Sunday 1 April 2012

تنہا سا گیا ہے

منور چشتی
اٹھ کر تیری محفل سے جو تنہا سا گیا ہے
دستور محلات کو ٹھکرا سا گیا ہے

حالات کی یخ بستہ روایت بدل کر

ٹھٹرتے ہوئے ماحول کو سلگا سا گیا ہے

گزری ہے تیرے بعد کچھ اس طرح‌ہر ایک شب

ہر لمحہ تری یاد کو دہرا سا گیا ہے

راستے میں اگر تھا بھی تو چشم زہر آب

منزل کی طرف جو بھی گیا پیاسا گیا ہے

الجھے ہیں تیری زلف گرہ گیر میں جب سے

تقدیر کا ہر راستہ بل کھا سا گیا ہے

لوٹے ہیں تو وہ گرد مسافت ہے بدن پر

آئنیہ ہمیں دیکھ کر دھندلا سا گیا ہے

No comments:

Post a Comment