Monday 21 August 2017

"دو لمحے" تحریر محترم ارشد محمود

بشکریہ
محترم نادر خان سرگروہ
محترمہ شمسہ نجم صاحبہ
انتظامیہ: حرفِ ادب
محترم توصیف صدیقی
"اے زندگی" ریڈیو شگاگو

دو لمحے
تحریر: ارشد محمود
وہ باتھ روم کے آئینے میں اپنی ہی آنکھوں میں رات دیکھے خواب کی پرچھائیاں تلاش کررہاتھا۔ ڈھلتی عمرکے ساتھ آنکھوں میں خواب کی جگہ آسیب اتر آتے ہیں۔ اچھے برے اعمال کا بوجھ ۔ کندھوں پر رکھی بینگھی کے دونوں پلڑوں کی جنبش اور پل صراط پر توازن برقرار رکھنے کی کوشش۔ خوف سے لرزاں تھکن سے چور اور ندامت کے پسینہ میں شرابور بدن۔۔۔۔۔ ہاتھ پر پانی کی دھار نے خیال کی رو کو حقیقی دنیا سے جوڑ دیا۔ نظر واش بیسن پر گئی۔ اور سامنے کے منظر سے ایک چھناکا ہوا۔ کبھی کبھی اچانک لمحے وارد ہوتے ہیں ، ہاتھ تھام کر ساتھ بہا لے جاتے ہیں ، اُس گھڑی اس کے ہاتھ میں پانی کی ٹھنڈی دھار کے ساتھ کسی بچھڑے لمحہ کا لمس بھی آن ٹکا۔۔۔۔۔۔۔۔ بجلی کی سی تیزی سے اسکا بایاں ہاتھ پانی کے بہاوکو روکنے کے لیۓ ٹونٹی کے ہینڈل پر گھوما اور اس سے کئی گنا تیزی سے دائیں ہاتھ سے اس نے چیونٹی کو شہادت کی انگلی پر اٹھا لیا، چیونٹی بے سدھ اسکی انگلی پر ساکت پڑی تھی۔۔۔۔
وہ بھی تو اس دن یونہی ساکت تھا۔۔۔۔۔ چڑیا کا وہ ننھا سا بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اوربھولے بسرے لمحے نے اس کا ہاتھ تھام لیا، 7 سال کی بالی عمر کے وہ دن تھے جب دیکھ کر سیکھنے اور کر گزرنے کا جنوں جا بجا بھٹکائے رکھتا ہے ،جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں ہر ذی روح اپنی اپنی پناہ گاہ میں دبکا ہوا تھا، وہ ایر کنڈیشن کی نرم خنکی میں گھلتی سانسیں اور بند پپوٹوں کو نظر انداز کرتا پیاس سے بلبلاتے چڑیا کے بچے کی دھیمی پڑتی آواز کے تعاقب میں اس گھنے پیڑ تک جا پہنچا جہاں چڑیا نے بچے دے رکھے تھے۔ پیلی پڑتی گھاس پر گرا چڑیا کا وہ بے بال و پر بچہ گرمی اور پیاس سے نڈھال تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی پسینے سےبھیگی ہتھیلی پر رکھ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نرم گوشت کے اس پار ننھے سے دل کی دھڑکن صاف محسوس کی جا سکتی تھی
کچھ دیر اس کو ہاتھوں میں لیۓ گھومنے کے بعد اچانک اسکے ذہن میں ایک خیل آیا۔ جو دو روز قبل اسکے چچا کے مرغی ذبحہ کرنے کے تجربہ سے منسلک تھا۔ اگلے ہی لمحہ وہ سبزی کاٹنے والی چھری سے چڑیا کے بچے کا گلا کاٹ چکا تھا۔ ننھا سا بدن لمحے بھر کو تڑپ کر ہمیشہ کے لیئے ساکت ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس ہولناک تجربہ کے اختتام سے قبل ہی اسے وہ سکوت اپنی روح میں اترتا ہوا محسوس یوا۔۔۔۔۔۔ وہ بوجھ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اذیت۔۔۔۔۔۔۔۔ جوناحق جان لینے والے ہر شخص کا مقدر ہوتی ہوگی۔
احساسِ گناہ نے اسے اوّلین انسانی قتل کے بعد نعش کو زمین گھود کر ٹھکانے لگانے کی ترغیب دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوّے کی ان سنی ان دیکھی واردات کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شاید بھلے زمانے تھے۔۔۔۔۔۔انسان تو کیا انسانی نعشوں کی بے حرمتی بھی ممنوع تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اُسے گھر کے ایک غیر آباد کونے میں مٹی تلے دبا تو دیا۔ لیکن وہ کونا ہمیشہ اسکے دل میں قدیم قبرستان کی طرح آباد رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظر دھندلانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ شہادت کی انگلی پر دھری چیونٹی کو اس نے انتہائی آہستگی سےواش بیسن کے خشک حصہ پر اتارا ۔۔۔۔۔
نہ جانے کتنی صدیاں بیت گئیں یاس و بیم میں۔ پھر چیونٹی نے ڈھلوان کی جانب سفر شروع کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دھندلائے ہوئے آئینے پر ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے نم گوشوں کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سانس میں سکینت بھری ہوئی تھی.

Saturday 12 August 2017

نا سمجھوں کا ٹولہ

₪ حکومتوں کا گرانا، کسی جماعت پہ کرپشن ثابت کرنا اقتدار ختم کرا دینا اور لولی لنگڑی. سسکتی اور آہیں بھرتی نام نہاد ہی سہی، سیاہ ست کو ناکارہ کر دینا یہ ہے وہ کامیابی جس پہ عمران خان سمیت سبھی اپوزیشن جماعتوں کا زور رہتا ہے. لیکن بعد از نتائج اور بد تر صورتحال بارے کوئی نہیں سوچتا.

سمجھتے نہیں ہیں کیوں کہ انہوں نے کبھی مری روڈ پہ چلنے والی اومنی بس میں سفر نہیں کیا. جس میں موجود ڈرائیور کنڈیکٹر دونوں نشئی ہوتے ہیں بد تمیز جاہل ہوتے ہیں دنیا کر قریب قریب سب برائیاں ان میں موجود ہوتی ہیں لیکن!!!!!!!
ہم پیسے دیکر انکے ساتھ سفر کرتے ہیں زندگی.داو پہ لگا کر سب کچھ برداشت کرتے ہیں کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

"کیونکہ مقصد ہوتا ہے منزل تک پہنچنا."
جب تک ہمارے پاس بہتر سے بہترین متبادل نہیں آتا یا وہ جس پہ بھرپور یقین ہو کہ وہ ہمارے معیارکے مطابق ہے ہم کیوں ھاھاکار مچا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صرف ہم ہی مسیحا ہیں اور کوئی نہیں........

ہمارے ہاں زور برائی پہ رہتا ہے اسباب پہ نہیں.
ذاتیات پہ اتریں تو دودھ کا دھلا کوئی نہیں. کاروبار روپے پیسے کی بات کریں تو شک سبھئ پہ جاتا ہے..... پھر بھی ہم میٹھئ گولی لے کر آسمان سے فرشتوں کے اتر آنے کا خواب دیکھتے ہیں . کوئی قوم پرستی کا شکار کوئی فرقہ پرستی کا کوئی برادری ازم کا...... غرض 90 فیصدغرض ہے اور خلوص کہیں ایک تنہا چراغ کی مانند ہوا کے تھپیڑے کھاتا ہوا.

ازخود
راشد ادریس رانا
قلم بے لگام
12 اگست 2017