Sunday 29 April 2012

دنیا نہیں جینے دیتی

جاڑے کا موسم تھا اور صبح صبح کا وقت وہ دونوں باپ بیٹا جلدی جلدی گھر سے باہر نکلے تاکہ جیسے تیسے کر کے  قریبی شہر میں اپنا سامان لیکر پہنچ جائیں اور رنگ برنگے لکڑی کے آرائشی سامان سے جو پیسے ان کو ملیں اس سے گھر کا نظام چل سکے۔

لیکن آج کچھ اور ہی ہونے والا تھا،

دونوں نے اپنا سامان اپنے اکلوتے گدھے پر رکھا اور ساتھ میں خود بھی سوار ہو گئے ، گھر سے نکلتے ہی ابھی کچھ دور چلے ہوں گے کہ ایک بڑھیا سویرے سویرے کسی کام سے گھر سے نکلی اور ان کو آتا دیکھ کر بولی کرمو!!! کچھ خدا کا خوف کھاو، کیوں بے زبان پر ظلم کر رہے ہو، کیا منہ دکھاو گے خدا کو!!!!

کرمو بہت پریشان ہوا، پوچھنے لگا !! بوا کیوں صبح صبح کوس رہی ہو کیا ہوا ایسا کیا کر دیا میں نے۔

بڑھیا نے غصے سے کہا، شرم کرو خود بھی گدھے پر بیٹھے ہو سامان بھی لادا ہوا ہے، کیا ہوا اگر یہ موا بے زبان ہے لیکن اس میں بھی تو جان ہے۔

اب کرمو کو وجہ سمجھ میں آئی تو بہت شرمندہ ہوا،

فوری طور پر گدھے سے اترا اور رسی پکڑ کر آگے آگے چلنے لگا۔

تھوڑی دور گئیے ہوں گے کہ دو دیہاتی ان کے پاس سے گزرے ،،،،،، تو گھور کر کرمو کے بیٹے کو دیکھا اور بولے کچھ حیا کرو بد بخت ماں باپ کی عزت کرنا سیکھو!!! اتنے ڈھیٹ بن کر خود گدھے پر سوار ہو اور بوڑھا باپ پیدل چل رہا ہے۔

وہ بہت گھبرایا اور گدھے سے اترا اور اپنے باپ کو کہا ابا آپ بیٹھ جائیں، کرمو! چاروناچار بیٹھ گیا، اگلے گاوں میں سے گزرتے ہوئے کچھ لوگ چوپال میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر ایک نے ہانک لگائی دیکھو بھائی پھر کہتے ہیں کہ اولاد ماں باپ کی عزت نہیں کرتی جب انہیں غلاموں کی طرح گھوڑے گدھے ہانکنے پہ لگاو گے تو کیا خاک بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔

یہ سننا تھا کہ کرمو کو پسینہ آ گیا، اس نے گدھے سے نیچے چھلانگ لگا دی اور اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ شہر میں داخل ہوئے تو کچھ منچلے نوجوان کھڑے تھے کہنے لگے یار دیکھو لوگوں کو خیال ہی نہیں ہے بے چارہ بے زبان سامان اٹھا کر چل رہا ہے اور یہ مزے سے آگے آگے چل رہے ہیں۔

اب دونوں باپ بیٹا بہت پریشان ہوئے، دونوں نے جلدی جلدی سے سامان کو آدھا آدھا تقسیم کیا اور اٹھا کر گدھے کے ساتھ ساتھ چلنے لگے،

تھوڑا ہی سفر طے کرکے جیسے ہی بازار میں داخل ہوئے لوگوں نے انہیں دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا اب تو بہت سٹپٹائے،

پوچھا بھائو! کیوں ہنس رہے ہوتو ایک بندے نے ہنسی سے بے حال ہوتے ہوئے کہا، اوئے تم سے زیادہ بھی کوئی بیواقوف کوئی ہو گا، سواری ہے لیکن پاگلوں کی طرح سامان اٹھا کر چلے آ رہےہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اب دونوں نے سامان نیچے رکھا اور بیٹھ گئے۔

سہی کسی نے کہا کہ دنیا کسی حال میں جینے نہیں دیتی۔


تحریرو انتخاب: راشد ادریس رانا
ایک سنی ہوئی کہاوت

2 comments:

  1. یہ کہانی ہمارے دادا جی سنایا کرتے تھے، کہ پتر یہ دنیا کسی حال میں جینے نہیں دیتی، تنقید کرنے والے ہمیشہ کوئی نہ کوئی وجہ نکالتے رہیں گے، تم اپنا نفع نقصان دیکھتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھو

    ReplyDelete
  2. یه پرانی لوک کهانی هے
    جن مین اخر پر باپ بیٹا
    گدھے کو اٹھا لیتے هیں
    جس پر بہت هاسا پڑتا ہے اور
    پھر گدھے کو پل سے نیچے هی پھنیک دینے تک کهانی چلتی هے

    ReplyDelete