Tuesday, 29 January 2013

....:::::امید:::::....

ایک دفعہ ایک جوہڑ کے کنارے دو گدھے اکھٹے ہو گئے-
ایک کا مالک دھوبی تھا اور دوسرے کا مالک کمہار، ، ، ، ، ، ، ،
یونہی کمہار کے گدھے نے دھوبی کے گدھے سے پوچھا سناو یار کیسی چل رہی ہے زندگانی-
دھوبی کے گدھے نے خرمستی سے جھوم کر کہا:
بس یار مزے ہی مزے ہیں، صبح صبح دھوبی کپڑے مجھ پر رکھ کر ندی کنارے لے جاتا ہے مجھے ہری ہری گھاس کھانے کے لیئے چھوڑ دیتا ہے ، مزے دار ہوا ، سبز گھاس اور ندی کا ٹھنڈا میٹھا پانی- شام ہوتی ہے تو اجلے اجلے سوکھے دھلے کپڑے مجھ پر رکھ کر گھر لے آتا ہے اور شام کو مزے دار دانا دیتا ہے خوب خدمت کرتا ہے. بس زندگی عیش کی گزر رہی ہے. تم سناو تمہاری زندگی کیسی گزر رہی ہے؟
کمہار کے گدھے نے روتی شکل بنا کر کہا یار کیا بتاوں، بہت مشکل میں جان ہے،،،،،، کمبخت کمہار صبح سویرے ہی اٹھ کر کچھ کھانے پینے بھی نہیں دیتا اور مٹی لانے کو چل پڑتا ہے، پہلے مجھی پر مٹی لاد کر لاتا ہے پھر اس کے برتن بنا کر مجھی پر لادتا ہے اور گلی گلی بیچتا ہے، سارا سارا دن بھوک پیاس میں گزرتا ہے، بس برا حال ہے.
اس کی حالت پر دھوبی کے گدھے نے حیرانگی سے کہا: " یار تو تم کمہار کے گھر کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے"
کمہار کے گدھے نے کہا یار چھوڑ تو دوں لیکن میں ایک امید پر ہوں، دھوبی کے گدھے نے حیرانگی سے پوچھا کیسی امید؟
اس نے جواب دیا:::::::::: یار کمہار کی ایک خوبصورت جوان بیٹی ہے جو اس کو بہت ستاتی ہے، جب بھی وہ اس پر غصہ ہوتا ہے اس کو ڈانٹ کر کہتا ہے!!! باز آ جا باز، ورنہ تیری شادی گدھے سے کر دوں گا!!!!!!!!
بس یار اسی امید پر ہوں کہ کس دن کمہار اپنی بات پوری کرتا ہے........................
 

No comments:

Post a Comment