Tuesday, 15 March 2011

تھا شاخِ گل پہ آخری پتا جو جھڑ گیا

بال ایک میرے شیشۂ دل میں جو پڑ گیا

جو نقشِ جاں بنا تھا، وہ پل میں بگڑ گیا

خنجر سا دل میں اس کے تغافل سے گڑ گیا

تھی بات تو ذرا سی مگر داغ پڑ گیا

جی بھر کے اس کو ہم نے تو دیکھا نہ تھا ابھی

ملنے سے پیشتر ہی وہ ہم سے بچھڑ گیا

تھی دھوپ تیز اس قدر صبحِ ملال کی

خوابوں کا شہر چشمِ زدن میں اجڑ گیا

اک زلزلہ تھا اور مرے پیار کا جہاں

جھٹکا لگا تو پاؤں بھی اُس کا اکھڑ گیا

دل آخری چراغ تھا میری امید کا

تنہا تھا پھر بھی سیلِ حوادث سے لڑ گیا

یاد آئی اور جاگ اٹھیں بے قراریاں

اک شور ذہن و روح میں کچھ اور بڑھ گیا

ترکِ تعلقات کی ٹھانے ہوئے تھا وہ

بے وجہ بات بات پہ کل ہم سے اَڑ گیا

دل نے بھی جیسے تھک کے نیا راستہ لیا

اپنے شعورِ ذات کی سیڑھی پہ چڑھ گیا

آندھی ہی اب کے ایسی چلی ہے صدف یہاں

تھا شاخِ گل پہ آخری پتا جو جھڑ گیا

No comments:

Post a Comment