Thursday 24 January 2013

چور مینا

چور مینا
 
 
مہاراجا رنجیت سنگھ پنجاب کا راجا تھا۔ ایک دفعہ اس کے زمانے میں لاہور میں اس بات کا بڑا شور مچا کہ عورتوں کے زیور خود بخود غائب ہوجاتے ہیں۔ کوئی عورت کان سے بالی اتار کر ادھرادھر ہوئی اور بالی غائب۔ کسی نے منہ دھوتے وقت ناک سے لونگ اتار کر رکھی تو لونگ ندارد۔ کسی نے ناک سے کیل اتاری اور خود گھڑی بھر کے لیے اندر گئی تو کیل ہی گم۔ بڑھتے بڑھتے یہ حالت یہاں تک پہنچی کہ ہر روز کسی نہ کسی محلے میں عورتوں کے زیور چوری ہونے لگے۔
 
چند ہی دنوں میں ایسا طوفان اٹھا کہ لوگ کوتوالی میں حاضر ہو کر چیخ و پکار کرنے لگے کہ دن دہاڑے چیزیں اڑ جاتی ہیں اور کچھ پتا نہیں چلتا، مزے کی بات یہ تھی کہ جہاں چوری ہوتی وہاں کسی غیر آدمی کا آنا ثابت نہیں ہوتا تھا، اندر سے اگر مکان کو قفل لگا رکھا ہے یا سیڑھیوں کو بند کیا ہوا ہے تو وہ بھی بدستور بند رہتی تھیں۔ لیکن زیور غائب ہوجاتا تھا۔
 
یہ حالت چھ ماہ تک رہی۔ شہر میں اس بات کا عام چرچا تھا کہ عورتوں کے چھوٹے چھوٹے زیور پراسرار طریقے سے چوری ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی بے پروا اور سیدھی سادی عورتوں لونگ، کیل، انگوٹھی، چھلا اتار کر گھر میںرکھ دیتی تھیں اور وہ فوراً غائب ہوجاتا تھا، کہا جانے لگا کہ کوئی جادو کے زور سے چوری کرتاہے۔ بعض لوگوں کی رائے تھی کہ جن بھوت چرا کر لے جاتے ہیں۔
 
ان دنوں لاہور میں شہباز خاں کوتوال تھا، یہ شخص قصور کا رہنے والا تھا، اس کے ماتحت ارجن سنگھ جمعدار تھا جو بہت قابل اور ذہین تھا۔ عام طور پر پیچیدہ مقدمات جن کا سراغ لگانا مشکل ہوتا، تفتیش کے لیے ارجن سنگھ کے سپرد کیے جاتے تھے، ایک دن بیٹھے بیٹھے کوتوال صاحب ارجن سنگھ سے کہنے لگے۔
 
دیکھ لی آپ کی لیاقت۔ آپ اس چور کا سراغ نہیں لگاسکتے۔
 
یہ سن کر جمعدار نے کہا۔ حکم کی دیر ہے۔ دیکھیے کس طرح گرفتار کرکے لاتا ہوں۔
 
اس پر کوتوال نے ارجن سنگھ کو اس عجیب و غریب چور کی گرفتاری پر مامور کیا۔ عقل مند جمعدار نے سب سے پہلے ان مکانوں کا معائنہ کیا، جہاں سے زیور چوری ہوئے تھے، سب زیور ہلکے وزن کے تھے۔ جمعدار سوچنے لگا کہ چور انسان نہیں ہے، یہ کوئی اور ہی مخلوق ہے، اسی فکر غرق وہ بازار میں گزر رہا تھا کہ ایک شخص کو دیکھا کہ دونی چھت پر سے گراتا ہے اور مینا اسے گرنے سے پہلے پکڑ لیتی ہے اور اپنے مالک کے پاس لے آتی ہے۔ ارجن سنگھ کے ذہن میں پہلے ہی یہ خیال تھا کہ اس قسم کی چوری انسان نہیں کرتا، بلکہ کوئی اور چیز ہے۔ فوراً دماغ اس طرف متوجہ ہوا کہ ہو نہ ہو کوئی جانور چور ہے جس کو یہ سکھایا گیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے زیور جہاں پڑے ہوں اٹھا کر مالک کے پاس لے آئے۔
 
یہ گتھی حل ہوتے ہی وہ ہر شخص کی بڑے غور سے نگرانی کرتا رہا، ایک دن ایک شخص کو پنجرا ہاتھ میں لیے ہوئے دیکھا، جس پر غلاف پڑا ہوا تھا اور وہ شخص ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔
 
ارجن سنگھ کو شک ہوا وہ اس کے پیچھے لگ کر نگرانی کرنے لگا۔ دوسرے ہی دن اس نے دیکھا کہ چونا منڈی کی ایک گلی میں جا کر اس شخص نے ادھر ادھر تاکا اور جب وہاں کسی کو موجود نہ پایا تو پنجرے کا غلاف تھوڑا سا اٹھادیا اور ایک پرندہ اڑا کر باہر چلا گیا۔ یہ شخص گلی میں ٹہلنے لگا۔ ارجن بھی تاک میں تھا، کوئی دس پندرہ منٹ کا عرصہ گزرا ہوگا کہ وہیں پرندہ چونچ میں انگوٹھی پکڑے ہوئے جھٹ اس شص کے ہاتھ پر آبیٹھا اور اس نے انگوٹھی جیب میں ڈال کر جانور کو پھر پنجرے میں بند کردیا اور کوئی کھانے کی چیز اس کو دے دی۔
 
ارجن سنگھ یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوا، اس کو جس چیز کی تلاش تھی، وہ مل گئی، جب یہ مجرم موتی بازار میں سے گزر رہا تھا تو ارجن نے اسے پکڑ لیا، اور اس کی تلاشی لی تو دو لونگیں، تین انگوٹھیاں اور دو چھلے برآمد ہوئے، اس وہ کو کوتوالی لے گیا اور پنجرا کوتوال کے سامنے رکھ کر کہا.... جناب! اس پنجرے میں آپ کا چور ہے، جس نے کئی مہینوں سے شہر میں آفت مچارکھی ہے اور یہ شخص جو پاس کھڑا ہے، اس کا مالک ہے۔
 
کوتوال نے اس شخص سے دریافت کیا تو اس نے اپنے مکان کا پتا بتایا جہاں سے ایک گھڑا انگوٹھیوں، چھلوں اور سونے کی کیلوں وغیرہ کا برآمد ہوا، مجرم نے بتایا کہ میں نے اس مینا کو سکھا پڑھا کر چور بنایا تھا، جہاں یہ سونے کی کوئی کم وزن ہلکی سی چیز پڑی دیکھتی، اٹھا لاتی،
 
اس گرفتاری سے کوتوال صاحب اور شہر کے لوگ بہت خوش ہوئے اور ارجن سنگھ کو معقول انعام ملا۔ مجرم کے دونوں ہاتھ کٹوادیے گئے اور مینا کو شاہی چڑیا خانے میں بھیج دیا گیا اور اس کے پنجرے پر لکھ دیا گیا چور مینا جو بھی اسے دیکھتا، چور اور سراغ رساں کی چالاکی پرحیران ہوتا۔
 

No comments:

Post a Comment