Sunday 22 September 2013

:::::انسانیت کی موت::::::

ویسے تو اب یہ معمول بنتا جا رہا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جس دن انسانیت کا قتل نا ہورہا ہو۔ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں تو یہ ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جو نا جانے کب ختم ہوگا، ہو گا بھی یا کسی دن اس سلسلے کی بھینٹ چڑھ کر ہم ہی ختم ہو جائیں گے۔ میں کوئی عالم نہیں ، نا ہی مجھے محرکات کا پتا ہے لیکن میرا دین وہ دین ہے جو امن ، پیار ،محبت، اخوت، بھائی چارہ کا سبق دیتا ہے۔ کہیں بھی کبھی بھی یہ نہیں کہا گیا کہ انکھیں بند کر دے قتل عام شروع کردو۔ شاید امت مسلمہ میں پاکستان کی حالت سب سے زیادہ ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وہ ملک جس کو دین اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں کیا ہو رہا، ہمارا دین کبھی بھی کہیں بھی کسی اقلیت کو قتل کرنے کا نہیں کہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دین تو وہ سائبان ہے جو ہر بھٹکے ہوئے کو اپنی پناہ میں لے کر راہ حق پر لاتا ہے، جس کے دائرے میں آنے کے بعد کسی بڑی سے بڑی قوت کی مجال نہیں جو کسی کی طرف دیکھ بھی سکے۔۔۔۔۔
 
پھر یہ کیا ہورہا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
 
آج کا واقعہ دل دہلا دینے والا ہے، لاشوں کےانبار اور انسانوں کے بکھرے ہوئے اعضاء ہماری حکومت ، ہمارے اداروں اور ہماری ناکامی کا منہ چڑا رہےہیں۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ہمارے اندر موجود لوگ جنھہوں نے اس ملک کو امن سے دور کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ کہاں سے کیا آتا ہے کون آتا ہے کون لاتا ہے اور لا کر استعمال کرتا ہے، صرف ہماری سلامت کو تباہ کرنے کے در پہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں دشمن وہ نہیں جو یہ کرتا ہے بلکہ دشمن وہ ہے جو یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہونے دیتا ہے۔
 
کالی بھیڑیں، میر جعفر ، میر صادق کے پیرو کار، چانکیہ کے چیلے اور ان کی اولادیں، نسل در نسل ہماری جڑوں کو ایک دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
 
کہاں گئے دفاع اور سلامتی کا حلف اٹھانے والے؟
 
حکومت کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک حکومت سے منسلک ادارے اپنا قبلہ درست نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ورنہ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ ہم سب کے لیئے لمحہ فکر اور المیہ ہےـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
 

 

No comments:

Post a Comment