Monday, 7 March 2011

ہنسنا اچھا نہیں لگتا تو رلا دیتی ہے

ہنسنا اچھا نہیں لگتا تو رلا دیتی ہے

ہنسنا اچھا نہیں لگتا تو رلا دیتی ہے
زندگی کیوں مجھے قسطوں میں سزا دیتی ہے

اب مرے دل کو بھٹکنے کا نہیں اندیشہ
ہر نئی سوچ مجھے راہ دکھا دیتی ہے

یہ سمجھ کر ہی تجھے دوست بنایا میں نے
دوستی دل کی سیاہی کو مٹا دیتی ہے

پیت میں دانہ نہیں ہے تو نہیں‌غم اس کا
خوش لباسی مرا ہر عیب چھپا دیتی ہے

اپنی حاجت سے زیادہ نہ طلب کر کچھ بھی
حرص انسان کو نظروں سے گرا دیتی ہے

آدمی کوئی بھی ہو اس کی ذرا سی لغزش
خاک میں ساری عبادت کو ملا دیتی ہے

موسم ہجر میں ‌زخموں کی خموشی صابر
آنے والے کسی طوفاں کا پتا دیتی ہے

No comments:

Post a Comment