Sunday 10 April 2011

میں واپس کب جاوں گا .......کچھ باتیں دیس پردیس کی

جب میں یو اے ای میں آیا تھا تو سوچاتھا کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد واپس چلا جاوں گا، پردیس میں رہنا بہت مشکل کام ہے، بہت کرب بہت اذیت ناک زندگی ہوتی ہے۔ ہر لمحہ ہر وقت انسان دوہری سوچ میں مبتلا رہتا ہے ۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ادھر آنے کے بعد ادھر کے ہو جاتے ہیں، واپسی کا نہیں سوچتے۔

دن گننے میں گزرتے جاتے ہیں۔ پلٹ کر دیکھیں تو لگتا ہے ابھی آئے تھے، لیکن وقت ہے کہ گزرتا ہی نہیں ہے۔ میں جو چاہتا ہوں وہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ کچھ روز ہوئے بھائی کو چٹھی گئے ہوئے، ان سے بات ہوئی تو دیار یار کا جو منظر نامہ انہوں نے پیش کیا یوں لگا کہ جیسے ہر شخص کے ہاتھ میں آلہ قتل ہے اور ہر شخص ہی سر بکفن ہوئے گھوم رہا ہے۔

رونا حکومت کو ہے اور اعمال لوگوں کے ٹھیک نہیں، ہر شخص آج ہی کمانا چاہتا ہے اور کل کا کوئی بھروسہ نہیں، نفسا نفسی کا عالم یہ ہے کہ حکومت تو جو کر رہی ہے کر رہی ہے لوگ حکومت سے زیادہ کرپٹ اور بے ایمان ہو گئے ہیں۔ نکڑ والی دکان ہو یا سوپر مارکیٹ، سبزی کا ٹھیلہ ہو یا سبزی منڈی ہر جگہ لوگ ایک دوسرے کا خون پی رہے ہیں۔ جیسے ہی معلوم پڑتا ہے کہ پیٹرول مہنگا ہوا لوگ فوری طور پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے چاہے انکا پیٹرول سے کوئی دور دور کا بھی واسطہ نا ہو چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔

ملکی ضرورت کو چیزیں پوری نہیں ہیں اور برآمدات نے ریکارڈ قائم کر دیا، کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ ترقی ہے یا تنزلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے تو شرم کی بات!!!!! کہ لوگ بھوکے مریں اور سرمایہ دار، تاجر جیبیں بھریں۔

کل ایک دوست سے بات ہوئی ابھی دو دن پہلے ہی دیار یار (پاکستان) سے آیا تھا، بولا بھائی سوچ سمجھ سے بھی زیادہ حالات خراب ہیں۔ سوچنا بھی ناجانے کا۔ میرے واپس جانے کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔
سوچ رہا ہوں کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ لوگ کب تک بھاگتے رہیں گے، اگر سب باہر آ جائیں گے تو اپنے ملک میں کام کون کرے گا۔
"ہاں یہ سچ ہے ایک صرف میں نہیں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو واپس جانا چاہتے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے، کبھی نا آنے کے لیئے لیکن وہ وقت کب آئے گا کچھ معلوم نہیں"
ایک امید ہے کہ اللہ کرے میرے دیس میں کچھ وقت ایسا بھی آئے کہ کبھی کسی کو پردیس جا کر رہنے کی ضرورت نا پڑے۔ آمین

No comments:

Post a Comment