Wednesday 13 April 2011

نہیں دیکھا

بچھڑا ہے جو اک بار

تو ملتے نہیں دیکھا

اس زخم کو ہم نے

کبھی سلتے نہیں دیکھا

اک بار جسے چاٹ گئی

دھوپ کی خواہش

پھر شاخ پہ اس پھول کو

کھلتے نہیں دیکھا

یک لخت گرا ہے تو

جڑیں تک نکل آئیں

جس پیڑ کو آندھی میں بھی

ہلتے نہیں دیکھا

کس طرح مری روح

ہری کر گیا آخر

وہ زہر جسے

جسم میں کھلتے نہیں دیکھا۔

No comments:

Post a Comment