Monday, 3 September 2012

بد فالی اور بدشگونی


:اللہ تعالی کا ارشاد ہے
(أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ )(سورة الأعراف7: 131)
“خبردار ! ان کی بدشگونی (نحوست)اللہ کے ہاں مقدر ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔
 نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
(قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ (سورة يس36: 19))
رسولوں نے کہا: تمہاری نحوست تمہارے ہی ساتھ ہے۔ کیا (تم یہ باتیں) اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے؟ بلکہ (حقیقت تو یہ ہے کہ)تم لوگ حد سے تجاوز کرچکے ہو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ،)(صحیح البخاری، الطب، باب لاھامۃ، ح:5757 و صحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا صفر، ولا نوء ولا غول، ح:2220، زاد مسلم: “ولا نوء ولا غول”)
“کوئی بیماری متعدی نہیں، بدفالی اور بدشگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ نہ الو کا بولنا (کوئی برا اثر رکھتا )ہے اور نہ ہی ماہ صفر(منحوس)ہے۔”(3)
صحیح مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے: “ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ بھی بے اصل ہے اور بھوتوں کا بھی کوئی وجود نہیں۔”
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِي الفَأْلُ قَالُوا: وَمَا الفَأْلُ؟ قَالَ: كَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ)(صحیح البخاری، الطب، باب لا عدوی، ح: 5776 و صحیح مسلم، السلام، باب الطیرۃ والفال ح:2224)
کوئی بیماری متعدی نہیں۔ نہ بدفالی و بدشگونی کی کچھ حقیقت ہے البتہ مجھے فال پسند ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی : فال سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: عمدہ اور بہترین بات(سن کر حسن انجام کی امید رکھنا)۔(4)
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدفالی اور بدشگونی کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ان سب سے بہتر فال ہے اور یہ کسی مسلمان کو اس کے مقصودسے روک نہ دے۔ چنانچہ جب کوئی شخص ناپسندیدہ چیز دیکھے تو یہ دعا کرے:
( اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ)(سنن ابی داود، الکھانۃ و التطیر، باب فی الطیرۃ، ح:3919)
“یا اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں لا سکتا ہے نہ کوئی برائیوں کو دور کرسکتاہے۔ اور تیری توفیق کے بغیر ہم میں بھلائی کی طاقت ہے نہ برائی سے بچنے کی ہمت۔”(5)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الطِّيَرَةُ شِرْكٌ الطِّيَرَةُ شِرْكٌ وَمَا مِنَّا إِلَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ)(سنن ابی داود، الکھانۃ والطیرۃ، باب فی التطیر، ح:3910 و جامع الترمذی، السیر، باب ما جاء فی الطیرۃ، ح:1614)
“بدفالی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے (بتقاضائے بشریت)ایسا وہم نہ ہوتا ہو مگر اللہ رب العزت توکل کی وجہ سے اس کو ہم سے رفع فرمادیتا ہے۔”(6)
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جو شخض اپنے کسی کام سے بدفالی کی بنا پر رکا اس نے شرک کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا اس کا کفارہ کیا ہے ؟

آپ نے فرمایا:اس کا کفارہ یہ دعا ہے
(اَللَّهُمَّ لاَخَيْرَ إِلاَّ خَيْرُكَ، وَلاَطَيْرَ إِلاَّ طَيْرُكَ، وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ)(مسند احمد :2/ 220)
“یا اللہ ! تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں۔ اور تیرے شگون کے علاوہ کوئی شگون نہیں ۔ اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں”۔7

فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( إِنَّمَا الطِّيَرَةُ مَا أَمْضَاكَ، أَوْ رَدَّكَ)(مسند احمد : 1/ 213)
“بدشگونی وہ ہے جو تجھے کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرے یا اس سے روک دے۔”

مسائل
1) اس باب میں سورۃ الاعراف کی آیت 131 اور سورۃ یس کی آیت 19 کی تفسیر اور ان کا مفہوم بیان ہوا ہے۔
2) اس باب کی احادیث میں امراض کے متعدی ہونے کی نفی ہے۔
3) اس میں بدفالی کی نفی بھی ہے۔
4) اور الو کی آواز سے بدفالی لینے کی ممانعت ہے۔
5) اور ماہ صفر کی نحوست کے عقیدہ کی بھی نفی ہے۔
6) اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ نیک فالی منع نہیں بلکہ مستحب ہے۔
7) فال کے مفہوم کی بھی وضاحت ہوئی۔
8) یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر بادل نخواستہ بدفالی کے وساوس اور خیالات دل میں پیدا ہوجائیں تو وہ مضر نہیں بلکہ اللہ تعالی پر توکل اور اعتماد کی وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں۔
9) جس شخص کے دل میں بدفالی کے وساوس پیدا ہو جائیں وہ ان کو دور کرنے کے لیے ان احادیث میں بیان شدہ دعائیں پڑھ لیا کرے۔
10) اس بات کی بھی صراحت ہوگئی کہ بدفالی لینا شرک ہے۔
11) نیز اس بحث سے مذموم بدفالی کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔

نوٹ:-
(1) یعنی کسی جانو یا پرندے یا اس کی کسی حرکت کو دیکھ کر اپنی کامیابی یا ناکامی پر بدفالی اور بدشگونی لینا یہ بھی توحید کے منافی اور شرک ہے۔
(2) یعنی انہیں کوئی فائدہ یا نقصان پہنچنا اللہ تعالی کے ہاں مقدر ہے۔ کوئی چیز ان کے لیے برا یا نیک شگون نہیں رکھتی۔ جانوروں سے بدفالی اور بدشگونی لینا انبیاء و رسل کے دشمن مشرکین کی مذموم عادت ہے۔ اہل ایمان اپنے تمام امور کو اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہیں۔
(3) یعنی کوئی بیماری ازخود متعدی نہیں ہوتی بلکہ اگر کسی بیماری کا اثر دوسرے تک پہنچتا ہے تو محض اللہ عزوجل کے اذن اور حکم ہی سے۔ دورجاہلیت میں لوگوں کا یہی اعتقاد تھا کہ بیماری طبعی طور پر خود اثر انداز ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا ۔ اسی طرح بدفالی اور بد شگونی کی بھی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ ایک دلی وہم ہوتا ہے ورنہ اللہ کی قضاء اور تقدیر میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
(4) فال یعنی نیک شگونی میں اللہ تعالی پر حسن ظن ہوتا ہے جبکہ بدفالی میں اللہ تعالی پر بدگمانی کی جاتی ہے۔ اس لیے فال یعنی نیک شگونی ممدوح ہے اور بدفالی مذموم۔
(5) “الطیرة” (بدشگونی و بدفالی) لفظ عام ہے۔ اس لفظ میں جہاں بدشگونی پر مشتمل اقوال شامل ہیں وہاں ایسے اعمال بھی اسی کے زمرے سے ہیں جن سے بدشگونی لی جاتی ہے ۔ جبکہ انسان کو اپنے معاملات میں نیک فالی سے کام لینا چاہئے کیونکہ نیک فالی سے انسان کا دل فراخ رہتا اور شیطان کے وسوسے سے پیدا ہونے والی دلی تنگی دور ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان اپنے دل میں نیک فالی پیدا کرلیتا ہے تو پھر شیطان کے وسوسے اس کے دل پر کوئی اثر نہیں کرسکتے۔
(6) بدشگونی و بدفالی لینا شرک اصغر ہے۔ بسا اورقات ایک مسلمان و موحد آدمی کے دل میں بھی بدشگونی کا وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ بعید ازامکان نہیں۔ لیکن چونکہ بندۂ مومن کا اللہ پر توکل اور بھروسہ ہوتا ہے اس لیے اسی توکل کی بنا پر اللہ عزوجل اس وسواس کو دفع کرڈالتے ہیں۔
(7) بدشگونی کے شرک ہونے کا ضابظہ اور اصول یہ ہے کہ جب آدمی کے دل میں بدشگونی کا وسوسہ پیدا ہو اور وہ اس بدشگونی کی بنا پر اپنے کام سے رک جائے تب اس کا یہ عمل شرک ٹھرے گا ورنہ محض وسوسہ پیدا ہونے سے انسان شرک کا مرتکب نہ ہوگا۔
(اَللَّهُمَّ لاَخَيْرَ إِلاَّ خَيْرُكَ...... کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! مجھے وہی خیر اور بھلائی مل سکتی ہے جس کا تونے فیصلہ کر رکھا ہے اور وہی کچھ حاصل ہو سکتا ہے جو تونے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ کیونکہ غیب کے سارے علم تیرے ہی پاس ہیں۔

No comments:

Post a Comment