Monday, 11 April 2011

آج تم کو بھلا دوں گا۔۔۔۔۔11.04.2011

کہتے ہیں کہ دل نہیں توڑنا چاہیئے، کیوں کہ جب دل ٹوٹتا ہے تو آہ سیدھی اوپر جاتی ہے۔

بس کچھ ایسا ہی ہوا ہے، میں نے کسی کا دل توڑا،اور اس کے دل سے آہ نکلی اور دکھی دل کی آہ تو بہت اثر والی ہوتی ہے، سو وہی ہوا مجھے اس کی سزا ملی، کیسے ملی اور کتنی ملی یہ تو بتانا تھوڑا مشکل ہے کیوں کہ کچھ سزائیں لا محدود ہوتی ہیں جن کی اذیت زندگی سے بندھی سانسوں کی طرح آخری حد یا آخری وقت تک ساتھ رہتی ہے۔

آج میں خود کو
کڑی سزا دوں گا
ساری باتیں،
ساری یادیں،
سارے رنگین لمحے
تمہاری کھنکتی ہنسی
قید کر کے کاغذ کے پنے میں
بہتے دریاکی تیز موجوں پہ
بند آنکھوں سے سب بہادوں گا
نم آنکھوں سے سب بہادوں گا
تم تو بھول ہی گئی ہو جاناں
لو آج میں بھی
تمہیں بھلا دوں گا
خود کو کڑی سزادوں گا
آج تم کومیں بھلا دوں گا۔۔۔۔۔

پھر اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ میں لوٹ کر تمہارے پاس آجاوں، لیکن دماغ نے دل کا ساتھ نا دیا، اور ایک آواز آئی کہ جب تیر کمان سے نکل ہی چکا ہے تو اب , سو دیکھتے ہیں وقت کہاں تک لے کر جاتا ہے ۔ بس میں نے اپنے دل کو سمجھایا کیوں کہ "دل تو بچہ ہے" اب سزا مل ہی گئی تو کیوں نا اس سزا کو سزا در سزا بنا دیا جائے۔

سو!!!
پلٹ کر آنکھ نم کرنا
مجھے ہر گز نہیں آتا
گئے لمحوں کا غم کرنا
مجھے ہر گز نہیں آتا
محبت ہو تو بے حد ہو،
نفرت ہو تو بے پایاں
کوئی بھی کام کم کرنا
مجھے ہر گز نہیں آتا

دیکھتے ہیں کہ یہ سزا کب تک چلتی رہے گی۔ انسان عدالت کے آگے اپنی صفائی پیش کر سکتا ہے لیکن اپنے دل کی عدالت میں کچھ بھی نہیں بول سکتا۔ کیوں کہ " دل تو بچہ ہے" اور بچے وہی کرتے ہیں وہی کہتے ہیں جو انکو سچ لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھیں گے بھلا کر ہم بھی
کہ کون ہمیں یاد کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment