Tuesday, 17 September 2013

موتی بازار اور موتی لال


 
 


 

1 comment:

  1. میں نے پڑھنا شروع کیا تو دل و دماغ کہہ رہے تھے ”اب وہ موتی بازار کہاں“۔ ہماری رہائش جولائی 1964ء تک جھنگی محلہ (گلی صوریاں) میں رہی ۔ وہاں سے گلیوں کے راستے موتی بازار پیدل کا راستہ تھا ۔ میں سکول کے زمانہ تک اپنی والدہ کے ساتھ موتی بازار جاتا رہا ۔ ہم گلیوں میں سے بھابڑہ بازار اُس جگہ نکلتے تھے جہاں داہنی طرف وہ عمارت تھی جو شیخ رشید اور اس کے چچاؤں کی رہائش تھی ۔ اس کا نام کسی ہندو کے نام پر تھا ۔ جب شیخ رشید مالک بنا تو اس نے لال حویلی رکھ دیا ۔ یہاں سے سامنے تھوڑا بائین طرف موتی بازار شروع ہوتا تھا ۔ جس میں زیادہ سامان خواتین کے خریدنے کا ہوتا تھا اور مناسب قیمت پر ملتا تھا ۔ گاہک اکثر خواتین ہی ہوتی ۔ دکاندار اکثر مرد ہوتے لیکن اُن کا انداز شریفانہ ہوتا تھا ۔ میں اس بازار میں لکڑی اور سنگِ مرمر کی دستکاری کا خریدار جوان بلکہ شادی شدہ ہونے کے بعد بھی رہا ۔ اس کیلئے میں نیا محلہ کی طرف سے داخل ہوتا تھا کیونکہ اس طرف سے دکان بہت قریب تھی اور مجھے خواتین میں سے گذرنا نہیں پڑتا تھا ۔ مگر ذہنیتیں بدلیں تو سب کچھ بدل گیا ۔ عوامی دور میں مِڈل مَین کی ایجاد نے ایک طرف عام آدمی کی خریداری کو ٹھیس پہنچایا تو دوسری طرف دستکار کو تباہ حال کر دیا ۔ پچھلی چار دہائیوں میں تو موتی بازار کا حُلیئہ ہی بدل گیا ۔ وہاں بھی سرمایہ داروں اور اجارہ داروں کا قبضہ ہو گیا ۔ سب مکان دکانوں میں تبدیل ہو گئے اور دنیا کی ہر خرافات وہاں ہونے لگی ۔ ہم جیسے بزدل لوگوں نے وہاں جانا تین دہائیاں قبل ترک کر دیا

    ReplyDelete