Thursday 22 September 2016

لال کاپی

گھر میں داخل ہوتے ہی میری پہلی نظر چاچا انور پہ پڑی اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا۔

مجھے گلاسگو آئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ گھر سے دوری کا احساس شدید تھا اور سکاٹ لینڈ کی سردی اداسی کو مزید گہرا کر دیتی تھی۔ ایک نووارد طالبعلم کیلیے سستی رہائش ایک شدید مسلئہ ہوتی ہے اور میرا بھی یہ تیسرا گھر تھا۔ گھر میں چاچا عمر میں سب سے بڑا تھا اور میں سب سے چھوٹا۔ اسکے باوجود چاچے اور میری دوستی ہو گئی۔ چاچا کسی ہوٹل پر دن بھر برتن دھوتا تھا۔ اور پھر گھر آ کر یا تو پاکستان کچھ دیر فون کر لیتا تھا یا پھر گانے سنتا اور سگریٹ پھونکتا۔ بلاضرورت باہر جاتے اسے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔

چاچے کو جب پتہ چلا کہ میں یونیورسٹی میں ماسٹرز کر رہا ہوں تو چاچے نے خوامخواہ میرا احترام بھی شروع کر دیا۔ چاچا عام اجڈ لوگوں کے طرح مجھے “تو”کے بجائے “تسی” کہ کر مخاطب کرتا اور کبھی کبھی اپنے ساتھ میرے لیے بھی روٹی بنا دیتا کہ “پیٹہ بریڈ” کھا کھا کر میں سوکھتا جاتا تھا۔ میں جب یونیورسٹی یا جاب سے واپس آتا تو چاچا بڑے پیار سے دو کپ چائے بناتا اور میرے ساتھ باتیں کرتا۔ سگریٹ کے دھویں،انگلش ٹی کے بجائے چولہے کی چائے اور چاچے کی باتیں، مل کر کچھ دیر کو بھلا دیتیں کہ میں اپنے لاہور سے دور ہوں۔

گفتگو کے ان ہی ادوار میں کھلا کہ چاچا فوجی تھا۔ “فوجی” یو کے کے امیگرینٹس کی عام زبان میں اسے کہتے ہیں جو ابھی پکّا نہ ہوا ہو۔ یعنی غیر قانونی رہ رہا ہو۔ چاچے نے بتایا کہ سترہ سال سے وہ یہاں رہ رہا تھا اور کوئی کیس ڈال رکھا تھا جو اپیل میں چل رہا تھا۔ کہنے لگا پتر اب تو لال کاپی لے کر ہی جانا ہے۔ “لال کاپی” برٹش پاسپورٹ کا ایک معروف نام تھا امیگرینٹس میں۔ چاچا بتاتا کہ جب وہ آیا تو “شی جوان” تھا۔ شادی کو ابھی پانچ ہی سال ہوے تھے اور تین بچے تھے۔ باقی چاچے کی کہانی وہی تھی جو اکثر سنہری مستقبل کی تلاش میں نکلنے والوں کی ہوتی ہے۔ بڑا بیٹا، غربت اور گھر کی ذمہ داریاں وغیرہ وغیرہ۔ ایجنٹ کو پیسے دیئے اور ملکوں ملکوں پھرتا، چاچا گلاسگو آن پہنچا۔ چاچے نے بھی اتنی ہی مشکل زندگی گزاری جتنی ایسے حالات میں ہوتی ہے۔ مگر پھر وہ اطمینان بھرے چہرے سے کہتا، شکر ہے ذمہ داریاں ادا ہو گئیں۔ گھر والوں کی غربت دور ہو گئی۔

ایک بار میں نے پوچھا کبھی واپس جانے کا دل نہیں چاہا؟ بولا دو دفعہ۔ ایک تو تین سال پہلے بیٹی کی شادی کی تو بہت دل چاہتا تھا۔ پر پھر دل کو سمجھایا کہ میں چلا گیا تو چھوٹے بیٹے کی فیسیں کون دے گا، بچی کے کل کلاں کے خرچے کون پورے کرے گا۔ بس پتر یہ ملک مِٹھی جیل ہے، نہ رہنے دیتا ہے نہ جانے۔ اور دوسری دفعہ؟ چاچے نے سگریٹ سلگایا اور نتنوں سے دھواں نکالا۔ “ماں اپنے آخری دنوں میں بہت یاد کرتی تھی۔ کہتی تھی ہورے تو میرا منہ بھی دیکھے گا”۔ چاچے کی آواز کانپتی تھی۔ “ان دنوں دل چاہا کہ لوٹ جاؤں پر پھر اچانک اک دن وہ مر گئی۔ نہیں جا سکا” میں نے چاچے کی آنکھوں میں نمی تیرتی دیکھی تو فورا موضوع بدل دیا۔ میں خود ماں سے پہلی دفعہ بچھڑا تھا، مجھے ڈر تھا میں تو دھاڑیں مار مار کر رو دوں گا۔

ایک دن چاچے نے بتایا کہ اگلے ہفتے اسکی اپیل کی تاریخ ہے۔ بولا پتر دعا کر کاپی مل جائے۔ میں نے ماں کا منہ نہی دیکھا، بیٹی کو ودیا نہیں کیا، بچوں کی کوئی خوشی نہیں دیکھ سکا۔ تیری چاچی جوان چھوڑ کے آیا تھا، اب تو بڈھی لگتی ہے۔ اب کاپی کے بغیر جانا نہیں بنتا۔ اور پھر چاچا واقعی اپیل جیت گیا۔ اس دن وہ اس سِکھ کی طرح لگتا تھا جو وساکھی کے میلے میں شراب پی کر ناچتا ہو اور اسے کوئی پروا نہ ہو کہ لوگ ہنستے ہیں۔ اب چاچے کی باتیں مختلف تھیں۔ وہ پروگرام بناتا رہتا تھا کہ پاکستان جائے گا تو کیا کرے گا۔ کبھی مجھ سے پوچھتا تھا کہ پاکستان کون سے کپڑے پہن کر جاؤں کہ پتہ لگے انگلینڈ سے آیا ہے تو کبھی پوچھتا تھا کہ ایئرلائن کون سی مناسب رہے گی۔ ایک دن میں نے پوچھا باقی سب کے تو تحفے سوچتے رہتے ہو، چاچی کیلیے کیا لیجانا ہے۔ اس پر چاچے نے عجیب بات کی۔ بولا “پتر اس کیلیے لال کاپی لے کر جاؤں گا اور کہوں گا، یہ لے، یہ ہی تیری جوانی کھا گیا”

آخر ایک دن پاسپورٹ بھی مل ہی گیا۔ چاچا چپ بیٹھا لال کاپی پہ ہاتھ پھیرتا تھا اور اسکے آنسو ٹپ ٹپ گرتے تھے۔ چاچے نے اگلا سانس لینے سے پہلے ٹکٹ بک کرائی اور واپسی کی تیاری زور شور سے شروع ہو گئی۔ اس میں شور پاکستان سے آئی فرمائشوں کا تھا اور زور چاچے کا۔ چاچے نے کچھ عرصے سے ہفتہ وار چھٹی بھی بند کر دی تھی تاکہ اور زیادہ پیسے جمع ہوں کہ لسٹ روز لمبی ہو جاتی تھی۔

چاچے کے جانے سے تین دن قبل چاچا کام پہ برتن دھوتے ہوے اچانک زمین پہ گرا اور پھر کبھی نہ اٹھا۔ دو دن بعد جب اسکی لاش ہمیں ملی تو ہم نے جنازے کا اہتمام کیا۔ کسی نے پاکستان اطلاع کر دی تھی اور چاچے کا خاندان سترہ اٹھارہ برس بعد اسکا آخری دیدار کرنے کا منتظر تھا۔ کچھ جاننے والوں نے چاچے کا جنازہ پڑھا اور اسکی محبتیں یاد کر کے آبدیدہ ہوتے رہے۔ لاش جب باکس میں رکھی گئی تو میں نے چاچے کو آخری بار خُداحافِظ کہا اور چپکے سے لال کاپی اسکے کفن میں رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔

راقم انعام رانا۔

No comments:

Post a Comment