Friday 16 December 2016

بھَگتُو کا قرض

بھَگتُو کا قرض
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھَگتُو ملاح جب بھی جیل سے آتا واپس دھندے میں جُت جاتا۔ وہ ایک مشہور پیشہ ور چور تھا ۔ چونکہ پرانے زمانے میں ہرشئے میں روایات اور اقدار کا خیال رکھا جاتا تھا اس لیے سب لوگ بھَگتُو کی ایک خاص انداز میں عزت کرتے تھے۔ اسی عزت کا نتیجہ تھا کہ وہ جب بوڑھا ہوگیا تو دس پندرہ سال تک اہل علاقہ نے اُسے پرانے چوک میں چوکیدار مقرر کردیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ چونکہ وہ چوری، نقب لگانے، دیواروں پر چڑھنے اور چھتیں پھلانگنے کا ماہر ہے اور چوروں کی ہرادا اور ہرطریقے سے واقف ہے اس لیے وہی چوکیدار بننے کا بھی سب سے زیادہ اہل ہے۔

بلکہ بھَگتُو کو سب سے پہلے چوکیدار میرے اباجی نے ہی بنایا تھا۔ کئی سال تک وہ ہمارے گھر اور مال ڈنگر کا چوکیدارہ کرتا رہا۔ اور پھر کہیں اہل علاقہ نے اسے پرانے چوک میں بڑے عہدے پر منتقل کردیا۔ بھگتُو جب چوکیدار بن گیا اور پرانا ہوگیا تو اس کا ٹائم ٹیبل یہ ہوتا کہ عشأ کی نماز کے بعد وہ چوک میں آجاتا اور اپنے مخصوص بنچ پر براجمان ہوجاتا۔ ہم اس وقت لڑکے تھے۔ میں تب پان بہت چبایا کرتا تھا۔ میں پیلی پتی والا پان منہ میں رکھ، بھگتُو کے بنچ پر اس کے ساتھ جابیٹھتا تھا۔ بھگتو نے تقریباً ہر اُس چوری کی واردات مجھے سنائی جو اس نے اپنی زندگی میں کی تھی اور اسے یاد رہ گئی تھی۔ کئی مرتبہ وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر لے جاتا اور پھر اپنے سر پر آپ کا ہاتھ پھِرواتے ہوئے کہتا،

’’یہ دیکھو! پولیس کے ڈنڈے کھا کھا کر میرا سر کیسا ہوگیا ہے؟‘‘

بھگتُو کا سر واقعی بہت عجیب و غریب تھا۔ جیسے ساحل کی ریت پر کوئی بڑی لہر اپنے نشان چھوڑ جائے۔ بھَگتُو چوروں کے قواعد ، رسم و رواج اور اقداروروایات کے بہت واقعات سناتا تھا۔ اس کے نزدیک بڑا چور یعنی بڑی شان والا چور وہ تھا جو پولیس کے مارنے پر چوری نہ مانے۔ وہ سینہ تان کر اکثر اس طرح کے واقعات سناتا،

’’ایک مرتبہ تھانیدار نے مجھے کہا، بھگتُو سچ سچ بتاؤ! فُلاں چوری تم نے کی؟ تو میں نے تھانیدار سے کہا، صاحب جی! ایک گلاس پانی تو پلا دیں پہلے۔ تھانیدار نے اسی وقت ایک پولیس والے کو حکم دیا اور پولیس والا میرے لیے پانی لے آیا۔ میں نے پانی پیا۔ گلاس خالی کرکے پولیس والے کو تھمایا اور تھانیدار سے کہا، ’صاحب جی! ابھی یہ جو پانی میں نے پیا ہے۔ آپ پہلے مجھ سے یہ منوائیں کہ میں نے پیا ہے۔ تب میں چوری بھی مان لونگا۔ یہ بات سن کر تو تھانیدار کو اور زیادہ غصہ آگیا۔ اس نے میری خوب دھلائی کی لیکن پھر دوبارہ چوری کا سوال نہ کیا بلکہ آخر تک یہی پوچھتا رہا کہ ’بھگتُو! تم نے  ابھی پانی پیا کہ نہیں؟‘‘

بھگتُو کے پاس کہانیاں ہی کہانیاں تھی۔ سب اسکی اپنی زندگی کے واقعات تھے۔ چوریوں کی وارداتیں، ڈنگر(جانور) کھولنا۔ رات کی تاریکی میں جسم پر تیل مل کر صرف ایک جانگیہ پہن، اونچی اونچی چھتوں پر پھدکتے چلے جانا۔ چھت سے چھلانگ لگانا تو زمین پر یوں آکر کھڑے ہوجانا جیسے بھگتُو گِر نہیں بلکہ اُڑ رہا تھا۔ ایک بار بھگتُو نے مجھے بتایا کہ،

’’کسی زمانے میں ہم پیشہ ور چوروں کے درمیان مقابلے ہوا کرتے تھے۔ ہم پھولوں کی ایک تھالی ہاتھوں میں تھام کر چھت سے چھلانگ لگاتے اور جس کی جتنی کم پتیاں اُڑ کر زمین پر گرتیں وہ اتنا زیادہ جیت جاتا‘‘

بھگتو کے بڑھاپے کے زمانے میں ہمارے شہر میں ایک اور پیشہ ور چور ’’اَچھُو کالیا‘‘ خاصا مشہور ہوچکا تھا ۔ لیکن وہ جوانی میں ہی چل بسا ۔ ایک روز کسی چھت سےایسا گرا کہ سیدھا نہ کھڑا ہوسکا اور اس کا منکا ٹوٹ گیا۔

