Monday, 7 January 2013

لکڑی کی “نصف ہٹ” میں بسیرا ہے آج کل

لکڑی کی “نصف ہٹ” میں بسیرا ہے آج کل
فدوی بشیر نہیں ہے “بیٹرا” ہے آج کل
 
دو”کمریاں ” کہ عرض ہے جن میں نہ طول ہے
جینا اگر یہی ہے تو مرنا فضول ہے
 
جو چیز جس جگہ تھی ضروری وہیں نہیں
چھت بے تکلفی میں کہیں ہے کہیں نہیں
 
آواز جو بلند ہوئی پار ہو گئی
اب گھر میں بات چیت بھی دشوار ہو گئی
 
پنکھے کے ساتھ ساتھ ہے چھت بھی چلی ہوئی
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
 
دیوار اس طرف ہے تو شہیتر اس طرف
جلسہ ادھر ہے نعرئہ تکبیر اس طرف
 
”اسٹور” اس طرف تو ” کچن ” دوسری طرف
”بلب اس طرف ٹنگے ہیں ” بٹن” دوسری طرف
 
شاعر ادھر ہے، مشق سخن دوسری طرف
رن اس طرف بپا ہے ”بزن” دوسری طرف
 
صحنِ چمن کی نہر لِبن دوسری طرف
نلکے کا دھڑ ادھر ہے تو پھن دوسری طرف
 
بیلیں اگی ہوئی ہیں ترے در کے سامنے
کدو اچھل رہے ہیں مرے گھر کے سامنے
 
مرغوں کا شوق ہے جو ادھر کے مکین کو
اچھی سزا ملی ہے ادھر کی زمین کی
 
گھبرا کے پی گئے، کبھی کلغا کے پی گئے
پانی نیاز مند کے گھر آکے پی گئے
 
کچھ بے وقوف مرغ جو خوددار ہو گئے
وہ شام ہی سے فتنہ ء بیدار ہو گئے
 
گائے جو پال رکھی ہے اطفال کے لئے
فی الحال کام آتی ہے،بھونچال کے لئے
 
روئے سخن ادھر تو سخن دوسری طرف
گھنٹی کا تن ادھر ہے تو ٹن، دوسری طرف
 
مہمان محترم جو کوئی آکے رہ گیا
کچھ ایسی شرم آئی کہ شرما کے رہ گئے
 
کھانا جہاں دیا وہیں نہلا دیا گیا
ہم اس سے اور وہ جان سے بیزار ہو گیا
 
رشتہ تعلقات کا ہموار ہو گیا
نہلا دیا گیا کبھی لٹکا دیا گیا
 
بستر ہے رہ گزار بستر کے سامنے
دارا پڑا ہوا ہے سکندر کے سامنے
 
آندھی میں رات کرتہ اور بنیان تو گیا
اب خود بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
 
فرزند خیر سے جو جہاں چند ہو گئے
پیدا ہوئے ادھر کہ ادھر بند ہو گئے
:::سید ضمیر جعفری:::

No comments:

Post a Comment