Monday, 7 March 2011

جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں

جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں
ممکن ہے کہ ہم آپ کو پھر یاد نہ آئیں

ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ
کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں

پھر تشنہ لبی زخم کی دیکھی نہیں جاتی
پھر مانگ رہا ہوں ترے آنے کی دعائیں

پھر بیت نہ جائے یہ جوانی، یہ زمانہ
آؤ تو یہ اُجڑی ہوئی محفل بھی سجائیں

پھر لوٹ کے آئیں گے یہیں قافلے والے
اُٹھتی ہیں اُفق سے کئی غمناک صدائیں

شاید یہی شعلہ مری ہستی کو جلا دے
دیتا ہوں میں اڑتے ہوئے جگنو کو ہوائیں

اے کاش ترا پاس نہ ہوتا مرے دل کو
اٹھتی ہیں پر رک جاتی ہیں سینے میں صدائیں

اک آگ سی بھر دیتا ہے رگ رگ میں تبسّم
اس لطف سے اچھی ہیں حسینوں کی جفائیں

معبود ہو اُن کے ہی تصّور کی تجلّی
اے تشنہ لبو آؤ! نیا دَیر بنائیں

ہم سنگِ دریا پہ بے ہوش پڑے ہیں
کہہ دے کوئی جبریل سے، بہتر ہے، نہ آئیں

ہاں، یاد تو ہوگا تمہیں راوی کا کنارا
چاہو تو یہ ٹوٹا ہوا بربط بھی بجائیں

توبہ کو ندیم آج تو قربان کرو گے
جینے نہیں دیتیں مجھے ساون کی گھٹائیں

No comments:

Post a Comment