Monday 16 May 2011

حویلی کا راز::::مسلمانوں میں تفرقہ کو فروغ دینے والے ایک خفیہ برطانوی ادارے کا چشم کشا احوال__منتخب تحریر

::::حویلی کا راز::::
مسلمانوں میں تفرقہ کو فروغ دینے والے
ایک خفیہ برطانوی ادارے کا چشم کشا احوال
منتخب تحریر
نواب راحت سعید خان چھتاری 1940ء کی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے ہیں۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لیئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لا تعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ نواب چھتاری اپنی یاداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا۔ ان کے ایک پکے انگریز دوست نے جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکا تھا، نواب صاحب سے کہا "آیئے! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کراوں جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔" نواب صاحب خوش ہو گئے، انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کے لیے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی، دو روز بعد کلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا" ہم کل صبح چلیں گے، لیکن میری موٹر میں، سرکاری موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں"۔ اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہو گیا۔ جنگل میں ایک پتلی سڑک موجود تھی، جوں جوں چلتے گئے، جنگل گھنا ہوتا گیا۔ سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا نہ کوئی پیدل مسافر! نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھر اْدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹر چلتے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا، پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی۔ اس کےچاروں طرف کانٹے دار جھاڑیوں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی جسے عبور کرنا ممکن نہ تھا۔ عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔ اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے اس میں سوار ہو جائیں۔ نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا۔ وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں! نواب صاحب گھبرانے لگے، تو انگریز نے کہا "بس منزل آنے والی ہے"۔ آخر دور ایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا "یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جاسکتے ہیں"۔ راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا " کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں بولنے یا سوال کرنے کی بلکل اجازت نہیں"۔ عمارت کے شروع میں وسیع دالان تھا۔ اس کے پیچھے متعد کمرے تھے۔ دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان اور نکلے پہلے نے عربی لہجے میں "السلام وعلیکم" کہا۔ دوسرے نے کہا"وعلیکم اسلام"۔ کیا حال ہے? نواب صاحب یہ منظر دیک کر حیران رہ گئے۔ کچھ پوچھنا چاہتے تھے، لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کر دیا۔ چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے۔ دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھا ہے۔ عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بلکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔ طلباء عربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے۔ نواب صاحب نے دیکھاکہ کسی کمرے میں قرآن مجید پڑھایا جا رہا ہے، کہیں قرآت سکھائی جارہی ہے، کہیں تفسیر کا درس ہو رہا ہے، کسی جگہ بخاری شریف کا درس دیا جا رہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا۔ ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں درمیان مناظرہ ہو رہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہو رہی تھی۔ سب سے بڑے کمرے میں قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جا رہا تھا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے۔ مثلاً غسل کا طریقہ، وضو، روزے، نمازاور سجدہ سہو کے مسائل، وراثت اور رضاعت کےجھگڑے، لباس اور ڈاڑھی کی وضع قطع، گا گا کر آیات پڑھنا، غسل خانے کے آداب، گھر سے باہر جانا، لونڈی غلاموں کے مسائل، حج کے مناسک بکرا، دنبہ کیسا ہو، چھری کیسی ہو، دنبہ حلال ہے یا حرام? حج اور قضا نمازوں کی بحث، عید کا دن کیسے طے کیا جائے اور حج کا کیسے? میز پر بیٹھ کر کھانا، پتلون پہننا جائز ہے یا ناجائز، عورت کی پاکی اور ناپاکی کے جھگڑے، حضورصلی اللہ و علیہ وسلم کی معراج روحانی تھی یا جسمانی? امام کے پیچھے سورتہ فاتحہ پڑھی جائے یا نہیں? تراویح آٹھ ہیں یا بیس? نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو آدمی کیا کرئے? سود مفرد جائزہے یا ناجائز وغیرہ وغیرہ۔

ایک استاد نے سوال کیا، پہلے عربی پھر انگریزی اورآخرمیں نہایت شستہ اردو میں!!!! جماعت اب یہ بتائے کہ جادو نظر بد، تعویز گنڈہ آسیب کا سایہ بر حق ہے یا نہیں? پینتیس چالیس کی جماعت بیک آواز پہلے انگریزی میں بولی "سچ سچ" پھر عربی میں یہی جواب اور پھر اردو میں!!!!

ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر سوال کیا کہ حج کے لیئے نیت ضروری ہے تو مردہ لوگوں کا حج بدل کیسے ہو سکتا ہے? قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے"۔
استاد بولے" قرآن کی بات مت کرو،روایات، ورد اوراستخارے میں مسلمانوں کا ایمان پکا کرو۔ ستاروں، ہاتھ کی لکیروں، مقدر اور نصیب میں انہیں الجھاو"۔

یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا، اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھاہے"?

انگریز نے کہا "ارے بھئ، ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں۔ تعلیم مکمل ہونے پر انہیں مسلمان ملکوں خصوصاً مشرق وسطٰی، ترکی، ایران، اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں۔ انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں۔ یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں۔ وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے، صرف کھانا، سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔ پھر وہ موذن، پیش امام، بچوں کے لیے قرآن پڑھانے کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقرر ہو جاتے ہیں، جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔"

نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں بتا کر حیران کر دیا کہ اس عظیم مدرسے کے بنیادی اہداف یہ ہیں:

--- مسلمانوں کو روایات، زکر کے وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھا کر قرآن سے دور رکھا جائے۔

--- حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کا درجہ جس طرح بھی ہو سکے (نعوذباللہ) گھٹایا جائے۔ کبھی یہ کہو کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم (نعوذباللہ) رجل مسحور یعنی جادو زدہ تھے۔

اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں (رنگیلا رسول) نامی کتاب راجپال سے اسی ادارے نے لکھوائی تھی۔ اس طرح کئی برس پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بنا کر کھڑا کرنے والا یہی ادارہ تھا۔ ان کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہو کر جاتی تھی۔

خبر ہے کہ سلیمان رشدی ملعون کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔

خدایا ایسا نہ ہو کہ مغرب رہن ہی میرا سماج رکھ لے
ہے فتنہ پرور نظام عالم تو اپنے مسلم کی لاج رکھ لے


اب جنگل کی حویلی کے ایک مکین سے ملاقات کیجیئے، یہ واقعہ ایک دوست حسین امیر فرہاد کے ساتھ کویت میں پیش آیا، انہی کی زبانی سنئیے::::::::

یہ 1979ء کا واقعہ ہے، ان دنوں میں کویت کی ایک کمپنی میں مندوب تعلقات العامہ (افسر تعلقات عامہ) تھا۔ ہمارے ڈائریکٹر نے سری لنکا سے گھر کے کام کاج کے لئے ایک خادمہ منگائی، دوسرے دن مجھ سے کہنے لگے کہ اس کو واپس بھیج دو کیوں کہ ہمارے کسی کام کی نہیں نا تو یہ عربی جانتی ہے اور نا انگریزی۔ سو میں اسکی کی دستاویزات لے کر متعلقہ جگہ پہنچا تو پتہ چلا کہ فی الحال سری لنکن سفارت موجود نہیں البتہ برطانوی ہی سری لنکن باشندوں کے معاملا ت دیکھتے ہیں۔ برٹش کونسل میں استقبالیہ کلرک نے میرا کارڈ دیکھا تو مسٹر ولسن سے ملایا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے اور بٹھایا، جب اس نے اندازہ لگایا کہ میں بھارتی یا پاکستانی ہوں تو اردو میں کہا، میں کیا خدمت کر سکتا ہوں?"

میں نے سری لنکن خادمہ کے متعلق بتایا، اس نے کہا کوئی مسئلہ نہیں اسے ہم رکھ لیں گے۔ آپ کا جو خرچہ آیا ہے وہ ہم ادا کر دیں گے۔ یہ بتاو کہاں کے رہنے والے ہو?

