Monday 7 May 2012

میں ،ہم اور دور حاضر::::::: مورخہ 07-05-2012

صبح صبح طائران قدرت کی مدح سرائی سننے کو دل نا جانے کب سے ترس گیا ہے، اچھے وقت ہوا کرتے تھے جب صبح اٹھنے کا رواج ہوتا تھا، لوگ منہ نہار باہر نکلتے تھے چہل پہل ہوتی تھی، ایک دوسرے کو سلام دعا کر لیا کرتے تھے، خیر خیریت دریافت ہوتی تھی۔ سڑکوں پارکوں محلوں غرض ہر جگہ پرندوں کی  پیاری پیاری آوازیں سننے کو ملتی تھیں،

اور اگر آپ رہتے ہوں گاوں دیہات میں تو وہاں کی تو کیا ہی بات ہے، یوں لگتا ہے نماز تہجد سے لیکر پو پھٹنے تک نا صرف انسان بلکہ پرندے بھی رب کل کائنات کی تسبیح کر رہے ہوں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں جدید دور میں پیدا ہوکر بہت گناہ گار ہوگیا ہوں، میرے جیسے وجود کو تو اس دور میں پیدا ہونا چاہئے تھا جس وقت کی سب سے جدید سواری گھوڑا تانگہ ہوا کرتا تھا۔ جب روشنی کا واحد زریعہ چراغ ہوا کرتے تھے۔ اور چوپالوں میں بیٹھ کر کہاوتیں کہنا سننا سب سے بڑی مصروفیت ہوا کرتی تھی۔

جیسے جیسے سہولتوں نے ہمارے درمیان جگہ لے لی ہے ہم لوگ اپنی قدریں کھوتے جارہے ہیں، خلوص بھی باقیمت ہو گیا ہے، اب تو خلوص کی بھی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ صحت و تندرستی ناپید ہوتی جا رہی ہے، کوئی بھی بندہ پکڑیں اور اس کا طبی معایئنہ کرائیں، ایسی ایسی واہیات بیماریاں دریافت ہوں گی، کہ بندہ جیتے جی مر جائے گا۔

ایسا ہی ایک لطیفہ ہے کہ ایک صاحب ایکسرے اٹھائے ڈاکٹر کے پاس پہنچے اور ڈاکٹر کو ایکسرے دیکھایا، ڈاکٹر صاحب نے ایکسرے کو ہوا میں معلق کیا، دیکھا اس بندے کی طرف دیکھا اور ساتھ ہی غصہ سے لال پیلے ہو کر اس بندے پر برس پڑے:
"تم لوگ نا جانے کب سدھرو گے، کب تم لوگوں کو عقل آئے گی، خود اپنے آپ کو ختم کر رہے ہو، زہر کھارہے ہو زہر پی رہے ہو، کتنی بار منع کیا تھا کہ سگریٹ تمہارے لیئے زہر ہے پیتے ہی اپنے کفن دفن کا انتظام خود کر لینا میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں، تم پھر چلے آئے۔

وہ بندہ پریشان ہو کر بولا، ڈاکٹر صاحب ہوا کیاہے ، تو فرمانے لگے، بھائی سگریٹ پی پی کر تم نے بیڑہ غرق کرلیا ہے، بس آخری سٹیج پر ہو، پھیپھڑے ختم ہو چکے ہیں۔

اس بندے نے جواب میں مسکراتے ہوئے کہا، جناب من!!! یہ ایکسرئے میری 6 سالہ بچی کے ہیں، جس کو تھوڑا سانس کا پرابلم تھا اور آپ نے ایکسرے تجویز کیئے تھے۔

تو قصہ مختصر !!!!!!

کہ آج کل کسی بھی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہی جو پہلا ڈاکٹر صاحب کریں گے وہ کچھ ٹیسٹ ہوں گے جو کرائے بغیر آپ کا علاج ناممکن ہو گا۔ تو یہ ہیں سہولتیں اور ان کا بلا دریغ استعمال۔
گلی کے نکڑ پر جانا ہے تو موٹر سائکل ضروری ہے۔ پیدل چل کے جانا اچھا نہیں لگتا۔
فٹبال، والی بال، جیسے کھیل اب ، آئی پیڈ، آئی فون، کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ پر کھیلنا بہت سہل ہے، نا کہ خود میدان میں جا کر کھیلنا۔
خط لکھنا تو دور کی بات، اب تو خط دیکھنا بھی ایسے ہی ہے جیسے آپ نے کیاری کھودی ہو اور بیچ میں سے ڈائنوسار کا انڈہ مل گیا ہو۔
پارکوں اور سبزہ زاروں کا یا تو نام و نشان نہیں اور اگر کہیں باقیات ہیں تو وہ کار اختیار کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں (سوچیں کہ جو لوگ شہرمیں لگنے والے پھولوں کا پیسا کھا کر آرام کی نیند سوجاتے ہیں وہ کیسے توقع کریں گے کہ ان کی قبر پھولوں سے بھرئے گی) اللہ سب پر اپنا رحم کرئے۔

بات کو بڑھاتے جائیں تو بڑھتی جائے گی پرندوں کی چہچاہٹ کے نا ہونے سے دل برداشتہ ہو کر کہاں سے کہاں چلے گئے

ایک بار پھر کہوں گا
:::::::::کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں جدید دور میں پیدا ہوکر بہت گناہ گار ہوگیا ہوں:::::::::

کیوں کہ اس دور میں پیدا ہو کر اور جدید چیزوں سےاستفادہ ہوکر بھی مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا، اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نا کرنا بہت گناہ گار ہونے والی بات ہے، اللہ تعالٰی ہمیں ناشکری جیسے گناہ سے بچائے۔

میں اور دور حاضر:::::از راشد ادریس رانا::::: مورخہ 07-05-2012

No comments:

Post a Comment