Wednesday 21 December 2011

ہم اور ہمارے ٹھگ



پرانے وقتوں میں لوگوں کوبیوقوف بناکرمال بٹورنے کے لیے ایک گروہ ہواکرتاتھااس گروہ سے وابستہ لوگ ٹھگ کہلاتے تھے۔انہی ٹھگوں کاایک واقعہ ہے کہ ایک دیہاتی بکراخریدکراپنے گھرجارہاتھاکہ چارٹھگوں نے اسے دیکھ لیااورٹھگنے کاپروگرام بنایا۔چاروں ٹھگ اس کے راستے پرکچھ فاصلے سے کھڑے ہوگئے۔وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھاتوپہلاٹھگ اس سے آکرملااوربولا’’بھائی یہ کتاکہاں لےئے جارہے ہو؟‘‘دیہاتی نے اسیگھورکردیکھااوربولا’’بیوقوف تجھے نظرنہیںآرہا کہ یہ بکراہے کتانہیں‘‘۔دیہاتی کچھ اورآگے بڑھاتودوسراٹھگ ٹکرایا۔ اس نے کہا’’یاریہ کتاتوبڑاشاندارہے کتنے کاخریدا؟‘‘دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا۔اب دیہاتی تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا مگر آگے تیسرا ٹھگ تاک میں بیٹھا تھا جس نے پروگرام کے مطابق کہا ’’جناب یہ کتاکہاسے لیا؟‘‘اب دیہاتی تشویش میں مبتلاہوگیاکہ کہیں واقعی کتاتونہیں۔اسی شش و پنج میں مبتلا وہ باقی ماندہ راستہ کاٹنے لگا۔بالآخرچوتھے ٹھگ سے ٹکراؤہوگیا جس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور بولا’’جناب کیااس کتے کوگھاس کھلاؤگے؟‘‘اب تودیہاتی کے اوسان خطاہوگئے اوراس کاشک یقین میں بدل گیاکہ یہ واقعی کتاہے۔وہ اس بکرے کوچھوڑکربھاگ کھڑاہوایوں ان چاروں ٹھگوں نے بکراٹھگ لیا۔


دور حاضر میں ٹھگوں نے اپنا طریقہ کار ، رہن سہن، حلیہ سب کچھ بدل لیا ہے، کچھ پڑھ لکھ کر سیاہ ست میں آ گئے ، کچھ بیورو کریٹس بن گئے کچھ عسکری شعبہ میں شامل ہو کر نام کما رہے ہیں، کچھ نے ڈاکٹری کا لیبل لگا لیا ہے کچھ نے کاروبار کا، غرض یہ کہ پہلے یہ لوگ پہچانے جاتے تھے لیکن ابھی ان کو پہچاننے کے لیئے ایک مخصوص نظر کی بلکہ نظریہ کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا کریں ہم لوگ محور سے ہٹنے اور گمراہی پر چلنے کی وجہ سے اس بصارت سے محروم ہو چکے ہیں، ہم نے ذاتی و معاشرتی برائیوں کو اپنی مجبوری کا لبادہ اوڑھا رکھا ہے اور اس کی دلیلیں کچھ یوں دیتے ہیں:

رشوت: کیا کریں مجبوری ہے، میٹر لگوانا ہے، بچے کا داخلہ کرنا ہے، نوکری لینی ہے، کام جلدی کرانا ہے، باہر جانا ہے۔

چور بازاری: کیا کریں مجبوری ہے، ٹماٹر 80روپے کلو نا لیں توکیا کریں، گوشت اصل قیمت سے دوگنا میں نا لیں تو کیا کریں۔

زخیرہ اندوزی: کیا کریں مجبوری ہے، نہیں کریں گے تو زیادہ منافع کیسے ہو گا اور ویسے بھی سبھی کرتے ہیں، اگلے سال پتہ نہیں اتنی کمائی ہو نا ہو۔

جھوٹ: جس جھوٹ سے کوئی کام بنتا ہو وہ جھوٹ تھوری ہوتا ہے، اب دیکھو نا جھوٹ بول کر جو اثاثہ جات لکھوائے ہیں اگر سچ بولا ہوتا تو اولاد کے مستقبل کا کیا ہوتا۔

سیاہ ست: کیا کریں مجبوری ہے، کوئی نا کوئی تو حکومت میں آنا ہی ہے، اب میں یا تم تھوڑی اسمبلی چلایئں گے۔ ویسے بھی یہ خاندانی (چور) لوگ ہیں، کل کوئی کام ہوا تو آرام سے کرا دیں گے۔

ووٹ: کیا کریں مجبوری ہے، ڈالیں یا نا ڈالیں حکومت تو بن ہی جانی ہے، سو جو دروازے پر مانگنے آیا ہے اسی کو دے دیتے ہیں، اتنا ٹائم کس کے پاس کے جا کر دیکھیں بندے کا ماضی کیا ہے۔

سیاستدان: کیا کریں مجبوری ہے، سب چور ہیں، لٹیرے ہیں، غاصب ہیں، قاتل ہیں، ظالم ہیں لیکن اور کوئی آپشن جو نہیں۔

فوج: ہمیشہ سے زندہ باد ہے اور رہے گی، کوئی مجبوری تو نہیں لیکن ڈر ضرور ہے کہ اگر فوج کی چھیڑا یا احتساب کیا تو ناراض نا ہو جایئں اس لیئے جو کر رہے ہیں کرنے دو، آخر کو سرحدوں کی حفاظت تو کر ہی رہے ہیں (کونسی سرحدوں کی یہ آج تک ہمیں خود بھی نہیں پتہ)

معاشرتی برائیاں: کیا کریں مجبوری ہے، ساری دنیا کا دستور ہے اب ہم نے کر لیا تو کیا ہوا سبھی کرتے ہیں۔ مثلا سگنل کی خلاف ورزی، کوڑا کرکٹ گھر سے نکال کر گلی یا سڑک پر پھینکنا، بجلی چوری کرنا، گیس چوری کرنا، پانی چوری کرنا، ٹیکس چوری کرنا۔ کوئی مرتا ہے تو مرنے دو کون اس جھنجٹ میں پڑے گورنمنٹ کا کام ہے۔

سو ٹھگ بھی حیران ہیں کہ وہ ہمیں لوٹتے جاتے ہیں، پر ہم پھر بھی زندہ ہیں ٹھیک ہیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم دو چار دن بین کرتے ہیں روتے ہیں اور پھر اسی روش پر چل پڑتے ہیں۔ یعنی کہ ہم بھی ٹھگ ہیں_________________________

اوپر والے ہمیں ٹھگتے ہیں اور ہم!!!!!!
اپنی زمین کو
اپنے ضمیر کو
اپنی اخلاقیات کو
اپنی مذہبی معاشرتی اقدار کو
اپنے آپ کو

ٹھگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کر رہا ہے اوپر والا کر رہا ہے!!!!!

No comments:

Post a Comment