Tuesday, 29 May 2012

نجات کا راستہ:::::::::ایک منتخب تحریر


وہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ دفتر سے میں نے چھٹی لی ہوئی تھی ، کیونکہ گھر کے کچھ ضروری کام نمٹانے تھے۔ میں بچوں کو کمپیوٹر پر گیم کھیلنا سکھا رہا تھا کہ باہر بیل بجی۔ کافر دیر کے بعد دوسری بیل ہوئی تو میں نے جا کر دورازہ کھولا۔ سامنے میری ہی عمر کے ایک صاحب کھڑے تھے۔

...السلام علیکم ۔۔۔۔! انہوں نے نہایت مہذب انداز میں سلام کیا۔ پہلے تو میرے ذہن میں خیال گزرا یہ کوئی چندہ وغیرہ لینے والے ہیں۔ ان کے چہرے پر داڑھی خوب سج رہی تھی، اور لباس سے وہ چندہ مانگنے والے ہر گز نہیں لگ رہے تھے۔ جی فرمایئے ، میں نے پوچھا۔ آپ طاہر صاحب ہے؟ ’’جی‘‘ میں نے مختصر جواب دیا۔ وہ مجھے رفیق صاحب نے بھیجا ہے۔ غالباً آپ کو کرائے دار کی ضرورت ہے۔ ہاں ہاں۔۔۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ میں نے دفتر کے ایک ساتھ طاہر کو بتایا تھا کہ میں نے اپنے گھر کا اوپر والا پورشن کرائے پر دینا ہے اگر کوئی نیک اور چھوٹی سی فیملی اس کی نظر میں ہو تو بتائے۔ کیونکہ دفتر کی تنخواہ سے خرچے پورے نہیں ہوتے۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں نے اتنی دھوپ میں کافی دیر اسے باہر کھڑا رکھا۔

اسے چھ مال کے لیے مکان کرائے پر چاہیے تھا۔ کیونکہ اپنا مکان وہ گرا کر دوبارہ تعمیر کروا رہے تھے۔ میں نے تین ہزار کرایہ بتایا۔ لیکن بات دو ہزار پر پکی ہوگئی۔ وہ چلا گیا تو مجھے افسوس ہونے لگا کہ کرایہ کچھ کم ہے۔ گواو پر صرف ایک چھوٹا سا کمرہ، کچن اور باتھ روم تھا۔ مجھے اپنی بیوی کا دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اسے معلوم ہوگا تو کتنا جھگڑا ہوگا۔ اور وہی ہوا۔ بقول اس کے دو ہزار تو صرف بچوں کی فیس ہے۔ مجھے اس نے کافی برا بھلا کہا اور میں چپ چاپ سنتا رہا، اور اپنی قسمت کو کوستا رہا ۔ میں نے ایم ایس سی بہت اچھے نمبروں سے کیا تھا۔ اس لیے فوراً نوکری مل گئی، نوکری ملی تو شادی بھی فوراً ہوگئی۔
میری بیوی بھی بہت پڑھی لکھی تھی۔ وہ بھی ایک انگریزی اسکول میں پڑھاتی تھی، ہمارے تین بچے تھے۔ مگر گزارا مشکل سے ہوتا تھا۔

اگے ہی دن وہ صاحب اور ان کے بیوی بچے ہمارے گھر شفٹ ہوگئے۔ ان کی بیوی نے مکمل شرعی پردہ کیا تھا۔ دونوں بڑے بچے بہت ہی مہذب اور خوبصورت تھے۔ چھوٹا گود میں تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک دن میں دفتر سے آیا تو میری بیوی نے بتایا کہ میں نے بچوں کو کرائے دار خاتون سے قرآن مجید پڑھنے کے لیے بھیج دیا کرنا ہے۔‘‘ اچھا پڑھاتی ہیں، ان کے اپنے بچے اتنی خوبصورت تلاوت کرتے ہیں۔

کچھ دنوں بعد جب میں نے ان کے ایک بیٹے سے تلاوت سنی تو پہلی مرتبہ میرے دل میں خواہش ابھری کہ کاش ہمارے بچے بھی اتنا اچھا قرآن مجید پڑھیں۔ ایک دن میں بہار جانے لگا تو اپنی بیوی سے پوچھ ہی لیا کہ وہ بارلر جائے گی تو لیتا چلوں۔ کیونکہ پہلے تو دو مہینے میں تین چار مرتبہ پارلر جاتی تھی اور اس مہینے میں ایک بار بھی نہیں گئی تھی۔
اس نے جواب دیا کہ پارلر فضول خرچی ہے۔ جتنی خوبصورتی چہرے پر پانچ بار وضو کرنے اور نماز اور تلاوت سے آتی ہے کسی چیز سے نہیں آتی۔ اگر زیادہ ضرورت ہو تو گھریلو استعمال کی چیزوں سے ہی چہرے پر نکھار رہتا ہے۔

ایک روز میں کیبل پر ڈرامہ دیکھ رہا تھا تو میرے چھوٹے بیٹے نے میرے بغیر پوچھے ٹی وی بند کر دیا اور میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ بابا یہ بیکار مشغلہ ہے۔ میں آپ کو اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ سناؤں۔ مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن اپنے بیٹے کی زبان جب واقعہ سنا تو میرا دل بھر آیا۔ یہ تمہیں کس نے بتایا میں نے پوچھا۔ ہماری استانی محترمہ نے۔۔۔ وہ قرآن مجید پڑھانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے متعلق بتاتی ہیں۔ اپنے گھر کی اور بیوی بچوں کی تیزی سے بدلتی حالت دیکھ کر میں حیران ہو رہا تھا کہ ایک روز بیوی نے کہا کہ کیبل کٹوادیں۔ کوئی نہیں دیکھا اور ویسے بھی فضول خرچی اور اوپر سے گناہ ہے۔ چند روز بعد بیوی نے شاپنگ پر جانے کو کہا تو میں بخوشی تیار ہو گیا، اس نے کافی دنوں بعد شاپنگ کا کہا تھا ورنہ پہلے تو آئے دن بازار جانا رہتا تھا۔ کیا خریدنا ہے؟ میں نے پوچھا۔
’’برقعہ‘‘
کیا؟؟ میں ہنسا تو وہ بولی’’ پہلے میں کتنے ہی غیر شرعی کام کرتی تھی، آپ نے کبھی مذاق نہیں اڑایا تھا، اب اچھا کام کرنا چاہتی ہوں تو آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔‘‘ میں کچھ نہ بولا۔ پھر چند دن بعد اس نے مجھے کافی سارے پیسے دیئے اور کہا فریج کی باقی قیمت ادا کر دیں۔ تاکہ مزید قسطیں نہ دینی پڑیں۔ اتنے روپوں کی بچت کیسے ہوگئی۔ بس ہو گئی،وہ مسکرائی جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے احکام پر چلنے لگے تو برکت خود بخود ہو جاتی ہے۔

’’یہ بھی وہ کرائے دار خاتون بتایا ہے‘‘ میں نے پوچھا تو وہ کھل کھلا کر ہنس دی۔ سکون میرے اندر تک پھیل گیا۔میری بیوی اب نہ مجھ سے کبھی لڑی، نہ شکایت کی۔ بچوں کو وہ گھر میں پڑھا دیتی ہے۔ خود بچوں کے ساتھ قرآن مجید تجوید سے پڑھنا سیکھ رہی تھی وہ خود نماز پڑھنے لگی تھی، اور بچوں کو سختی سے نماز پڑھوانے بھیجتی۔

مجھے احساس ہونے لگا کہ نجات کا راستہ یہی تو ہے۔ پیسہ آرائش اور سکون نہیں دیتا۔ اطمینان تو بس اللہ کی یاد میں ہے۔ مجھے اس دن دو ہزار کرایہ تھوڑا لگ رہا تھا، آج سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ تو اتنا زیادہ تھا کہ آج میرا گھر سکون بھر گیا ہے۔ نیک بیوی نعمت ہے۔ یہ میں آج سمجھتا ہوں

1 comment:

  1. اصلاح ماحول کی محتاج ہے، بیوی بچوں کو جیسا ماحول ملے گا وہ اسی میں ڈھلتے جائیں گے ، شاید یہی اس تحریر کا خلاصہ ہے ۔ میں نے ایسے گھرانے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور ان عمل والوں کی وجہ سے کئی گھرانے بدلتے بھی دیکھے، اللہ کرے یہ باتیں ہمارے دل میں بھی اتر جائیں اور ہم بھی اس تربیتی نظام کے چین پراسیس میں شامل ہوجائیں ، حقیقت میں اصل خوشی اور سکون اسی میں ہی ہے۔

    ReplyDelete