Tuesday 12 April 2011

ظرف آسماں کا ہے

میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسماں کا ہے
کہ ٹُوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے

بُرا نہ مان میرے حرف زہر زہر سے ہیں
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زباں کا ہے

ہر ایک گھر میں مُسلط ہے دِل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے

بِچھڑتے وقت سے اب تک میں یُوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا کہ یہ وقت امتحان کا ہے

مُسافروں کی خبر ہے نہ دُکھ ہے کشتی کا
ہوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادباں کا ہے

وہ برگِ زرد کی صُورت ہوا میں اُڑتا ہے
وہ ایک ورق بھی میری اپنی داستاں کا ہے

یہ اور بات کہ عدالت ہے بے خبر ورنہ
تمام شہر میں چرچا میرے بیاں کا ہے

اثر دکھا نہ سکا اس کے دِل میں اشک میرا
یہ تیر بھی کسی ٹُوٹی ہوئی کمان کا ہے

بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بے خبر بھی رہے
یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگماں کا ہے

قفس تو خیر مقدّر میں تھا، مگر محسن
ہوا میں شور اب تک مری اُڑان کا ہے

No comments:

Post a Comment