Saturday 2 April 2011

کرتہ!!!!!1947

کرتہ!!!!!1947

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی پاکستان بھارت آزاد نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ شاید یہ اس سے بھی پہلے کی بات تھی۔ میرے والد صاحب ان دنوں پڑھنے کے لیئے گاوں سے دہلی شہر گئے ہوئے تھے، تب ابھی تک آزادی اور علیحدگی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا، باتیں ہی باتیں تھیں۔ ہر عید پر جب وہ گھر کے لئے روانہ ہوتے تو ان کی روانگی سے پہلے ہی ماں جی (یعنی میری دادی) ان کے لیئے عیدکے کپڑے یعنی عید کا کرتہ سیتی تھیں، بہت چاو سے مان سے پیار سے ماں جی کے ہاتھوں کا بنا ہوا کرتہ پہن کر وہ نماز عید ادا کرتے۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا پھر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی تو محکمہ ڈاک میں نوکری مل گئی۔ گھر میں سے کوئی بھی اس بات پر راضی نا تھا کہ وہ سرکار کی ملازمت کریں، اور ملازمت بھی وہ جس میں جگہ کا کوئی پتا نا ہو کہ کب کہاں جا کر ڈیوٹی انجام دینی پڑے۔

لیکن اس وقت میں دس جماعت پاس کرنا ہی اعلٰی تعلیم ہوا کرتی تھی، اور پھر ایسی تعلیم کا کیا فائدہ اگر ملازمت ہی نا کرنی ہو۔ بہر کیف قصہ مختصر کہ محکمہ ڈاک کی ملازمت اور زندگی کا سفر اور ایک ایسا سفر جو آگے جا کر ایک لمبی جدائی بن گیا۔

ان کا پہلا تبادلہ ہی پشاور میں ہوا، کیوں اس وقت میں واحد مواصلاتی نظام ہی ڈاک تھا، اور پشاور ابھی ترقی اور جدت سے بہت دور تھا، سو حاکم وقت کو وہ ایک ایسا بندہ درکار تھا جو وہاں کے اکلوتے ڈاک خانے اور نظام ڈاک کو بہتر ڈھب سے چلا سکے۔ سو وہ وہاں جا بسے اور اپنے فرائض کو بخوبی انجام دینے لگے۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور پھر وہ گھڑی آئی جس نے گھروں کے گھر، کنبے کے کنبے اور خاندانوں کے خاندان جدا کردیئے۔

سنہ 1947ایک بہت ہی اداس شام تھی جب اچانک اطلاع ملی کہ تحریک آزادی نے اپنا رنگ دکھایا ہے اور لہو کی داستان لکھنے کا وقت آن پہنچاہے۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وہ اپنے گھر پہنچ جائیں لیکن کامیاب نا ہو سکے، نوکری تو بہت دور رہ گئی بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اپنوں کے پاس پہنچ جاوں۔

لیکن کاتب تقدیر کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ کراچی تک پہنچ گیئے لیکن حالات نے ایسا موقع ہی نہیں دیا کہ اس سے آگے جا سکتے۔ پھر بہت عرصہ تک یونہی ادھر ادھر گھوم پھر کر کام کی تلاش کرتے رہے اور آخر کار کچھ پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے اور کچھ اتنا عرصہ محکمہ ڈاک میں ملازمت کی وجہ سے دوبارہ نئے سسٹم میں نوکری مل ہی گئی، ساتھ ہی ساتھ کچھ کاروبار کی کوشش میں لگ گئے، جلد یا بدیر جانے کی کوشش تو کرنی ہی تھی لیکن فوری طور پر ممکن نا تھا کیوں کہ بلوے، ھنگامےاور مارا دھاڑی کا بہت زورتھا، بس فائدہ تھا تو اتنا کہ کسی نا کسی طور گھر والوں کو یہ خبر پہنچا دی کہ میں زندہ ہو ٹھیک ہوں اور فلاں جگہ کام کر رہا ہوں۔