بھگتو کی شادی جوانی میں تو نہ ہوسکی لیکن جب اس نے چوریاں چھوڑ دیں اور اباجی کی مُریدی میں آگیا تو اباجی کے بعض دوستوں کی کوششوں سے ہم نے کسی گاؤں میں اس کی شادی کروادی۔ وہ بیوی سے اتنا پیار کرتا تھا۔ اتنا پیار کرتا تھا کہ جب اس کی بیوی کو بھگتُو کی بجائے چودھری خالد سے پیار ہوگیا تو بھگتُو نے بیوی سے ناراضی کا اظہار کرنے کی بجائے اسے چودھری خالد سے ملنے دیا۔ وہ کہتا تھا ’’میری رانی کو خوش رہنا چاہیے۔ وہ خوش ہے تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘

ایک مرتبہ بھگتو کی بیوی غائب ہوگئی۔ لیکن تین دن کے اندر اندر اس نے ڈھونڈ نکالی۔ اور جب میری بھگتو سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ بیوی کو ڈھونڈنے کے لیے اس نے تیس چالیس مکانوں کی سیر کی ہے ۔ یعنی رات کو جب لوگ سورہے تھے تو وہ لوگوں کے گھروں میں اترا اور اس نے ایک ایک بستر پر لیٹے ، ایک ایک فرد کے چہرے سے کمبل ہٹا ہٹا کر دیکھا کہ کہیں اس کی بیوی تو نہیں سورہی؟ اور بالآخر اس نے اپنی محبوب بیوی کو ڈھونڈ ہی لیا۔ اس کے بعد بھگتُو خوشاب چھوڑ کر چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ مجھے آج تک معلوم نہیں کہ وہ کب فوت ہوا ہوگا۔ یا ابھی بھی زندہ ہو تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اگر وہ اب زندہ ہوا تو اس کی عمر ضرور نوّے سال سے اوپر ہوگی۔اا

بھگتُو، قوم کا ملاح تھا  چنانچہ ایک اور فن جو اس کی گھُٹی میں تھا اور اُسے چوری سے بھی زیادہ آتا تھا ، وہ تھا دریا میں تیرنا۔ مچھلیاں پکڑنا۔ ڈوبنے والوں کی لاشیں ڈھونڈ کر دینے کا کام وہ ہمیشہ مفت کیا کرتا تھا۔ موسم جتنا بھی سرد ہوتا بھگتُو کا کہنا تھا کہ جسم پر تیل مل کر اور بہت سا گُڑ کھا کر دریا میں چھلانگ لگا دو۔ بالکل بھی ٹھنڈ نہیں لگے گی۔ ایک مرتبہ بھگتونے مجھے مچھلی پکانے کا ایک عجب طریقہ بتایا۔ میں نے آج تک اس  طریقے پر مچھلی پکائی تو نہیں لیکن سوچتا ہوں کہ جب کبھی کوئی بھی اس طریقے پر مچھلی پکائے گا تو وہ مچھلی ہوگی بے حد لذیذ ۔ بھگتو نے بتایا کہ اگر کبھی دریا پر آپ اکیلے ہوں اور کچھ پکانے کے لیے آپ کے پاس کوئی سامان بھی نہ ہو تو آپ ایک مچھلی پکڑیں۔ مچھلی کا پیٹ صاف کرکے، اس پر چکنی دریائی مٹی کا موٹا موٹا لیپ کردیں۔ پھر عام گھاس پھونس اور چھوٹی موٹی لکڑیوں سے آگ کا چھوٹا سا الاؤ جلائیں اور مچھلی اس میں پھینک دیں۔ پھر دیکھیں کہ جب مچھلی پر لگی مٹی پک جائے جیسے کمہاروں کے گھڑے پک جاتے ہیں تو مچھلی آگ سے نکال لیں اور اسے درمیان سے اس طرح چیریں کہ مچھلی کسی سِیپ کے دو ٹکڑوں کی طرح دولخت ہوجائے۔ اور یوں آپ کے ہاتھ میں پکی ہوئی مٹی کی  گویا دو پلیٹیں آجائیں گی جن میں پکی پکائی مچھلی دھری ہوگی۔

بھگتو کی کہانیوں میں چوریوں، مچھلیوں اور پولیس کے علاوہ جیلوں کی داستانیں بھی ہوتی تھیں۔ اس نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ جیل میں کاٹا تھا۔ وہ اتنی بار جیل گیا تھا کہ آخر جیل میں موجود تمام پرانے قیدیوں اور سٹاف کی اس کے ساتھ دوستی ہوگئی تھی۔ بھگتو کو وہ جیل سے باہر کچھ خریدنے کے لیے بھی بھیج دیتے تھے ۔ وہ چپ چاپ جاتا۔ سبزی، دال، جیلر کے لیے سگریٹ خریدتا اور پھرواپس آجاتا۔ جب جب وہ جیل میں ہوتا تو ہمیشہ کُک بھگتُو ہی ہوا کرتاتھا۔ جیل نے اسے اتنا اچھا کُک بنا دیا تھا کہ جس زمانے میں اباجی نے اسے بطور چوکیدار رکھا ہوا تھا۔ بھگتو ہمارا کُک بھی رہا۔ بھگتو نے گھر کے باہر تَنُور (تندوری) لگا رکھی تھی۔ تندوری لگا رکھی سے مُراد مٹی کا تنور بنا رکھا تھا۔ اور وہ تندوری کے چبوترے پر چڑھ کر بیٹھ جاتا۔ ساتھ کے ساتھ مذاق کیے جاتا، کہاںیاں سنائے جاتا اور ساتھ کے ساتھ روٹیاں تھپتھپاتا جاتا۔