میں نے کہا پاکستان سے،
وہ بولا وہ تو بہت بڑا ملک ہے،
میں نے کہا پشاور کا رہنے والا ہوں،
پشتو میں پوچھنے لگا کے کون سی جگہ?
میں نے بتایا "نوشہرہ"
جب میں نے گاوں کا نام بتایا تو اس کی آنکھوں میں عجیب چمک پیدا ہو گئی۔ پھر وہ مختلف لوگوں کا پوچھنے لگا، میں نے میں نے بتایا کہ کون مر گیا اور کون زندہ ہے۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے نوشہرہ چھاونی میں ملازمت کرتا رہا ہو، لیکن اس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ لیکن اس نے کچھ اور کہانی سنائی۔ پہلے اس نے کافی منگائی پھر انٹر کام پر کلرک سے کہا کہ اس کے پاس کسی کو مت بھیجنا۔ وہ اتنا خوش تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ کافی کے دوران اس نے بتایا"میں آپ کے گاوں، محلہ عیسٰی خیل میں چار سال تک پیش امام رہاہوں۔

میں نے پوچھا" کیا آپ مسلمان ہیں?"

وہ بولا" میں چار سال آپ کے گاوں کا نمک کھایا ہے۔ آپ کے گاوں والوں نے مجھے بڑی عزت دی۔ میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ میں عیسائی ہوں یعنی اہل کتاب"۔

اس کے بعد میرا اس کے ہاں آناجانا رہا۔ وہ مجھے اپنا ہم وطن سمجھتا رہا اور تقریباً میرا ہم عمر تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاں پاکستان بننے کے بعد رہا تھا۔ ایک دن میں نے پوچھا "آپ پٹھانوں کا کھانا کیسے کھاتے رہے?"

وہ کہنے لگا" آپ لوگوں کا کھانا اتنا مزیدار ہوتا ہے کہ میں یہاں آج بھی گھر جاتے ہوئے ایرانی تندور سے روٹی لے کر موٹر میں روکھی کھاتا ہوں"۔

جب میں کویت سے پاکستان آ رہا تھا تو میں نے اس سے وہی سوال پوچھا جسے وہ ہمیشہ ٹالتا رہا تھا۔ میں نے دریافت کیا" اب تو بتادو کہ تم عیسائی ہو کر پٹھانوں کے گاوں میں روکھی سوکھی کھاتے اور پیش امام کی خدمات انجام دیتے رہے۔۔۔۔۔۔آخر کیوں?

وہ کافی دیر سرجھکائے سوچتا رہا پھر سر اٹھا کر میری آنکھوں میں جھانکا اور کہا "ہمیں اپنے ملک کے مفادات کی خاطر بعض اوقات بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں لندن کے مضافات میں ایک مرکز ہے جہاں شکل وشباہت دیکھ کر انگریزوں کی بیرونی مذاہب اور زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہاں سے فارغ تحصیل ہو کر پھر ہمیں مختلف ممالک اور علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔"

گاوں آکر میں محلہ عیسٰی خیل کے بزرگوں کو یہ واقعہ سنایا توایک بوڑھے طالب گل نے کہا" مجھے شک پڑاتھا مگر سب کہہ رہے تھے کہ چترالی ہے۔ وہاں اکثر چترالی مولوی پیش امام ہیں۔ وہ بھی گورے ہیں بلکل انگریزوں کی طرح۔ پھر طالب گل نے کہا "چلو بھائی اب چار سال کی نمازیں لوٹائیں جو ہم نے انگریز کے پیچھے پڑھیں۔۔۔۔۔۔خانہ خراب ہو اس کا۔"
جب میں نے جنگل کی حویلی کا پڑھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ مسٹر ولسن بھی ضروراسی جنگل کی حویلی کا پروردہ تھا۔

::::::::::::::::اپیل:::::::::::::::
سو دوستو! ::::::::::::::

بات یہ ہے کہ اچھی روایات کو اپنانا اور قائم کرنا اچھی بات ہے لیکن اپنے اردگرد موجود لوگوں اور خاص کر ایسے لوگوں سے ضرور ہوشیار رہیں۔ موجودہ حالات میں سوات، شمالی علاقاجات اور سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندہ غرض پورے پاکستان میں جہاں بھی لوگ حکومتی بے پرواہی کا شکار ہیں اور جہاں علم کا فقدان ہے یا پھر لوگوں کو اپنی ذات سے ہی فرصت نہیں ملتی وہاں پر ایسے عناصر خوب بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں جہاں دین کو صرف مولویوں اور پیش اماموں پر ڈال دیا گیا، جہاں ہر شخص دین سے دوری اور کم علمی کا شکار ہے جہاں پر سائنس اور ٹیکنالوجی کو مستقبل کے لیئے تابناک تصور کیا جاتا ہے اور قرآن کی تعلیم کے لیئے صرف دماغی طور پر کمزور بچوں کو بھیجا جاتا ہے کیوں کہ وہ سکول میں نہیں پڑھ سکتے ہے پس ایسے معاشرے میں ایسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں، اور فتنے جنم لیتے ہیں۔

اس منتخب مضمون کو اس بلاگ پر ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر بندہ جہاں تک ہو سکے اس کو دوسروں تک پہنچائے اور خدا کے لیئے میری اپیل ہے وزارت مذہبی امور سے، اور ساری مذہبی جماعتوں سے کہ کچھ تو خیال کریں کچھ تو حرکت کریں اور کوئی ایسا عملی پلان ترتیب دیں جس سے پاکستان کی ہر مسجد اور مدرسہ کا ریکارڈ حاصل کیا جائے اور وہاں پر موجود لوگوں کی چھان بین کی جائے۔

4 comments:

  1. تقریبا سات سال پہلے مجھے ذاتی طور پہ اسپین کے ایک بڑے شہر میں ایک محفل میں ایک ایسے شخص سے ملاقات کا اتفاق ہوا ہے۔ جو صوفی کے روپ سندھ اور پنجاب میں کئی سال رہا ہے۔ اسکی لمبی ریش اور ہاتھوں میں فیروزے کی انگھوٹیاں تھیں ۔ گلے میں مالا۔ لمبا قد ، کالا کرتا۔ میں نے اس سے ٹھیٹھ ہسپانوی میں تعریف کی ۔ طرح لگائی کہ آپ صوفی یا سنت لگ رہے ہو۔ وہ چونکا اور مسکرایا۔ اس نے مجھے کوئی باخبر قسم کا ہسپانوی باشندہ سمجھا ۔ اور میری تعریفی طرح میں آگیا۔ میرے ساتھ ایک اور پاکستانی صاحب بھی تھے جنھیں میں نے خاموشی کا اشارہ کردیا تھا۔ وہ سنت سادھو بہت معقول حد تک اسپنیش زبان بھی جانتا تھا۔

    وہ گویا ہوا وہ پاکستان میں سندھ اور پنجاب کے سب بڑے سلسلوں کی گدیوں اور ڈیروں کے بارے بے بہا معلومات رکھتا تھا۔ اسے پاکستان کی گدیوں صوفی سلسلوں ۔ صوفی روایات ۔ وغیرہ ہر اس شئے پہ بے پناہ معلومات تھیں جس کا تعلق اسلام سے مفر اور فضول قسم کی ان لغویات سے تھا۔ جن میں محنت نہ کرنی پڑے اور دین اور دنیا دونوں کو تن آسانی اور دیگر فضولیات کے سہارے پالیا جائے اور اسطرح کی دیگر منفیات تھیں۔

    بقول اسکے وہ پانچ سال اندرون سندھ اور پنجاب کے دیہات میں رہا۔ میں نے اسے مذید طرح دی تو اسکا مطلب ہے آپ اچھے قسم کے صوفی مسلمان بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا نہیں دوست میں یہودی النسل ہوں اور غالبا اس نے اپنے آپ کو برطانیہ سے آئرلینڈ یا اسکاٹ لینڈ کا باشندہ بتایا تھا۔

