Thursday, 6 September 2012

پاکستان کا مطلب کیا:::::::::: لا الہٰ الا اللہ

Thank you BBC Urdu........

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے جن چار پاکستانی فوجیوں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا رہا کہ وہ سنہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں مارے گئے تھے اب ان کے زندہ ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔
ان فوجیوں کے خاندان والوں کو یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ شاید وہ زندہ ہوں اور اس کی وجہ بھارت کی سپریم کورٹ میں ان فوجیوں کی بازیابی کے لیے دائر رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران ایک بھارتی پولیس افسر کا مبینہ طور پر یہ اعتراف کہ انھیں جنگ کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
سینتالیس سال پہلے چھ ستمبر کو ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر پر دوسری جنگ شروع ہوئی تھی۔
پہاڑوں کے دامن میں دریائے پونچھ کے کنارے پر واقع ضلع کوٹلی کے تائی گاؤں کے سامنے کنٹرول لائن کے آر پار صاف دکھائی دینے والی پاکستان اور بھارت کی فوجی چوکیاں آج بھی سنہ انیس سو پینسٹھ کے معرکوں کی یاد دلاتی ہیں۔ان معرکوں کے دوران اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے سات پاکستانی فوجی مبینہ طور پر لاپتہ ہوگئے تھے۔ ان فوجیوں کے خاندان والے برسوں تک یہی سمجھتے رہے کہ ان کے پیارے اس جنگ میں کام آ چکے۔

محمد بشیر سنہ انیس سو پینسٹھ میں صرف تین سال کے تھے جب ان کے والد برکت حسین اپنے مکان کے سامنے والی پہاڑیوں پر واقع ایک پوسٹ پر بھارتی فوج کے ساتھ لڑائی کے دوران لاپتہ ہوئے تھے۔
بشیر کا بھی برسوں تک یہی خیال تھا کہ ان کے والد اس جنگ میں مارے گئے ہیں لیکن چالیس سال بعد سنہ دو ہزار چھ میں محمد بشیر کو یہ خبر ملی کہ ان کے والد برکت حسین زندہ ہیں۔
سنہ دو ہزار چھ میں جے کے ایل ایف ( جموں کشمیر لبریشن فرنٹ) کا مجاہد محمد ایوب کھوکھر آیا اور انھوں نے بتایا کہ ان کی سینڑل جیل جموں میں میرے والد سے ملاقات ہوئی اور وہ جیل میں اکھٹے رہے، اللہ پر بھروسہ ہے، اگر زندگی ہوئی تو ملاقات ہوگی، ہماری خواہش ہے کہ ہماری ملاقات ہو، ہم انھیں دیکھیں، ان کی خدمت کریں۔

سابق کشمیری عسکریت پسند محمد ایوب کا تعلق بھی ضلع کوٹلی سے ہے۔
انھیں پندرہ سال بعد سنہ دو ہزار چھ میں بھارت کی قید سے رہائی ملی جس کے بعد وہ گھر لوٹے۔ ایوب کے بقول تائی گاؤں کے دو سابق پاکستانی فوجیوں سے ان کی ملاقات جموں سینڑل جیل میں سنہ انیس سو اٹھانوے میں ہوئی تھی۔

سخی محمد اور برکت حسین دونوں بزرگ ہیں، ان دونوں سے میری ملاقات جموں جیل میں ہوئی، انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ تائی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ایوب کے مطابق ان لاپتہ فوجیوں نے بتایا کہ ان کے چار اور ساتھی بھی پکڑے گئے تھے جن میں سے ایک ساتھی کٹھوعہ اور دوسرے کو ہیرا نگر کی جیل میں رکھا گیا جبکہ دو لاپتہ ہیں۔ اس خبر کے بعد تائی گاؤں کے لاپتہ فوجیوں کےخاندان والوں کو یہ امید پیدا ہوئی کہ شاید ان کے خاندان والے زندہ ہوں۔ انھوں نے اپنے پیاروں کی تلاش کے لیے پاکستانی اور کشمیری حکمرانوں سے مدد کی درخواست کی مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔


گزشتہ سال چھ میں سے چار لاپتہ فوجیوں برکت حسین، عالم شیر، سخی محمد اور بگا کے خاندان والوں نے بھارت کی سپریم کورٹ میں حبس بے جا کی رٹ دائر کی۔ یہ رٹ پٹیشن بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی لیگل ایڈ کمیٹی نے دائر کی جس کے ایگزیکٹیو چئیرمین سینئیر وکیل پروفیسر بھیم سنگھ ہیں۔

بھیم سنگھ کے مطابق سپریم کورٹ میں ان کی پٹیشن کے جواب میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل جیل نےعدالت میں یہ اعتراف کیا کہ تین پاکستانی فوجی برکت حسین، عالم شیر اور سخی محمد چھ ستمبر سنہ انیس سو پینسٹھ کو گرفتار ہوئے جنھیں بعد میں جموں کی سینٹرل جیل میں رکھا گیا البتہ ان کا کہنا ہے کہ بگا کے بارے میں ڈپٹی آئی جی جیل نے کوئی ذکر نہیں کیا۔

بھیم سنگھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی پٹیشن میں ان کی گرفتاری کی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا لیکن ڈپٹی آئی جی جیل نے گرفتاری کی تاریخیں بھی دیں۔
بھیم سنگھ کے بقول انھوں نے عبدالعزیز نامی ایک اور پاکستانی فوجی کو، جس کا نام رٹ پٹیشن میں شامل نہیں تھا سنہ انیس سو سٹرسٹھ میں گرفتار کرنے کا اعتراف کیا۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ان فوجیوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن دہلی اور سرینگر کی حکومتوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ جموں کشمیر میں نہیں ہیں۔ بھیم سنگھ نے کہا کہ رواں ماہ میں اس مقدمے پر حتمی بحث ہوگی۔
لاپتہ پاکستانی فوجی عالم شیر کی دو بیٹیاں ہیں اور چھوٹی بیٹی سفینہ دو ماہ کی تھیں جب ان کے والد سنہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں لاپتہ ہوئے تھے اور اب وہ پانچ بچوں کی ماں ہیں۔


سفینہ کے مطابق ’امی بھی نہیں ہیں، بھائی بھی کوئی نہیں، چچا بھی وفات پا چکے میری خواہش ہے کہ ابا ایک بار آجائیں ان کو دیکھ لوں پھر موت بھی آئے تو کوئی بات نہیں پہلے ہم سوچتے تھے وہ مرچکے ہیں مگر اب امید ہے شاہد وہ آ جائیں اب سارے کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں، اللہ ہمیں ملائے۔‘

لاپتہ پاکستانی فوجیوں کے خاندان والوں نے پاکستان کے حکمرانوں سے اپیل کی ہے کہ اگر ان کے پیارے زندہ ہیں تو ان کی اپنے گھروں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔



1 comment:


  1. Allah taal tamal Qaidiyon ki rihayi ke faisle farlaye... ameen yaa rabbal aalameen

    ReplyDelete