Tuesday, 15 March 2011

آخری پتا

گرجتے برستے بادل فلک سے نالاں بہت غصے میں دکھائی دے رہے تھے. چودھویں کاچاند جو کسی نئی نویلی دلہن کی طرح آغاز شب میں جلوہ افروز ہوا تھا، اب ڈرا، سہما، چھپا بیٹھا تھا. کھڑکی کے اس پارعشق پیچاں کی بیل کے سارے پتے اس طوفان بادوباراں سے لرز رہے تھے،
اور اس سے بھی کہیں زیادہ کھڑکی کے اس پار"کانتا" کا دل خوف سے کانپ رہا تھا جو ان پتوں سے اپنی زندگی، اپنی عمر کا اندازہ لگا رہی تھی . جوں جوں پتے گرتے اس کی بیماری بڑھتی جاتی اور اب تو پتے بھی چند ہی رہ گۓ تھے. شاید دو یا تین اور آخری پتا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،آخری پتا اس کا آخر، اسکی موت کی نوید لے کر آئے گا اور زندگی کا خوشنما پھول ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مرجھا جاۓ گا. اس سے پہلے کہ یہ آخری پتا گر جاتا، اس سے پہلے کے سانسوں کی ڈور ٹوٹ جاتی، جاڑے کی بے رحم ہوا اس چراغ کی ٹمٹماتی لو کو بجھا دیتی،

وہ اچانک نا جانے کہاں سے نمودار ہوا، وہ "وجدان" جس کے ہاتھوں میں مصوری ایک انمول انداز میں رچی بسی تھی، جس کی بنائی گئی تصاویر دیکھنے والوں کہ محو کر دیتی تھیں۔

دونوں کا تعلق صرف اتنا تھا جتنا ایک جگہ پر رہنے والے دو لوگوں کا ہوتا ہے، لیکن حقیقت کچھ اور تھی، "وجدان" اور "کانتا" ایک ان دیکھے رشتے میں جانے کب سے بندھے ہوئے تھے، جو جنموں جنموں کے ساتھی تھے۔

"کانتا" جس نے "وجدان" کے اچانک چلے جانے کے بعد خود کو زندگی سے لا تعلق کر لیا تھا، اور اسی غم نے اسے زندگی سے اتنا مایوس کر دیا تھا کہ اس کو یقین تھا، اس کی کھڑکی کے سامنے لگی عشق پیچاں کی بیل کے پتے جوں جوں گرتے جایئں گے توں توں اس کی زندگی کے دن کم ہوتے جائیں گے۔ اور آج جب ایک آخری پتہ تنے تنہا جاڑے کی سردی اور بے رحم ہواوں سے لڑ رہا تھا اور جس کے گرنے کے ساتھ ہی "کانتا" نے اپنی زندگی کے خاتمے کا یقین کر لیاتھا،

آج یہ آخری رات تھی اور اس رات میں سرد ہواوں کا طوفان اتنا شدید تھا پتا تو کیا پیڑ تک اکھڑ گئے، "کانتا" یقین تھا کہ صبح کی کرنیں اسکی موت کا پیغام لائیں گئیں، لیکن جب صبح ہوئی تو ایک حیرت انگیز خوشیوں بھرا لمحہ اس کا منتظر تھا، پتہ وہاں پر ویسا ہی موجود تھا، اسکی خوشی کی انتہا نا تھی، بہت دنوں کے بعد وہ بے انتہا خوش تھی، اسکو جینے کا ایک اور موقع مل گیا تھا، وہ جلدی جلدی سے اٹھی اور باہر آ گئی باہر بہت سارے لوگ اس دیوار کے نیچے موجود تھے جس پر عشق پیچاں کی ٹنڈ منڈ بیل صرف ایک پتے کے ساتھ موجود تھی۔ اس کے عین نیچے کچھ قوس قزاح کے رنگ زمین پر بکھرے ہوئے تھے جن کے پاس ہی "وجدان" ادھ کھلی مسکراتی آنکھوں کے ساتھ بے حس و حرکت زمین پر پڑا ہوا تھا۔

اس کا جاڑے سرد اور بے رحم ہوا سے ٹھٹھرا ہوا جسم بے حس و حر کت تھا مگر ادھ کھلی آنکھوں میں ایک اطمینان تھا، جیسے اپنے آخری شاہکار اور اس سے جڑی زندگی ہی اس کا سب سے بڑا مقصد ہو۔

اس نے زندگی کے آخری پتے کو بچانے کے لیئے زندگی کو قربان کردیا۔
یہ آخری پتا ہمیشہ ہمیشہ اس کی خاموش محبت کو زندہ جاوید کر گیا۔

No comments:

Post a Comment