Thursday, 17 May 2012

کاش کہ ایسی قیادت مل جائے!!!!




اونٹنی پر دو تھیلے تھے‘ ایک میں ستو تھے‘ دوسرے میں کھجوریں۔ سامنے پانی سے بھرا مشکیزہ تھا اور پیچھے ایک برتن۔ مسلمانوں کی ایک جماعت ساتھ تھی‘ روزانہ صبح آپ برتن بیچ میں رکھ دیتے اور سب آپکے ساتھ کھانا کھاتے۔ پیشانی سے اوپر کا حصہ دھوپ میں چمک رہا تھا‘ سر پر ٹوپی تھی‘ نہ عمامہ‘ اونٹ کی پیٹھ پر اونی کمبل تھا جو قیام کی حالت میں بستر کا کام بھی دیتا تھا۔ خورجین میں کھجور کی چھال بھری تھی‘ اسے ضرورت کے وقت تکیہ بنا لیا جاتا تھا۔ نمدے کا بوسیدہ کُرتا پہنے تھے اس میں چودہ پیوند تھے اور پہلو سے پھٹا ہوا تھا۔
یہ تھی وہ حالت جس میں عمر فاروق اعظم بیت المقدس میں داخل ہوئے جہاں مخالفین ہتھیار ڈال چکے تھے اور اب وہ معاہدہ کرنے آئے تھے جس کی رو سے یہ عظیم الشان شہر مسلمانوں کی سلطنت میں شامل ہونا تھا۔
آپ نے مفتوح قوم کے سردار کو بلایا‘ اس کا نام جلومس تھا‘ ارشاد فرمایا‘ میرا کرتا دھو کر سی لاﺅ اور مجھے تھوڑی دیر کیلئے کوئی کپڑا یا قمیص دے دو۔

جلومس نے عرض کیا‘ ”آپ عرب کے بادشاہ ہیں‘ اس ملک میں آپ کا اونٹ پر جانا زیب نہیں دیتا‘ اگر آپ دوسرا لباس پہن لیں اور ترکی گھوڑے پر سوار ہو جائیں تو رومیوں کی نگاہ میں عظمت بڑھے گی۔“ جواب دیا۔ ”خدا نے ہمیں جو عزت دی ہے‘ اسلام کی وجہ سے ہے‘ اسکے سوا ہمیں کچھ نہیں چاہیے“۔


ابن کثیر نے طارق بن شہاب کی ایک روایت بھی نقل کی ہے‘ ان کا بیان ہے‘ ”جب حضرت عمر شام پہنچے تو ایک جگہ رستے میں پانی رکاوٹ بن گیا۔ آپ اونٹنی سے اترے‘ موزے اتار کر ہاتھ میں لئے اور اونٹنی کو ساتھ لے کر پانی میں اتر گئے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا‘ آپ نے آج وہ کام کیا جس کی اہل زمین کے نزدیک بڑی عظمت ہے۔ فاروق اعظم نے انکے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا‘ ”ابوعبیدہؓ! کوئی اور کہتا تو کہتا‘ یہ بات تمہارے کہنے کی نہ تھی۔ تم دنیا میں سب سے زیادہ حقیر‘ سب سے زیادہ ذلیل اور سب سے زیادہ قلیل تھے‘ اللہ نے تمہیں اسلام سے عزت دی‘ جب بھی تم اللہ کے سوا کسی سے عزت طلب کرو گے‘ اللہ تمہیں ذلیل کریگا۔“


لیکن لطیفہ یہ ہے کہ جب بھی ان ہستیوں کی مثال دی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو صحابہ تھے‘ یہ تو خلفائے راشدین تھے‘ یہ تو عمر بن عبدالعزیز تھے‘ تو پھر شان و شوکت پر مرنے والے لوگ کیا یہ چاہتے ہیں کہ ہم چنگیز خان اور قیصر یا کسریٰ کی مثالیں دیں؟ کیا ہم عیاش زندگی گزارنے والے ان کیڑے مکوڑوں کو ان بادشاہوں کا سبق پڑھائیں جو بات بات پر کھالیں کھنچواتے تھے؟ کیا ان کا آئیڈیل بنوامیہ کے وہ لالچی لوگ ہیں جنہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو زہر دے دیا تھا؟


امام ابوحنیفہ کپڑا دھو رہے تھے اور دھوئے جا رہے تھے۔ کسی نے پوچھا حضرت! آپ نے تو فقہ کے حساب سے فتویٰ دیا ہے کہ تین دفعہ دھونے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے‘ پھر مسلسل دھوئے جا رہے ہیں؟ فرمایا! وہ فتویٰ تھا‘ یہ تقویٰ ہے۔ لیڈر کے ایک ایک عمل سے سینکڑوں ہزاروں لاکھوں کروڑوں لوگوں کا طرز عمل متاثر ہوتا ہے ۔

No comments:

Post a Comment