    بالآخر میں نے اسے بتا دیا کہ میں پاکستانی ہوں ۔ وہ حیران ہوا مان نہیں رہا تھا اور جب میں نے اپنے دوسرے پاکستانی ساتھی کے ساتھ اردو پنجابی میں بات کی تب جا کر اسے یقین ہوا۔ اس نے ایک اور قہقہ لگاتے ہوئے ازراہ مزاق استفسار کیا کہ گویا جو میں وہاں کرتا رہا ہوں آپ ادہر کرہے ہیں؟۔ میں نے اسے بتایا کہ اپنے دیس سے باہر پاکستانی جس ملک میں رہ ہے ہوں اسکے بارے کبھی غلط نہیں سوچتے۔ البتہ اکا دکا لوگ ہونگے جو شاید یوں سوچتے ہوں۔ لیکن اکثریت جن ممالک میں رہتی ہے ان ممالک کے بارے خیر خواہ ہوتے ہیں اور اس ملک کی ترقی میں نمایاں میں کردار ادا کرتے ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ایک عام کاروباری شخس ہوں اور اس تقریب میں مدعو ہوں۔

    المختصر وہ کھسیانا سا ہو چکا تھا جو باتیں اور لن ترانیں پاکستان کے متعلق اسنے بیان کیں وہ کچھ یوں تھیں۔ بقول اسکے پاکستانی سرکاری مشینری انکی جیب ہۓ۔ پاکستان میں وہ ایک صوفی اللہ لوک کی صورت میں رہا۔۔ وہاں اسکے معتقدین اور پیر بھائی قسم کے لوگ بھی ہیں۔ اسنے اپنا اسلامی نام بھی بتایا تھا جو مجھے ابھی یاد نہیں۔وہ عطر وغیرہ میں نہایا ہوا لگتا تھا۔

    اس نے کہا تھا(ہمیں پاکستان میں کسی سے کوئی خدشہ اگر ہے تو وہ ایک مذھب پسند عام آدمی سے ہے جو ہر وقت مزھب کے نام پہ لڑ مرنے کو تیار رہتا ہے۔ اور پاکستانی تاجروں اور کاروباری حضرات سے کہ ان کی عادتیں بنی اسرائیل یعنی یہودیوں تاجروں سے ملتی جلتی ہیں اور یہ مناسب ماحول ملنے پہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنا کاروبار نہ صرف جما لیتےہیں۔ بلکہ کاروبار سے منافع کماتے ہوئے اسے متواتر بڑھاتے رہتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا ان نئے کاروبارییوں کے پاس دولت کے انبار ہونگے جو بالآخر ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج بنیں گے۔

    اسطرح کی بہت سی یاوہ گویاں اسنے کھل کر پاکستان کے خلاف بکواس کیں۔ اسکے بعد کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ اب آپ یہ موضوع چھیڑا تو مجھے یہ ساری باتیں دوبارہ سے یاد آگئیں ہیں۔ اور لکھ دی ہیں کہ شاید کسی کو رہنمائی مل سکے۔

    ReplyDelete
  2. Dear Mr. Javaid,

    Thank you very much to provide a personal Experience. We need to aware every one.

    ReplyDelete
  3. خوب اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جو بلاگستان پر مذہب کولے کر جتنے فسادی ہین یہ سب اسی ادارے کے فارغ التحصیل ہیں!!!!!!
    :)

    ReplyDelete
  4. یہ بہت بڑا نیٹ ورک ہے ادھر اٹلی کے شہر بریشیا میں بھی کوئی سو کے قریب عیسائی مشنری ہیں جو آپکو آردو میں دین عیسائیت کی طرف راغب کرتے ہیں، اور پاکستان میں لاقانونیت سب کو دعوت گناہ دیتی ہے، جسکا جو جی چاہتا ہے وہ کرتا ہے، یہ تو قوموں کی پالیسیاں اور منصوبے ہوتے ہیں جو وہ نسلوں ساتھ لے کر چلتے ہیں، یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے زمانہ رسالت میں غزوہ احد سے وکھی مارلی تھی، انکو خوارج کہا گیا ہے، شہادت امیر المومنین، حضرت عمر سے لیکر قتل حسین، حشیشن، تک اور پھر آگے ہی آگے اے مسلمان اپنی آنکھین کھول۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete