تقریباََآدھا سفر طے کرنے کے بعد مختصر رقبے پرایک خوب صورت باغ نڑواڑی ہے۔ جہاں پر تمام لوکل گاڑیاں تھوڑی دیر کے لئے انجن کوآرام پہنچانے اور ریڈی ایٹرکا پانی تبدیل کرنے کے لئے لازمی رکتی ہیں ۔ اس دوران نوجوان جلدی سے باغ کی سیر کرتے ہیںتو دیگر مسافر گاڑی میں بیٹھے قدرت کے اس حسین نظارے سے لطف اندور ہوتے ہیں۔
نڑواڑی سے کچھ کلو میڑفاصلہ طے کرنے کے بعددائیں جانب بغیر اسفالٹ کے پتھریلا رستہ ـ" پیرکچھیاں اور قلعہ تلاجھا"کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ یہ دونوں مقام مین شاہراہ سے تقریباََ 12 سے 15کلومیٹر پر ہیں۔ اگر ان مقامات پر جانا مقصود ہو تو کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لے جانی چاہیے ۔ یہاں صرف ہائیکنگ کے ذریعہ ہی پہنچنا ممکن ہے۔ قلعہ تلاجھا نشیبی گائوں نلی اور کھوڑہ کی سرحد پرپہاڑ کا الگ سے ایسا بلندحصّہ ہے۔ جہاں سے پہاڑ چاروں طرف سے کٹ کر نیچے چلاجاتا ہے۔ اس لئے قلعہ کے اندرواحدقدرتی داخلی راستے کے علاوہ کسی طور پر بھی داخل ہونا ممکن نہیں۔
قلعہ تلاجھا کے بارے میں مشہور ہے کہ پرانے وقتوں میں کسی بادشاہ نے دُشمن سے محفوظ رہنے کے لئے یہاں مختصرسا قلعہ بنایا تھا۔ لیکن اُس کے دُشمن نے تُلاجھاسے قدرے بلندعقبی پہاڑسے تیر اور پتھر برساکراُس کا کام تمام کردیا۔البتہ یہاں رہائش کے لئے بنائی جانے والی بڑی اور چوڑی دیواریں دیکھنے والوں کوآج بھی حیران کردیتی ہیں کہآخر اتنے بڑے اور وزنی پتھرایک دوسرے پرجوڑنے کس طرح ممکن ہوئے۔اورصدیاں گزرنے کے باوجود جس کی باقیادت ابھی تک موجود ہیں۔
قلعہ تلاجھا سے دامنِ پہاڑ کے گائوں مہرہ ،نلی، مہلوال، ناڑی، کٹھہ ،منگوال ،دئیوال سمیت دیگر میدانی بستیوں کا نظارہ کیا جا سکتاہے۔ قلعہ کے قریب ہی بابا ناڑے والا کے نام سے منسوب مقام پردوبلند پہاڑی حصوں کے درمیان صدیوں سے جاری صحت بخش، ذائقہ دار اور صاف شفاف چشمہ کے پانی سے دامن پہاڑ میں وسیع رقبے پرمشتمل آبادی اللہ رب العزت کی رحمت سے مستفید ہورہی ہے ۔ اس چشمہ کے اردگر بے شمارسر سبزگھنے درخت اور پرندوں کے گیت یادوںمیں ہمیشہ کے لئے ثبت ہوجانے والا خوبصورت سما ں پیدا کرتے ہیں ۔
وادی سون کی پہلی خوبصورت ترین لوکیشن کٹھوائی کے بعد کھوڑہ کیآبادی جہاں سڑک کے دونوں جانب لہلاتے کھیت ، تازہ ٹھنڈی ہوا ، وادی میں داخل ہونے والے کا استقبال کرتے ہیں۔کھوڑہ کے بعد سڑک کے دونوں جانب گھنے درخت اور سرسبز پہاڑ بہت ہی دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں۔اس کے بعدبُھکی نیا نام( مصطفیٰ ا ٓ با د) کا علاقہ آتا ہے جہاں سڑک کے دونوں جانب لہلاتے کھیت اور سرسبز و بلند پہاڑ وادی کے حُسن میں اہم اضافہ کرتے ہیں ۔ 

