Monday, 21 March 2011

۝۝۝۝دیکھو تو۝۝۝۝

مقتل میں بھی اہل جنوں ہیں کیسے غزل خواں‘ دیکھو تو!
ہم پہ پتھر پھینکنے والو‘ اپنے گریباں‘ دیکھو تو!

ہم بھی اُڑائیں خاکِ بیاباں‘ دَشت سے تم گزرو تو سہی

ہم بھی دکھائیں چاکِ گریباں‘ لیکن جاناں‘ دیکھو تو

اے تعبیریں کرنے والو‘ ہستی مانا خواب سہی

اس کی رات میں جاگو تو‘ یہ خوابِ پریشاں دیکھو تو!

آج ستارے گم صُم ہیں کیوں‘ چاند ہے کیوں سَودائی سا

آئینے سے بات کرو‘ اِس بھید کا عنواں دیکھو تو!

کِس کے حُسن کی بستی ہے یہ! کس کے رُوپ کا میلہ ہے!

آنکھ اُٹھا اے حُسنِ زلیخا‘ یوسفِ کنعاں‘ دیکھو تو!

جو بھی علاجِ درد کرو‘ میں حاضر ہوں‘ منظور مجھے

لیکن اِک شب امجد جی‘ وہ چہرۂ تاباں‘ دیکھو تو

No comments:

Post a Comment