Saturday 19 March 2011

♥♥♥♥ھم نے سوچ رکھا ہے♥♥♥♥

ھم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ھر خواھش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے
بہہ جائے
گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جائیں
اوربے مقدر ہم
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں

تم سے کچھ نہیں کہنا


کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں

تم سے کچھ نہیں کہنا

گِھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں کب عذاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عذابوں سےبچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں
ہم نے سوچ رکھا ہے

تم سے کچھ نہیں کہنا

No comments:

Post a Comment