Saturday 21 April 2012

ہوا سے بات کرنے دو : فاخرہ بتول



ہوا سے بات کرنے دو
ہمیں اس سے گلہ ہے جو،
اُسے بھی تو بتانا ہے
کبھی آ کر کواڑوں کو بجاتی ہے
ہمیں سوتے ہوئے اکثر جگاتی ہے
کبھی پردیس سے سندیسہ لاتی ہے کہ کوئی آنے والا ہے
مگر آتا نہیں کوئی۔۔۔۔۔
یہ پلکوں پر لرزتے سب چراغوں کو بُجھاتی ہے
کبھی یہ بانسری کے سُر جگاتی ہے
کبھی یہ دھڑکنوں کی تال میں رچ بس سی جاتی ہے
پرانے خشک پتوں کو گراتی ہے
پرندوں کو اُڑاتی ہے۔۔۔۔ انہیں بےگھر بناتی ہے
ہوا سے بات کرنے دو
سمندر کے یہ سینے پر اُتر کے کشتیاں دیکھو چلاتی ہے
یہ چاروں اور کیسی آتی جاتی ہے
یہ کیسے ساحلوں کی ریت کو دھیرے سے چھو کر نت نئے چہرے بناتی ہے
پھر ان کو خود مٹاتی ہے
یہ کیسے بادلوں کو پَر بِنا اُڑنا سکھاتی ہے
پھر اُن سے لے کے بوندیں آ کے دھرتی کو سجاتی ہے
نفس کے تار میں کیسے اُتر کر مسکراتی ہے
یہ کیسے گُنگناتی ہے
یہ کیسے چلتی ہے اور کس طرح سے تھم سی جاتی ہے
ہوا سے بات کرنے دو۔۔۔۔۔

1 comment: