Sunday, 22 May 2011

:::::شداد بن عاد:::::: بشکریہ تحریم __بلاگ

:::::شداد بن عاد:::::: بشکریہ تحریم (بلاگ)


إرم ذات العماد التي لم يخلق مثلها في البلاد

بعض مفسرین نے جزیرة العرب کے بیابانوں اور عدن کے صحرائوں میں شہر ارم کے بر آمد ہونے کى ایک دلچسپ داستان بیان کى ہے جس میں وہ اس شہر کى بلند و بالا عمارات اور سامان زینت وغیرہ کى بات کرتے ہیں_لیکن مذکورہ داستان واقعیت کى نسبت خواب یا افسانے سے زیادہ تعلق رکھتى ہے_
لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قوم عاد طاقتور قبائل پر مشتمل تھی،ان کے شہر ترقى یافتہ تھے اور جیسا کہ قرآن اشارہ کرتاہے،ان جیسے شہرپھر آباد نہیں ہوسکے_
بہت سى داستانیں شداد کى جو عاد کا بیٹا تھا،زبان زد عام ہیں اور تاریخ میں مرقوم ہیں_ یہاں تک کہ شداد کى بہشت اور اس کے باغات ضرب المثل کى شکل اختیار کر گئے ہیں_لیکن ان داستانوں کى حقیقت کچھ نہیں ہے،یہ محض افسانے ہیں_یہ ایسے افسانے ہیں کہ ان کى حقیقت پر بعد میں حاشیہ آرائی کر لى گئی_

