Monday, 30 September 2013

احتساب، احتسابــــــــــــــــــــــــــــ

ایک بات ہے کہ ساری قوم ، عوام، عدلیہ، اور ادارے ، وزیر اعظم اور صدر اور سیاہ ست دانوں کے احتساب کی بات کرتے ہیں ہر آنے والا ہر جانے والے کے احتساب کی بات کرتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں احتساب نیچے سے ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔
 
مثال کے طور پرــــــــــــــــ
 
کم از کم ایک علاقے کے ایس ایچ او، کونسلر ، سکول کالج کے پرنسپل، اداروں میں بیٹھے کلرک ،مساجد کے مولوی، اور خاص طورپر مدارس اور این جی اوز چلانے والے لوگـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
 یعنی اس لیول کے لوگوں کا احتساب کیا جائے۔
 
!!!!!لیکن کیسے!!!!!
 
جیسے کراچی آپریشن سٹارٹ ہوا؟ ویسے؟
 
جی نہیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــں
 
ہفتہ بھر پہلے میڈیا کے کتوں کو بھونکنے پر لگا دیا کہ ہم آپریشن کر رہے ہیں۔ جس کو ادھر ادھر ہونا ہے ہو جائے پھر نا کہنا بتایا نہیں تھا۔
 
عام عوام کو کھلی اجازت ہو کہ وہ ایسے لوگوں کے کالے کرتوت منظر عام پر لائیں مگر "اپنی شناخت" پوشیدہ رکھ کر۔ اور جس جگہ یہ ساری معلومات اکھٹی ہوں وہ جگہ مکمل طور پر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ کیوں کہ نوجوان ہی وہ طاقت ہے جو کسی بھی قسم کا دباو برداشت نہیں کرتے۔
 
اس جگہ پر اکھٹے ہونے والا ڈیٹا،
 
ذاتی نقل و حرکت
لوگوں سے میل جول
زمین جائیداد
گاڑی، کوٹھی، بنگلہ
بنک بیلنس
معمولات زنگی
رہن سہن
اخلاقیات
تعلیم اور تجربہ وغیرہ وغیرہ
 
ان سب پر مشتمل ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بنیاد پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بندہ خاندانی زمین جائیداد کے نا ہونے،اور کوئی دوسرا حلال زریعہ آمدنی نا ہونے کے باوجود  صرف ماہانــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ تنخواہ پر اپنا گھر کیسے چلا رہا ہے،
 
اس کی تعلیم اور تجربہ اس کی موجودہ پوسٹ یا کرسی کے مطابق ہے،
 
اس کے پاس اثاثہ جات کیسے اور کہاں سے آتے ہیں،
 
اس کی اپنی اخلاقیات کیا ہیں،
ظاہر ہے ایک شرابی، زنا کار، جواری انسان کا کیا کردار ہوگا
 
ان ساری چیزوں پر مشتمل ڈیٹابیس صرف 30 دن میں بتا سکتا ہے کہ یہ لوگ نظر کیا آتے ہیں اور حقیقت میں کیا ہیں؟
 
اور مکمل رپورٹ کی بنا پر اگر وہ نا اہل ہے توفوری طور پر اس کو اس عہد سے برطرف کر کے اس جگہ پڑھے لکھے نوجوان لوگوں کو لگایا جائے۔
 
اس کے کئی مثبت پہلو ہوں گے۔
 
نوجوان پڑھے لکھے ، تازہ زہن لوگ اداروں میں آئیں گے
 
معاشرے کے یہ ناسور جو ناجانے کتنے کتنے سالوں سے سانپ بن کر بیٹھے ہیں ان سے پاکی نصیب ہوگی
 
نئے لوگ، تعلیم یافتہ لوگ لانے سے نظام میں یقینی بہتری آئے گی
 
اور بہت سوں کو سبق ملے گا کہ وہ اپنا قبلہ درست رکھیں ورنہ عوامی احتساب کو شکار بھی ہو سکتے ہیں
 
کسی بھی ادارے کے کرتا دھرتا کی یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی کہ وہ شداد ہے اور اپنی جنت سجائے بیٹھا ہے اور کوئی اس کو زمین بوس کرنے والا نہیں۔
 
امید ہے کہ صاحب عقل لوگ میری بات سے اتفاق کریں گے۔
شکریہ
 

2 comments:

  1. قبلہ عقل تو بازار میں ملتی نہیں ۔ کہاں سے لاؤں ؟ البتہ میرا دو جماعت پاس ناتجربہ کار دماغ بتاتا ہے کہ باتیں سب درست ہیں لیکن اس جوانوں کی کمیٹی کا سربراہ ایک ایسا تجربہ کار بزرگ ہونا چاہیئے جو معاملات کا تجربہ رکھتا ہو اور اپنی حلال کی آمدن پر زندگی گذاری ہو ۔ جوانوں کیلئے شرط ہو کہ اُنہوں نے کالج میں تعلیم کے دوران اور بعد میں بھی وقت محنت اور خلوص سے سچائی کی پاسداری میں گذارا ہو ۔ وہ جوان ہی تھے جو بزرگ (قائد اعظم) کی سربراہی میں پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ اندر کھاتے کی بات یہ ہے کہ عصرِ حاضر کے جوانوں کی اکثرت اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتی اور اپنی خواہشات کو اپنے حقوق کا نام دے رکھا ہے اور کھاتے پیتے ہیں اُن کی نظریں امریکہ کی مؑترف اور زبانیں پاکستان کے خلاف چلتی ہیں اور یہ کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ پاکستان بھی کوئی رہنے کے قابل ہے ۔ آپ نے کبھی ان جوانوں کو سڑک پر کار یا موٹر سائیکل چلاتے دیکھا ہے ؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. افتخار بھائی!!!! یقین مانیں میرا مقصد یہ نہیں کہ نوجوانوں کے حوالے سب کچھ کر دیا جائے یا اللہ پاک معاف کرئے بزرگوں کی کوئی ضرورت نہیں ، قیادت تو بہر کیف قیادت ہے، جس کے بغیر انسان بھی ریوڑ ہیں اور اگر درست قیادت ہوتو ریوڑ بھی لائن میں لگے نظر آتے ہیں۔ لیکن میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ ہماری نوجوان، پڑھ لکھ کر علم و شعور ہونے کے باوجود اس لئے غیر ملکی زبان منہ میں اور غیر مسلموں والے کام دل و دماغ میں لیئے گھوم رہے ہیں کیوں کہ ان کو کرنے کو کچھ نہیں۔ بے روزگار اور ہر معاملے میں ناانصافی نے ابتر صورت حال بنا رکھی ہے۔
      اصل مقصد تھا کہ احتساب شروع کہاں سے کیا جائے، سو میرا خیال ہے کہ یہ لوگ جو اس تحریر میں میں نے بیان کیئے ہیں یہ کرپشن اور برائی کی جڑیں بن کر بیٹھے ہیں، حکوت آئے یا جائے، ان کی فائل بند رشتوں کا نا ٹوٹنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
      یہی لوگ ہیں جو ایک ناسور کی طرح چپکے ہوئے ہیں، اگر ان جڑی بوٹیوں کو فصل سے نکالنا ہے تو ان کو جڑوں سے اکھاڑنا ہوگا۔
      اور آخر میں ایک بات اور امید بھری بات کہوں، کہ اگر ہمارے ارض پاک پہ ہمیں کام کرنے کا موقع ملے تو یقین کریں کہ یہی نوجوان جو سڑکوں پہ اپنی زندگیاں شیاطین کاموں میں بے موت ضائع کر رہے ہیں یہی نوجوان اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور وہ بھی سالوں ، مہینوں میں نہیں دنوں میں۔

      شکریہ

      Delete