وادی سون سکیسر کے لوگوں کی سادگی کی مثال !کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں بُھکی کے ایک بزرگ کو مقدمہ کی بنا پر بڑے شہر کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ اُس وقت کے لوگ جج کو حکومتی نمائندہ ہونے کے بنا پر سرکار کہہ کر پکارتے تھے۔ جج نے بزرگ سے پوچھا کہ ۔۔ تمھارا گھر کہاں ہے۔۔ بزرگ نے احترام سے جواب دیا ۔۔سرکار بُھکی ۔
جج نے حیرانی سے پوچھا تم نے کیا کہا ۔۔۔۔ سرکار بُھکی ؟ بزرگ نے عدالت میں موجود لوگوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ سب لوگ بھی جانتے ہیں ۔۔۔جی۔۔سرکار بُھکی ۔ جج کو اس شخص کی سادگی کا احساس ہوا تو ہنسے بغیر نہ رہ سکا اورعدالت میں موجود باقی لوگ بھی اس اتفاقی اور دلچسپ مقالمہ بازی پر ہنس دیئے۔
وادی سون سکیسر میں کھبیکی کے مقام پر 1کلومیڑ لمبی اور2کلومیڑ چوڑی قدرتی جھیل ہے۔جس کا پانی نمکین اور ناقابل استعمال ہے۔ لیکن اب کہا جاتا ہے کہ اس جھیل کا پانی معجزاتی طور پر قدرے میٹھا ہوچُکا ہے ۔ یہاں چائنہ کی BREED FISH کی افزائش کی جارہی ہے۔ جھیل کی سیرسے لطف اندوز ہونے کے لئے کشتیا ں موجود ہیں۔
سکیسر بیس سے پہلے پہاڑ کے دامن میںاوچھالی جھیلآتی ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ پہاڑ پرآبادی اور جھیل کا نظارہ بہت ہی اچھا لگتا ہے۔ اسی طرح کفری( نیا نام صادقآباد)کے مقام پر بھی ایک بہت ہی خوبصوت جھیل ہے۔جس کے ساتھ پھول دار پودے اور سرسبز درختوں پر چہچہاتے پرندے اس خوبصورت مقام کی سیر کرنے والوں کی یادوں کو مزید حسین اور یادگار بنادیتے ہیں۔اسی طرح موسم سرما میں سائبیریا اور دیگر ممالک سے ہجرت کرکےآنے والے بے شمار پرندے اس علاقے کی جھیلوں کے حسن ، خوبصورتی اور شان میںقابل ذکر اضافہ کردیتے ہیں۔
یہاں کی بزرگ ہستیوںکی یادگاروں میں چلہ گاہ بہائوالدین زکریا ملتانی(حضرت بہائوالحق رحمت اللہ علیہ) پیل پیراں، مزار باباشاہ فتح اللہ ہمدانی جابہ، بابا شیخ اکبردین دربارِ عالیّہ چشتیہ اکبریہ اُگالی شریف،پیر بابا محمد خوشحال کبھیکی اور بابا بیری والا کا مزار نوشہرہ واقع ہیں۔
وادی سون میں سوڈھی کے مقام پر قدیم ، تاریخی باغ ہے۔ قدرتی حسن سے مالا مال پہاڑوں میں گھرے خوب صورت باغ کو مقامیآبادی کی نسبت سے سوڈھی باغ کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔ اس باغ میں موجود قدیم ، پھل دار درخت ، انواع واقسام کے پھول اور باغ کے درمیان سے چشمہ کا بہتاپانی یہاں کے ماحول کو سحرانگیز بنا دیتا ہے۔ سوڈھی میں محکمہء جنگلات کا ریسٹ ہائوس ہے ۔ جہاں محکمہ سے اجازت نامہ کے بعد قیام کیا جاسکتا ہے۔
ماضی کی بڑی قدآور شخصیات صدرایوب خان ،صدر سردارفاروق لغاری سمیت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس علاقے میں شکار،سوڈھی باغ کی سیراوریہاں کے صحت افزاء ماحول میںمتعدد بار قیام کیا۔ ہر سال گرمیوں کے موسم میںلوگ اپنی فیملیوںکے ہمراہ ملک کے دور درازعلاقوں سے اس پُرسکون ماحول کی طرف کھچے چلےآتے ہیں۔اس باغ کے قریب ہی ایک قدیم غارہے جو سیاحوں کی توجہ کا مرکزبنتی ہے۔اس کے علاوہ پُھلواڑی باغ اور کرھڈی باغ بھی بہت خوبصورت اور قابل دید مقامات ہیں۔ وادی سون کے علاقہ عنب شریف میں ہندئووں ، سکھوں کی قدیم مذہبی یادگاریں ابھی تک موجود ہیں۔


احمد ندیم قاسمی ، عبدالقادر حسن اور حضرت مولانا غلام مُرشد خطیب بادشاہی مسجد لاہور،سمیت وادی سون سکیسرسے تعلق رکھنے وا لی بے شمار نامورہستیاں ہیں جنہوں نے ملکی دفاع، سیاست،صحافت ،میڈیا ،شعروادب،صحت، تعلیم اورکھیل کے میدان میںملکی اور بین الاقوامی سطح پراپناآپ منوا کر پاکستان کے استحکام اور تعمیروترقی میں اہم کردار ادا کیا۔

وادی سُون سکیسر میںبے شمار ایسے مقامات اورپہاڑی درّے ہیںجہاںانتہائی کم لاگت پر ہوا سے چلنے والے بجلی گھر اورچھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کرمقامی لوگوں کی ضروریات پوار کرنے کے لئے بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں نمک ، کوئلہ ، چینی کے برتن بنانے والی ریت، قیمتی پتھرکے علاوہ قدرت کے بیش بہا خزانے موجود ہیں۔ جنہیں مناسب منصوبہ بندی، تھوڑی سی محنت اور توجہ سے اس علاقے کے عوام کی فلاح اور پورے ملک کی ترقی وخوشحالی کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے

 سیر و سیاحت اس دور کی سب سے منافع بخش صنعت کا درجہ رکھتی ہے ۔ اسی لئے دیگر ممالک میں سیر وسیاحت کے مقامات کی ڈیویلپمنٹ سائنسی بنیادوں پر کی جارہی ہے ۔ قدرت کی اس خوبصورت عطاء وادی ِ سون سکیسر کی مناسب دیکھ بھال ، یہاںکے قدرتی پارکوں کی تزئین وآرائش اور ان میں بچوں کے کھیلنے کے بنیادی آلات کابندوبست کیا جائے۔کچھ مزیدپوائنٹس،ریسٹورینٹ، ریسٹ ہائوس اور ترقیاتی پروگرام ترتیب دیئے جائیں تو انتہائی کم لاگت سے نہ صرف قرب وجواہر کے مختلف علاقوں کے لوگوں کی سیروتفریح کا ذریعہ ء بن سکتا ہے۔ بلکہ دہشت گردی، خودغرضی اورافراتفری کے اس دورمیں مقامی لوگوں کے روزگار میں خاطرخواہ اضافہ سے یہاں کے لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے ذہنوں کو مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف منتقل کرنے میں مددگارماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔

6 comments:

  1. بابا عنایت اللہ کی۔ کتاب ’’آئینہ وقت‘‘پر تبصرہ
    تحریر: علامہ محمد یوسف جبریل
    جناببابا جی عنایت اللہ صاحب ایک نہایت دردمند دل رکھنے والے، نہایت ہی باشعور مسلمان ہیں ۔ آپ نے عمر بھر اسلام کی خدمت اور مسلمان کی خدمت کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا ہے ۔ ان کی حالیہ تصنیف ’’ آئینۂ وقت ‘‘ جو آپ نے تحریر کی ہے اسی اسلامی جذبے اور اسی دردمندی کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ اس تحریر میں شعوراور فہم و فراست ایک بنیادی حقیقت کے طور پر سامنے آئے ہیں تاہم اس تحریر کو ایک دردمند مسلمان اور دردمند پاکستانی کے دل کی پکار سمجھ کر پڑھا جائے تو بات زیادہ موثر ثابت ہو گی۔ اس ’’آئینہ وقت‘‘ میں جو آئینہ دکھایا گیا ہے اور احوال و حقائق کا جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے اسے غور سے دیکھا جائے اور اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے ( اگرچہ کسی بات میں کسی قسم کی پیچیدگی کا شائبہ نہیں ) تو پاکستانی معاشرے کو گراں قدر اسباق اور بیش قیمت نصائح حاصل ہو سکتے ہیں ۔ اگر معاشرے کو ان حاصل شدہ اسباق و نصائح کی روشنی میں استوار کیا جائے اور اس نہج پر اصلاح احوال کی سعی کی جائے تو معاشرے کے اندر جس قدر دکھ اور پریشانیاں موجود ہیں ان سب کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔ غربت، افلاس، جہالت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ قوم کو دنیا کی اقوام و ملل میں ایک مضبوط اور با وقار مقام دلایا جا سکتا ہے ۔ مختصرا وہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے جس کے لئے پاکستان وجود میں آیا تھا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح فقط اس دنیا کی آسودگی اور فارغ البالی اور قلبی سکون کا حصول ہی ممکن نہیں بلکہ آخرت جو مسلمان کی اصلی منزل ہے اس کی کامیابی اور سرخروئی بھی یقینی ہے ۔ ’’ آئینۂ وقت ‘‘ پاکستانی معاشرے کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی کمزوریوں کو اجاگر کرنے میں کتاب الامراض کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ معاشر ے کو اس تحریر سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا کرے اور صاحب تحریر کو جزائے خیر سے نوازے ۔ جناب بابا جی عنایت اللہ جیسے بزرگوں کا وجود غنیمت ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت سے نوازے اور طویل زندگی عطا فرمائے ۔ٓ آمین۔ جناب نے ’’ آئینۂ وقت ‘‘ لکھ کر پاکستانی قوم بلکہ پوری امت مسلمہ پر ایک احسان کیا ہے۔
    ’’آئینۂ وقت‘‘ کیا ہے۔ یہ ایک عظیم، ایک دقیق ، ایک نہایت مختصر مگر نہائت جامع روداد ہے پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک کی ایک دردمند راسخ العقیدہ روشن ضمیر اور صاحب فہم و ادراک پاکستانی مسلمان کا تیار کردہ آئینہ ہے جس میں ہر پاکستانی اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ نیز پاکستان کے وجود میں آنے سے اب تک کی فلم دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس مختصر سی تحریر میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے بیان کرنے کے لئے بڑی بڑی صخیم جلدوں کی ضرورت ہے لیکن جناب عنایت اللہ صاحب نے چند جملوں میں ایک ایک مکمل مضمون کو ا یک نہایت ہی بلیغ انداز میں بیان کر دیا ہے۔ کیا کیا ہے جس کا بیان اس کتاب میں نہیں ہوا۔ دو قومی نظریہ، پاکستان کی غرض و غائت ، مہاجرین کے مصائب اور قربانیاں، خلافت اسلامی کا نظام ، موجودہ مغربی جمہوری نظام کا تفصیلی جائزہ ، آزادی 1947 ء کے بعد پاکستان کا پچاس سالہ مسلسل دردناک ، اندوہناک دور ، ایک بہت بڑا المیہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ، یہود کا معاشی نظام، سودی نظام، عیسائیوں کا جمہوری نظام ، ہندوؤں کا طبقاتی نظام اور بے شمار دوسرے موضوع زیر بحث آئے ہیں ۔ آخری صفحوں پر اکیس سوال ہیں۔اکیس ایسے سوال جن کا جواب چشم بصیرت کے لئے سرمے کی حیثیت رکھتا ہے اور آخر میں دین دار، پاک طینت ، بے ضرر، منفعت بخش پیران طریقت، درویشوں، فقیروں سے التماس کیا گیا ہے کہ وہ اپنے دینی، مذہبی اور روحانی فیض سے ملت اسلامیہ کی رہنمائی کریں۔ راقم الحروف کی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ جن ہستیوں کو جناب عنایت اللہ صاحب نے دینی، مذہبی اور روحانی فیض سے ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لئے التجا کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں میدان عمل میں لائے اور انہیں اس سارے معاملے کی سمجھ عطا فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ و تبارک مخلوق کو تباہی سے بچائے ۔ خدا کی زمین پر انسانیت کو مستقبل میں ایک عظیم کارزار دیرپیش ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد آدم کو اس معرکے میں کامیابی عطا فرمائے اور فتح اسلام کی ہو۔ آمین۔

    حضرت علامہ محمدیوسف جبریلؒ ،ادارہ افکارِ جبریل قائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ کینٹ ضلع راولپنڈی ، پاکستان


    www.oqasa.org



    Research Articles | Main Page | Photo Gallery | Earn Cash | OQASA IT Wing. Designed by Rizwan Yousaf.