آئیے پھر ایک افسانہ ہی سمجھ کر پڑھیئے

شداد بن عاد

نیلے بیکراں سمندر میں ایک چھوٹا سا جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ جہاز میں بہت سارے مسافروں کے علاوہ ایک عورت ایسی بھی تھی جس کی ہاںا بھی اسی وقت بچہ پیدا ہونےوالا تھا۔ پرسکون سمندر میں اچانک ہی لہریں اٹھنے لگیں اور ساتھ ہی ہوا بھی تیز ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوانے طوفان کا رخ اختیار کیا اور سمندر سے اٹھنے والی لہروں نے سے ٹکراٹکرا کر اسے ہچکولے کھانے پر پر مجبور کر دیا۔ سبھی مسافر حیران وپریشان سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک ہی موسم نے اپنا مزاج کیسے بدل لیا۔ طوفان بڑھتا جا رہا تھا اور مسافر زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے لیکن اللہ اتعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوا کے تیز جھکڑوںاور سمندر کی طاقتور موجوں نے جہاز کو توڑ کر ٹکڑوں میں بدل دیا۔ جن مسافروں کو تیرنا آتا تھا۔ وہ تیر کر اپنی جان بچانے کی جی توڑ کوشش کر رہے تھے ۔
وہ عورت جس کو بچہ پیدا ہونے والا تھا ، جہاز ڈوبنے کے خوف اور طوفان کی دہشت سے بے ہوش ہو چکی تھی اور جہاز کے ٹوٹے ہوئے ایک تختے پر پڑی ہوئی تھی او ریہ تختہ بے اتھاہ سمندر میں تیز لہروں کے سہارے بہتا چلا جا رہا تھا اور اسی حالت میں عورت کی یہاں بچہ پیدا ہوا اور ولادت کے اگلے ہی لمحے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ اس عورت کی روح قبض کرلی جائے۔ حکم کی تعمیل پلک جھپکنے سے قبل ہوئی اور وہ بچہ بے سروسامانی کی حالت میں اکیلا ہی تختے پر پڑا رہا اور وہ تختہ کئی دنوں بعد کنارے پر آلگا۔ کنارے پر موجود ایک مہتر نے جو یہ دل سوز نظارہ دیکھاتو لپک کر بچے کو اٹھا لیا۔ اور میت کو وہی قریب میں زمین کھو د کر دفن کر کے بچے کو اپنے ساتھ گھر لے آیا۔
مہتر جب بچہ لیکر گھر پہنچا تو بچے کو دیکھ کر اس کی بیوی بہت خوش ہوئی کیونکہ اس کی یہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ اور انہوںنے بچے کا نام شداد رکھا۔مہتر اور اس کی بیوی اس بچے کی لاڈو پیار سے پرورش کرنے لگے یہاں تک کہ وہ سات برس کا ہوگیا اتنی کم عمر میں شداد نہایت ہی ذہین ، عقل مند اور چالاک بھی تھا۔ ایک روز گاؤں کے باہر شداد بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک ہی شور اٹھا کہ بادشاہ کی سواری آرہی ہے۔ یہ سنتے ہی سارے بچے بادشاہ کے ڈر سے بھاگئے لیکن شداد وہی قریب کے ایک ٹیلے کی اڈے میں چھپ کر بادشاہ کی سواری اور شاہی لشکر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ یہاں تک کہ تمام لشکر گزر گیا اور بادشاہ کی سواری گزرنے کے بعد کچھ پیارے، گری پڑی ہوئی چیزوں کی خبر گیری کے واسطے لشکر کے پیچھے پیچھے آئے۔ ان پیادوں میں سے ایک پیادے نے راستے میں ایک پوٹلی پڑی ہوئی پائی۔ اس نے جب پوٹلی کو کھولکر دیکھا تو اس میں ایک سرمے دانی تھی۔ وہ پیادے اپنے ساتھیوں سے بولا۔
”میں نے سرمہ پایا ہے…. اگر تمہاری اجازت ہو تو میں اسے اپنی آنکھوں میں لگاؤں کیونکہ میری بنائی بھی کچھ کمزور ہو گئی ہے شاید اس سے کچھ فائدہ ہو جائے۔
اس کے ساتھیوں نے جواب دیا….اول تو راستے میں پڑی ہوئی چیز اٹھانا نہیں چاہئے۔ خیر اب تو نے اٹھا ہی لی ہے تو بغیر آزمائے ہوئے آنکھوں میں ہر گز مت لگانا کبھی فائدے کے اور نقصان نہ ہوجائے۔ پہلے کسی اور کی آنکھوں میں لگا کر دیکھ۔
یہ سنکر پیادے نے ادھر اُدھر دیکھا تو اسے شداد ایک ٹیلے کی اوٹ میں کھڑا نظر آیا۔ پیادے نے اسے بڑے پیار سے بلایا اور کہا۔ آبیٹا ! ہم تیری آنکھوں میں سرمہ لگادیں تاکہ تیری آنکھیں اچھی لگیں۔