بھگتو گاتا بھی بہت اچھا تھا۔ اگرچہ اس کا گَلہ دیہاتی قسم کا بلند تھا لیکن پھر بھی اس کے سُر نہ ٹوٹتے تھے۔ ایک گانا جو بھگتو اکثر سنایا کرتا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے اور میں کبھی کبھی گنگناتا بھی ہوں۔ اگرچہ یہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ گانا کسی پنجابی فلم کا ہے یا بھگتو اور اس کے دوستوں نے خود بنا رکھا تھا۔ ممکن ہے آج فیس بک کی اس پوسٹ کے بعد کوئی پنجابی فلموں کا شوقین دوست اس راز سے پردہ اُٹھا سکے،

بھگتو یہ گانا سنایا کرتا اور اکثر رو پڑتا،

اَسّی آں لفنگے تے تلنگے موچی وال دے
جیلاں دے عادی اَسّی شوقیں آں دال دے
اسی آں لفنگے تے تلنگے موچی وال دے

لُٹے سہاگ اَسّی ، لُٹی پھلجھڑیاں
کئی واری جیل ویکھی پایاں ہتھ کڑیاں
نئیں ہوندے چور جانی! اَجکل ساڈے نال دے
اسی آں لفنگے تے تلنگے موچی وال دے

۔۔
تحریر جناب محترم #ادریس_آزاد

Thursday 22 September 2016

لال کاپی

گھر میں داخل ہوتے ہی میری پہلی نظر چاچا انور پہ پڑی اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا۔

مجھے گلاسگو آئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ گھر سے دوری کا احساس شدید تھا اور سکاٹ لینڈ کی سردی اداسی کو مزید گہرا کر دیتی تھی۔ ایک نووارد طالبعلم کیلیے سستی رہائش ایک شدید مسلئہ ہوتی ہے اور میرا بھی یہ تیسرا گھر تھا۔ گھر میں چاچا عمر میں سب سے بڑا تھا اور میں سب سے چھوٹا۔ اسکے باوجود چاچے اور میری دوستی ہو گئی۔ چاچا کسی ہوٹل پر دن بھر برتن دھوتا تھا۔ اور پھر گھر آ کر یا تو پاکستان کچھ دیر فون کر لیتا تھا یا پھر گانے سنتا اور سگریٹ پھونکتا۔ بلاضرورت باہر جاتے اسے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔

چاچے کو جب پتہ چلا کہ میں یونیورسٹی میں ماسٹرز کر رہا ہوں تو چاچے نے خوامخواہ میرا احترام بھی شروع کر دیا۔ چاچا عام اجڈ لوگوں کے طرح مجھے “تو”کے بجائے “تسی” کہ کر مخاطب کرتا اور کبھی کبھی اپنے ساتھ میرے لیے بھی روٹی بنا دیتا کہ “پیٹہ بریڈ” کھا کھا کر میں سوکھتا جاتا تھا۔ میں جب یونیورسٹی یا جاب سے واپس آتا تو چاچا بڑے پیار سے دو کپ چائے بناتا اور میرے ساتھ باتیں کرتا۔ سگریٹ کے دھویں،انگلش ٹی کے بجائے چولہے کی چائے اور چاچے کی باتیں، مل کر کچھ دیر کو بھلا دیتیں کہ میں اپنے لاہور سے دور ہوں۔

گفتگو کے ان ہی ادوار میں کھلا کہ چاچا فوجی تھا۔ “فوجی” یو کے کے امیگرینٹس کی عام زبان میں اسے کہتے ہیں جو ابھی پکّا نہ ہوا ہو۔ یعنی غیر قانونی رہ رہا ہو۔ چاچے نے بتایا کہ سترہ سال سے وہ یہاں رہ رہا تھا اور کوئی کیس ڈال رکھا تھا جو اپیل میں چل رہا تھا۔ کہنے لگا پتر اب تو لال کاپی لے کر ہی جانا ہے۔ “لال کاپی” برٹش پاسپورٹ کا ایک معروف نام تھا امیگرینٹس میں۔ چاچا بتاتا کہ جب وہ آیا تو “شی جوان” تھا۔ شادی کو ابھی پانچ ہی سال ہوے تھے اور تین بچے تھے۔ باقی چاچے کی کہانی وہی تھی جو اکثر سنہری مستقبل کی تلاش میں نکلنے والوں کی ہوتی ہے۔ بڑا بیٹا، غربت اور گھر کی ذمہ داریاں وغیرہ وغیرہ۔ ایجنٹ کو پیسے دیئے اور ملکوں ملکوں پھرتا، چاچا گلاسگو آن پہنچا۔ چاچے نے بھی اتنی ہی مشکل زندگی گزاری جتنی ایسے حالات میں ہوتی ہے۔ مگر پھر وہ اطمینان بھرے چہرے سے کہتا، شکر ہے ذمہ داریاں ادا ہو گئیں۔ گھر والوں کی غربت دور ہو گئی۔

ایک بار میں نے پوچھا کبھی واپس جانے کا دل نہیں چاہا؟ بولا دو دفعہ۔ ایک تو تین سال پہلے بیٹی کی شادی کی تو بہت دل چاہتا تھا۔ پر پھر دل کو سمجھایا کہ میں چلا گیا تو چھوٹے بیٹے کی فیسیں کون دے گا، بچی کے کل کلاں کے خرچے کون پورے کرے گا۔ بس پتر یہ ملک مِٹھی جیل ہے، نہ رہنے دیتا ہے نہ جانے۔ اور دوسری دفعہ؟ چاچے نے سگریٹ سلگایا اور نتنوں سے دھواں نکالا۔ “ماں اپنے آخری دنوں میں بہت یاد کرتی تھی۔ کہتی تھی ہورے تو میرا منہ بھی دیکھے گا”۔ چاچے کی آواز کانپتی تھی۔ “ان دنوں دل چاہا کہ لوٹ جاؤں پر پھر اچانک اک دن وہ مر گئی۔ نہیں جا سکا” میں نے چاچے کی آنکھوں میں نمی تیرتی دیکھی تو فورا موضوع بدل دیا۔ میں خود ماں سے پہلی دفعہ بچھڑا تھا، مجھے ڈر تھا میں تو دھاڑیں مار مار کر رو دوں گا۔

