Sunday, 22 May 2011

حبس کے موسموں کے پرندے:::مستنصر حسین تارڑ کاکالم ہزار داستان

ایک کہاوت ہے کہ حبس کے موسموں میں پرندے مرجاتے ہیں لیکن ہم کیسے پرندے ہیں کہ جب سے آنکھ کھولی ہے تب سے نہ بہار آئی ہے ،نہ گل کھلے ہیں اورنہ ان سے ملے ہیں بس حبس کے موسموں کی بادشاہت ہے اورہم منہ کھولے مٹھی بھرہوا کی آس میں بمشکل زندہ ہیں جانے ہم مرکیوں نہیں گئے کبھی کبھارہوا کاایک جھونکا آتاہے توہم جی اٹھتے ہیں چونچیں کھول کرچہچہانے لگتے ہیں کہ بالآخر حبس کے موسموں کاخاتمہ ہورہاہے جمہوریت کادور شروع ہورہاہے عوام الناس نے بہار کے حق میں ووٹ دیاہے الیکشن میں کامیاب ہونے والی تمام سیاسی پارٹیاں ایک ہی پلیٹ فارم پرجمع ہوگئی ہیں ان کاآپس میں کوئی قابل ذکر اختلاف نہیں ،اوراتفاق ہے توپاکستان کے بہتر مستقبل پر ،ایک ایسے جمہوری نظام پرجس میں راج کرے گی خلق خدا مری ڈیکلریشن میں آتاہے تولوگوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں تیس دن کے اندراندر عدلیہ بحال کی جارہی ہے قدم سے قدم ملا کرچلیں گے سب بھائی بھائی ہیں اور الطاف حسین توپہلے سے ہی بھائی ہیں ہرجانب مسکراہٹیں ہیں اورپھر یہ مسکراہٹیں پھیکی پڑنے لگتی ہیں تعلقات جن میں گرمی کی شدت تھی اب سرد ہوکرمنجمد ہونے لگتے ہیں حکومت کی جانب سے اگرچہ اعلان ہورہے ہیں کہ کولیشن قائم کیے جارہے ہیں ن لیگ کے وزراء پھرچلے جاتے ہیں اورآپ انہیں موردالزام بھی نہیں ٹھہرا سکتے کہ وہ ججوں کی بحالی کے مسئلے پرالیکشن جیتے ہیں اورحلف اٹھائے ہیں اور قوم سے وعدہ بھی کیاگیاتھا کہ تیس دن کے اندر اندر عدلیہ بحال ہوجائے گی تووہ کس منہ سے حکومت میں بیٹھے رہتے اب کس آئینی پیکج کی بات ہورہی ہے کہ بس آپ جلد ہی ایک خوشخبری سنیں گے اورجب خوشخبری آتی ہے تومزیدمہنگائی اورپٹرول کی قیمتوں میں ایک ظالمانہ اضافے کی صورت میں آتی ہے۔ میں صبح کی سیرکے فوراً بعد ایک مارکیٹ سے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء پھل اورسبزی وغیرہ خریدتا ہوں ڈبل روٹی،مکھن دہی اورگوشت وغیرہ خریدتاہوں اوردوسرے تیسرے روز مجھے اپنے بجٹ میں اسی خریداری کیلئے کم ازکم دوسوروپے کااضافہ کرناپڑتاہے حالانکہ بہت احتیاط برتتاہوں ، پھل خریدتے ہوئے کیلے ایک درجن کی بجائے صرف نصف درجن اورسیب یاآڑو بھی ایک کلوسے کم کرکے نصف کلو کردیتاہوں اوراس کے باوجود بجٹ پورانہیں پڑتا۔ چنانچہ اب روزانہ پھل نہیں خریدتا دہی کے بغیر گزارہ کر لیتاہوں اور سوچتا ہوں کہ گھریلو ملازم اس دور میں کیسے زندہ رہ رہے ہیں ادھر وہ حضرات جو پچھلے آٹھ برس سے سیاہ وسفید کے مالک تھے وہ بھی پر پرزے نکال رہے ہیں ،عوام کی ہمدردی میں آنسو بہاتے بیان دیتے ہیں کہ حکومت کے سودن پورے ہوگئے ہیں تو ابھی تک آٹے کے بحران پرقابو کیوں نہیں پایاگیا حالانکہ آج کے بیشتر بحران جن میں لوڈشیڈنگ بھی شامل ہے موجودہ حکومت کوورثے میں ملے ہیں اگرچہ یہ بھی اس ورثے کوگلے لگائے بیٹھے ہیں اس کے بارے میں کچھ کرتے نہیں ادھر اپنے شیخ رشید صاحب ایک نئی پارٹی تشکیل دے کرملک وقوم پر احسان کررہے ہیں الیکشن میں بری طرح شکست کھانے کے بعد وہ گھرنہیں بیٹھ گئے بلکہ قوم کومزیدمشورے دینے کیلئے میدان میں آگئے سب سے زیادہ رنج پاکستان کے مقبول ترین صدرکے بیانات پرہوتاہے وہ اپنے قصرصدارت میں آرام سے گوشہ نشین ہیں اورقوم کادکھ برابر محسوس کررہے ہیں شکایت کرتے ہیں کہ حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ،مہنگائی پرقابو کیوں نہیں پایا جارہا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سوال اگر وہ اپنے پتلی وزیراعظم سے کرتے تو کوئی بات بھی تھی جوالیکشنوں کے فوراً بعد یوں غائب ہوتے ہیں جیسے ایک جانورکے سرسے سینگ۔ آٹھ برس تک راج انہوں نے کیااورپھرمزے سے بوریابستر سنبھالا کہ بھئی ہم توحلوہ کھانے آئے تھے وہ جی بھر کے کھالیا اوراب خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں اورغائب۔ ادھرالیکشن کے فوراً بعد ہمیں مسلسل یہ خوشخبری سنائی جارہی تھی کہ آئندہ تمام فیصلے پارلیمنٹ کرے گی عوامی نمائندے کریں گے۔ لیکن یہ کیاکہ وہی پارلیمنٹ ہمیں کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہی اورفیصلے ہوتے چلے جارہے ہیں یہ فیصلے کون کرتاہے اس کے بارے میں عوام کوکچھ علم نہیں اگر سرحد میں یاوزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کافیصلہ ہوتا ہے تو پارلیمنٹ بے چاری کوبھی اس کاعلم اگلے روز کے اخباروں سے ہوتاہے حالانکہ یہ ایک ایسامسئلہ تھا جس کے بارے میں پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی ہم کسی دشمن ملک پرتو حملہ کرنے نہیں جارہے کہ اس کافیصلہ خفیہ رکھاجائے اپنوں کے ساتھ کچھ اختلافات ہیں انہیں مل بیٹھ کرطے کرنا ہے اوراب ان دنوں تونہایت ہی مزاحیہ صورتحال سے دوچارہوگئے ہیں جی ہاں وہی نوٹیفکیشن کہ آئی ایس آئی اب وزیراعظم کی بجائے وزارت داخلہ کے تابع ہوگی اورابھی اس نوٹیفکیشن کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسے واپس لے لیاگیا کہ معاف کیجئے گا کچھ غلط فہمیاں پیداہونے کاخدشہ تھا اس لیے فی الحال اسے معطل سمجھئے ۔ اہل اقتدار بیان دے رہے تھے کہ یہ تبدیلی باہمی مشاورت سے عمل میں لائی گئی ہے اورملک وقوم کی بہتری کیلئے ہے اورادھرباوردی حضرات کانوں کوہاتھ لگارہے ہیں کہ جناب قسم لے لیجئے جوہم سے اس نوعیت کاکوئی مشورہ کیاگیاہو۔ صدرصاحب نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اورنوٹیفکیشن واپس۔
شطرنج کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بادشاہوں کاکھیل ہے اورواقعی بادشاہ اوربادشاہ گر شطرنج کی بساط بچھائے بیٹھے ہیں کوئی دبئی سے چال چل رہاہے کوئی لندن سے ،کوئی لاہورسے اورکوئی قصر صدارت سے اوروہ اس کھیل سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں اورپرندے حبس کے موسموں میں چونچیں کھولے تازہ ہوا کے ایک جھونکے کوترس رہے ہیں ان کے حلق سوکھ رہے ہیں اوروہ مرنے کوہیں شجرسے بدستور پیوستہ ہیں اورامیدبہار رکھ رہے ہیں لیکن کب تک۔ کیاشطرنج کے کھلاڑی تب ہوش میں آئیں گے جب ان کی بساط پرمردہ پرندے گرنے لگیں گے۔

No comments:

Post a Comment