شدادنے پیادے سے سرمے دانی اور سلائی لیکر اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ سرمہ لگاتے ہی شداد کے چودہ طبق روش ہوگئے اور اسے زمین کے اندر چھپے ہوئے تمام خزانے بالکل اسی طرح سے نظر آنے لگے جیسے صاف شفاف پانی میں چیزیں نظر آتی ہیں۔ شداد حد سے زیادہ چالاک تو تھا ہی لہٰذا اپنی چالاکی اور عقل مندی سے چلایا…. اے خانہ خراب ظالموں !…. تم نے میری آنکھیںپھوڑ دیں…. ہائے میں اندھا ہو گیا…. یہ میری آنکھ میں کیسا زہر لگوا دیا …. ہائے اب میں بادشاہ کے پاس جاکر فریاد کروں گا اور تم کو سزا دلواؤنگا ۔
پیادوں نے جو یہ سنا تو مارے خوف کے سرمہ وہیں چھوڑ ، گرتے پڑتے اپنی جان بچانے بھاگ کھڑے ہوئے اورشداد اپنی چالاکی اور پیادوں کی بزدلی پر خوب ہنسا اورسرمہ دانی لیکر اپنے گھر آگیا اور اپنے باپ سے ساراواقعہ بیان کر دیا ۔ مہتر اپنے بیٹے کی ہوشیاری سے بہت خوش ہوا اور بولا۔ ”رات کو جب سب لوگ سو جائیں گے تو ہم اپنے بھروسے کے مزدوروں کے ساتھ پھاؤڑے وغیرہ لیکر چلیں گے اور جہاں بھی تجھ کو خزانے نظر آئیں گے ہم وہاں سے کھود کر نکال لیںگے۔اور اپنے گدھوں اور خچروں پر لاد کر خزانہ لے آئیں گے۔ اس طرح شداد نے بہت سا مال و دولت اورجواہر اکٹھے کر لئے تھے۔ اور سب گاؤں والوں کو آئے دن دعوتیں کر کر کے اپنا ہم دردو رفیق بنا لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد شداد نے اس گاؤں کے سردار کو قتل کر کے اس کی جگہ پر خود سردار بن بیٹھا۔ ہوتے ہوتے یہ خبر دوسرے حاکموں اور فوجداروں کو پہنچی تو انہوںنے شداد کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر گزرنے ، شداد نے بھی اپنی ایک فوج تیار کر لی اور ان حاکموں فوجداروں سے مقابلہ کیا اور اپنی ذہانت اور بہادوری سے سب حاکموں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر دیا اور اس طرح سے بڑھتے بڑھتے شداد تمام روئے زمین کا بادشاہ بن بیٹھا اور سارے جہاں کے حاکم، امراءاور سردار اس کے مطیع وفرمابردار ہوئے۔
شداد نے بے پناہ خزانے جمع کرلئے تھے۔ اور اپنا لشکر اس قدر وسیع اور مضبوط بنا لیا تھا کہ چہار سو اسی کا حکم چلتا تھا۔ اپنی طاقت اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے شداد نے اپنی سلطنت کو کمال عروج بخشا تھا اور روئے زمین کے کسی انسان کو اتنی طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔ بہ پناہ خزانوں اور مال و دولت ، وسیع و عریض سلطنت ، عظیم الشان لاؤ لشکر اور اپنی ذہانت و طاقت کی وجہ سے شداد اب غرور اور تکبر میں مبتلا ہو گیاتھا اور اس نے دعویٰ خدائی کر ڈالا۔عالموں اور واعظوں نے اس ملعون کو پندو نصیحتیں کیں اور حق تعالیٰ کے خوف اور اس کی عبادت کی طرف رغبت دلانے کی بہت کوششیں کیں لیکن شداد کا کہنا تھا کہ دولت و حکومت جاہ ثروت، عزت وشہرت اور حشمت سب کچھ میرے پاس موجود ہے تو مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی خدا کی اطاعت کروں۔عالموں نے سمجھایا کہ یہ سب ملک و دولت فانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں جنت عطاکرینگے جو اس دنیا سے کروڑہا درجے بہتر ہوگی۔شداد نے پوچھا کہ اس جنت میں کیا خوبی ہے ؟تو عالموں نے جو کچھ بھی خوبیاں اور تعریفیں جنت الفردوس کی پڑھی اور سنیں تھیں وہ سب اس کے سامنے بیان کر دیں۔ عالموں کی باتیں سنکر شداد نے حقارت سے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ”مجھے اس جنت کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی مجھے وہ جنت چاہئے۔ کیونکہ مجھ میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ میں اس سے بھی اچھی جنت اس دنیا میں بنا سکتا ہوں“۔لہٰذا تمام عالموں واعظوں اور کو دکھلانے کی خاطر شدادنے اپنی جنت بنانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے معتبر سرداروں میں سے سو آدمیوں کا انتخاب کر کے انہیں جنت بنانے کے لئے نگراں مقرر کیا اور ہر ایک سردار کے ساتھ ہزار ہزار آدمی متعین کئے،زمین میں دفن تمام خزانے نکلوائے گئے اور معدنوں سے سونا چاندی نکلو ا کر ان کی گنگا جمنی انیٹیں تیار کروائیں اور کوہ عدن سے متصل ایک شہر مربع (چوکھٹے) کی شکل میں دس کوس لمبا ، دس کوس چوڑا اور چالیس کوس اونچامقام بنانے کا حکم دیا ۔ اس شہر کی بنیادیں اس قدر کھودیں گئیں کہ پانی کے قریب جا پہنچیں اور پھر ان بنیادوں کو سنگ سلیمانی سے بھروایا گیا جب بنیادیں زمین کے برابر ہو گئیں تو اس پر سونے اور اشرفیوں کی انیٹوں سے دیواریں چننی شروع کی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس قدر زیادہ تھی کہ جب آفتاب طلوع ہوتا تھا تو اس کی چمک سے دیواروں کی روشنی پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔
شہر کی چہار دیواری کے اندر ہزار ہزار محل تیار کئے گئے اور ہر محل ہزار ستونو ں کا اور ہر ہر ستون ، جو اہرات سے جڑا ہوا تھا اورشہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر مکان میں حوض اور چوبچے بنوائے گئے اور شہر کی بڑی ہنر سے شاخیں نکلوا کر ہر ہر مکان تک ایک ایک نہر پہنچائی گئی اور ان نہروں کو حوض اور چوبچوں سے جوڑا گیا۔ حوض اور چوبچوں کے فرش پر یاقوت ، زمرد، مرجان اور نیلم کی تہیں بچھائی گئیں اور ا ن کے کناروں پر درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی اور شاخیں اور پتے زمرد کے اور پھول و پھل انکے موتی اور یاقوت کے اور دیگرجواہرات کے بنوا کر لٹکائے گئے۔ مکانوں کی دیواروں کو خشک ، زعفران اور عنبر کو گلاب سے گہگل کر کے استرکاری کرواکر مطّلا و مذّہب کیا گیا اور یاقوت ودیگر جواہرکے خوب صورت ، خوش آواز جانور بنوا کر درختوں پر بٹھائے گئے اور ہر درخت کے پاس ایک پہرے دار کو تعینات کیا گیا۔
جب اس انداز کا شہر بن کر تیار ہوا تو حکم دیا کہ سارے شہر میں قالین اور فرش پر ریشمی زرلفت بچھادئےے جائیں اور سب مکانوں میں ترتیب سے سونے چاندی کے برتن چنوادئیے گئے اور حوضوں میں دودھ، شراب، شہد اور شربت انواع اقسام کے جاری کرادئیے گئے۔ بازاروں میں دکانوںکو بھی کمخواب زردوزی کے پردوں سے مزین کیا گیا اور ہر پیشہ اور ہنروالے کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے پیشہ اور ہنرمیں مشغول ہو جائیں اور انواع انواع اقسام کے میوے، طرح طرح کے عمدہ و لذیذ پکوان ہمیشہ ہی سبھی شہر والوں کو پہنچایا کریں۔ غرض کہ بارہ بر س میں یہ شہر بے مثال اس سجاوٹ کے ساتھ تیار ہوا تو تمام اُمراءاور سرداروں کوحکم دیاگیا کہ وہ زینت کے ساتھ اس شہر میں جا کر رہیں اور خود بھی اپنی فوج ولشکر کو ساتھ لیکر کمال عذور وتکبر سے شہر کی طرف کوچ کیا اور راستے میں عالموں اور واعظوں کو جلانے کی خاطر کچھ دیر رک کر ان سے تکبر اور حقارت کے ساتھ کہا ”تم اسی جنت کے واسطے مجھے اس کے سامنے ،جس کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہو، سر جھکانے اور ذلیل ہونے کے لئے کہتے تھے نا! اب تم کو میری قدرت اور ثروت دیکھنی ہو تو میرے ساتھ چلو! میں نے اس ان دیکھی جنت سے بھی زیادہ حسین و دلکش اور خوبصورت جنت بنوائی ہے جس کو دیکھ کر لینے کے بعد تم اپنے خدا کی جنت کو بھی کم سمجھوگے۔
