Sunday, 28 July 2013

فیصل آباد میں زہریلی شراب

فیصل آباد میں زہریلی شراب
فیصل آباد میں زہریلی شراب پینے سے مزید 2 افرا د زندگی کی بازی ہار گئے، 2 روز میں شراب پی کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 سے زائد ہوگئی۔ پولیس حکام نے 15 افراد کی موت کی تصدیق کی ہے۔ فیصل آباد کے علاقے بٹالہ کالونی سے ملحقہ آبادیوں وارث پورہ، برکت پورہ ،جیلانی پورہ ، نواز پارک اور شہر کے وسطی علاقے کرسچن ٹاوٴن میں موت کارقص جاری ہے، 2 روز قبل زہریلی شراب پینے سے ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اہل علاقہ کے مطابق اب تک شراب پی کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 سے زائد ہو چکی ہے۔ مائیں اپنے بچوں کی نعشوں سے لپٹ کر بین کر رہی ہیں، لواحقین شراب فروخت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آج بھی مزید 2 افراد زہریلی شراب کا شکار ہو گئے جبکہ 11 اب بھی مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، ان میں سے 4 کی حالت تشویشناک ہے۔ ایس ایس پی آپریشن فیصل آباد مبشر میکن نے 15 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ افسوس انتظامیہ حرکت میں آئی بھی تو اس وقت جب پانی سر سے گزرگیا اورکئی افراد موت کی آغوش میں جاچکے تھے۔
 
شرم تم کو کیوں نہیں آتی؟
حیرت ہے اس خبر کو دیکھ کر شاید لوگوں کو رونا آتا ہو لیکن مجھے غصہ آ رہا ہے. کیا یہ سارے مرنے والے غیر مسلم ہیں؟ اور اگر ہاں سارے غیر مسلم ہیں تو اس حرمت والے مہینے میں شراب کے بے دریغ استعمال پر ان مرئے ہووں کو بھی جرمانہ ہونا چاہیئے اور جو بچ گئے ہیں ان کو لڑکا دیا جائے
.
اور اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر تو افسوس کرنے کی ضرورت ہی نہیں. یہ اپنے انجام تک پہنچ گئے ہیں، بجائے کہ واویلہ کرنے کے بہتر ہوگا کہ ان کی مغفرت کی دعا کی جائے. کیوں کہ ایسی موت استغفراللہ ، استغفراللہ اور وہ بھی رمضان میں،
 
اب اس کو ان کی بدقسمتی کہیں یا قدرت کا انصاف ، لیکن جو غم اپنے پیچھے چھوڑ کر گئے ہیں اس کا کیا مداوا.
 
لعنت ہو اس میڈیا پر ایک بار بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ ان لوگوں کا قصور ہے بلکہ لگی بندھی روٹین میں وہی رونا رو رہیں ہیں کہ انتظامیہ کی نا اہلی جو دیر سے حرکت میں آئی اور کسی کو ابھی تک پکڑا نہیں‌گیا.
 مطلب! کونسا نیک مشروب تھا جو زہریلا ہو گیا اور معصوم لوگوں کی جانیں چلیں گیئیں. اور یہ کوئی پہلی بار تو ہے نہیں کراچی میں، سیالکوٹ میں بار ہا ایسے واقعات ہو چکے ہیں.
لعنت ہو ،خبر پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے شراب پینا کوئی جرم بھی نہیں اور بہت اچھی بات ہے بس برائی یہ ہے کہ اسکی کوالٹی اچھی نہیں تھی اس لئے ایسا ہوا ہے، اچھی کوالٹی کی ہوتی تو جانی نقصان نا ہوتا. لعنت ہو اس بات پر.

میرا بس چلے تو میں ضرور بچ جانے والوں کو سزا دوں. اور جو مر گئے وہ تو اپنے انجام کو جا پہنچے ہیں ان کے لئے توصرف مغفرت کی دعا کی جاسکتی ہے.
 
اللہ پاک ہم سب پر اپنا کرم فرمائے، خاتمہ ایمان پر ہو، جیسے مسلمان پیدا ہوئے ہیں ویسے ہی اس جہان فانی سے مسلمان اٹھائے جائیں.
آمین ثم آمین
 

کہ روٹھنا اچھا،


کہ روٹھنا اچھا،
مگر مان بھی جاو
زندگی کا کیا بھروسہ ہے
یہ بھی روٹھ جائے گی
نا پھر واپس آئے گی
وہیں‌پہ غصہ آتا ہے
جہاں پرپیار ہوتا ہے
مگر اس شام سے پہلے
تم مجھ سے مان ہی جاو
کہ جس شام کے بعد
نا پھر صبح آئے گی
یہ سانسیں روٹھ جائیں گی
ناپھر لوٹ آئیں گی
کہ روٹھنا اچھا
مگر تم مان جاو نا
مگر تم مان جاو نا
 
پیار پیار روٹھے ہوئے بھائی کے نام
پلیز مان جاو نا،،،،، شاجی صاحب 28-07-2013

غور سے دیکھیں. دین کی خدمت کرنے والے، اللہ کے بندے. ماشاء اللہ

غور سے دیکھیں. دین کی خدمت کرنے والے، اللہ کے بندے. ماشاء اللہ
 
 

Thursday, 18 July 2013

سلطان الپ ارسلان-- تاریخ کے آئینوں میں

 


سپاہی حیرت کہ عالم میں سلطان کو دیکھ رھے تھے اناطولیہ سے لے کر اصفہان تک بادشاہ ،ایک نڈر و دلیر حکمران آج ان کو ایک عجب خطاب کررھا تھا ، گھوڑے کی رکابوں میں پاوں پھنسائے ھوئے یہ تن کر کھڑا تھا ،اس کی گونج دار آواز سولہ ہزار کہ لشکر کہ ہر سپاہی تک پہنچ رھی تھی
"ھماری تعداد تھوڑی ھے مگر میں اللہ پر توکل کرتے ھوئے دشمن پر اس وقت جھپٹنا چاھتا ھوں جب مسلمان نماز جمعہ کہ لیے کھڑے ھوں اور فتح کہ لیے دعائیں کر رھے ھوں!یا تو مجھے کامیابی مل جائے گی یا میں اللہ کی راہ میں مارا جاوں گا! جو میرے پیچھے آنا چاھتا ھے وہ شہادت کہ لیے لپکے ،اور جو جانا چاھتا ھے اس پر کوئی جوابدھی نہیں ! آج نہ کوئی سلطان ھے اور نہ کوئی فوج ،میں بھی تمھاری طرح کا ایک غازی ھوں جو میرا ساتھ دے گا اس کا انعام جنت ھے اور جو نہ دے گا تو جھنم کی آگ اور ذلت اس کو لیپیٹ لے گی"

یہ تقریر نہ تھی ایک روح تھی جو کہ سپاہیوں کہ بدن میں سرایت کرگئی ، آذربائیجان سے روانہ ھوتے وقت ہی انہیں علم تھا کہ سلطان اپنی وصیت کرچکا ھے کہ میں اللہ کہ راستے میں جارھا ھوں اگر شہید ھوگیا تو میرا بیٹا ملک شاہ میرا وارث ھوگا۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ بازنطینی سیزر کی معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے سلطان الپ ارسلان کو اتنا وقت نہیں ملا کہ فوجیں مہیا کرلیتا ، اس لیے چار ھزار فوجیوں کو ہی ساتھ لے کر تین لاکھ بازنطینوں کہ لشکر کا مقابلہ کرنے چل پڑا ھے ! نظام الملک نے بارہ ھزار گھڑ سواروں کا لشکر پیچھے سے روانہ کیا تھا جو کہ ملازکرد کہ میدان میں ان سے آن ملا ھے !
ان سے نے یکجان ھوکر کہا کہ "سلطان ہم آپ کہ ساتھ ھیں جو چاھے کیجیے جیسا چاھیے حکم دیجیے واللہ ہمیں پیٹھ دکھانے والوں میں سے نہ پائیں گئیں"
اس وقت کی مسلم دنیا کہ سب سے نڈر سپہ سالار الب ارسلان نے تیر و کمان وجود سے الگ کردیئے ، تلوار و نیزہ اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا گھوڑے کی دم سے اپنے آپ کو باندھ لیا اور میدان جنگ کی طرف روانہ ھوگیا ، سلطان اس جنگ کو تیاری نہ ھونے کی وجہ سے ٹالنا چاھتا ھے اس کا اصل ھدف فاطمی رافضی تھے جو کہ مصر میں حکمران تھے ،مگر اس کو بے خبر پاکر سیزر رومانوس تین لاکھ کا لشکر جرار لے کر مسلم سرزمینوں پر چڑھ آیا تھا ،سلطان رومانوس کہ پاس سفارت بھیج چکا تھا جسمیں اسے صلح کہ معاہدے پر جمے رھنے کی تلقین کی تھی اور اسے مال و اسباب دینے کا وعدہ بھی ! مگر متکبر سیزر نے جواب دیا تھا کہ معاہدہ اب سلطان کہ دارلحکومت رے میں ہی ھوگا !!
مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی سے فارغ ھوئے ،آج کا خطبہ سلطان کا خطاب ہی تھا اور بعد از نماز جمعہ ترکی کی سرسبرشاداب جھیل وان کہ شمال میں واقع ملاکرزد کہ میدان میں عیسائی لشکر سے ٹکرا گئے ! مسلم سرزمینوں پر اللہ کی بارگاہ میں اٹھے ھوئے لاتعداد ہاتھ سلطان الپ ارسلان کی فتح کی دعا کررھے تھے !!
سلطان کی تقریر سے مہمیز شدہ سپاہی چیتے کی طرح لپکے اور بجلی کی طرح سیزر کہ لشکر بے کراں میں گھستے چلے گئے ! یہ صف بندی و حکمت عملی کا وقت نہیں تھا دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ھوتا تھا ، گھوڑوں کی سموں سے اٹھنے والی گرد کی ایک دبیز تہ نے مسلم لشکر کو نظروں سے اوجھل کردیا ، تلواروں کی جھنکار اور لشکروں کہ نعروں نے جھیل وان پر بیٹھے پرندوں کو بھی خوفزدہ کردیا ،مسلم لشکر اس کیل کی مانند تھا جس کو ایک سخت پتھریلی دیوار میں ٹھونکنے کی کوشش کی جارھی ھو ! گرد کہ بیٹھتے ہی جو منظر عقل کی سمجھ میں آنے والا تھا وہ مسلم لشکر کا بالکل ہی غائب ھوجانا تھا !!
مگر جب گرد تھمی تو جنوں نے ایک عجب منظر دیکھا رومی لشکر اس دریا کی مانند تھا جس کو عصا موسی کی ایک ہی ضرب نے درمیان میں سے پھاڑ دیا ھو اور اس کہ دونوں اطراف میں سیزر کہ لشکریوں کی لاتعداد لاشیں بکھری پڑی تھیں !!
سیزر کو ایک غلام نے پکڑ لیا ، سلطان کہ سامنے پیش کیا گیا ، سلطان نے پوچھا کہ اگر میں اس حالت میں ھوتا تو تم میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ! نڈر سیزر نے جواب دیا کہ تمھیں قتل کروا دیتا ، اولعزم سلطان ھنسا اور کہا کہ میں تم سے اس سے بھی برا سلوک کروں گا جاو میں تمھیں معاف کرتا ھوں !!!
سیزر فدیے کی ادائیگی کہ بعد اپنے ملک پہنچا جہاں اس ذلت آمیز شکست کی وجہ سے اس کہ اہل ملک نے اس کی آنکھیں میں گرم سلائی پھیر دی جس کی ازیت کی وجہ سے وہ کچھ ہی عرصے بعد مرگیا !!
جمعے روز ہی آتے ھیں ، ہاتھ بھی لاتعداد خدا کی بارگاہ میں اٹھتے ھیں ! مگر ان سپہ سالاروں میں کوئی الپ ارسلان نہیں ھے ان حکمرانوں میں کوئی غازی نہیں ھے جو کہ اپنی مسند سے اترے اور پکار کرکہے کہ میں تو چلا جنت کہ راستے پر جس نے میرے پیچھے آنا ھے آجائے ! ھے کوئی یہ مقام لینے والا ؟ واللہ امت میں سے ایک بھی اپنے پیچھے نہ رھے گا اور جو رہ گیا وہ ہاتھ اٹھائے رکھے گا جب تک کہ فتح کی بھیک ان اٹھے ہاتھوں میں نہیں ڈال دی جاتی !!
 
Special Thanks : Mr. Atif Beig - Lahore
 

Saturday, 13 July 2013

:::::-زندگی کی یادیں-::::::

:::::-زندگی کی یادیں-::::::
 

 
مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے جب اپنا گھر نہیں ہوتا تھا اور کرائے کے مکانوں میں رہنا پڑتا تھا. چند ماہ ایک گھر میں اور پھر دوسرے گھر میں اور پھر تیسرے میں، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ نگری نگری پھرا مسافر. پھر وقت کا پہیہ چلتا گیا اور اللہ نے نصیب میں ایک چھوٹا سا مکان لکھ دیا سو وہ مل گیا
 
ایک چھوٹا سا پلاٹ جس پر ایک کمرہ اس سے منسلک ایک کچن اور ایک باتھ روم آگے آدھا صحن پکا اور آدھا کچا. یہ سب کچھ بھی مکان لینے کے بعد خود سے تیار کروایا تھا. لیکن آج بھی میں حیرت زدہ ہوں کہ اس ایک کمرے میں کتنی جگہ تھی. ہم سب اسی میں رہتے تھے، مہمان بھی آتے تھے تو وہیں ٹھہرتے. وہی ہمارا بیڈ روم ، ڈائینگ روم، ٹی وی لاونج اور گیسٹ روم تھا. بس ایک بات جو شاید کسی مکان میں نا ہو کسی گھر میں نا ہو وہ اس ایک کمرئے میں تھی. اس کمرے کا ظرف بہت بڑا تھا. وہ اپنے اند اتنی جگہ اور اتنی محبت رکھتا تھا کہ سب کچھ سمو لیتا تھا. جاڑا ہو یا گرمی، دسمبر کی یخ ہوا ہو یا جون کی تپتی لو، وہی ہمارا سائبان تھا اور وہی ہمارا سب کچھ.
 
 
 
اس کے آگے آدھا پکا اور آدھا کچا صحن. کیا ہی بات ہے اس صحن کی. مجھے یاد ہے کہ میں نے آٹھویں کلاس میں زراعت پڑھی تھی. اور جسم و جان میں کسانوں کا خون بھی شامل تھا، کھیتی باڑی آباو اجداد کا اوڑھنا بچھونا تھی سو اس کے اثر میں، میں نے زراعت کا سارا شوق اس کچے صحن پر صرف کر دیا. اسی صحن کے ایک کونے سے جہاں دروازہ ہوا کرتا تھا اس کے بلکل ساتھ میں نے ایک بیل لگائی نام تو اس کا یاد نہیں پر اس کی شاخیں جامنی لیکن پتے گہرے ہرئے ہوا کرتے تھے. پھر میری محبت نے اس بیل کو عشق بے لگام کی طرح ایسا پھیلایا کہ اس نے سارے کچے صحن کو ڈھانپ لیا. میں نے اسی بیل کو تاریں باند باند کر کچھ ایسا کردیا کہ وہ ایک چھپر کی مانند پورے صحن پر اپنی چھایا کرنے لگی.


 

اس کے  بعد دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے کی دیوار کے ساتھ ساتھ کالی توری کی بیل جو لگائی تو وہ بھی بے لگام بڑھتی ہی چلی گئی جس سے ملنے والی توریاں خود بھی پکا کر کھائیں اور اڑوس پڑوس کی بھی کھلائیں. اس کی بیل بھی ہمسائے کے گھر بلکہ چھت تک پھیلتی ہی چلی گئی. کیا خوبصورت ہریالی تھی. یہی نہیں ہری مرچ کے پودے ، گلاب کے پودے، اور ہر وہ پودا جو مجھے اچھا لگتا میں کم سے کم جگہ میں اس کو لگانے کی ضرور کوشش کرتا.
 
 

 
 
پھر ایک عدد لکڑی کی ڈولی (الماری) جو اتنی خوبصورت تھی کیا ہی بات ہے. شروع شروع میں اس میں کچن کی چیزیں ،جیسے آلو، پیاز، مرچ مصالحے اور دودھ وغیرہ رکھا جاتا، لیکن پھر جب کچن کو اچھا بنا لیا اور اس میں کچھ نئے طرز کے ڈبے وغیرہ رکھ لیئے تو ڈولی کو ڈربہ کی شکل دے کر اس میں مرغیاں رکھ لیں. اور ان مرغیوں میں ایک مرغی جو کہ میں خود گاوں سے ٹانگیں اور پر باند کر لایا تھا، اور بس میں سارے راستے اس کو پانی بھی پلاتے رہے کہ کہیں مر نا جائے کیا کمال کی کالے رنگ کی بلیک مینارکہ نسل کی مرغی تھی. انڈے تو دیتی ہی رہتی تھی لیکن کمال بات یہ تھی کہ کبھی بھی گھر سے باہر انڈا نہیں دیتی تھی. مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ایک بار کسی سلسلے میں ہم سب کہیں گئے ہوئے تھے اور مرغی کو دوپہر میں انڈہ دینا تھا. اس نے دروازے کے آگے بیٹھ کر انڈہ دئے دیا لیکن کسی کے گھر میں جا کر نہیں دیا.
 
 
پھر ہم نے اس کے انڈے جمع کیئے اور ہر انڈہ مختلف جگہ پر رکھا، جیسے ایک انڈہ زیرہ کے ڈبہ میں اور ایک نمک میں ایک مرچ میں اور ایک کالی مرچ میں. جب مرغی کڑک ہوئی تو ان انڈوں پر اس کو بٹھا دیا. پھر اس کی خوب خاطر مدارت کی، خود دانا دنکا کھلایا. بس 21 دن کے بعد اس نے سارے کے سارے انڈوں میں سے چوزے نکال لیئے، اور حیرانگی کی بات کہ مختلف رنگوں اور ڈیزائینوں کے، جو انڈہ جیس چیز میں پڑا رہا بلکل ویسے ہی رنگ کا چوزہ نکلا. بہت خوبصورت منظر تھا. اور ہماری کٹو!!‌تو پھولے نہیں سماتی تھی. پورا دن صحن میں کٹ کٹ کرتی چوزوں کو لیکر گھومتی پھرتی تھی. اب اس کو باہر بھی نہیں جاناپڑتا تھا کیوں کہ میں نے باجرہ لا کر گھر میں ہی اس کی خاطر شروع کر دی تھی.
 
اور پھر جب چوزے بڑئے ہوئے تو ڈولی پوری کی پوری بھر گئی. مرٍغیاں زیادہ اور مرغے دو تھے بہت زبردست قسم کے لڑاکا. دونوں مرغ مجھے اچھی طرح یاد ہیں، ایک کا قد چھوٹا لیکن موٹا تگڑا تھا. زبردست لڑائی کرتا تھا.
 
بہت پیارا تھا وہ ایک کمرہ، اور بہت سکون تھا اس میں. چھت پر کھڑے ہو کر دور دور تک دکھائی دیتا تھا. جس دن بارش ہوتی تو رات کو اسلام آباد اور مری اتنے بھلے دکھائی دیتے تھے، ٹم ٹماتی روشنیاں. مری شہر تو چھت سے یوں نظر آتا جیسے بہت سارے ہیرے موتی جواہرات کا ایک اونچا ٹیلا ہو جو رات کےاندھیرے میں ٹمٹما رہا ہو.
 
اور رضائی میں گھس کر رات رات بھر بادلوں کی گھن گرج سننا اور ڈرتے رہنا بجلی کی چمک پر منہ رضائی کے اندر کر لینا. اور صبح اٹھ کر کونے میں پڑے حمام کے ٹھنڈے پانی سے منہ دھونا، کتنا خوبصورت احساس دلاتا تھا. آج بھی وہ صبح صبح سہراب سائکل پر سکول جانا یاد ہے. کتنا مزے دار وقت تھا وہ.
 
بہت زبردست دن تھے بہت شاندار محبت ، خلوص، پیار ، چاو، لگاو اور چاہت بھرئے. اور وہ گھر اور اس گھر کا وہ ایک کمرہ شاید آج کے محلوں سے بھی زیادہ پر آسائش اور پر سکون تھا. کیوں کہ وہ سب کو اپنی پیار کی گود میں سمو لیتا تھا.
 
تحریر: راشد ادریس رانا --------انتخاب: بچپن کی بھول بھلیاں