ان کے خاندان کنبے کے ساتھ ویسا ہی ہوا جیسا کہ بہت سے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ہوا، جب بلوے اور ہنگامے شروع ہوئے ، آزادی کے نعرے بلند ہوئے تو ان کو یہ پراپیگنڈہ پڑھایا گیا کہ یہ تو صرف ایک بغاوت ہے اور اس میں سچائی نہیں، کچھ عرصہ بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اور کوئی بھی ادھر ادھر نہیں جائے گا۔ نا پاکستان بنے گا نا ہی کوئی آزاد ہو گا، سو ان کے دل ودماغ پر یہی خوف تھا کہ گھر بار زمین جائیداد سب کچھ چھوڑ کر کدھر جائیں گے، پاکستان کدھر ہے کونسی سمت ہے کونسا راستہ ہے کچھ معلوم نہیں تھا۔ پہلے تو کسی میں اتنی جرات ہی نا ہوئی آزادی کی بات کرئے اور اگر کسی کے دل میں خیال آیا بھی تو وہ یہ سوچ کر چپ ہوگیا کے ابھی حالات خراب ہیں جب ٹھیک ہو جائیں گے تو چلے جائیں گے کونسا کوئی روکے گا۔

لیکن افسوس ایسے بہت سے لوگوں کااور خاندانوں کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ جو نا آسکے وہ نا آسکتے تھا نا ہی پھر کبھی آئے۔

اس جگہ ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ تقسیم ہند کے وقت جیسا ہر مسئلہ میں ناانصافی ہوئی ویسی ہی لوگوں کی ہجرت میں بھی بہت ظلم اور زیادتیاں ہوئیں، پنجاب میں بسنے والوں نے اپنا خون پانی کی طرح بہایا اور سرحد پار کرگئے کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ ان کا خون بہے گا بھی تو سرحد پار جا کر ہی جذب ہوگا انہیں مار کر قتل کر کے روکنا ممکن ہی نہیں تھا وہ تو بس ایک ہی بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ بن کے رہے گا پاکستان لے کے رہے گے پاکستان، کتنے پہنچے کتنے شہید ہوئے کتنی عزتیں پامال ہوئیں کتنے بچے یتیم ہوئے کتنی سہاگنوں کے سہاگ اجڑے اگر وہ لکھنے بیٹھیں تو شاید پوری عمر لگ جائے، کیوں کہ ہر وہ شخص جس نے ہجرت کی اس سے وابستہ ایک پوری داستان ہے۔ لیکن میں یہاں ان لوگوں کا ذکر کروں گا جو ہندومت کے ناپاک ہتھ کنڈوں میں گھرے بیٹھے تھے۔ جن کا خود جانا توبہت دور کی بات اگر فوج بھی ہوتی تو بہت مشکل تھا کیوں کہ یہ لوگ ہندوستان کے ان علاقوں میں آباد تھے جہاں سے سرحد تک رسائی مشکل ہی نہیں نا ممکن تھی، جن لوگوں نے کوشش کی بھی وہ شاید ماضی کا ایک ایسا مدفن باب بن گئے جو کبھی نہیں کھلنے والا۔

خیر گھر والوں کو اپنے زندہ ہونے کا پتا دیا اور ان کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کے سب ٹھیک ہیں، سب کو تسلی دی کے بے فکر ہو جائیں جیسے ہی حالات ٹھیک ہوں گے میں ضرور آوں گا، لیکن کہتے ہیں کہ ہر انسان کچھ نا کچھ خود غرض ہوتا ہے۔ سو کام کام اور صرف کام کی لگن اور کچھ کرنے کی آگے بڑھنے کی تگ و دو نے ایسا کر دیا کہ برس ہا برس گزر گئے، شادی ہو گئی اور بچے بھی لیکن نا تو حالات ایسے ہوئے اور اگر حالات اچھے ملے تو وقت نا ملا، بس گھر سے رابطے میں بھی وقت کی دیوار تھوڑی اونچی ہوتی گئی۔ لیکن کہیں اندر ہی اندر ایک کسک ایک جنون ایک شوق ایک محبت ایک شعلہ تھا جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا تھا۔اور وہ اکثر بڑی اولاد ہونے کے ناطے مجھے ان سارے حالات اور اپنی ادھوری خواہشات کے بارے میں بتاتے رہتے تھے۔