ایک دن چاچے نے بتایا کہ اگلے ہفتے اسکی اپیل کی تاریخ ہے۔ بولا پتر دعا کر کاپی مل جائے۔ میں نے ماں کا منہ نہی دیکھا، بیٹی کو ودیا نہیں کیا، بچوں کی کوئی خوشی نہیں دیکھ سکا۔ تیری چاچی جوان چھوڑ کے آیا تھا، اب تو بڈھی لگتی ہے۔ اب کاپی کے بغیر جانا نہیں بنتا۔ اور پھر چاچا واقعی اپیل جیت گیا۔ اس دن وہ اس سِکھ کی طرح لگتا تھا جو وساکھی کے میلے میں شراب پی کر ناچتا ہو اور اسے کوئی پروا نہ ہو کہ لوگ ہنستے ہیں۔ اب چاچے کی باتیں مختلف تھیں۔ وہ پروگرام بناتا رہتا تھا کہ پاکستان جائے گا تو کیا کرے گا۔ کبھی مجھ سے پوچھتا تھا کہ پاکستان کون سے کپڑے پہن کر جاؤں کہ پتہ لگے انگلینڈ سے آیا ہے تو کبھی پوچھتا تھا کہ ایئرلائن کون سی مناسب رہے گی۔ ایک دن میں نے پوچھا باقی سب کے تو تحفے سوچتے رہتے ہو، چاچی کیلیے کیا لیجانا ہے۔ اس پر چاچے نے عجیب بات کی۔ بولا “پتر اس کیلیے لال کاپی لے کر جاؤں گا اور کہوں گا، یہ لے، یہ ہی تیری جوانی کھا گیا”

آخر ایک دن پاسپورٹ بھی مل ہی گیا۔ چاچا چپ بیٹھا لال کاپی پہ ہاتھ پھیرتا تھا اور اسکے آنسو ٹپ ٹپ گرتے تھے۔ چاچے نے اگلا سانس لینے سے پہلے ٹکٹ بک کرائی اور واپسی کی تیاری زور شور سے شروع ہو گئی۔ اس میں شور پاکستان سے آئی فرمائشوں کا تھا اور زور چاچے کا۔ چاچے نے کچھ عرصے سے ہفتہ وار چھٹی بھی بند کر دی تھی تاکہ اور زیادہ پیسے جمع ہوں کہ لسٹ روز لمبی ہو جاتی تھی۔

چاچے کے جانے سے تین دن قبل چاچا کام پہ برتن دھوتے ہوے اچانک زمین پہ گرا اور پھر کبھی نہ اٹھا۔ دو دن بعد جب اسکی لاش ہمیں ملی تو ہم نے جنازے کا اہتمام کیا۔ کسی نے پاکستان اطلاع کر دی تھی اور چاچے کا خاندان سترہ اٹھارہ برس بعد اسکا آخری دیدار کرنے کا منتظر تھا۔ کچھ جاننے والوں نے چاچے کا جنازہ پڑھا اور اسکی محبتیں یاد کر کے آبدیدہ ہوتے رہے۔ لاش جب باکس میں رکھی گئی تو میں نے چاچے کو آخری بار خُداحافِظ کہا اور چپکے سے لال کاپی اسکے کفن میں رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔

راقم انعام رانا۔

Wednesday 21 September 2016

پاکستانی روپیہ پیسے کا فراڈ

یہ نوجوان لندن کے ایک بین الاقوامی بینک میں معمولی سا کیشئر تھا‘ اس نے بینک کے ساتھ ایک ایسا فراڈ کیا جس کی وجہ سے وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا فراڈیا ثابت ہوا‘ وہ کمپیوٹر کی مدد سے بینک کے لاکھوں کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے ایک‘ ایک پینی نکالتا تھا اور یہ رقم اپنی بہن کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتا تھا۔ وہ یہ کام پندرہ برس تک مسلسل کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے کئی ملین پونڈ چرا لئے۔ آخر میں یہ شخص ایک یہودی تاجر کی شکایت پر پکڑا گیا‘ یہ یہودی تاجر کئی ماہ تک اپنی بینک سٹیٹ منٹ واچ کرتا رہا اور اسے محسوس ہوا اس کے اکاؤنٹ سے روزانہ ایک پینی کم ہو رہی ہے چنانچہ وہ بینک منیجر کے پاس گیا‘ اسے اپنی سابق بینک سٹیٹمنٹس دکھائیں اور اس سے تفتیش کا مطالبہ کیا۔ منیجر نے یہودی تاجر کو خبطی سمجھا ‘ اس نے قہقہہ لگایااور دراز سے ایک پاؤنڈ نکالا اور یہودی تاجر کی ہتھیلی پر رکھ کر بولا’’ یہ لیجئے میں نے آپ کا نقصان پورا کر دیا‘‘ یہودی تاجر ناراض ہو گیا‘ اس نے منیجر کو ڈانٹ کر کہا ’’میرے پاس دولت کی کمی نہیں‘ میں بس آپ لوگوں کو آپ کے سسٹم کی کمزوری بتانا چاہتا تھا‘‘وہ اٹھا اور بینک سے نکل گیا۔ یہودی تاجر کے جانے کے بعد منیجر کو شکایت کی سنگینی کا اندازا ہوا ‘ اس نے تفتیش شروع کرائی تو شکایت درست نکلی اور یوںیہ نوجوان پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ لندن کا فراڈ تھا لیکن ایک فراڈ پاکستان میں بھی ہو رہا ہے‘ اس فراڈ کا تعلق پیسے کے سکے سے جڑا ہے۔ پاکستان کی کرنسی یکم اپریل 1948ء کو لانچ کی گئی تھی‘ اس کرنسی میں چھ سکے تھے‘ ان سکوں میں ایک روپے کا سکہ‘ اٹھنی‘ چونی‘ دوانی‘ اکنی‘ ادھنا اور ایک پیسے کا سکہ شامل تھے ‘ پیسے کے سکے کوپائی کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایک روپیہ 16 آنے اور 64پیسوں کے برابر ہوتا تھا۔
یہ سکے یکم جنوری 1961ء تک چلتے رہے‘ 1961ء میں صدر ایوب خان نے ملک میں اشاریہ نظام نافذ کر دیا جس کے بعد روپیہ سو پیسوں کا ہو گیا جبکہ اٹھنی‘ چونی‘ دوانی اور پائی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ پچاس پیسے‘ پچیس پیسے‘ دس پیسے‘ پانچ پیسے اور ایک پیسے کے سکے رائج ہو گئے۔
یہ سکے جنرل ضیاء الحق کے دور تک چلتے رہے لیکن بعدازاں آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آج سب سے چھوٹا سکہ ایک روپے کا ہے اور ہم نے پچھلے تیس برسوں سے ایک پیسے‘ پانچ پیسے‘ دس پیسے اور پچیس پیسے کا کوئی سکہ نہیں دیکھا کیوں؟ کیونکہ سٹیٹ بینک یہ سکے جاری ہی نہیں کر رہالیکن آپ حکومت کا کمال دیکھئے حکومت جب بھی پٹرول‘ گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تو اس میں روپوں کے ساتھ ساتھ پیسے ضرور شامل ہوتے ہیں مثلاً آپ پٹرول کے تازہ ترین اضافے ہی کو لے لیجئے‘ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں5 روپے 92 پیسے اضافہ کیا جس کے بعد پٹرول کی قیمت 62روپے 13پیسے‘ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 62روپے 65پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 54روپے 94پیسے ہو گئی۔
اب سوال یہ ہے ملک میں پیسے کا تو سکہ ہی موجود نہیں لہٰذا جب کوئی شخص ایک لیٹر پٹرول ڈلوائے گا توکیا پمپ کا کیشئر اسے 87پیسے واپس کرے گا؟ نہیں وہ بالکل نہیں کرے گا چنانچہ اسے لازماً 62کی جگہ 63 روپے ادا کرنا پڑیں گے۔
یہ زیادتی کیوں ہے؟
اب آپ مزید دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجئے‘ پاکستان میں روزانہ 3لاکھ 20ہزار بیرل پٹرول فروخت ہوتا ہے۔ آپ اگراسےلیٹرز میں کیلکولیٹ کریں تو یہ 5کروڑ 8لاکھ 80ہزار لیٹرز بنتا ہے۔آپ اب اندازا کیجئے اگر پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہر لیٹر پر 87پیسے اڑاتی ہیں تو یہ کتنی رقم بنے گی ؟ یہ 4کروڑ 42لاکھ 65ہزار روپے روزانہ بنتے ہیں۔یہ رقم حتمی نہیں کیونکہ تمام لوگ پٹرول نہیں ڈلواتے ‘صارفین ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی خریدتے ہیں اور زیادہ تر لوگ پانچ سے چالیس لیٹر پٹرول خریدتے ہیں اور بڑی حد تک یہ پیسے روپوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود پیسوں کی ہیراپھیری موجود رہتی ہے۔
مجھے یقین ہے اگر کوئی معاشی ماہر اس ایشو پر تحقیق کرے ‘ وہ پیسوں کی اس ہیرا پھیری کو مہینوں‘ مہینوں کو برسوں اور برسوں کو 30سال سے ضرب دے تو یہ اربوں روپے بن جائیں گے گویا ہماری سرکاری مشینری 30برس سے چند خفیہ کمپنیوں کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچا رہی ہے اور حکومت کو معلوم تک نہیں ۔
ہم اگر اس سوال کا جواب تلاش کریں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا سکینڈل ثابت ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کرپشن کا والیم ساڑھے چار کروڑ روپے نہ ہولیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جب سٹیٹ بینک پیسے کا سکہ جاری ہی نہیں کر رہا تو حکومت کرنسی کو سکوں میں کیوں ماپ رہی ہے اور ہم ’’راؤنڈ فگر‘‘ میں قیمتوں کا تعین کیوں کرتے ہیں۔
ہم 62روپے 13پیسوں کو 62روپے کر دیں یا پھر پورے 63روپے کر دیں تا کہ حکومت اور صارفین دونوں کو سہولت ہو جائے۔حکومت اگر ایسا نہیں کر رہی تو پھر اس میں یقیناً کوئی نہ کوئی ہیرا پھیری ضرور موجود ہے کیونکہ ہماری حکومتوں کی تاریخ بتاتی ہے ہماری بیوروکریسی کوئی ایسی غلطی نہیں دہراتی جس میں اسے کوئی فائدہ نہ ہو۔

COPY PASTE..................

Sunday 18 September 2016

زندگی

میں پیدا ہوا
آذان ہوئی تکبیر ہوئی
پھر نماز ہوگی ،
زندگی تھی اتنی مختصر
شروع ہوئی اور ختم ہو گئی۔

ازخود راشد ادریس رانا
قلم نا تواں
18 ستمبر 2016

Saturday 17 September 2016

’’رازق، رازق، تو ہی رازق‘‘ ’’شکر، شکر مولا تیرا شکر۔‘‘

ایک منتخب تحریر

مئی ۱۹۸۶ء تک کا زمانہ مسقط (عمان) کی فوج میں بطور ایک اکائونٹنٹ گزرا، وہاں ہمارے ساتھ ایک رشید صاحب بھی ہوا کرتے تھے، وہ حافظ آباد کے قریب واقع کسی گائوں کے رہنے والے تھے، وہ وقتاً فوقتاً گائوں کا چکر لگاتے رہتے تھے، وہ اکثر ایک حکیم صاحب کا ذکر کرتے، ان حکیم صاحب کی باتیں کچھ عجیب سی تھیں۔ مجھے بھی آج تک یاد ہیں۔ حکیم صاحب کا گائوں گکھڑ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔

حکیم صاحب کا بچپن اپنے دادا کی گود میں گزرا تھا، ان کے والد اُن کی پیدائش سے قبل انتقال فرما گئے تھے، دادا نے بچپن ہی سے عبدالحکیم کو یہ سبق پڑھانا شروع کر دیا کہ اللہ کہتا ہے میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ عبادت میں سے صرف وہ وقت اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا جو اس کے دیے ہوئے رزق کی تلاش کرنے میں لگے گا اور جو وقت انسان کے بس سے باہر ہے جیسے سونا، آرام کرنا، وغیرہ وغیرہ۔

گائوں میں گھر کا کافی بڑا صحن تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ گھر کے گرد کوئی چار دیواری بھی نہ تھی۔ گھر میں ایک طرف بڑے بڑے درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔ صبح شام دنیا جہان کی چڑیاں وہاں آ کر جمع ہوجاتیں اور چیں چیں کرکے آسمان سر پر اُٹھا لیتیں۔ صبح فجر ادا کرکے آپ ننھے حکیم کو گود میں لٹا کر ایک چارپائی پر بیٹھ جاتے اور چڑیوں کی آواز سے آواز ملانے کی کوشش کرتے۔ کہا کرتے یہ کہہ رہی ہیں ’’رازق، رازق، تو ہی رازق۔‘‘ گھر میں اکثر کہا کرتے کہ یہ اپنے دل میں دعا مانگ سکتی تھیں جیسے دنیا کے باقی سیکڑوں ہزاروں جانور مانگتے ہیں۔ لیکن انسان کو احساس دلانے کے لیے اللہ نے ان کو بآواز بلند روز کا رزق روز صبح مانگنے کا حکم دیا۔

عبدالحکیم کو سمجھاتے رہتے کہ ہمارے بزرگوں نے اور ہم نے تو خدا سے چڑیوں کی طرح رزق مانگ کر زندگی گزار لی اور بڑے سکھی رہے۔ تم بھی یہ راہ اختیار کرو گے تو زندگی بڑے سکون سے گزر جائے گی۔

شام کو داداجان عصر کی نماز کے بعد پھر چڑیوں کے ساتھی بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے۔ وہ کہا کرتے غور کرو وہ کیا کہہ رہی ہیں۔ مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ کہہ رہی ہوں ’’شکر شکر مولا تیرا شکر‘‘ یعنی تو نے ہماری صبح کی دعائوں کو شرفِ قبولیت بخشا اور ہمیں اتنا رزق دیا کہ ہم کھا بھی نہ سکے۔

عبدالحکیم صاحب کا گکھڑ میں جی ٹی روڈ پر مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ گرمیوں میں ۸ بجے اور سردیوں میں ۹ بجے دکان لازماً کھل جاتی تھی لیکن دکان بند ہونے کا کوئی مقررہ وقت نہیں تھا۔ کہا کرتے تھے جب کھاتہ مکمل ہوگیا، دنیاداری کا وقت ختم ہوگیا۔

رشید بتاتا کہ کھاتے کا بھی بڑا دلچسپ چکر تھا۔ حکیم صاحب صبح بیوی کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔ بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو چیزیں لکھی ہوتیں۔ اُن کے سامنے اُن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اُن کا ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اُسی وقت یہاں سے اُٹھ جائوں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گائوں چلے جاتے۔

ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک مرتبہ تو ان کا دماغ گھوم گیا۔ اُن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھر باقی چیزوں کی قیمت لکھنے کے بعد جہیز کے سامنے لکھا ’’یہ اللہ کا کام ہے اللہ جانے۔‘‘

ایک دو مریض آئے ہوئے تھے۔ اُن کو حکیم صاحب دوائی دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک بڑی سی کار اُن کے مطب کے سامنے آ کر رکی۔ حکیم صاحب نے کار یا صاحبِ کار کو کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ کئی کاروں والے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔

دونوں مریض دوائی لے کر چلے گئے۔ وہ سوٹڈبوٹڈ صاحب کار سے باہر نکلے اور سلام کرکے بنچ پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے لیے دوائی لینی ہے تو ادھر سٹول پر آجائیں تاکہ میں آپ کی نبض دیکھ لوں اور اگر کسی مریض کی دوائی لے کر جانی ہے تو بیماری کی کیفیت بیان کریں۔

وہ صاحب کہنے لگے حکیم صاحب میرا خیال ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ لیکن آپ مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں؟ کیونکہ میں ۱۵، ۱۶ سال بعد آپ کے مطب میں داخل ہوا ہوں۔ آپ کو گزشتہ ملاقات کا احوال سناتا ہوں پھر آپ کو ساری بات یاد آجائے گی۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا تو وہ میں خود نہیں آیا تھا۔ خدا مجھے آپ کے پاس لے آیا تھا کیونکہ خدا کو مجھ پر رحم آگیا تھا اور وہ میرا گھر آباد کرنا چاہتا تھا۔ ہوا اس طرح تھا کہ میں لاہور سے میرپور اپنی کار میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ عین آپ کی دکان کے سامنے ہماری کار پنکچر ہو گئی۔