    ReplyDelete
  2. ضلع خوشاب میں بین الاقوامی علمی شخصیت

    ضلع خوشاب کی مایہءناز علمی اور سماجی شخصیت علامہ محمد یوسف جبریل وادی سون کےایک گاو ¿ں موضع کھبیکی سےتعلق رکھتےہیں۔ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کےمالک، ایک عظیم فلسفی، ایک فریدالمرتبہ مفسر قران، ایک شعلہ بیان مقرر ہونےکےعلاوہ ایک اسلامی در رکھنےوالےحقیقت طراز شاعر بھی ہیں۔ عزم و استقلال کی اس چٹان اور ہمت کےاس پہاڑ کو کوئی مشکل، کوئی مصیبت کوئی ابتلا اپنےعزم صمیم سےبا زنہ رکھ سکی۔ گمنامی پسند اور بوریا نشین اس مجمع کمالات کو حضرت قائد اعظم کےساتھ ایک نہایت مشکل وقت میں ایک یادگاری ملاقات کا شرف حاصل ہی۔ اور اسلامی فلاحی تنظیم وادی سون کےسرپرست اعلیٰ کی حیثیت میں تنظیم کےعہدہ داروں کےسرگرم تعاون سےجناب صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کو متاثر کرکےوادی سون کی ترقی کےلئےگرانٹ دلانےاور وادی سون کو پاکستان کےپسماندہ علاقوں میں شامل کرانےکا سہرا بھی ان کےاور ان کی تنظیم کےسر ہے۔ (ضلع خوشاب کی اسلامی فلاحی تنظیم وادی سون کا کردار )

    ReplyDelete
  3. ALLAMA MUHAMMAD YOUSUF GABRIEL

    Name : Muhammad Yousuf
    Father’s Name Mohammad Khan
    Date of Birth : 17 Feb. 1917
    Village Khabakki, valley Soon Sakaser Khoshab, Pakistan

    3) Author of (a) Mind of the Quran (English) (b) Socioeconomic system of Islam (Urdu) (c) Quran predicts Atomic bomb.(d) Unscientific Philosophy of the Scientist vs. the Philosophy of the Quran.
    a) Ex-Research Scholar, and Muballigh of Ulema Academy Auqaf Government of the Punjab.
    b) As a Muballigh preached and lectured on religions topics in Schools, Colleges, Bar Associations and various other institutions.
    5. Ex-interpreter Egyptian Embassy, Cultural Centre, Intertranslated in Arabic, English and Urdu for the Markaz--e-Thaquafi.
    6. Command on English, Arabic, Persian Language, to a standard requisite for an author.
    7) Poetical works in urdu and Persian.
    8) Correspondent of late Bertrand Russell, famous English Philosopher.
    9) Vast contributions on religions and diverse other topics to all the notable dailies and journal both Urdu and English, of Lahore, Wah Karigar POF Wah Cantt.
    10) Deep Study of Greek, Islamic and Modern Philosophy.
    11) A thorough knowledge of various important branches of Modern Science.
    12) One lecture at least in English was delivered in the P.O.F. Ordnance Officers Club in November 1972.
    13) Scores of commendatory letters of authorities in various fields can be presented on Interview. A tribute was paid by the well known intellectual mind of POF namely F.A. Ibnul Hassan on the occasion of his lecture in POF Ordnance Club.
    14. It has to be particularly noted. That Allama Muhammad Yousuf Gabriel knew no controversial school of thought. He knew only one school and that is of Islam, as was taught by the Holy Prophet (Peace be Upon Him).
    15) He had chalked up a programme and started a movement for the reform of the Youth in schools and colleges in Lahore and other places of the Country. A work which he had done in Lahore, with much encouraging success and which is the need of hour, and of momentous import.
    16) Most of his life had was spent in Religious study, Quran, Hadhis, and Fiqah. Islamic History, also a study of comparative religions more than six years. He had studied in Arab countries. Half a century’s toil in acquirement of knowledge in various fields.

    ReplyDelete
  4. نور احمد مصلی ایک دلیر نڈر آدمی جس کا خاندان چار بھائیوں پر مشتمل تھا۔ حالات زمانہ نے ان کو ڈکیٹ بننے پر مجبور کیا۔ ان کا والد فضل دین مصلی جو کہ کھبیکی کے سردار ملک شاہ محمد کے ہاں ملازمت کرتا تھا۔ ایک لڑائی میں اکبر کینہ ، کینہ اسی کی آل ہے ۔ ملک شاہ محمد سراد ر کھبیکی کے ساتھ ملک اکبر کینہ کی دشمنی تھی۔ ایک لڑائی میں نور احمدمصلی کاوالد مارا گیا۔ چاہییے تو یہ تھا کہ ملک شاہ محمد ان کی مدد کرتا۔ پس پردہ ان سے دشمنی شروع کر دی۔ وہ اپنے باپ کا بدلہ لینا چاہتے تھے جب ان کی کسی نے مدد نہ کی تو وہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئے اور یہ مظلوم تھے۔ اسی مظلومیت کی بنا پر چند آدمیوں نے ان کا ساتھ بھی دیا۔ مگر وہ مالی طور پر مستحکم لوگ نہیں تھے ۔انہوں نے اپنے والد کا بدلہ لینے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا مگر ان کو اس میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ان پر مقدموں کی بھرمار تھی۔ انہوں نے جیلیں کاٹیں۔ تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے دو بھائی شیر باز اور گل باز اس دنیاکو چھوڑ چکے تھے۔ رب نواز جو کہ 1958 ء میں ایک اشتہاری ملزم تھا۔ بعد میں مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے بری ہو کر اب بقیہ آخری زندگی خاموشی اختیار کرکے گزار رہا ہے۔ ان کا چوتھا بھائی نور احمد مصلیء جو اس وقت کنہٹی باغ کے نواح میں رہائش پذیر ہے۔ اب بھی مصائب و الام کی زندگی گذار رہا ہے۔ ہاں ملک شاہ محمد کے بیٹے ملک سرفراز اعوان جو کہ ایک وکیل اور اپنے وقت ایم پی اے بھی رہے ہیں نے اس پر شفقت کا ہاتھ رکھا۔ اسے بدمعاشی کے بستہ الف سے نکلوایا ۔ رہنے کے لئے کنہٹی کے پاس اپنی جگہہ دی مگر یہ دنیا بڑی ظالم ہے اس کو سکون سے نہیں رہنے دیا گیا اور ملک اکرم اعوان ( منارہ ضلع چکوال) نے کھبیکی لیز زمینوں کی لیز ختم ہونے پر گورنمنٹ کو درخواست دی کہ میں یہاں فارم وغیرہ بنانا چاہتا ہوں مجھے دی جائے۔ ناعاقبت اندیش لوگوں نے اس کو اجازت دے دی ۔ سو سال سے وہ زمینیں جن کے استعمال میں تھیں ان کو زبردستی طاقت کے بل بوتے پر وہاں سے بھگا دیا گیا اور اس طرح بہت ساری زمینوں پر پیر صاحب کا قبضہ ہو گیا ۔ کئی آدمی اس کے وہاں پر قتل ہوئے۔ مقدمات درج ہوئے۔ چونکہ بے پناہ اثر و رسوخ کا مالک ہے بے پناہ دولت کا مالک ہے۔ کھبیکی کے پاس اپنی زمینوں کے قبضے کی خاطر اس کے آدمیوں کی لڑائی ہوئی۔ وہ جگہہ ملک فضل محمود ادیڈوکیٹ کی تھی اور اس کے بیٹے وہ جگہہ کسی طریقے سے بھی اس کے حوالے کرنے پر تیار نہیں تھے۔ لڑائی ہوئی ۔ آدمی مارے گئے۔ فضل محمود مرحوم کے دو بیٹے مفرور ہوئے۔ ایک ان کا دوست سزائے موت کا قیدی ہوا اور اسی سلسلے کی کڑی نور احمد مصلی جو کہ اس وقت ستر سال زندگی کے گزار چکا ہے۔ اس کو بھی اس مقدمہ میں ملوث کیا گیا اور جج صاحب نے اس کو پچاس سال قید کی سزا سنائی۔ اپیل پر بری ہو کر گھر آ گیا اور فی الحال کنہتی باغ کی نواح میں اپنی زندگی کے بقیہ دن پورے کر رہا ہے۔ عالم شیر اعوان نے آپ کی خدمت میں التماس کیا ہے کہ اس جہان میں مصور فطرت کی عنایات کو شمار کرنا لا محالہ مشکل کام ہے۔ مگر باری تعالیٰ نے ہمیں جو قطعہ اراضی عطا کیا ہے اس کو ظاہری حسن بھی عطا فرمایا۔ زرخیز زمین، بلند و بالا پہاڑ ،شفاء یاب چشمے، قدرتی حسن سے مالا مال درختوں کی فراوانی ،خوب صورت جھیلوں کے مناظر، جنگل مخلوق کے مسکن طائران کے غول کے غول یہ سب عنایات روح و جسم کے لئے تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ یہاں معلم قرآن، اولیائے کرام، مفسر قرآن، مجاہد صالحین اتنی بے پناہ عنایتیں اس خطے کو عطافرمائیں کہ حدو و شمار مشکل ہے۔
    عالم شیر اعوان لاہور
    یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
    www.oqasa.org
    Back to Conversion Tool

    Urdu Home

    ReplyDelete
  5. وادی سون سکیسر کیتاریخی شخصیات
    تاریخی شخصیات میں مولوی غلام احمد، سوڈھی کے ملک بابا عالم جس نے وہاں دارا بنایا ہواتھا ۔ کہتے ہیں کہ بابا عالم کا بچپن سوڈھی وادی سون میں گذرا۔ وہ دارا والے ملک تھے۔ سوڈھی وادی سون سکیسر میں اس دارے کی وجہ سے وہ عارف شخص بن گیا تھا۔ سوڈھی کا ملک قاسم کھبیکی کے ملک اللہ یار کا نواسہ تھا۔ لہذا بابا عالم کی پھوپھی کا لڑکا تھا ۔
    یوسف جبریل
    یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
    www.oqasa.org

    ReplyDelete
  6. علامہ محمد یوسف جبریل وانا اوپریشن میں شریک
    علامہ محمد یوسف جبریلؒ اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں :۔
    ’’وانا کی سرزمیں کا پہلا منظر میرے لئے بہت عجیب تھا۔ کیمپ کے باہر میدان سے گذرتی ہوئی فوجی گاڑیاں چل رہی تھیں۔ہم نے مٹی کا پیرامیٹر بنایاجوپانچ فٹ بلند تھا۔جس کے باہر کانٹے دار تار لگی ہوئی تھی۔ گیٹ پر شہتیروں پر لگی کانٹے دارتار موجود تھی۔ پھر گڑھی پکٹ ( شیشے پکٹ )کی گراونڈ بنائی۔رات کو چمکنے والی روشنی بھی موجود تھی۔ وانا کے انگریز برگیڈیئر کوپاگل قرار دیا گیا۔جس پر اس کا کورٹ مارشل ہوا۔ پٹھان نے پیسے لے لئے اور چلتا کیا۔ اس وقت ہمیں دو آنے روزانہ الاؤنس ملتا تھا۔ کرنل ولسن، میجر پاونس، کیپٹن سٹیل۔ لیفٹیننٹ ٹوکی، سر جوگندر، وغیرہ وغیرہ میرے آفیسر تھے۔
    وانے کا عجیب و غریب قلعہ۔ وانا کیمپ کے پرانے قلعے کو میں بھول نہیں سکتا ۔ مٹی کا بنا ہوا تھا۔ ہم رات کو وہاں پہرہ دیتے تھے۔وانا میں ہاکی گراؤنڈ ہم نے بنایا۔ وانا میں بیرکوں کے لئے سیمنٹ کے بلاک ہم نے بنائے ۔ صحیح صحیح یاد نہیں مگر چندآنے یومیہ الاؤنس تنخواہ کے علاوہ ملتا تھا ۔
    کیمپ کے باہر جنوب میں چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ جس میں 3/14 پنجاب کا ایک سپاہی سبزی اگانے پر مقرر تھا۔ و ہ سناتا تھا ہمیں پٹھانی کا قصہ جس کی ہندوانی ماں کو پٹھان اغوا کرکے لایا۔ اب اگر کوئی فوجی مجھے لے جانا چاہے تو جانے کو تیار ہوں مگر کون ایسا خطرہ مول لیتا ۔ یہ موت کے منہ میں ہاتھ ڈالنا تھا۔
    وانا کی پکٹیں مجھے اب بھی یاد ہیں۔ شیشہ پکٹ،کیمپ کے مشرق میں شمالا جنوب پہاڑی پر ۔ وہاں شیشہ سے خوب مراسلت ہوتی۔ دوسری گڑھی پکٹ۔ بہت اونچا پہاڑی ٹیلہ کیمپ کے جو جنوب میں تھا۔ کبھی کبھی کیمپ سے باہر علاقے میں پورے برگیڈ کی مشقیں ہو تیں۔ پٹھان بدرگی کرکے تن خواہیں لیناور جب داؤ لگتا فوج پر حملے کرتے ۔ بدرگے فوج سے جو گولیاں حاصل کرتے۔ وہی فوج پر جلائی جاتیں۔ معلوم ہونے پر۔ جو گولیاں پٹھانوں کو دی گئیں۔ وہ راتکو چلیں تو آتش بازی کا سماں پیدا ہو گیا۔ کیونکہ وہ سب ٹریسر راؤنڈ تھے۔ اور جان بوجھ کر دیئے گئے۔ نائب صوبیدار فتح شیر آف بوچھال نہایت شریف النفس انسان چھٹی پر گیا اوردشمنوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ نائب صوبیدار فیروز خان ضلع جہلم سے تعلق رکھتا تھا۔ اوگالی وادی سون سکیسر کا فتح شیر جو اعزازی کیپٹن ریٹائرہوا۔
    ۔وانا میں قتل ہونے والے ڈرائیور کی لاش پر پہلی ڈیوٹی میں نے بحیثیت لائنس نائک کے ادا کی۔
    جنڈولا سے چلے ۶۳ میل کے سفر کے بعد فوجی ٹرک پر وانا کے میدان میں داخل ہوئے ۔ تاریخی یاداشت ہے۔ وانا ایک کیمپ تھا۔ گرداگرد مٹی کی بنی ہوئی قد آدم کی دیوار جسے پیرا میٹر کہا جاتا تھا۔ اس میں جگہ جگہ پر چوکیاں اور کیمپ کی دیوار یعنی فصیل کے گرد کانٹے دارتار چند فٹ تک چوڑائی میں لگی ہوئی اور کہیں کہیں گیٹ بنے ہوئے جن کو لکڑی کے گول شہتیر آپس میں جوڑے ہوئے اور ان پر کانٹے دار تار لگی ہوئی تھی۔ بند کرتے ۔ وانا میں ایک برگیڈ فوج تھی۔
    وانا کے انگریزی برگیڈیرکو پاگل قرار دیا گیا ۔ وانا میں میں پہرہ دے رہا تھا ۔ کہ دوران قبل صبح دو پگھیاڑ دیکھے۔ وانا کی یادیں بہت تھیں۔ گڑھی پکٹ ہم نے تیار کی، شیشہ پکٹ تیار کی۔ وہاں پر ایک باغیچہ بھی موجود تھا۔ انگریز برگیڈیر کو پاگل خانہ بھیج دیا گیا۔ ایک اور واقعہ ہوا کہ ہندو عورت نے بیٹی کی پیشکش کی۔
    شاہ محمد وغیرہ کھوڑہ وادی سون سکیسر ۔ سرفراز ، محمد یار، کٹھڑ علی محمد، کھبیکی سے فتح خان، نجیب اللہ ، محمد حیات اور بند ہ بشر۔ ایک آدمی مردوال وادی سون سکیسر کا اور ایک دھدھڑ وادی سو ن کا تھا۔ ۔ سوڈھی وادی سون کا علی محمدتھا۔
    انگریزوں نے قبائلی علاقوں کے لئے یہ پالیسی بنائی کہ سڑکیں اونچے سے اونچے راستوں پر بنائی جاتیں کیونکہ پستی میں جانے والی سڑکوں پر پٹھان آسانی سے حملہ کر سکتے تھے۔
    یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان www.oqasa.org

    ReplyDelete