پھر یوں ہوا کہ میں بھی پڑھ لکھ کر سمجھدار ہو گیا، ابا ریٹائر ہو چکے تھے اور مجھے روزگار مل چکا تھا، روزگار بھی کچھ ایسا تھا میں بہت سے ممالک کی سیر کرتا رہتا تھا،چھوٹی بھائی بھی اب سمجھدار تھے ایک تعلیم مکمل کر کے برسر روزگار تھا دوسرا تقریباََ مکمل کرنے والاتھا۔ پھر اچانک ایک دن مجھے محسوس ہوا کہ ابا کی زندگی کی کمی کو اور ابا کے دل میں دبی ہوئی چنگاری کی ہوا دیکر ایک شعلہ کیوں نا بناوں، اگر ابا نہیں جا سکتے تو میں تو جاسکتاہوں اور ویسے بھی میرے پاسپورٹ پر لگنے والے لاتعداد بدیشی ویزاجات میری بھارت یاترا کو جانے میں مددگار ہو سکتے تھے، میں دیکھ کرتو آووں کہ یہ جدائی کی اتنی لمبی لکیر جو شاید تقدیر میں ہی تھی کہاں سے شروع ہوئی ہے اور کہاں تک جائے گی۔

میں نے ابا سے سب کچھ معلوم کیا، ویزا لگوانے میں اپنے وسائل کو استعمال کیااور سرحد پار اپنے ان رشتہ داروں کو جنہیں میں جانتا بھی نہیں تھا ان سے رابطہ کرکے جانے کی تیاری پکڑی، میں براستہ جہاز نیو دھلی ایر پورٹ پہنچا، جہاں سے مجھے ٹرین پکڑ کر اگے جانا تھا۔ خیر اس سفر کی داستان بھی بہت مزے دار تھی، ہندو ذہینیت کو جتنا شاطر اور خباثت بھرا ہم سمجھتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں جتنی وہ درحقیقت ہے۔ ہندوستان میں داخل ہوتے وقت ایک بات کا یقین کر لیں کہ کچھ ہو نا ہو بس آپ کا پاکستانی اور ہرے پاسپورٹ والا ہونا ہی کافی ہے۔

بہت سی دماغی کوفتوں اور سفری مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے آخر کار میں اپنے پھوپھو زاد بھائی سے ملا، جس نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ شہر میں ہی آباد ہے سو پہلے کہ کچھ دن وہاں پر ہی گزارے، اور پھر ایک لاری کے ذریعے اپنے آبائی گاوں کا راستہ پکڑا۔ گاوں میں داخل ہوتے ہی مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا، ایک ایسی ہوا میری روح کو معطر کر گئی جو مجھے بتا رہی تھی کہ ہاں یہی وہ جگہ ہے جہاں کی مٹی سے اگے ہوئے پودے کا میں ایک پھل ہوں اور میری جڑیں اسی مٹی میں ابھی بھی کہیں نا کہیں موجود ہیں۔ گو کہ سالوں کے فاصلے نے ان جڑوں اور شاخوں کے ملاپ میں بہت سی مٹی بھر دی ہے لیکن کیا ہوا! ہیں تو دونوں ایک ہی مٹی سے وابستہ۔

گھر میں داخل ہونے کے بعد ایک بہت ہی ضعیف اور جھریوں بھرے چہرے نے میرا استقبال کیا معلوم ہوا کہ وہ میری دادی جان ہیں، صبر کے سارے بندھن ٹوٹ گئے، نا جانے کیسے ان سالوں سے خشک آنکھوں میں وہ پیارکی ندیاں ایک سیلاب لیکر امڈ آئیں، مجھےبے انتہا چوما بے انتہا پیار کیااور اپنے پاس بٹھایا، آنکھوں کی بینائی نا ہونے کے برابر تھی لیکن جس چاو سےوہ اپنی سالوں سے پیاسی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہیں تھیں اور مجھ میں اپنے اس بیٹے کو دیکھ رہی تھیں جو ناجانے کتنے برس بیت گئے ان سے نہیں ملا تھا۔ جو وقت کی قید میں ناجانے زندہ ہوتے ہوئے بھی دفن ہو گیا تھا۔ بے شمار سوال بے شمار باتیں برسوں کی پیاسی ماں اپنے پوتے میں اپنے بیٹے کو تلاش کر رہی تھی، جو ناجانے کب اس دنیا سے جانے والی تھی لیکن ایک امید ایک انتظار ایک خواہش اسے زندہ رکھے ہوئے تھی۔ بہت وقت دادی کے ساتھ گزارا انے پاس بیٹھا رہا پھر شام کا وقت ہوا تو میرے پھوپھو زاد بھائی کہا کہ کل صبح تڑکے اٹھ جانا کیوں کہ ساتھ والے گاوں جانا ہے کچھ کام ہے۔ میں تھوڑا سا پریشان ہوا کہ مجھ سے کونسا کام ہے اور وہ بھی ساتھ والے گاوں، لیکن پھر سوچا شاید کوئ بات ہو۔