ڈرائیور کار کا پہیہ اتار کر پنکچر لگوانے چلا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ میں گرمی میں کار کے پاس کھڑا ہوں۔ آپ میرے پاس آئے اور آپ نے مطب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
ڈرائیور نے کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی بھی یہاں آپ کی میز کے پاس کھڑی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی ’’چلیں ناں، مجھے بھوک لگی ہے۔ آپ اُسے کہہ رہے تھے بیٹی تھوڑا صبر کرو ابھی چلتے ہیں۔

میں نے یہ سوچ کر کہ اتنی دیر سے آپ کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے کوئی دوائی آپ سے خریدنی چاہیے تاکہ آپ میرے بیٹھنے کو زیادہ محسوس نہ کریں۔ میں نے کہا حکیم صاحب میں ۵،۶ سال سے انگلینڈ میں ہوتا ہوں۔ انگلینڈ جانے سے قبل میری شادی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ یہاں بھی بہت علاج کیا اور وہاں انگلینڈ میں بھی لیکن ابھی قسمت میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔

آپ نے کہا میرے بھائی! توبہ استغفار پڑھو۔ خدارا اپنے خدا سے مایوس نہ ہو۔ یاد رکھو! اُس کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں۔ اولاد، مال و اسباب اور غمی خوشی، زندگی موت ہر چیز اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی دوا میں شفا ہوتی ہے۔ شفا اگر ہونی ہے تو اللہ کے حکم سے ہونی ہے۔ اولاد دینی ہے تو اُسی نے دینی ہے۔

مجھے یاد ہے آپ باتیں کرتے جا رہے اور ساتھ ساتھ پڑیاں بنا رہے تھے۔ تمام دوائیاں آپ نے ۲  حصوں میں تقسیم کر کے ۲  لفافوں میں ڈالیں۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ میرا نام محمد علی ہے۔ آپ نے ایک لفافہ پر محمدعلی اور دوسرے پر بیگم محمدعلی لکھا۔ پھر دونوں لفافے ایک بڑے لفافہ میں ڈال کر دوائی استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ میں نے بے دلی سے دوائی لے لی کیونکہ میں تو صرف کچھ رقم آپ کو دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب دوائی لینے کے بعد میں نے پوچھا کتنے پیسے؟ آپ نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں نے زیادہ زور ڈالا، تو آپ نے کہا کہ آج کا کھاتہ بند ہو گیا ہے۔

میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ اسی دوران وہاں ایک اور آدمی آچکا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ کھاتہ بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے گھریلو اخراجات کے لیے جتنی رقم حکیم صاحب نے اللہ سے مانگی تھی وہ اللہ نے دے دی ہے۔ مزید رقم وہ نہیں لے سکتے۔ میں کچھ حیران ہوا اور کچھ دل میں شرمندہ ہوا کہ میرے کتنے گھٹیا خیالات تھے اور یہ سادہ سا حکیم کتنا عظیم انسان ہے۔ میں نے جب گھر جا کربیوی کو دوائیاں دکھائیں اور ساری بات بتائی تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا وہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے اور اُس کی دی ہوئی ادویات ہمارے من کی مراد پوری کرنے کا باعث بنیں گی۔ حکیم صاحب آج میرے گھر میں تین پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔

ہم میاں بیوی ہر وقت آپ کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی پاکستان چھٹی آیا۔ کار اِدھر روکی لیکن دکان کو بند پایا۔ میں کل دوپہر بھی آیا تھا۔ آپ کا مطب بند تھا۔ ایک آدمی پاس ہی کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے کہا کہ اگر آپ کو حکیم صاحب سے ملنا ہے تو آپ صبح ۹ بجے لازماً پہنچ جائیں ورنہ اُن کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اس لیے آج میں سویرے سویرے آپ کے پاس آگیا ہوں۔
محمدعلی نے کہا کہ جب ۱۵ سال قبل میں نے یہاں آپ کے مطب میں آپ کی چھوٹی سی بیٹی دیکھی تھی تو میں نے بتایا تھا کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنی بھانجی یاد آرہی ہے۔

حکیم صاحب ہمارا سارا خاندان انگلینڈ سیٹل ہو چکا ہے۔ صرف ہماری ایک بیوہ بہن اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہے۔ ہماری بھانجی کی شادی اس ماہ کی ۲۱ تاریخ کو ہونا تھی۔ اس بھانجی کی شادی کا سارا خرچ میں نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ ۱۰ دن قبل اسی کار میں اسے میں نے لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجا کہ شادی کے لیے اپنی مرضی کی جو چیز چاہے خرید لے۔ اسے لاہور جاتے ہی بخار ہوگیا لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا۔ بخار کی گولیاں ڈسپرین وغیرہ کھاتی اور بازاروں میں پھرتی رہی۔ انارکلی میں پھرتے پھرتے اچانک بے ہوش ہو کر گری۔ وہاں سے اسے میوہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کو ۱۰۶ ڈگری بخار ہے اور یہ گردن توڑ بخار ہے۔ وہ بے ہوشی کے عالم ہی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی۔

اُس کے فوت ہوتے ہی نجانے کیوں مجھے اور میری بیوی کو آپ کی بیٹی کا خیال آیا۔ ہم میاں بیوی نے اور ہماری تمام فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی بھانجی کا تمام جہیز کا سامان آپ کے ہاں پہنچا دیں گے۔ شادی جلد ہو تو اس کا بندوبست خود کریں گے اور اگر ابھی کچھ دیر ہے تو تمام اخراجات کے لیے رقم آپ کو نقد پہنچا دیں گے۔ آپ نے ناں نہیں کرنی۔ آپ اپنا گھر دکھا دیں تاکہ سامان کا ٹرک وہاں پہنچایا جا سکے۔

حکیم صاحب حیران و پریشان یوں گویا ہوئے ’’محمدعلی صاحب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا، میرا اتنا دماغ نہیں ہے۔ میں نے تو آج صبح جب بیوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چِٹ یہاں آ کر کھول کر دیکھی تو مرچ مسالہ کے بعد جب میں نے یہ الفاظ پڑھے ’’بیٹی کے جہیز کا سامان‘‘ تو آپ کو معلوم ہے میں نے کیا لکھا۔ آپ خود یہ چِٹ ذرا دیکھیں۔ محمدعلی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’’بیٹی کے جہیز‘‘ کے سامنے لکھا ہوا تھا ’’یہ کام اللہ کا ہے، اللہ جانے۔‘‘

محمد علی صاحب یقین کریں، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے چِٹ پر چیز لکھی ہو اور مولا نے اُس کا اسی دن بندوبست نہ کردیا ہو۔ واہ مولا واہ۔ تو عظیم ہے تو کریم ہے۔ آپ کی بھانجی کی وفات کا صدمہ ہے لیکن اُس کی قدرت پر حیران ہوں کہ وہ کس طرح اپنے معجزے دکھاتا ہے۔

حکیم صاحب نے کہا جب سے ہوش سنبھالا ایک ہی سبق پڑھا کہ صبح ورد کرنا ہے ’’رازق، رازق، تو ہی رازق‘‘ اور شام کو ’’شکر، شکر مولا تیرا شکر۔‘‘

محمدسکندرجیلانی

Thursday 15 September 2016

تب اور اب

تب ابا کماتے تھے سب کھاتے تھے،
اب سبھی کماتے ہیں سبھی کھاتے ہیں،
تب تھوڑا تھا لیکن پتا نہیں کیسے سب پورا ہو جاتا تھا کبھی کچھ کم نہیں ہوا تھا۔

اب زیادہ ہے اور بہت سارا ہے،
پھر  بھی  کچھ   خسارہ  ہے،
بس اب وہ برکت نہیں
وہ ذائقہ نہیں
وہ خوشبو نہیں
وہ تھوڑا تھوڑا سارا نہیں
اب جانے کیوں گزارہ نہیں۔

از خود راشد ادریس رانا
قلم نا تواں
14 ستمبر 2916

Monday 22 August 2016

درست ہے یہ بات

درست ہے یہ بات کہ

چھوٹے گھروں میں زیادہ جگہ ہوتی ہے۔
ہنڈیا میں پڑوسی کا بھی حصہ ہوتا ہے۔
محلے کی بیٹاں سب کی اپنی بیٹیاں ہوتی ہے۔
شراکت جائیداد میں نہیں بلکہ خوشی غمی میں ہوتی ہے۔

بس یہ سب چھوٹے گھروں اور چھوٹے محلوں میں ہی ہوتا ہے۔

ازخود راشد ادریس رانا
20 آگست 2016

Wednesday 27 July 2016

معاشرہ ہم خود ہیں

ناک کی سیدھ میں سڑک پے پاگلوں کی طرح چلتے  چلتے جب میں بڑبڑانے لگا تو راہ گیر بھی سمجھے شاید میں کوئی مجنوں ہوں۔
اچانک مجھے ہوش آیا اور اپنے اندر کے دیوانے کے لفظوں پہ غور کرنے لگا
جو بار بار مجھے کہہ رہا تھا

اے ابن آدم !!!! معاشرئے ، برادری اور رشتے داروں میں "ناک" اونچی رکھنے کے لیئے تو کتنا گرتا جا رہا ہے؟؟؟؟؟؟؟
اٹھ کھڑا ہو اور اپنے آپ کو پہچان لے اس سے پہلے کے مال کی بجائے اعمال کا حساب دینا پڑ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از: راشد ادریس رانا (معاشرہ ہم خود ہیں) 28-07-2015

Wednesday 25 May 2016

مرحبا ماہ صیام 2016

ہیییییییں جی، ساری دنیا میں غیر مسلمان رمضان المبارک کا احترام کرتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں۔
امارات میں میرے ساتھ ایک کٹر ہندو تھا، وہ اور میں اکھٹے آتے جاتے تھے، گرمی شدید ہوا کرتی تھی، اور گرمی سے اسکے ہونٹ خشک ہو جاتے تھے لیکن بیچارہ پانی کی بوتل ساتھ تک نہیں رکھتا تھا، میں نے کہا کہ یار تم رکھ لو گرمی ہے پی لینا لیکن اس کا ایک ہی جواب ہوتا تھا، نہیں تم فاسٹنگ سے ہو، میں تمہارے سامنے ایسا نہیں کروں گا۔ میں آج تک اس کے ظرف اور احترام سے متاثر ہوں۔

ہم یعنی کہ ہم پاکستانی، پاکستان میں رمضان میں وہ کچھ کرتے ہیں جو باقی مہینوں میں بھی نا کیا ہو۔

ماہ مقدس شروع ہونے سے پہلے ہی ہر امیر و غریب ٹوپی پہنے تیار ہے دوسرے کو ٹوپی پہنانے کے لیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اورہر کوئی روزہ رکھ کے ایسا خونخوار ہو جاتا ہے جیسے روزہ اس نے ساری دنیا کے لیے رکھا ہوا ہے۔

اللہ پاک ہمیں درست معنوں میں احترام رمضان اور اس مقدس مہینے کا پورا فائدہ اٹھانے کی توفیق دے، بے شک جسے اللہ چاہے اپنی رحمتوں سے مالا مال کرئے۔
آمین

از خود راشد ادریس رانا قلم بے لگام
25 مئی 2016