شداد جب اپنی بنائی ہوئی جنت کے قریب پہنچا تو اس شہر کے باشندوں کے غول اس کے استقبال کے لئے شہر کے دروازے سے باہر آکر اس پرزرو جواہر نچھاور کرنے لگے۔ اس طرح سے جب شداد شہرکے دروازے پر پہنچا تو اس کا ایک قدم دروازے کے باہر اور ایک قدم اندر تھا کہ آسمان سے ایک ایسی سخت کڑک دار آواز آئی کہ تمام مخلوق ہلاک ہوگئی اور بادشاہ بھی وہیں دروازے پر گر پڑا اور مر گیا ۔ اس شہر کو دیکھنے کی حسرت کہ کس محنت اور مشقت سے اس کو تیار کیاتھا دل میں لے گیا۔ تمام مخلوق کے ہلاک ہونے کے بعد …. اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے پوچھا ۔تجکو کس بندے کی روح قبض کرتے وقت کبھی رحم بھی آیا یا نہیں ؟ملک الموت نے عرض کیا۔ اللہ رب الغزت ! مجھکو دو ذی روحوں کی جان نکالنے میں کمال رقت ہوئی تھی ، اگر تیرا حکم نہ ہوتا تو میں ہرگز ہرگز ان کی جان نہ نکالتا۔
ارشادہوا: بتاؤ‘ وہ دو لوگ کون تھے؟
عرض کیا :ایک تو وہ بچہ تھا جو نیا پیدا تھا اور اپنی ماں کے ساتھ جہاز کے ٹوٹے ہوئے تختے پر بے سروسامانی کی حالت میں بحر بیکراں میں تیراتا جا رہا تھا۔ اس وقت اس بچے کا واحد سہارا تمام کائنات میں اس کی ماں تھی تو مجھے حکم ہوا کہ اسکی ماں کی روح قبض کرلے۔ اس وقت مجھے اس بچے پر بے حد بے حد رحم آیاتھا کیونکہ اس بچے کا اس کا ماں کے سوا کوئی دوسرا خبر گیر نہ تھا اور بھوکا پیاسا بچہ اپنی ماں کے دودھ کے لئے ترس رہاتھا۔ اور باری تعالیٰ ! دوسرا یک بادشاہ تھا جس نے ایک شہر کمال آرزو سے ایسا بنوایا تھاکہ ویسا شہر دنیا میں کہیں نہیںتھا، جب وہ شہر تیار ہو گیا اور بادشاہ اپنے شہر کو دیکھنے پہنچا تو جس وقت ایک قدم اس کا شہر کے دروازے میں تھا تو مجھے حکم ہوا اور اس کی جان قبض کر لے اس وقت بھی مجھے بہت رونا آیا تھا کہ وہ بادشاہ کیاکچھ حسرتیں اپنے دل میں لے گیا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:عزرائیل ! تمہیں ایک ہی شخص پر دوبار رحم آیا ہے! کیونکہ یہ بادشاہ وہی بچہ تھا جس کو ہم نے بغیر ماں باپ کے بناکسی سہارے کے سمندر کی تیز وتندلہروں اور طوفانوں میں بھی محفوظ رکھا اور اس کو حشمت وثروت کی بلندیوں پر پہنچایا اور جب یہ اس مرتبے کو پہنچا تو ہماری تابعداری سے منہ موڑا اور تکبر کرنے لگا اور آخرکار اپنی سزا کو پہنچا۔
معتبر تفسیروں میں لکھا ہے کہ شداد اور اس کے لشکر اور اس شہر کے تمام لوگوں کے ہلاک ہونے کے بعد اللہ پاک نے اس شہر کو دنیا والوں کی نظروں سے پوشیدہ کر دیا ہے مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن کے گردو نواح کے لوگوں کو اس جگہ چمک دار روشنی دکھائی دیتی ہے جسکے بارے میں خیال ہے کہ یہ روشنی اسی شہر کی دیواروں کی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ذکر ہے کہ اس شہر کو اللہ پاک نے لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ کر دیا ہے اور حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک شخص اپنے اونٹ کو ڈھونڈھتا ہوا اس شہر میں جائے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا۔
اس شہر کی اس سے زیادہ کوئی کیا تعریف کرے گا کہ خود اللہ رب العزت باوجود احاطہ علم اورتمام معلومات کے ارشاد فرمایا ہے کہ

التی لم یخلق مژلہا فی البلاد
یعنی وہ شہر کے ہرگز پیدا نہیں کیا گیا ویسا روئے زمین کے شہروں میں
ماخوذ:تفسیر فتح العذیز

تاریخ کے طالب علموں سے درخواست ہے مدرجہ بالا مضمون اپنی دلچسپی کے تحت لکھا ہے کچھ غلطی و کوتاہی ہو تو درستگی کے لئے مطلع کر دیجئے گا۔

1 comment:

  1. محترم راناراشدادریس صاحب آپ کو میری تحریر پسند آئی اور اپنے بلاگ میں میرے نام کے ساتھ شائع کی مجھے دیکھ کر خوشی ہوئی
    شکریہ

    ReplyDelete