رات کے وقت دادی جان نے کسی کو کہا کہ وہ ٹرنک اٹھا کر لے آیا یہ اچھا خاصا بڑا جستی ٹرنک تھا جس کو تالے سے بند کیا گیا تھا، دادی جان نے خود اپنے کانپتے ہاتھوں سے وہ ٹرنک کھولااور اس کے بعد جو اس میں سے برآمد ہوا اس نے مجھے اور میری روح تک کو سکتے میں مبتلا کر دیا۔ دادی جان روتی جا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ کپڑے نکال نکال کر باہر رکھ رہیں تھیں۔

یہ وہ کرتے تھے جو وہ ہرسال اپنے بیٹے کے لیے عید کے دن کے لئے بناتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہ شاید وہ آجائےہر سال اس امید پر کہ وہ آجائے گااور آکر کرتا پہنے گا عید کرے گا وہ کرتا بناتیں اور اسوقت تک انتظار کرتی رہتیں جب تک کہ امید کی ساری کرنیں غروب ہوتے سورج کے ساتھ ہی غروب نا ہو جاتیں، وہ ماں حسرت سے اس کرتے کو ٹرنک میں رکھ دیتی اور دوبارہ انتظار کرتی اگلے سال وہ خود سے اندازہ لگاتی کہ ابھی میرا بیٹا اتنا بڑا ہو گیا ہو گا، اتنا صحت مند ہو گیا ہو گا سو وہ اسی ناپ کا کرتہ بناتی اور رکھ دیتی۔

سالوں سے بنے وہ کرتے آج بھی ویسے کہ ویسے موجود تھے جو ایک ماں نے اس آس پر کے اس کابیٹا ضرور آئے گابنا بنا کر رکھے ہوئے تھے۔

اگلے دن انہوں نے وہ زیورات دیکھائے جو انہوں نے اپنی بہو کے لیے بنائے تھے کہ جب بھی بیٹا آئے گا اور اس کی شادی ہو گی تو اپنی بہو کو زیور پہنائیں گیئں۔ لیکن انہیں نہیں معلوم تھا کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔اور شاید جب وہ آئے تب تک وہ خود اپنی آس اپنی حسرت اپنی ادھوری خواہش کو لیکر اس دار فانی سے کوچ کر چکی ہوں گی۔۔۔۔۔

اگلے دن ہم ساتھ والے گاوں گیئے تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہم لوگ کس جنت میں رہتے ہیں اور پھر بھی ناشکرے ہیں، ساتھ والے گاوں میں ایک عدد تھانہ تھا جس میں مجھے جا کر حاضری دینی تھی اور امیگریشن کا پورا پراسس دوبارہ دہرانا تھا کہ میں کون ہوں کہاں سے آیا ہوں کہاں کہاں جانا چاہتا ہوں، کب تک رہوں گا وغیرہ وغیرہ۔ معلوم یہ پڑا کہ جس جگہ کے وزٹ کا میں نے لکھ کر دیا ہے میں صرف ادھر ہی جاسکتا ہوں اور اگر میں کوئی ہینکی پھینکی کروں گا تو بلا کسی تردد کے وہ مجھے گرفتار کر کے کہاں لیکر جائیں گے اور کیا کریں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔

زندگی کا دائرہ وہاںپر رہنے والے مسلمانوں کہ لیئے ویسے تو تنگ ہے ہی پر اگر کوئی رشتہ دار پاکستان سے ان کے پاس آجائے تو ادھر کا ہندو ذہنیت کا حامل تنگ نظر تنگ دل سسٹم فوری طور پر پیچھے پڑ جاتا ہے۔ اس کے بارے میں لکھوں گا تو بہت کچھ لکھنے کو ہے۔ پر قصہ مختصر کے میں کچھ دن رہنے کے بعد اپنوں کا بہت سا پیار سمیٹ کر واپس پاکستان آ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

***All Rights Reserved by Rashid Idrees Rana (Writer)***

1 comment: