Sunday 31 January 2016

بظاہر خوشیوں بھری زندگی

ایسی ہوئی آساں زندگی
کہ سانسیں مشکل ہو گئیں
میرے نصیب کی خوشبوئیں
کسی دور جزیرے کے اس پار
مجھ سے خفاء جو ہو گئیں
تو وہیں پہ جا کے بس گئیں
مصیبتوں کو ہے پیار بہت
میری رگ و جاں سے اسقدر
جو ایک بار شامل ہوئیں
میری پور پور میں بس گئیں.
جو بہاریں ملیں مجھے
ملی سانپ بن کے اسطرح
میری روح تک کو ڈس گئیں.

از: راشد ادریس رانا
بظاہر خوشیوں بھری زندگی

Tuesday 12 January 2016

رشتےکی پہچان اور قدر

As received from a friend.

ایک شخص اپنی گاڑی دھو رہا تھا گاڑی بالکل نئی تھی چند دن پہلے خریدی گئی تھی۔اس کا چار سالہ بیٹا آیا اور پتھر اٹھا کر گاڑی پر اسکریچ ڈالنے شروع کر دیے یہ دیکھ کر وہ شخص غصے سے پاگل ہو گیا اس نے اپنے چار سالہ بچے کا ہاتھ پکڑا اور اس پر کئی ضربیں لگائیں وہ شخص یہ بھول گیا کہ اس کے ہاتھ میں نٹ کھولنے والا رینچ ہے اس نے رینچ سے اپنے چار سال بیٹے کے ہاتھ پر ضربیں لگائیں۔۔
بچے کو ہسپتال لے جایا گیا اور بہت زیادہ فریکچرز کی بنا پر بچے کے زخمی ہاتھ کی تمام انگلیاں کاٹنی پڑیں.. جب بچے ک...و ہوش آیا اس نے اپنے باپ کو دیکھا تو آواز اور آنکھوں میں درد لیے فوراً اپنے باپ سے پوچھا.. "بابا! میری انگلیاں کب واپس آئیں گی؟"
باپ کے پاس اس بچے کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا وہ افسردہ ہوا اور خاموش رہا۔وہ گھر آیا اور غصے میں اپنی کار کو ٹانگوں سے ضربیں لگانے لگا۔تھک ہار کر وہ کار کے پاس بیٹھ گیا اس وقت اس کی نظر ان سکریچ پر پڑی جو اس کے چار سالہ بیٹے نے پتھر سے لگائے تھے وہ سکریچ نہیں تھے اس نے پتھر سے گاڑی پر ایک فقرہ لکھا تھا.."
LOVE YOU PAPA(I love my dad)
اگلے دن اس شخص نے دل برداشتہ ہوکر خودکشی کر لی.. غصے اور پیار کی کوئی حد نہیں ہوتی یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ خوبصورت زندگی گزارنے کے لیے ان دونوں میں سے کون سا مناسب راستہ ہے۔۔پرانے وقتوں میں چیزیں استعمال کی جاتی تھیں اور انسانوں سے پیار کیا جاتا تھا ۔۔
ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ چیزوں سے پیار کیا جاتا ہے اور انسانوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر دن صبح کو گھر سے یہ خیال دماغ میں بٹھا کر نکلیں کہ چیزیں استعمال کرنے کے لیے ہیں اور انسان پیار کرنے کے لیے ہیں۔
یہی ایک راستہ ہے جس سے ہم اپنا اور دوسروں کا دن اچھا بنا سکتے ہیں۔۔اپنے خیالات کی حفاظت کریں یہ خیالات الفاظ بن جاتے ہیں اور الفاظ اعمال بن جاتے ہیں۔ اپنے اعمال کی حفاظت کریں یہ عادات بن جاتی ہیں۔۔اور اپنی عادتوں کی حفاظت کریں یہ کردار بن جاتی ہیں اور اپنے کردار کی حفاظت کریں یہ آپ کی قسمت آپ کا نصیب بن جاتا ہے.

Sunday 10 January 2016

تقدیر نوں سدھا

رستہ پچھ ضمیر نوں سدھا
جہڑا انت اخیر نوں سدھا

جیون کڈا بھولا پنچھی
اڈدا جاوے تیر نوں سدھا

چاہئیے وی تے کر نئیں سکدے
ہتھ دی اک لکیر نوں سدھا

بھکھ نہ ویکھے لہو دے لیکھے
ویر ہو جاوے، ویر نوں سدھا

چور نوں پھڑیاں گل نئیں مکنی
پھڑ لئو رسہ گیر نوں سدھا

دھی نوں روندی ویکھ کے سوچاں 
ہو جاواں تقدیر نوں سدھا

Courtesy Majid Chaudhry FB.

Friday 8 January 2016

وچوں سب دا حال برابر

سورج ٹردا نال برابر
دن کیوں لگن سال برابر
وتھ تے سجنا وتھ ہوندی اے
بھاونویں ہووے وال برابر
اکھ دا چانن مر جاوے تے
نیلا، پیلا، لال برابر
جُلی منجی بھین نوں دے کے
ونڈ لئے ویراں مال برابر
مرشد جے نہ راضی ہووے
مجرا ، ناچ، دھمال برابر
اتوں اتوں پردے پاون
وچوں سب دا حال برابر

Thanks Majid Chudary FB.

Monday 4 January 2016

جج اور مرغی


ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭﮐﮩﺎ:
ﺍس ﮐﻮ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭ.
ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﻣﺮﻏﯽ ﺭﮐﮫ ﺟﺎئو ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬﺎ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﺑﻌﺪ لے جانا، ﺳﺐ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺎ.
ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺟﺞ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ:
ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﺠﮭﮯ دے ﺩو.
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯽ ﻧﮩﯿﮟ.
ﺟﺞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﯾﮩﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ اور ﻣﺎﻟﮏ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﺎ کہ ﻭﮦ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ.
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ ﮐوئ ﻓﺎﺋﺪﮦ نہیں کیونکہ جسکی یہ مرغی ہے وہ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩے گیا ﺗﮭﺎ اور ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌﮮ ﮔﯽ؟
ﺟﺞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﻨﻮ ﺑﺲ ﯾﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭ اور ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮐﮩنا ﮐﮧ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ، ﻭﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯿﺲ کرنے ﮐﮯ ﻟیئے ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ.
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﺍلله ﭘﺮﺩﮦ ﺭﮐﮭﮯ، ﺟﺞ ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ:
ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ! ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ؟
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌﮔﺌﯽ.
ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ بولا :
ﮐﯿﺴﮯ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ تو اسے ﺧﻮﺩﺫ ﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺑﺎﺕ ﺗﻮﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﭼﻠﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ، ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ. ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯽ ﻟﮍ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﮯ اور ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮩﻮﺩﯼ. ﭼﮭﮍﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ لگ گئ ﺍﻭﺭ یہودی کی ﺁﻧﮑﮫ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ.
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ:
ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﺌﮯ. ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ ﺩﻭ ﮐﯿﺲ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ، ﻟﻮ ﮒ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺐ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨچے تو دوکاندار ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭼﮍ ﮪ گیا، ﻟﻮگوں نے ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟیئے ﻣﯿﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎ دی ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﯿﺎ. ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺞ ﮐﮯ ﭘﺎس ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ.
ﺟﺞ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﯽ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﺍ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺮﻏﯽ ﯾﺎﺩ ﺁگئ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺩﻭ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ. ﺟﺐ ﺟﺞ ﮐﻮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ:
ﭼﻠﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ. ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ.
ﺟﺞ :
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﮨﮯ؟
ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ:
ﺟﺞ ﺻﺎﺣﺐ! ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﭼﺮﺍﺋﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ مرغی ﺫﺑﺢ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ لیکن ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ. ﺟﺞ ﺻﺎﺣﺐ! ﻣﺮﺩﮦ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟؟
ﺟﺞ:
ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍلله تعالى ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﻣﺮﻏﯽ كا مالك:
ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ!
ﺟﺞ:
ﮐﯿﺎ ﺍلله تعالى ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ... ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨے؟؟؟
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ کا مالک ﭼﻼ ﮔﯿﺎ.
ﺟﺞ:
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺪﻋﯽ ﮐﻮ پیش کیا جائے.
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﺟﺞ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯼ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮﮔﺌﯽ. ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ.
ﺟﺞ ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ:
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﯾﺖ ﻧﺼﻒ ﮨﮯ. ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﻭﺳﺮی ﺁﻧﮑﮫ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﭘﮭﻮﮌ دینا.
ﯾﮩﻮﺩی:
جج صاحب ﺭﮨﻨﮯ ﺩیں، ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﯿﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮں.
ﺟﺞ :
ﺗﯿﺴﺮﺍ ﮐﯿﺲ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ:
ﺟﺞ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﯿﺎ.
ﺟﺞ نے کچھ دیر ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮩﺎ:
ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﺟﺎئو ﺳﺐ ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎدو.
ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﺟﺞ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮐﺮﻣﺮﺟﺎئوں ﮔﺎ.
ﺟﺞ :
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﭖ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ؟

ﻧﺘﯿﺠﮧ :
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﺮﻏﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﺩﯾﻨﯽ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻮ ﺟﺞ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﭨﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﻝ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻣﻨﯽ ﻻﻧﮉﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﺁﯾﺎﻥ ﻋﻠﯽ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻻ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ..!!!
ﯾﮩﯽ ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﺎ ﺣﺴﻦ ﮨﮯ، عدالت میں انصاف منطق کے زور سے کیا جاتاہے جو نظر آتا ہے...Copied

Friday 1 January 2016

نیا سال پرانا سال

پاگل ہی لگتا ہے بندہ,
نیا سال,  پرانا سال کرتا
سب سال ہمارے لیے ہیں بس
دعا یہ ہونی چاہیے کہ ہم بھی
ان سالوں کے لیے ہوں. ویسے
تو ہر لمحہ آخری سمجھ
کر گزارنا چاہیے, لیکن
ہر آنے والے لمحے کی
امید بھی دل میں ہونی چاہیے.

اللہ پاک ہمیں ہر حال میں شکر ادا
کرنے والا بنائے. آمین

از: راشد ادریس رانا.
Take a look at @RashidIRana's Tweet: https://twitter.com/RashidIRana/status/682657489116987392?s=09